Monday, November 9, 2015

اقبال اور ہم



اقبال اور ہم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 شہیر شجاع 

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک ذرے میں ہے شاید مکیں دل
اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل
اسیردوش و فردا ہےولیکن
غلام گردش دوراں نہیں دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے تکلف خندہ زن ہیں فکر سے آزاد ہیںْ
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
۔۔۔۔
یہ ایک سرسری سی نظر ہے ۔۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے درد سے لبریز دل سے نکلے ہوئے فکر کی اتھاہ گہرے سمندر کی اونچی لہروں میں لپٹے ہوئے اشعار ہیں ۔۔۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں پر ان کی فکر جیسے تر و تازہ ہو ۔۔۔ ان کا درد ان کے کلام کے ذریعے ہماری فکر و دل کے تاروں کو ویسے جھنجھوڑ ڈالتا ہے ۔۔۔ کہ وقت بدل گیا پر ہم نہ بدلے ۔۔۔ ترقی کی راہوں میں ۔۔ تبدیلی کی شاخوں میں ۔۔ کئی سنگ میل دنیا عبور کر چکی ۔۔ پر ہم اب تک وہیں کہ وہیں کھڑے عجب تخیلاتی گھمنڈ میں ۔ تخیلاتی ترقی کی راہوں میں گامزن ۔۔۔ نت نئے فلسفوں ۔۔۔۔ اور نام نہاد ماڈرن زندگی کے خواب دیکھ اور دکھا رہے ہیں ۔۔۔۔ اس طویل عرصے میں جبکہ ہمارا زعم اپنے علم پر کچھ اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ہم عالم مدہوشی کو خرد مندی سمجھ کر اپنی بقا سے فنا کی جانب مسلسل محو سفر ہیں ۔۔۔لیکن اپنے محاسبے اسے اسی قدر منہ موڑے ہوئے ہیں جیسے کہ صدی اقبال میں تھے ۔۔۔
اقبال رحمہ اللہ کی شخصیت پر نہ جانے کتنی کتب لکھی گئیں ۔۔۔ خواہ تعریف کے ضمن میں ہو یا تنقید ۔۔۔ بڑے انسان کی سوچ بھی بڑی ہوتی ہے ۔۔۔ اور اس کا حصار ہر کس و ناقص کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ لہذا ۔۔۔ تنقیص بھی مسلسل ان پر ہوئی اور ہورہی ہے ۔۔۔۔
شاید کہ ہم شخصیتوں کی عزت و ناموس کو بصد احترام قبول کر کے ۔۔۔۔ اس کو انا کا مسئلہ بنائے بنا ۔۔ اپنے آج اور کل کی فکر میں ۔۔۔۔ فکر و پیغام کو پرکھیں ۔۔ اور اس کے ذریعے اپنے علم و عمل کی ترقی کی جانب محو سفر ہونے کی کوشش کریں ۔۔اور ایک " مکمل قوم " کی حیثیت سے دنیا میں اپنے حقیقی مقام کو اپنے نام کرنے کی جستجو میں اپنے قیمتی اوقات کو صرف کریں ۔۔ ۔ کے ارتقاء کا عمل باہمی احترام و مسلسل فکر میں پنہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی اقبال رحمہ اللہ کا پیغام تھا ،اور ہے ۔۔۔۔


Sunday, November 1, 2015

ترازو



ترازو
 محمد شہیر شجاع 

فہیم آج بہت خوش تھا ۔۔ بہت صبر کے بعد آج بالآخر اس کی شادی ہونے جارہی تھی ۔ اس کے گھر والے اس کا رشتہ لیکر  کئی گھروں پر گئے تھے ۔۔ پر اس کا مقدر کچھ اور ہی تھا ۔۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کا رشتہ کسی اچھے گھرانے کی ایسی لڑکی سے ہوجائے گا ۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ زور و شور سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔۔ بالآخر وہ دن بھی آپہنچا  جب اس کی زندگی  کا ہمسفر اس  کے کمرے میں بیٹھا  بہت سارے خواب و توقعات سجائے اس کے انتظار میں تھا ۔
اس کا گھرانہ ذرا بڑا تھا ۔۔ اس کے چار بڑے بھائیوں کی پہلے شادیاں ہو چکی تھیں ۔۔ وہ بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ نئی آنے والی بہو شکل و صورت اور تعلیمی لحاظ سے سب میں نمایاں تھی ۔۔ جس کا دیگر بیبیوں کو احساس تھا ۔۔ بجائے اس کے کہ یہ احساس  نئے مہمان کے لیے پیار و محبت کی فضا قائم کرتا ۔۔  دل میں کینہ  پیدا ہوگیا ۔۔ ان کے بچے فہیم کے کمرے میں بلا روک ٹوک در آتے اودھم مچاتے چیزیں توڑتے پھوڑتے ۔۔ لڑکی فہیم سے شکایت کرتی تو ۔۔ فہیم یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ کوئی بات نہیں میں نیا لے آوں گا ۔  کسی بھی مسئلے پر فہیم کا ردعمل ہوتا کہ  درگزر کرو ۔ صرف نظر کرو ۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے بچوں کو ذرا بھی ٹوکنا گوارا نہیں کرتا ۔
اس کی اس بات نے لڑکی کے دل میں عدم تحفظ   کا احساس بیدار کرنا شروع کردیا ۔ وہ فہیم کا جس قدر خیال رکھ سکتی رکھتی ۔ مگر دل  میں سسکتی رہتی ۔ اپنے گھر والوں سے بات کرتی ہے تو ۔ ایک طوفان کھڑا ہونے کا خدشہ ۔۔ اور وہ طوفان ان دونوں کی زندگیوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتا ۔  فہیم اس بات سے خوش تھا کہ اس کی بیوی اس کی ہر بات مانتی ہے ۔۔۔ اس کے کہنے کو سمجھتی ہے ۔۔ اسے اپنی کم مائیگی کا ذرا بھی احساس نہ تھا ۔۔
اسی اثناء میں فہیم کی اکلوتی بہن کا رشتہ ہوگیا ۔۔ جو کہ فہیم سے بہت قریب تھی ۔ اور اس کی بہن  پیا دیس سدھار گئی ۔۔ وہ  اپنے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے  کئی دنوں تک اپنی بہن سے ملنے نہ جا سکا ۔۔ پورے ڈیڑھ ماہ بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن سے ملنے گیا ۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے دیکھا وہاں نئی نویلی الماری  کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ڈریسنگ ٹیبل   میں خراشیں پڑی ہیں ۔ اس نے اپنی بہن  کی طرف دیکھا ۔۔ اور بہن اس کے سینے سے لگ کر روپڑی ۔ سسکتے ہوئے کہا ۔ کہ دیکھیں ۔ ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ میں بھی اب ان کی زندگی میں شامل ہوں ۔  ان کے لیے  میں اب تک ان کی اپنی نہیں ہوسکی ۔   یکلخت فہیم کی نظر اس کی بیوی کی جانب اٹھی جو سر جھکائے سب دیکھ رہی تھی ۔۔ اور اس کی آنکھوں سے دو موتی  اس کے گالوں میں لڑھک آئے ۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...