Sunday, March 29, 2015

یمنی صورتحال پر ایک نظر



یمنی صورتحال میں ہم حرمین شریفین کے دفاع کے پیش نظر اس جنگ میں اپنا دخول منطقی طور پر درست نہیں ثابت کرسکتے ۔۔
اس معاملے میں سعودی خارجہ پالیسی نہایت ہی خراب قرار دی جاسکتی ہے جس نے اسے اس مرحلے تک جا پہنچایا جہاں ایک سمت سے اسے شام و عراق سے خطرہ لاحق ہے تو دوسری طرف یمن میں حوثیوں کی جارحیت کا سامنا ہے ۔ حوثیوں سے شاید کبھی اس درجہ جارحیت کا سامنا یمنی حکومت کو نہ کرنا پڑتا اگر وہ ان کے حقوق کا خیال کرتی ۔۔۔ جس نے انہیں منتقم مزاج بنا دیا ۔۔ جس کا فائدہ ان عناصر نے اٹھایا جو آج حوثیوں کے پس پردہ کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں ۔۔۔۔ چہ جائیکہ اس پر بہت پہلے ہی سفارتی سطح پر کوششوں کو شروع کرنا چاہیے تھا ۔۔یہ ذمہ داری سعودی حکومت کی بنتی تھی ۔۔ پر وہ شاید اس سے غافل رہے یا شاید امریکہ کے " بول بچن " میں خاموش رہے ۔۔۔ یہاں تک کہ صوتحال بے قابو ہونے لگی اور انہیں اپنے طور پر فیصلہ کرنا پڑا ۔ ہم جانتے ہی ہین اسرائیل پورے مشرق وسطی پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے ۔ جس کے لیے اس کے عزائم مسلسل چلے آرہے ہیں ۔ مختلف جنگیں بھی وہ لڑچکا ہے ۔ پاکستان پر بھی حملے کی کوشش کر چکا ہے ۔ سو مشرق وسطی میں جہاں اس پلان کی تکمیل پر کام ہوگا وہاں پاکستان کا اسے سامنا کرنا پڑے گا ۔جس میں ایران ایک ایسی اینٹ کا کردار ادا کر رہا ہے جس کو استعمال کر کے خود ہی نابود کر دیا جائے گا ۔۔
بہر حال اس موقع پر پاکستان کا دخول صرف اور صرف سعودی دوستی پر منتج ہے ۔۔۔ اور یہ اخلاقی فرض بھی۔۔۔

