Thursday, August 18, 2022

نظر

 

نظر

شہیر شجاع

دنیا اس حسین دو شیزہ کی مانند ہے جس کی چال ، اس کے لچھن ، خال و خد ، مسکراہٹ ، کھلکھلاہٹ اس کی سریلی آواز اپنی جانب مائل کرتے ہیں ۔ مرعوب کرتے ہیں ، متاثر کرتے ہیں ۔ جیسے بڑے بڑے شاپنگ مالز ، لگژری سواریاں ، تزئین و آرائش کی شاہکار بلند و بالا عمارتیں ، مہنگے ملبوسات کچھ دیر کے لیے انسان کے نفس میں رعب ڈال دیتے ہیں ۔ اپنی دسترس میں حاصل کرلینے کی جانب مائل بہ فریاد ہوتے ہیں ۔

لیکن ذرا غور کرے انسان تو فنا ان تمام رعنائیوں سے کراہت پیدا کردیتا ہے ۔

دوسری جانب بلند و بالا پہاڑ ، سرسبز وادیاں ، ٹھاٹھیں مارتا سمندر ، جاری دریا ، ندیاں ، پیڑ پودے ، وسیع ریت کے میدان ، صحرا جمالیات کی تشنگی دوبالا کردیتے ہیں ۔

اپنے خالق کے لا متناہی جمال کے تصور سے قلب و وجود کو ششدر کر دیتے ہیں اور وہ پکار اٹھتا ہے “ اللہ نور السموات والارض “ ۔

بس اس نظر کا حصول ہی زندگی ہے

 

Wednesday, April 6, 2022

عالمی نظام کو کلام اللہ کا خوف

 عالمی نظام کو کلام اللہ کا خوف 

شہیر شجاع



ابو بکر رضی اللہ عنہ جب ہجرت کی غرض سے مکہ سے نکلنے لگے تو راہ میں ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے پوچھا کہاں ؟ 

آپ نے فرمایا “ میری قوم مجھے رہنے نہیں دیتی ، چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جا کر خدا کی عبادت کروں “ ۔ 

ابن الدغنہ نے کہا ، یہ نہیں ہوسکتا کہ تم جیسا شخص مکہ سے نکل جائے میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں ۔ اور وہ دونوں مکہواپس آئے ۔ 

ابن الدغنہ نے تمام سرداران قریش سے کہا کہ “تم ایسے شخص کو نکالتے ہو جو مہمان نواز ہے ، مفلسوں کا مددگار ہے ، رشتہ داروںکو پالتا ہے ، مصیبتوں میں کام آتا ہے ۔

قریش نے کہا “یہ یہاں رہ لیں مگر شرط یہ ہے کہ یہ نماز میں چپکے جو مرضی پڑھیں ہمیں مسئلہ نہیں ہے ۔ بلند آواز سے قرآن پڑھتےہیں تو ہماری عورتوں اور بچوں پہ اثر پڑتا ہے ۔


ماخوذ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس واقعے میں قرآن کی عظمت اور سیکولر نظام کی حقیقت کتنی وضاحت کے ساتھ سامنے آرہی ہے ۔ کفار کو مسلمان سے کوئیخوف نہیں ہے اسے خوف ہے تو اللہ کی پکار سے جو ان پہ ہیبت طاری کردیتا ہے ۔ بڑی محنت و جانفشانی ہی نہیں کروڑوں لوگوں کیجانیں لیکر قائم کیا گیا نظام خطرے میں پڑ جاتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے قریش مکہ کا اقتدار خطرے میں پڑ رہا تھا۔ اسی لیے مذہبکو انفرادی معاملہ کہہ کر اسے محبوس کرنے کی خواہش سیکولر لبرل نظام کی شکل میں سامنے آتی ہے ۔ 

