Monday, March 31, 2014

حقوق نسواں اور نو مسلم عورت

حقوق نسواں اور نو مسلم عورت


ڈاکٹر لیزا کلنگر ۔۔۔۔ ایک امریکی خاتون ڈاکٹر ہیں ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے کافی سرگرم مبلغہ رہی ہیں ۔ اسلام قبول کرنے کے تنقیدی سوال پر یون گویا ہوتی ہیں کہ ، 

میں نے وہ مزہب قبول کیا ہے جس مین عورت کے پاس مرد سے زیادہ حقوق ہیں ، جیسے 

اسلام نے مجھے فکر معاش سے آزاد رکھا ہے ، اور یہ ذمہ داری میرے شوہر پر عاید کی ہے کہ وہ میری تمام تر ضروریات کا خیال رکھے ، اور میرا خیال ہے فکر معاش سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی بوجھ نہیں ہے ۔ 

اس کے علاوہ اگر میری ملکیت جو بھی چیز ہے وہ صرف میری ہوگی جبکہ میرے سوہر کی ہر ملک پر میرا برابر کا حق ہے ۔۔۔ 

یہ تو صرف دو مثالیں ہیں ۔۔ جو دنیا کا کوئی مذہب عورت کو نہیں دے سکتا ۔۔۔ 

 

Thursday, March 27, 2014

تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب


محمد شہیر شجاعت

مذہبی فرقہ واریت کا اتنا رونا رویا جاتا ہے جیسے اس سرزمین کو یہی عنصر لے ڈوبا ہو ۔۔ چہ جائیکہ ۔۔ واقعی میں مذہبی گروہوں میں شدت کی حد قتل و غارت گری و بد امنی کی حدیں پار کر گئی ہیں یا محض پروپیگنڈہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔
یہاں تو کوئی ایک بھی ایسا طبقہ نہیں نظر آتا جن میں آپس میں بغض وعناد نہ برپا ہو ۔۔۔۔ سیاسی تنظیمیں تو سر فہرست ہیں ۔۔ ہر ایک عسکری ونگز کا حامل ہے ۔۔۔۔ اس کے باوجود ۔۔ یہ لوگ ملک کے وفادار افراد میں شامل ہیں ۔۔۔۔ لسانی و نسلی تعصب کی بنیاد پر آئے دن قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے ۔۔ ملک توڑنے کے نعرے سر عام گونجتے ہیں ۔۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ وفادار ہیں ۔۔۔۔ ان سےہمارے عظیم خداد مملکت کو کوئی خطرہ نہیں ۔۔۔
تعلیمی میدان کا ایک معیار نہیں کئی معیار ہیں ۔۔۔ یہ تو شکر ہے ۔۔ دینی تعلیمی ادارو٘ں کا ایک ہی نظام رائج ہے مملکت میں ۔۔۔۔ جبکہ افسوس کہ عصری علوم ۔۔ جسے فی زمانہ ترقی کا سب اہم ذریعہ مانا جاتا ہے ۔۔۔۔ مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔۔۔۔ نجی ادارے و سرکاری ادارے ۔۔۔ پھر ان کے اپنے اپنے تعلیمی نظام ۔۔۔ پھر غریب طبقے اور امیر طبقے ۔۔۔ اور ان کی دسترس کے حامل ادارے ۔۔ اور ان کے نظام ۔۔۔
اور سب سے خاموش ، صابر ، فہیم ، عاقل اور سب سے اچھی بصیرت کے حامل سمجھے جانے والا طبقہ ۔۔ ادباء کا ہے ۔۔۔۔۔۔ میں دیکھ رہا ہوں ۔۔ یہ بھی آپس میں بٹے ہوئے ہیں ۔۔۔ عناد یہاں بھی ہے ۔۔۔۔ انا پرستی یہاں بھی ہے ۔۔۔۔ سب سے زیادہ دل کو ٹھیس پہنچانے والا عنصر یہی معلوم ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

خموش اے دل! بھري محفل ميں چلانا نہيں اچھا
ادب پہلا قرينہ ہے محبت کے قرينوں ميں
اقبال 

