سر سید کا نظام
تعلیم اور ہماری تباہی کا سبب
یار اگر مسلمانان ہند کو سرسید نہ ملے ہوتے تو آج نہ
جانے مسلمان کہاں ہوتے ؟
دوست کچھ زیادہ
ہی جذباتی ہو رہا تھا ۔ میں نے پوچھا ۔۔۔ یار سرسید تو واقعی اپنی
علمیت ، قابلیت و صلاحیتوں میں بے مثال تھے ۔ مگر کیا ان کا سب سے بڑا کارنامہ
" علیگڑھ کالج " اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکا یا ناکام ٹہرا ؟
ارے یار دیکھو
آج بھی وہ کالج مسلمانوں کے لیے چمکتا ستارہ ہے ۔ سرسید کی محنت کی ہی وجہ سے آج
مسلمانوں میں ڈاکٹڑز انجینیرز ، پی ایچ ڈیز
سائنسدان موجود ہیں جو اس دھرتی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔
اس دھرتی سے
بنیادی تعلیم کے بعد تو نوے فیصد باہر کی دھرتی کی " خدمت " کرنے چلے
جاتے ہیں ۔ ڈالر و پاونڈ کماتے ہیں ۔کیا اسی لیے سرسید نے مسلمانوں کو ترقی کے
شانہ بشانہ چلنے کی تلقین کی تھی ؟
بھئی یہاں
انہیں مل بھی کیا سکتا ہے ؟ نہ جان کا
تحفظ نہ مال کا ۔ اور نہ ہی ان کی صلاحیتوں کی یہاں کوئی حوصلہ افزائی ہے ۔ تو پھر
وہ باہر کیوں نہ جائیں ؟
پھر تو تعلیم کا
مقصد " کمائی " اور " بلند مراتب " ہی ٹہرے ناں یار ۔ بنیاد ی
مقصد تو فوت ہوگیا ۔ کمائی اور بلند مرتبہ تو تاجر و صنعتکار بھی حاصل کرلیتا ہے ۔
اور ہنر مند آدمی بھی ایک اچھی پرآسائش زندگی گزار لیتا ہے ۔ اور اگر اس کی قسمت
اچھی ہوئی تو وہ بھی صنعتکار کا درجہ حاصل کر ہی لیتا ہے ۔
پھر
" تعلیم یافتہ " کہلا کر " تعلیم یافتگی " کی تذلیل
کیوں ؟
کیا یہی وہ
تعلیم یافتگی ہے جو آج تک ہمارے معاشرے کو سچ
بولنے ، چوری کو برا سمجھنے ، جھوٹ کو برائی سمجھنے ، عورت کو عزت و احترام کے قابل سمجھنے ، اپنی ذمہ داریوں کا " ادراک " اور اس کا احساس
اجاگر ہونے ، دیانت دار ی و اخلاص پر
آمادہ نہ کرسکی ؟ اسی تعلیمی نظام نے ہمیں " یہ " سیاستدان عطا کیے ۔ ہمارے تمام اداروں میں اسی تعلیمی نظام سے تربیت یافتہ افراد
ہیں ۔
تہذیب کے معانی بدلنے کو ہیں
۔ ثقافت
کو بس" گالی " کہنا باقی رہ گیا ہے ۔
میں تو پتہ نہیں اور بھی نہ جانے کیا کچھ بولتا چلا
جاتا ۔ کہ اس نے میری توجہ ایک خبر کی
جانب کروائی ۔ جس میں ہمارے محترم وزیر " سائنس و ٹیکنالوجی " عوام اور
دنیا کو یہ ہماری تباہی کی اصل وجہ بیان
فرما رہے تھے ۔ کہ اس کا سبب " فتوی باز " مولوی ہیں ۔ اور میں چشم تصور میں ان کی وزارت کے کارناموں
کو تلاشنے کی کوشش کرنے لگا ۔