Tuesday, January 18, 2022

سراب زندگی


سراب زندگی

شہیر شجاع

ایک ہندی لڑکا ہمارےقرب و جوار میں رہتا تھا ۔ کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔ اس کی شخصیت  میں متانت اور ٹہراو تھا ۔ ایک  شام مسجد کی پارکنگ ایریا میں اس کی گاڑی کھڑی تھی اور پولیس والے کھڑے تھے ۔ جاکر دیکھا تو پتہ چلا اس نے اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا کاٹا ہوا تھا ۔ خود کشی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ لیکن یہ کیس انوکھا تھا کہ اپنی ہی گردن پر چھری پھیر دینا ؟ بہرحال کچھ باتیں نکلیں تو پتہ چلا نومولود بچی کا باپ تھا اور نہ جانے گھریلو حالات کیا تھے کہ وہ اپنے گھر والوں سے کہا کرتا  کہ میں جلد ایک سرپرائز دوں گا ۔ اور وہ سرپرائز یہ تھا ۔ گھر والوں پہ جو بیتی سو بیتی ۔ اس نے جو اپنے ساتھ اتنا برا کیا اس کا کیا ؟

میں جب اپنے آس پاس لوگوں کو دیکھتا ہوں تو سب ہی ایک تخیلاتی زندگی جیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔ حقیقت پسندی و عملیت سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ماضی کا تصور ناسٹیلجک ، حال ناخوش و شکوہ کناں اور مستقبل تخیلات سے بھرپور ۔زندگی کا محور"ذات" ۔خوشی غمی ، تعلقات ، رشتے ناطے ، نوکری ، تجارت ، سفر و حضر سب اس کی ذات کے گرد گھوم رہے ہوں ۔ اور پیش آمدہ اوامر کے من مانے نتائج وہ انسان اپنے ذہنوں میں اخذ کیے ہوئے ۔ جس سبب سے وہ ساری دنیا سے ناراض  پھرتا ہے ۔ یہاں تک کہ خدا سے شکوہ کرتے بھی نہیں ہچکچاتا ۔ ایسے میں  تعمیر و تخلیقی فکر کیونکر استوار ہوسکتی ہے ؟ زندگی کی گاڑی اونچائی کی جانب کیا سیدھی بھی نہیں بلکہ ڈھلوان کی جانب گرتی چلی جاتی ہے ۔ اب اس شخص کی خؤدکشی کیا تھی ؟ ایک تخیلاتی زندگی کا حاصل ۔ "روح کا جسم سے جدا ہوکر ہی حقیقت کا سامنا کرنا ہو" تو پھر ایسی زندگی اپنے لیے تو مفید ہو نہیں سکتی بلکہ دوسروں کے لیے بھی غیر مفید ہی ثابت ہوگی ۔ اور اسی بنیاد پر ہمارا معاشرہ پنپتا جا رہا ہے ۔

سنا تھا کہ کراچی کتب میلے میں ریکارڈ کتابیں بکیں ۔ کئی کروڑ روپے کی تجارت ہوئی ۔ نہ جانے وہ کتابیں پڑھی بھی گئیں ۔ یا فیس بک میں تصویری پوسٹوں اور بیٹھک کی الماریوں میں سجانے کے کام آئیں ۔ 

Wednesday, January 5, 2022

دوہزار اکیس اور پانچواں موسم


دوہزار اکیس اور پانچواں موسم

شہیر شجاع

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے ، زندگی یونہی تمام ہوتی ہے ۔ یہ جملہ ہم اکثر سنتے اور کہتے رہتے ہیں ۔ شاید ایک وقت تک ہم ایسی ہی زندگی گزارتے ہیں ۔ بس چلے جاتے ہیں ، ٹارگٹ بناتے ہیں اور دوڑے چلے جاتے ہیں۔ اس دوڑ میں ہم کیا کچھ کھودیتے ہیں ۔ مگر پھر ایسا بھی ہوتا ہے  جب ایک ایک لمحہ آپ کو محسوس ہوتا ہے ۔ خزاں رسیدگی کے احساس سے لیکر بہار کے کھلتے  پھولوں کی خوشبو  کا عطر ۔ بادلوں کی چہ مگوئیوں کا اداس احساس ۔ بارش کی  موسیقی اور مٹی کی سوندھی خوشبو کا دل کی چوکھٹ پر ڈیرے ڈال دینا ۔اگلے دن  گہرے کالے بادلوں کو دیکھ کر احساسات کے پردے کاپھڑ پھڑانا ، اور پھر اچانک دھوپ نکل آنے پر مختلف احساس سے روشناس ہونا ۔کسی کچے گھر کو دیکھ کر بارش کا سوچنا اور اس کچی چھت پہ اداس ہوجانا ۔  بلند و بالا عمارتوں کا  آنکھوں کو چندھیا دینا اس سے مرعوب ہوجانا اور کبھی " چل ہٹ " کہہ کر نظریں پھیر لینا ۔پکی سڑک پہ اچھی سواری کا لطف تو کبھی کچی سڑک پہ ڈگمگاتے ، ہچکولے کھاتے  سوچوں کا در کھولنا ۔ کبھی دور پیدل نکل جانا تو کبھی سستانے بیٹھ کر یک ٹک سورج ، چاند یا اسٹریٹ لائٹ کو تکتے رہنا ۔

