Tuesday, July 26, 2016

بندوبست

بندوبست

شہیرشجاع

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ، جو اس کے گالوں کو چھو کر اس میں توانائی کا احساس جگارہی تھیں ۔ وہ یک ٹک آسمان کے بادلوں کو دیکھے جا رہا تھا ۔ منڈلاتی چیلوں  کو گھورتا ۔ ان کے پھیلے پروں پہ اٹکے وجود کو اڑتا دیکھ کر اس کا دل مچل سا جاتا اور چہرے پر ایک مسکراہٹ طاری ہوجاتی ۔ کبھی کوئی چیل ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے لگتیں تو اس کے پیلے پیلے دانت جھلکنے لگتے ۔ ناک سکڑ سی جاتی اور معصوم آنکھوں میں تارے جھلملالنے لگتے ۔
کچھ شور کی آواز سے اس کی نظریں اپنے دائیں جانب اتریں ۔ چند زرق برق لباس اور بیوٹی پارلر کے حسن میں ڈھلی  آنٹیوں کو دیکھ کر وہ ذرا ٹھٹکا ان میں ایک تقریر کر رہی تھیں ، باقی ان کا ساتھ دے رہی تھیں ، اسے کیا سمجھ آنی تھیں وہ اس جھنڈ میں اپنی بوسیدہ سے کپڑوں میں ملبوس فاقہ کش ماں کا ڈھانچہ تلاش کرنے لگا ۔ کامیابی نہ ملنے پر اس کا چہرہ ذرا ڈھل سا گیا ۔ اس کی آنکھوں کے تارے مزید گہرے سے ہوگئے ۔ اتنے میں اسے ایک ٹھکوکر لگی ۔ خوبصورت جوتوں میں ملبوس پیر اس کی گود میں تھا ۔ اور ایک وقت کے کھانے کا کچھ بندوبست ہونے لگا تھا ۔

Friday, July 1, 2016

میڈیا کا کردار اور معاشرت



میڈیا کا کردار اور معاشرت

شہیر شجاع

ہمارا میڈیا پاکستان کی سیاست سے لیکر معاشرت کو دکھانے میں اس قدر تنگ دست ہے کہ اس نے عوامی شعور میں ایک پرچھائی سی بچھا دی ہے ۔۔۔ جیسے پاکستان میں سوائے کرپشن، فرقہ واریت ، عورت کی حق تلفی ، مذہب کی غنڈہ گردی ، سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی وغیرہ کے سوا کچھ اچھا نہیں ۔۔۔ یعنی نتیجتا ۔۔۔ دماغ اس سوچ پر اپنا اختتام کرے کہ پاکستان کا بننا ہی غلط تھا ۔۔۔۔ میں اکثر فیس بک میں بھی ایسے دانشور یا نیم دانشوروں کی تحریریں پڑھتا ہوں تو افسوس اس بات کا نہیں ہوتا کہ وہ یہ کیا لکھ رہے ہیں ۔۔۔ بلکہ دو اسباب مجھے نظر آتے ہیں ۔۔۔ ایک یہ کہ یا تو وہ پاکستان کی بنیادی ضرورت اور اس کے آئین سے اختلاف رکھتے ہیں ۔۔۔ دوسرا یہ کہ وہ زر خرید لکھاری ہیں ۔۔۔۔
پاکستان کا آئین وہ آئین ہے جس پر عمل ہوجائے تو دنیا اس نظام کے نافذ کرنے پر اصرار کرے ۔۔۔ چونکہ اس نظام کے پس پردہ اسلام کا نام آنے کا مکمل جواز موجود ہے تو دنیا کیوں چاہے گی کہ مفتوحین کا پیش کردہ نظام وہ قبول کریں ۔۔کیونکہ فاتح میں ہمیشہ ایک غرور ہوتا ہے چھوٹی سی بات اے بھئ اس کی انا کو چوٹ پہنچتی ہے پھر یہ تو مکمل نظام ہے جس کے بل بوتے پر وہ سپر پاور کہلانے کا استحقاق حاصل کیے ہوئے ہیں ۔۔۔ خیر
پاکستان کی حکومت ، میڈیا ، ادارے کمزور ہوسکتے ہیں مگر معاشرت کے پرزے ابھی مضبوط ہیں ۔۔۔ یہ وہ آزاد فضا ہے جہاں ہم اس فاقہ کشی میں بھی سکون محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی سڑک پہ بیمار ہوجائے تو کی مدد کو دوڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔ شادی بیاہ میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے ہیں ۔۔۔ غرض میرے دیس کی فضا میں نفرت کا وہ تعفن ابھی اس قدر جڑیں نہیں پکڑ پایا جس قدر میڈیا یا بیمار سوچ کے حامل افراد دکھانے کے کوشش کرتے ہیں ۔۔۔ الحمدللہ ہم آزاد ہیں اور ہم سب اس سرزمین کی آبیاری کے ذمہ دار ہیں ۔۔۔۔ نفرتیں اور تنگ دلی پھیلانے کے بجائے لکھاری ک مرتبہ امکانات جگانا ہو تو کیا ہی بات ہو ۔۔۔ خواب دکھانا اور طریق کی یاد دھانی بھی اہم مرتبہ ہے ۔۔۔ الحمدللہ ہم مایوس نہیں ہیں ۔۔۔۔ حکومتوں پر تنقید کرتے ہیں تو اپنی بقا کے لیے لیکن ان سے پھر بھی ہم مایوس نہیں کیونکہ وہ بھی پاکستانی ہیں ۔۔۔ شاید مثبت تنقید و احتجاجی رستے ہموار کردے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر

