Saturday, August 22, 2020

خیالات

 

شہیر 

ہمارے اذہان سوچتے ہیں ۔ سوچ کے بھی محرکات ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ذہن خودمختار حیثیت میں نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا اور اس امر کے ادراک سے انسان عموما خالی ہوتا ہے ۔ اور ذہن کی تسکین کے حصول میں نامکمل راستوں پہ چل پڑتا ہے ۔ لہذا وہ مزید گنجلک مراحل میں داخل ہوجاتا ہے ۔

یہاں انسان دو غلطیاں کرتا ہے ۔ اول وہ منزل کا تعین نہیں کرتا اور بے منزلی کا سفر سوائے آوارہ گردی کے کیا ہوسکتا ہے ؟ دوم وہ انسانی وجود یعنی اپنے آپ کے فہم سے بھی ناآشنا ہوتا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ راستے کے شعور سے عاری ہوجاتا ہے ۔ فعلیت کے عناصر غیرفعال رہتے ہیں اور سارا بوجھ ذہن کو سنبھالنا پڑتا ہے جس کا وہ اہل نہیں ہوتا ۔

میں اور روایت کا میں

آج ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہم نے اسی رویے کو اپنا رکھا ہے ۔ تعمیر و تنقید ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی تعمیر ہوگی تو تنقید بھی ہوگی ۔ اور تعمیر کے لیے تخلیقی عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے ۔

معلوم ہوتا ہے جب تخلیقی وفور نا پید ہوجائے تو تنقید کی جگہ تنقیص لے لیتی ہے اور دیکھنے والی عینک شفاف نہیں رہ پاتی ۔ ایک ہٹ دھرمی مزاج کا حصہ بننے لگتی ہے ۔ اور مختلف فکری تعصبات ، انسان کو متشدد بنادیتے ہیں ۔

میں اگر کسی تہذیب کا حامل ہوں تو اس کا اچھا برا ہر حصہ “ میں “ ہی ہوں ۔ اگر میں اس میں سے چھانٹتا ہوں تو میرا بدن مکمل کیونکر ہوسکتا ہے ؟

جو کل برا تھا اس سے تہی دامن ہونے کا رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج بھی برا ہے ۔ جب میں نے اسے برا مان لیا تو گزرے کل کو اپنا کر اپنے آج کو اس سے پاک کرنا میری ذمہ داری ہے ۔ جب میں اس کل سے ہی لاتعلق ہوجاوں گا تو یقینی طور پر آنے والا کل، آج سے لاتعلق ہوسکتا ہے ۔ تو میں آج کو کس طرح مکمل تعمیر کرسکتا ہوں ؟

میرا مستقبل کیونکر روشن ہوسکتا ہے ؟

کیا یہ رویہ اپنی “ روایت “ سے کٹ جانے کی وجہ سے تو نہیں پیدا ہوا ؟


سرمایہ دارانہ تعلیم اور جدیدیت

سرمایہ دارانہ تعلیم اور جدیدیت


یوں محسوس ہوتا ہے جیسے "جدیدیت " سرمایہ دار کی جانب سے پیش کردہ ایسا تصور حیات ہے جس میں ملبوس ہوکر انسان "میں " میں مبتلا ہوجائے اور سرمایہ دار کی ترقی کے لیے اپنی ساری قوت صرف کردے ۔ بیس بچیس سال  کی انتھک محنت کے بعد ایک ڈگری کا حصول اس کو کسی سرمایہ دار کی خدمت کا حقدار بنادے ۔ جس کے عوض اس کی ذات کو چند جبلی آسائشات میسر آجائیں ۔

اسی بنیاد پر کامیابی و ناکامی کا تصور قائم ہے ۔ اسی ذیل میں آج کے اخلاقی تصورات تشکیل پاتے ہیں ۔ جہاں خدمت کی باقاعدہ ویڈیو بنائی جاتی ہے  ۔ فوٹو سیشن ہوتا ہے ۔ ناموں کی تختیاں سجائی جاتی ہیں ۔

غریب ایک ایسا پروڈکٹ ہے جس سے ڈرایا جاتا ہے ، جسے استعمال کیا جاتا ہے ، جسے گالی سمجھا جاتا ہے ، جسے معاشرے کا کلنک سمجھا جاتا ہے ۔ ہنرمندی "عیب" اور جفاکشی بے حمیتی کا استعارہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب "افسر " عوام میں آتا ہے تو "ہٹو بچو " کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ۔

کیسے تضادات سے بھرے تصورات ہیں ۔ اور یہ جدیدیت ہے ۔


فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...