شہیر شجاع

Sunday, March 15, 2015

مٹی کا ڈھیلا




مٹی کا ڈھیلا 

شہیر شجاع

سخت چلچلاتی دھوپ میں   سر سے پیر تک پسینے میں شرابور ایک پھٹی پرانی نیکر میں ملبوس ۔۔۔  دھول میں  اٹا ۔۔۔ وہ بچہ ہاتھ میں ایک مٹی کا ڈھیلا لیے  گھٹنوں کے بل چلتا کبھی پیروں پر کھڑا ہوجاتا  چند ہی قدم چل پاتا کہ  پھر سے زمین بوس ہوجانے پر مجبور ہو جاتا ۔ اپنی مآں کو آواز دیتا جو اس کا لاغر جسم تاب نہ لا سکتا اور اس کی آواز گلے میں ہی گھٹ جاتی ۔  مٹی کا ڈھیلا  کبھی کترتا کبھی چاٹتا اپنی بھوک پیاس مٹانے کی جدو جہد کرتا  لوگوں کے بیچ چلا جا رہا تھا ۔ آتے جاتے کسی کے پیروں سے لپٹ جاتا اور کھڑے ہونے کی کوشش کرتا تو اسے جھٹک دیا جاتا ۔ لہرا کر گر پڑتا ۔۔۔۔۔
 اس کی آنکھیں پانی سے بری تھیں ۔ اس کا گلا پانی کا  متلاشی تھا ۔
 کسی پی رپر لپٹنے پر جو  لات پڑی تو وہ  کسی پانی کے جوہڑ پر جا گرا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی اس میں لیٹ گیا اور چہرہ پانی میں ڈبوئے  اپنی پیاس بجھانے لگا  اس کی سانس رکنے لگتی تو وہ چہرہ باہر نکالتا  اور قلقاریاں مارتا ہوااپنے منہ سے پانی جھاڑتا ۔
چھی  ، گندا بچہ ۔۔۔ دو بچے پاس ہی  غبارے لیے  آپس میں کھیل رہے تھے ۔ اسے دیکھ ایک کے منہ سے نکلا ۔
 جوہڑ میں کھیلتے بچے کی ان پر نظر پڑی تو ان کو غبارے سے کھیلتے دیکھ کر وہ بھی تالیاں بجاتے ہنسنے لگا خوش ہونے لگا ۔  جو ان بچوں کو نا گوار گزرا اور وہ دوسری طرف چلے گئے ۔ وہ بچہ یک ٹک منہ کھولے دونوں ہاتھ جیسے تالی بجاتے رک گئے ہوں ، ان دونوں کو غباروں سمیت جاتا دیکھتا رہا ۔   پھر کچھ دیر یونہی اس جوہڑ کے پانی میں بیٹھا  ادھر ادھر پانی میں ہاتھ مارتا چھینٹے اڑاتا کھیلتا رہا ۔ آس پاس چھوٹے بڑے ، بوڑھے سب  اپنی اپنی مصروفیات میں مگن آ جا رہاے تھے ۔  فہیم  خان صاحب کی گود میں بیٹھا بچہ منہ میں انگلی ڈالے یک ٹک اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کو دیکھ رہا تھا ۔۔  کہ خان صاحب نے  اس کے ہاتھ میں ایک چاکلیٹ تھما دی۔۔ لیکن وہ ا سچاکلیٹ کو اپنے ننھے منے ہاتھون سے  ناکام کوشش کرتے ہوئے اسی طرف دیکھتا رہا ۔ کہ اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کی اس سے نظریں ملیں ۔ کچھ پل ایک دوسرے کو دیکھا اور دنوؤں ہنس پڑے  ۔ اتنے میں خان صاحب گلی کے دائیں جانب مڑ چکے تھے ۔
بچہ جوہڑ سے اٹھا   اسی جانب  چلنے لگا   کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں دیکھتا ۔ رنگ برنگی چیزیں دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتا ، قلقاریاں مارتا  ، چلتے پھرتے لوگوں کی لات کھاتا    گلی کے دائیں جانب مڑا  ۔ جو شامیانہ لگا ہونے کی بنا پر بند تھی ۔  اس نے شامیانے کا خوب جائزہ لیا  ننھنے منے ہاتھوں سے اسے ہٹا کر راستہ بنانے کی ناکام کوشش کی ، آخر کار  ایک کونے سے شامیانے کے نیچے لیٹ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔ اندر  الگ ہی شور برپا تھا  موسیقی کی اونچی آواز میں لوگ ناچ رہے تھے  شور کر رہے تھے  ۔ بچہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ، اور قلقاریاں مارنے لگا ۔ اپنے ننھنے پیروں سے آگے بڑھتا کسی کے پیروں کے   درمیاں  آجاتا جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ کر ۔
ہوہ ۔۔ کون ہے یہ  ۔۔ ڈرٹی کڈ ۔۔ گو ٹو ہیل ۔
اور پرے دھکیل دیا جاتا ۔۔۔ دھکے کھاتے کھاتے وہ بالکل دیوار سے لگ گیا تھا ۔۔ منہ پہ انگلیاں ڈالے اپنی دانست میں عجیب نظروں سے ماحول کا جائزہ لیتا ۔۔۔
 کہ  ایک سمت سے کھانے کی خوشبو نے  بھڑکا دیا ۔
 اور اس سمت کو چلنے لگا  آہستہ آہستہ چلتا گیا ۔اس کے چہرے کے اتار چڑھاو دیدنی تھے ۔۔   اب پھر اس کے سامنے شامیانہ تھا لیکن اسے پچھلی مرتبہ کی جدو جہد یاد تھی اس نے اسے آزمایا تو واقعتا  وہ شامیانے کے نیچے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔
سامنے بڑی بڑی دیگیں لوہے کے تکون نما چولہوں میں پک رہی تھیں جن کو کوئلوں سے آگ دی گئی تھی ۔۔  بچے نے دیگوں کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔ ساتھ اپنی  بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ سے بھینچتا جاتا ۔۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو ۔۔۔ کچھ آگے بڑھا ۔۔ دیگ کے قریب ہونا چاہا ۔۔۔ کوئلوں کی گرمی نے اسے  روکا تو وہ  ہلکی چیخیں مارتا  ہوا ۔۔ پیچھے کو سرک گیا ۔۔ اس دیگ کو چھوڑ آگے کی طرف چلتا گیا ۔۔ باورچی لوگ ایک چارپائی پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے  ۔۔  لیکن کسی کی نگاہ اس بچے کی جانب نہ پڑ سکی ۔۔ دیگیں بھی بچے کے قد سے اونچی تھیں ۔۔
ایک دیگ کے نے اسے  اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔ وہ رک گیا ۔۔ اور دور سے ہی ہاتھ بڑھا کر دیگ کو ٹٹولنے یا چھونے کی کوشش کی ۔۔۔ گرمی کو برداشت کرتا وہ بضد ہوگیا کہ اسے چھو کر ہی دم لینا ہے ۔۔۔ اسی دوران تھوڑا سا وہ آگے کو سرک گیا تھا اور ایک کوئلہ اس کے پیروں تلے آگیا ۔۔ گرمی کی تاب نہ لاکر ۔۔ وہ لڑکھڑایا ۔۔ اور اس کا سر دیگ سے ٹکرایا جس ٹکر نے اسکے معصوم جسم کو ہوش و خرد سے ماوراء کر دیا ور وہ کوئلوں کے اوپر یوں بیٹھا کہ دیگ پر سر اور پیٹھ ٹکی تھی جبکہ اس کے کولہے  کوئلوں پر سینک رہے تھے ۔۔۔ ذرا ذرا سا وہ بچہ  ہلتا جیسے آگ اس کے اندر کو جھلسا رہی ہو ۔۔ پر اس میں سانس لینے کی سکت نہ ہو ۔۔ ساکت پڑا جھلستا رہا ۔ تپتا رہا ۔۔ جلتا رہا ۔۔
کچھ ہی فاصلے پر ۔۔۔ وہی ناچ گانے ہو رہے تھے ۔۔ تاش کی پتیاں چل رہی تھیں ۔۔ دیگوں میں کھانے تیار ہو رہے تھے ۔۔۔ اور وہ جھلس رہا تھا ۔۔