Sunday, March 23, 2014

ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب

ادب برائے ادب " یا " ادب برائے زندگی
محمد شہیر شجاعت

فلسفی کہتے ہیں ۔۔۔  کہ غیر مادی چیزوں پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ برہان کے مقدمات کے لیے شرط ہے کہ وہ مادی ہوں ۔۔۔ اور ان پر جو بھی حکم لگایا جائے گا وہ محض ظنی و قیاسی ہوگا ۔۔۔۔ اگر اس قدر مشقت کے بعد بھی ہمیں ظنی علم حاصل ہوا تو ایسے علم کا کیا فائدہ ؟۔ ایسی صورت میں ظن واحد پر ہی یقین کر لینا چاہیے ۔۔۔ جبکہ ہمارا مقصد ماوراء الحس موجودات کا یقین حاصل کرنا ہے ۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان دو اجزاء سے مرکب ہے ، جسمانی و روحانی جو جسمانی حصہ کے ساتھ مخلوط ہے ۔۔ ہر ایک جز کے خاص مدارک ہیں ۔۔ اور ان دونوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے روحانی جز ۔۔۔۔ یہ کبھی روحانی مدارک کا ادراک کرتا ہے کبھی جسمانی کا ۔۔۔۔ فرق یہ ہے کہ روحانی کا ادراک بلاواسطہ ہوتا ہے جبکہ جمسانی کا جسم کے آلات و دماغ و حواس کے ذریعے ۔۔۔۔ ہر مدرک کو اپنے ادراک سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے ۔۔۔
 
 ادب برائے ادب کا قائل بالواسطہ ادب برائے زندگی کا ہی قائل ہوتا ہے ۔۔۔۔ تو کیوں نہ اس کو نہ چھیڑتے ہوئے ادب کو "ادب " تک ہی محدود رہنے دیا جائے ۔۔ اس طرح سے ادب اپنی وسعت میں لا محدود رہے گا ۔۔۔۔۔ اس کی حد بندی نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔ اب تک کے مطالعے سے میرا تو یہی ماننا ہے ۔۔۔ شاید مجھے بھی کوئی قائل کرلے کے ادب کو بھی محدود ہونا چاہیے ۔۔۔ چہ جائیکہ حدود کا تعین کرنے کے باوجود ۔۔۔۔ اس پر قائم رہنا اور رکھنا ۔۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے ۔۔۔
بہر حال ۔۔۔ اگر ادب برائے ادب کا قائل مجھے سے سوال کرے گا تو وہ مجھے ادب برائے زندگی کا قائل پائے گا  ۔

Wednesday, March 19, 2014

ابن خلدوں و میکاولی کا ایک موازنہ ، اقتباس

ابن خلدوں و میکاولی کا ایک موازنہ ، اقتباس

ابن خلدون کہتا ہے ۔۔۔۔ایسی سلطنتیں جن کو عام غلبہ اور وسعت حاصل ہو ان کی بنیاد مذہب پر ہوتی ہے جو یا تو نبوت کے توسط سے ہوتی ہے یا دعوت حق کے ذریعے، اس قسم کی دینی دعوت، عصبیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ اہل النساب "بدوئین" ہی کے درمیان پائی جاتی ہے اور شہری یعنی اہل حضر اس سے محروم رہتے ہیں ۔،کیونکہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں کسی بات پر متفق نہیں ہوتے بخلاف بدوئین کے جو عصبیت کے ذریعے ایک دوسرے کی مدافعت کرتے ہیں اور ان کے اکابر و پیشوا بھی ۔ اس وقار کے لحاظ سے جو عامۃ الناس میں ان کو حاصل ہوتا ہے ان کی حمایت کرتے ہیں ان کی مدافعت اس وقت تک درست نہیں ہو سکتی جب تک وہ اہل عصبیت و اہل نسب نہ ہوں اپنے قول کی تائید میں اب خلدون نے تاریخ اسلام سے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں کیونکہ سلطنت اسلامیہ کی بنیاد دین و عصبیت پر ہے ۔


میکاولی کیا کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔امیر کا مقصد سوائے جنگ اور اس کے نظام اور ترتیب کے کچھ نہ ہونا چاہیے کیونکہ حکام کے لیے یہ ناگزیر فن ہے اس کے ذریعے موروثی بادشاہوں کی سلطنت کا تحفظ ہوتا ہے اور بعض دوسرے طبقات کے افراد کو حکام کے مرتبہ تک پہنچاتی ہے ۔ ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ایسے حکام جو فوجی و حرب تدابیر پر غور و خوض کرنے کے بجائے زیادہ تر رفاہ عام میں کوشاں رہتے ہیں بالاخر امارت کھودیتے ہیں ۔ سب سے بڑا سبب جس کی بنا پر حکام اپنی سلطنتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ان کا جنگ سے اجتناب کرنا ہے ۔ وہ اسی وقت ممالک پر قبضہ کر سکتے ہیں جبکہ وہ علوم حرب میں کافی مہارت رکھتے ہوں ۔

تاریخ ابن خلدون ، مقدمہ از جمعہ لطفی

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...