Showing posts with label Politics. Show all posts
Showing posts with label Politics. Show all posts

Monday, May 15, 2017

کیا سی پیک ن لیگ کے لیے فخر کا باعث ہے ؟

کیا سی پیک ن لیگ کے لیے فخر کا باعث ہے ؟
شہیر شجاع
پاکستان کی ترقی اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے دار ن لیگ کے سربراہ کی جانب سے سی پیک پر فخر کیا جانا بالکل بجا ہے ۔ اس میں ساتھ ہی تمام وزرائے اعلی اور ان کی پارٹی بھی مکمل حصہ دار ہے جنہوں نے اس منصوبے کو کھٹائی میں پڑنے نہیں دیا ۔۔ اپنے تحفظات ضرور پیش کرتے رہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ مگر انہوں نے اس منصوبے کو کالا باغ ڈیم جیسی صورتحال کی جانب جانے سے محفوظ رکھا ۔ یہاں تک تو سارے متفق ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا ن لیگ کو سی پیک پر حقیقتا فخر کرنا چاہیے ؟ یہ ایک غیر ملکی سرمایہ کاری ہے ۔ اور اس میں اس ملک کا سب سے زیادہ مفاد پوشیدہ ہے جو اس پر سرمایہ کاری کر رہی ہے ۔  ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے دار جماعت نے  اپنی زمین اور اس سے پیدا ہونے والے سرمائے سے لیکر زراعت ، ٹیکنالوجی ، تعلیم ، صحت و انفراسٹرکچر کو بھی مثال بنا لیتے ہیں کہ یہ ان کی پہلی ترجیح ہے ۔ کیا پاکستان کو پاکستانیوں کے لیے  پاکستانیوں کے ٹیکس اور  پردیسی پاکستانیوں کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے والوں  کے لیے کوئی پرکشش صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ؟ کیا  آج میں یہ تصور کرسکتا ہوں کہ میری آمدن جتنی بھی ہو ۔ میری اولاد کی تعلیم اور صحت  کے مسئلے میں پرسکون رہوں ؟ 
ہمارے پاس یقینا تعلیمی نظام کے بہترین ماڈلز موجود ہیں ۔ ماہرین اور تعلیم کو بنیادی ضرورت سمجھنے والے ایسے ماڈلز پیش کرتے رہتے ہیں ۔ مگر کیا وجہ ہے کہ اب تک ان حکومتوں کی بنیادی ترجیح یہ سب نہ ہوسکی ؟
آج چین سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لے ۔ ہمارے پاس کیا رہ جائے گا ؟