Thursday, March 12, 2015

ڈیوائڈ اینڈ رول


ہم پہلے معاشرے میں تعصب کی آگ بھڑکاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر محرومیوں کو جنم دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب محرومی ۔۔ بغاوت پر اتر آئے تو ۔۔۔۔ ۔ اسکے سد باب کے طور پر اسے گندے پودے کے طور پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ گرادنتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس پر بھی بس نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ اس کی کونپلوں کو وقفے وقفے سے کاٹنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔۔۔۔ جس سے اس پودے کی افزائش کا عمل بھی جاری رہتا ہے ۔۔۔ اور اس کے فوائد بھی سمیٹتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ اس پودے کو خوب استعمال بھی کرتے ہیں ۔۔ جیسے وہ کوئی کھلونا ہو ۔۔۔۔۔ اس پودے کی جان ۔۔ جیسے محض قوت کے طلبگاروں کے لیے ایک انجکشن ہو ۔۔۔ جب چاہا کاٹ دیا جب چاہا ۔۔۔ افزائش کے عمل کے لیے چھوڑ دیا ۔۔۔۔ لیکن اس کو ترو تازہ کر کے ۔۔ سارے باغ کو مہکانے کے لیے کبھی راضی نہیں کیا...

وہ بھی محب وطن ہیں ۔۔ وہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔ سر زمین سے پیار کرتے ہیں ۔۔ یہاں جینا چاہتے ہیں ۔۔۔ اسی کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو غلط راستے پر چلنے پر آپ نے ہی مجبور کیا ہے ۔۔۔۔۔ اس مجبوری کو ختم کرنے کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

 

آج ملک کے گوشے گوشے میں محرومیوں نے ۔۔ ہتھیار اٹھائے ہیں ۔۔ ظاہر ہے ۔۔ کمزور کی حالت سے ہر کوئی فائدہ اٹھاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کمزور کو طاقت بہم پہنچا کر ۔۔ سرزمین کا محافظ و معمار بننے پر کیوں توجہ نہیں مرکوز کی جاتی ۔۔۔۔۔۔۔؟
کیا آگلے آنے والے برسوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں مزید محرومیوں و نا انصافیوں کی بغاوتیں تو نہیں جنم لینے جارہی ؟ ۔۔ کیا ہمارے پاس کوئی تھنک ٹینک ہے ؟
یا اسی پروپیگنڈا مہم کے سہارے ۔۔ ہم نے پاکستان کو بقا و فنا کے درمیان ۔۔ انسانوں کو ایک ہجوم کی صورت میں خون خون کرتے رہنا ہے ۔۔۔؟؟؟؟

Saturday, March 7, 2015

افسانہ ٹھنڈا گوشت کے مقدمے کے تناظر میں ۔۔ ریاستی و معاشرتی نظریاتی سوالات


افسانہ ٹھنڈا گوشت کے مقدمے کے تناظر میں ۔۔ ریاستی و معاشرتی نظریاتی سوالات ۔۔۔
شہیر شجاع ۔۔

