ترازو
محمد شہیر شجاع
فہیم آج بہت خوش تھا ۔۔ بہت صبر
کے بعد آج بالآخر اس کی شادی ہونے جارہی تھی ۔ اس کے گھر والے اس کا رشتہ
لیکر کئی گھروں پر گئے تھے ۔۔ پر اس کا
مقدر کچھ اور ہی تھا ۔۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کا رشتہ کسی اچھے
گھرانے کی ایسی لڑکی سے ہوجائے گا ۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ زور و
شور سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔۔ بالآخر وہ دن بھی آپہنچا جب اس کی زندگی کا ہمسفر اس
کے کمرے میں بیٹھا بہت سارے خواب و
توقعات سجائے اس کے انتظار میں تھا ۔
اس کا گھرانہ ذرا بڑا تھا ۔۔ اس
کے چار بڑے بھائیوں کی پہلے شادیاں ہو چکی تھیں ۔۔ وہ بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔ فرق
صرف اتنا تھا کہ نئی آنے والی بہو شکل و صورت اور تعلیمی لحاظ سے سب میں نمایاں
تھی ۔۔ جس کا دیگر بیبیوں کو احساس تھا ۔۔ بجائے اس کے کہ یہ احساس نئے مہمان کے لیے پیار و محبت کی فضا قائم کرتا
۔۔ دل میں کینہ پیدا ہوگیا ۔۔ ان کے بچے فہیم کے کمرے میں بلا
روک ٹوک در آتے اودھم مچاتے چیزیں توڑتے پھوڑتے ۔۔ لڑکی فہیم سے شکایت کرتی تو ۔۔
فہیم یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ کوئی بات نہیں میں نیا لے آوں گا ۔ کسی بھی مسئلے پر فہیم کا ردعمل ہوتا کہ درگزر کرو ۔ صرف نظر کرو ۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے
بچوں کو ذرا بھی ٹوکنا گوارا نہیں کرتا ۔
اس کی اس بات نے لڑکی کے دل میں
عدم تحفظ کا احساس بیدار کرنا شروع کردیا
۔ وہ فہیم کا جس قدر خیال رکھ سکتی رکھتی ۔ مگر دل میں سسکتی رہتی ۔ اپنے گھر والوں سے بات کرتی
ہے تو ۔ ایک طوفان کھڑا ہونے کا خدشہ ۔۔ اور وہ طوفان ان دونوں کی زندگیوں میں
مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتا ۔ فہیم اس بات
سے خوش تھا کہ اس کی بیوی اس کی ہر بات مانتی ہے ۔۔۔ اس کے کہنے کو سمجھتی ہے ۔۔
اسے اپنی کم مائیگی کا ذرا بھی احساس نہ تھا ۔۔
اسی اثناء میں فہیم کی اکلوتی بہن
کا رشتہ ہوگیا ۔۔ جو کہ فہیم سے بہت قریب تھی ۔ اور اس کی بہن پیا دیس سدھار گئی ۔۔ وہ اپنے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے کئی دنوں تک اپنی بہن سے ملنے نہ جا سکا ۔۔ پورے
ڈیڑھ ماہ بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن سے ملنے گیا ۔۔ اس کے کمرے میں داخل
ہوا ہی تھا کہ اس نے دیکھا وہاں نئی نویلی الماری
کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ڈریسنگ ٹیبل
میں خراشیں پڑی ہیں ۔ اس نے اپنی بہن
کی طرف دیکھا ۔۔ اور بہن اس کے سینے سے لگ کر روپڑی ۔ سسکتے ہوئے کہا ۔ کہ
دیکھیں ۔ ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ میں بھی اب ان کی زندگی میں شامل ہوں ۔ ان کے لیے
میں اب تک ان کی اپنی نہیں ہوسکی ۔
یکلخت فہیم کی نظر اس کی بیوی کی
جانب اٹھی جو سر جھکائے سب دیکھ رہی تھی ۔۔ اور اس کی آنکھوں سے دو موتی اس کے گالوں میں لڑھک آئے ۔۔
No comments:
Post a Comment