کراچی اور موت



کراچی اور موت 

شیر

ابھی حال ہی میں ایک عزیز دوست سے بات ہو رہی تھی ۔۔۔ بڑے دکھی تھے ۔۔۔ جدہ میں رہتے ہیں ۔۔ کہہ رہے تھے کراچی سے ایک دوست ان سے ویزے کی درخواست کر رہے تھے ۔۔ حالانکہ صاحب حیثیت تھے ۔۔۔ سبب دریافت کرنے پر انہوں اتنا ہی کہا کہ حالات ٹھیک نہیں ۔۔۔ اب پاکستان میں ہر شخص حالات ٹھیک نہیں کی وجہ سے ہی باہر نکل جانا چاہتا ہے ۔۔۔ سو کراچی والے صاحب کی بات کو وہ عام سمجھے اور بہت زیادہ تشویش نہیں سمجھا ۔۔۔ یہاں تک کہ کچھ عرصے بعد ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کی زوجہ محترمہ نے فون اٹھایا ۔۔۔ صاحب کی بابت دریافت کرنے پر ان کی آواز رندھ گئی ۔۔ کہنے لگیں ان کو ایم کیو ایم کی جانب سے کچھ عرصے سے بھتے کی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔۔۔ اب حالات ایسے نہ تھے کہ بھتہ دیا جا سکتا ۔۔۔ تاخیر پر قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں ۔۔پچھلے ہفتے انہیں سر پر گولی مار دی گئی ۔۔۔۔ مقدمہ وہی نامعلوم افراد ۔۔۔ اب تو جیسے ہم سڑک پر ہی آگئے ہیں ۔۔ دوست کا رنگ فق ۔۔۔۔ تسلی دلاسہ دے کر فون رکھا ۔۔۔ اور ان کے بیٹے کے لیے ویزے کا بندوبست کیا ۔۔ اللہ جزائے خیر دے ۔۔۔ ابھی اس واقعے کو سنے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ کراچی کی زمین ایک "معلوم" شخص کو نگل گئی ۔۔۔ جس پر بھی سیاست ۔۔۔۔ بلکہ " عصبی سیاست" شروع ہوگئی ۔۔۔۔۔
میرا وطن پاکستان اور پھر کراچی میرا گلشن ۔۔۔ کیا ہمارے ضمیر نے ہماری عقل نے یہ سارا منافقانہ کلچر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا ہے ؟
کیا اسی طرح ۔۔۔ لیڈر و ملا کی اقتداء محض جذبات کی بنیاد پر ہم نے جاری رکھنی ہے ؟
امام غزالی نے ایک حدیث نقل کی ہے ۔۔۔۔ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں کہ اگر وہ درست ہو تو سب درست ہوجائیں اگر وہ بگڑے ہوں تو سب بگڑ جائے ۔۔۔۔۔ ایک امراء و حکام دوسرا فقہاء ۔۔۔۔ ہم تو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، یہ دونوں بگڑے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ اس کی مزید تشریح کروں تو بگڑے ہؤون کے پاس اختیارات ہیں ۔۔۔۔ کیا نہیں ؟
شاید کہ مدہوشی سے ہم انگڑائی لیں ۔۔۔۔ اور کتنا لہو ہم ان امراء و فقہاء کی قلبی تسکین کے خراج میں ادا کریں گے ؟

حیا


حیا تہذیب کا بنیادی جز ہے 

شہیر 

اگر انسانی فطرت بدلی جا سکتی تو ۔۔۔۔ ممانعات من اللہ بھی جدا ہوتے ۔۔۔ وہ رب ذوالجلال ۔۔۔ انسان کا خالق ہے اور اپنی مخلوق کی فطرت بھی اسی کی جانب سے ہے ۔۔۔ وہ خالق کائنات ہی مکمل علم رکھتا ہے ۔۔۔ اسی لیے انسان کے لیے بہت سی ممانعات جنہیں ترک فعل کے زمرے میں رکھا جائے گا ۔۔۔ انسانی سہولت کے کیے رکھی گئی ہیں ۔۔۔۔ ان ممانعات کو بیجا کہنے کے لیے فطرت کو بدل دینے کا تقاضا غیر عقلی ہے ۔۔۔۔ اور یہی بات ۔۔۔ اوریا مقبول صاحب کا بنیادی نکتہ ہے ۔۔
#‏اوریامقبول_جان

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...