ٹھنڈا گوشت کا عدالتی مقدمہ ۔۔۔ حضرت منٹو نے اپنی ایک کتاب میں ۔۔۔ تقریبا من و عن پیش فرمایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ری پٹیشن پر جب فیصلہ حضرت منٹو مرحوم کے حق میں ہونا تھا ۔۔۔ تو جج صاحب  منٹو مرحوم سے  مخاطب ہوئے اور مسکرا کر کہا " میں اگر سعادت حسن منٹو کو سزا دوں تو وہ یہ کہیں گے کہ ایک داڑھی والے نے مجھے سزا دی" ۔۔ یہ پہلو بہت پرانی چلی آرہی مذبی و لامذہبی چپقلش کی طرف خوب اشارہ ہے۔۔۔
پھر ۔۔ فیصلے میں جو پیراگراف سب سے اہم ہے فرماتے ہیں ۔۔۔۔ فاضل مجسٹریٹ (جنہوں نے منٹو مرحوم کے افسانے پر فرد جرم عاید کر دیا تھا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے اس بیان سے ابتداء کی کہ " فحاشی " ۔۔ کی اصطلاح اس ماحول کے ساتھ متعلق ہے جس میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اس نے کہا کہ مختلف قوموں اور سوسائیٹیز کے معیار مختلف ہو سکتے ہیں ۔۔۔ یہاں تک وہ درست تھا ۔۔۔ اس نے غلطی وہاں کی جب اس نے سمجھا کہ پاکستان کے مروجہ " اخلاقی معیار " ۔۔۔۔۔۔۔ " قرآن و سنت کی تعلیم" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سوا اور کہیں سے زیادہ صحیح طریقے سے معلوم " نہیں " ہوسکتے ۔۔۔۔۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس کے مطابق غیر شائستگی اور شہوت پرستی شیطان کی طرف سے ہے  ۔۔۔

معزز جج آگے فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال یہ نہیں ۔۔ بلکہ سوال یہ کہ ۔۔ ہمارے سماج یا معاشرے کی اصلی حالت کیا ہے ؟ ۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے ہم نے اپنا نصب العین ابھی تک حاصل نہیں کیا ۔۔۔ اپیل کرنے والوں کو اس کے مطابق جانچنا چاہیے ۔۔۔۔۔ جس طرح کہ ہماری سوسائیٹی ہے ۔۔ نہ ۔۔۔ کہ اس طرح جیسا کے اسے ہونا چاہیے۔۔۔
یہ جملہ بہت سے معانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔۔ جس پر کچھ گزارشات آگے پیش کروں گا۔۔۔
مگر اس سے پہلے  ۔۔ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔۔
کیا ۔۔۔۔ معاشرہ اپنے آپ کو خود ترتیب دیتا ہے ؟
یا ۔۔۔ ریاست معاشرے کی ترتیب میں مصلح کا کردار ادا کرتی ہے ؟
یا ۔۔۔۔ معاشرے کی ترتیب میں ریاست کو مصلح کا کردار ادا کرنا چاہیے ؟
یا ۔۔۔۔ ریاست  ۔۔ معاشرے کو اپنے حال پر چھوڑ کر ۔۔ ان کی منشاء کے مطابق قوانین عمل میں لائے ؟
اگر چہ ریاست  کہتی ہے کہ مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے ۔۔۔ تو اخلاقی معاملہ بھی وہ درحقیقت فرد کے سپرد کر رہی ہے ۔۔۔۔ اس بات کے مد نظر ۔۔ اگر افسانہ ٹھنڈا گوشت پر کوئی فرد اعتراض کرتا ہے ۔۔ تو وہ اس کا انفرادی فعل ہوا ۔۔ اس بنا پر اسے ذہنی مریض ۔۔ یا اس جیسا کوئی  جملہ کہہ کر اس کی انفرادیت یا اس کی شخصی آزادی کوسلب نہیں کیا جاتا ؟ یہاں پر ۔۔ لامذہبی ریاست کو موزوں قرار دینے والے ۔۔۔ بذات خود متشدد نہیں ہوگئے ؟ بہر حال آگے بڑھتے ہیں ۔
جب یہ بات مان لی گئی کہ مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے ساتھ ہی ۔۔ اخلاقی معاملہ بھی فرد کے سپرد کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ تو معاشرے کے کی اصلاح و معاشرے کی ترتیب میں ۔۔ ریاست کا کیا کردار ہوگا ؟
کیا زنا بالجبر کو اگر ریاست خلاف قانون مانتی ہے ۔۔ تو ظاہر ہے زنا بالرضا کی آزادی ریاست بہر طور دے گی ۔۔۔ یہاں اخلاقی کردار ریاست کے ہاتھ سے نکل گیا ۔۔
اسی طرح اگر فرد چاہتا ہے کہ اس کا گھر اس کے رب کے احکامات کے طابع چلے ۔۔ تو اس کے پڑوسی کو کون سا قانون حق دیتا ہے کہ ۔۔۔ وہ اپنے پڑوسی کے انفرادی عمل پر نکتی چینی کرے ؟ ۔۔۔ اور اگر اس کی نکتہ چینی کے مقابلے میں ۔۔ مذہبی زندگی کا خواہشمند ۔۔۔ لامذہبیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے ۔۔۔ تو اس کی آواز کو متشدد کہہ کر کیوں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...