Sunday, August 28, 2016

ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت

ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست ۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ فی الوقت جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں ہیں وہ کوئی نہ کوئی لسانی عصبیت رکھتی ہیں سوائے  تحریک انصآف اور جماعت اسلامی کے ۔  میری اس رائے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے پر فی الحال ہمارا موضوع   ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی حرکیات یاتنظیم پر نظر ڈالنا ہے ۔  کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے ۔  اس تاثر کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ اول ان کے راہنما اپنی پارٹی کے مخلص ہیں اور پارٹی کے آئین پر آخری سانس تک چلنے والے محسوس ہوتے ہیں ۔ دوم : ایک اعلان ہوتا ہے اور کراچی سارا سمندر بن کر امڈ آتا ہے  ۔ 
کیا کبھی غور کیا گیا کہ واقعی یہ دونوں باتیں کسی بھی جماعت کو منظم کہلانے  پر دال ہیں ؟ مزید بھی ہو سکتی ہیں مگر عموما ً یہی دو عنصر ہیں جو  ذہن پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ۔  میں سمجھتا ہوں ۔ پاکستان کی سب سے زیادہ غیر منظم جماعت ایم کیو ایم ہے ۔   کیونکہ ایم کیو ایم  کا تنظیم ساز ادارہ لندن میں بیٹھا ہے ۔ وہی ساری حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے ۔ اُس ادارے  کے تابع  ایک لایعنی سا ادارہ پاکستان رابطہ کمیٹی کے نام سے قائم ہے ۔ جس کے سرکردہ راہنماوں کو کبھی ساری عوام کے سامنے مرغا بنا دیا جاتا ہے ۔ کبھی تھپڑ رسید کروائے جاتے ہیں اس طرح ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کروایا جاتا ہے کہ تم ہمارے تابع ہو اور ہمیشہ رہو گے ۔ کبھی سر اٹھانے کی کوشش نہ کرنا ۔  سو پاکستان کا یہ متابع ِلندن ادارہ   اکثر بہت سے ایسے احکامات سے بھی لاعلم رہتا ہے، جو وہاں سے  کسی بھی کارکن یا کارکنوں کے گروپ کو دیے جاتے ہیں ۔ یہ وہ گروپس ہیں جنہیں لندن والے نائن زیرو کو زیر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بہت بڑی واردات انجام دینی ہو تو جنوبی افریقہ ، دبئی ، بنکاک و دیگر ممالک میں لندن کمیٹی کے تابع فرمانبرداروں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو وہاں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اپنا کام انجام دیتے ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد نائن زیرو کو علم ہوتا ہے کہ ارے یہ تو ایم کیو ایم کے نام پر کام ہوگیا ۔ اور پھر  عجیب کیفیت کے زیر اثر نائن زیرو اس  امر پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دھبے کو دھوئے  کہ اس کے چھینٹے انہی کو ناپاک کر رہے ہوتے ہیں ۔  یقینا بہت سے امور باہمی  مشاورت سے بھی انجام پاتے ہونگے ۔
اس ساری غیر یقیینی صورتحال میں رابطہ کمیٹی پاکستان یا نائن زیرو  کس طرح سے اپنی سیاسی حرکیات کو تنظیمی طور پر   درپیش امور پر زیر استعمال لائے ۔ ؟  یہ یقینا نہایت ہی مشکل و کٹھن عمل ہے جو اب تک پاکستان رابطہ کمیٹی انجام دیتی آرہی ہے ۔  نتیجتاً بہت سے عناصر اپنے ذاتی فوائد اکھٹے کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم کو نہایت ہی محفوظ مقام سمجھ کر اس میں شامل ہوتے رہے ۔ خواہ وہ کارکن کی صورت میں ہو  ، خواہ وہ لیڈر کی صورت میں ۔ اوپر سے نیچے تک ایسے لوگ ایم کیو ایم میں  موجود ہیں جن کو مہاجر تحریک یا الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں وہ میدان میں آکر الطاف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور زیر زمین اپنے  ذاتی امور کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ کارکن سطح پر  ایک مثال دوں گا ۔ کہ شیعہ سنی لڑائی کا ایک محفوظ پلیٹ فارم ایم کیو ایم ہے ۔ جس میں ایم کیو ایم کے مختلف لیڈرز بھی شامل ہیں ۔ ایم کیو ایم کے یونٹس و سیکٹرز کو بھی تب اس بات کا علم ہوتا ہے جب ایسے کارکن پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ انکشاف ہوتا ہے یہ تو لشکر جھنگوی کے لیے کام کر رہا تھا اور فلاں تو سپاہ محمد کا کارکن تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح مالی فوائد سیمٹنے والے بہت سے عناصر کراچی  کے بدنام زمانہ علاقوں لانڈھی کورنگی ، ملیر ، کے علاقوں سے نکل کر اب کلفٹن و ڈیفینس میں کروڑوں کی پراپرٹیز کے مالک ہیں ۔  کیسی تنظیم ہے ؟ کیسا منظم سیاسی ادارہ ہے ؟ جس کے راہنما آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے ۔ محض ایک خوف کی سی  کیفیت  ہے اور چلتے چلے جا رہے ہیں ۔
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ایم کیو ایم کوئی بہت ہی منظم ادارہ ہے بلکہ یہ خو ف کا مجموعہ ہے خواہ وہ اپنے  کارکنان و ذمہ داران کے لیے ہو یا جہاں اس کا سایہ پڑ جائے ۔۔۔ اس کے باوجود   کراچی کی مہاجر عصبیت مجبور ہے ۔ بھٹو کے کوٹہ سسٹم  کے بعد مہاجروں کے پاس کوئی ایسا دروازہ نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں ۔ ان کی آواز صرف ایم کیو ایم ہی بنتی محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا مینڈیٹ اب تک کوئی اور حاصل نہ کرسکا ۔  جماعت اسلامی نے خوب ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا مگر مہاجر کے سامنے جمعیت سے نفرت کے اسباب موجود ہیں جس نے کبھی بھی مہاجروں کے دل ان کی جانب مائل نہیں  ہونے دیے۔ ایک عرصے کے بعد عمران خان  نے کراچی کا رخ کیا تو کراچی  نے ایک نئی سانس لی جس کی گرماہٹ پورے پاکستان نے محسوس کی ۔ مگر افسوس تحریک انصاف بھی کراچی کو  اپنا نا بنا سکی ۔ اور ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ ایم کیو ایم کے پاس محفوظ رہا ۔
اس سرسری خاکے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر غیب سے ریاست کی مدد ہوئی ہے ۔ اور خود ایم کیو ایم  اپنی روش تبدیل کرنے کی جانب اور اپنی سیاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب قدم بڑھانے پر مائل نظر آتی ہے  ۔مگر  ہر طرف وہی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ یہ وقت، ریاست کے  اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کو ضایع نہ کرے اور اسی ایم کیو ایم کے لوگوں کو سپورٹ کرے جنہوں نے ایک تبدیلی کی جانب اپنا پہلا قدم بڑھایا ہے ۔ یہ قدم مزید مضبوط ہو سکتا ہے ۔ اگر ان کی پیٹھ تھپتھپائی جائے ۔ انہیں سیکیورٹی کا احساس دلایا جائے ۔ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے لیے ۔  بصورت دیگر لندن والے ہاتھ دراز ہونے کے امکان ہیں ۔ انہیں کمزور کرنے کے لیے انہیں مضبوط کرنا ہوگا ۔ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی اسی روش کے ذریعے ایم کیو ایم کو ختم کردے گی تو یہ ایک سراب ہے ۔  پی ایس پی  عوام کی نظر میں ایک ہائیڈ آوٹ محسوس ہورہی ہے ۔ جس نے بھی جان بچانی ہو اس میں داخل ہوجائے ۔  ایسے منظر ناموں کے بعد کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
مینڈیٹ والی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ بہت سے بھڑکتے لاووں کو الاو دینے کے مترادف ہوگا ۔ اس کا یہی حل ہے کہ مثبت راستہ اپنایا جایے ۔ اگر یہ لوگ واقعتا سچے ہوئے تو آگے جا کر لندن سے مکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کر لینگے ۔ فی الحال ان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ ریاست انہین تحفظ کا احساس دلانے میں ناکام ہے ۔  بصورت دیگر  سچ و جھوٹ واضح ہوجائے گا ۔ اور یہ اپنی موت آپ ہی مرجائیں گے ۔ یہ ویسا ہی احساس ہے جو ہم میں جاگ رہا ہے ۔ ہم اب کراچی کو صحت مند سیاسی جماعتوں  کے میدان کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