کچھ عرصے سے زندگی کی سواری ایسی سڑک پہ رواں تھی اور دل اس درخت کی مانند تھا جو طوفانی جھکڑوں  میں گھرا ہو ۔ کبھی دائیں کبھی بائیں ۔ بس مضبوط جڑوں کے سہارے ٹکا ہوا تھا ۔پتے جھڑ جاتے ، پھر نئی کونپلیں نکل آتیں ۔ اسی طرح دوہزار اکیس شروع ہوا ۔ کوویڈ کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ اور ہماری شادی کی تاریخ کہیں جم نہیں پارہی تھی ۔ اس سال یہ سنگ میل بھی طے ہو جانا تھا ۔انسان اگر دوسرے جانداروں میں ممتاز ہے تو اس کا سبب اس کا باختیار ہونا ہے ۔  یہ الگ بات ہے کہ ہر انسان میں قوت فیصلہ مختلف ہوتی ہے ۔ اور ہم ان افرادمیں شامل ہیں جن میں یہ قوت کمزور ہے ۔ بہرحال اس کا استعمال زندگی ہے، ہر آنے والے لمحے کے لیے ناگزیر ہے ۔ لہذا فیصلہ ہوا اور پھر رخت سفر باندھ لیا گیا ۔ کچھ آنا فانا والی صورتحال رہی ۔  نئی منزلوں کی جانب سفر درپیش تھا اور دروازے سے گزرنے میں طبیعت حارج ہورہی تھی ۔  

یہ تو طے ہے کہ ہر نئی منزل اپنے ساتھ نئے ایڈونچر ساتھ لاتی ہے ۔ اور پھر زندگی کروٹ لیتی ہے اور ہم اس غیر مرئی دروازے سے گزر جاتے ہیں ۔ماضی اور حال کے درمیان بظاہر ایک لکیر کھینچ دی جاتی ہے ۔ مستقبل کا نقشہ یکسر تبدیل ہوجاتا ہے ۔  اور حال جیسے ہلکے سرد موسم میں بارش کی بوندوں کی آواز اور سرد ہواوں کی سرسراہٹ  میں کچھ پرانے اور نئے احساسات کو دل کے کمرے میں خوش آمدید کہا جاتاہے ۔

حسن آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا اور جمال ستاروں کی مانند آس پاس بکھر رہا تھا ۔ دونوں اٹھکھیلیاں کر رہے تھے اور ہم میزبان تھے  ابھی تو میز سجنی تھی ، قمقمے جلنے تھے ، آتش بازی ہونی تھی ، غل غپاڑہ ہونا تھا ، شور وغل کا طوفان اٹھنا تھا ، چہروں کی مسکراہٹوں نے قہقہوں میں تبدیل ہونا تھا  ۔ کہ دوہزار اکیس بھی اختتام پذیر ہونے کو آتا ہے ، بہت سی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں ، دلوں کی دھڑکنوں کا مطلب تبدیل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ  دوہزار بائیس نے شروع ہونا ہے ۔ جس کا پہلا مرحلہ پنچھی کے لیے اپنا گھونسلہ چھوڑنے کی صورت پیش آنا ہے ۔ 

پرندے کی اڑان کے ساتھ ہی موسم انگڑائی لیتا ہے ۔ ایک نیا موسم درپیش ہوتا ہے ، پانچواں موسم ۔  

 


فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...