Tuesday, August 23, 2016

مسئلہ ایم کیو ایم

مسئلہ ایم کیو ایم

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. 

ملک میں مجھ کو ذلِیل و خوار رہنے دیجئے 
آپ اپنی عزّتِ دربار رہنے دیجئے 

اکبر 

ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمماضی میں اپنے کو قید کرلیتے ہیں ۔ آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔ ایم کیو ایم نے جس وقت اپنی آواز بلند کی اس وقت یقینا ً ایک ایسی آواز کی شدید ضرورت تھی ۔ جسے پذیرائی بھی ملی اور نوجوان بچے بڑے بوڑھوں نے جوق در جوق اس آواز پر لبیک کہا ۔ الطاف حسین صاحب کو اپنا راہنما تسلیم ہی نہیں دل و جان سے عزیز بنایا ۔ ان کی ایک آواز اٹھتی اور مرد و خواتین ، غرض ہر طبقے کے مہاجر گھر سے نکل آتے ۔ بلکہ آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان کو اپنا راہنما کم پیر مانتی ہے ۔ لیکن الطاف حسین نے اس ملک کے سب سے زیادہ مہذب و تعلیم یافتہ طبقے کو کیا دیا ؟ 
زوال اور صرف زوال ۔۔
جو کہ مسلسل جاری ہے ۔۔۔ اسی کی دھائی میں ان کے تعصبانہ نعرے قابل قبول اور حقیقت بر مبنی تھے ۔ مگر اب دو ہزار سولہ ہے ۔ اور حضرت بیس سال سے بھی زائد عرصہ ہوا پاکستان سے باہر ہیں اس دوران زمینی حقائق بہت زیادہ تبدیل ہوئے ہیں جس کا حضرت کو ادراک شاید بالکل نہیں ، اور اس کا اظہار وہ وقتا فوقتا اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں ۔ راہنما اپنی قوم کو تہذیب دیتا ہے مگر یہاں تو انہوں نے تہذیب کو ہی الوداع کہہ دیا اور اپنے چاہنے والوں کو ایک ایسے سراب میں ڈالے رکھا جہاں سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ بہترین اذہان ان کے مصاحبین میں شامل ہیں ان کی تنظیم کو خوش اسلوبی سے منظم رکھے ہوئے ہیں جن میں اکثر کا کردار خصوصا کراچی کی سیاست میں اچھے حروف میں یاد کیا جانے کے قابل ہے ۔ مگر الطاف حسین صاحب کی بصیرت اب تک اسی کی دھائی میں قید تنہائی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ جس کا خمیازہ مہاجروں کے سپوت بھگت رہے ہیں ۔ انہیں وطن دشمن عناصر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ان کی " پیشوائی " کے اب تک قائم رہنے میں صرف ان کے جان نثار کارکنوں کا ہی ہاتھ ہے جو ہمہ وقت ان کے ایک اشارے پر جان لینے اور جان دینے پر تیار رہے ۔ اور رہتے ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ تین دھائیاں گزرنے کے باوجود ارتقائی منازل نہ طے کرسکے ؟ اور اپنی قوم کو مسلسل آگ و خون ، نفرت و بے چارگی کی دلدل میں دھنساتے رہے ۔ یہاں تک کہ ایک پوری نسل کو برباد کر کے چھوڑا ۔ 
اس جماعت کے کارکن نہ جیالے ہیں نہ شیر نہ ٹائیگرز ۔۔۔ یہ باشعور اور بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔اس کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ الطاف حسین صاحب کی اس قدر ہٹ دھرمیوں ، غلطیوں ، کوتاہیوں کے باوجود اس تنظیم کو منظم رکھنا اور عوام کے ساتھ مکمل رابطے میں رہنا ، خدمت میں بھی کسی سے کم نہ ہونا ۔ 
میں منفی پہلووں کی بات نہیں کروں گا کیونکہ جو منفی پہلو مثلا دہشت گردی ، جس زمرے میں خون ریزی و بھتہ خوری کو لے لیں ۔۔۔ یہ دہشت گردی ہر جماعت میں موجود ہے ۔ ن لیگ کی پولیس گردی ، اور گلو بٹیں تو سامنے ہیں ۔ اور بھتے کی جگہ یہ سرمایہ داروں سے فنڈز لیکر ہم پر ٹیکس کی صورت میں بھتہ لے رہے ہیں ۔۔ پیپلز پارٹی کی کراچی میں امن کمیٹی زائد ہے ۔۔ اے این پی ، سے لیکر جماعت اسلامی کی شباب ملی ۔۔ کونسی جماعت ہے جس کو دہشت گردی کی صف سے باہر رکھا جا سکے ؟ ایم کیو ایم کا مسئلہ الطاف حسین صاحب کا طرز سیاست ہے ۔ ایم کیو ایم کے ان تمام کارکنوں ، عہدیداروں کو چاہیے لندن رابطہ کمیٹی سے برات کا اظہار کریں اور ملک میں اپنی تنظیم کو از سر نو تشکیل دیں ۔۔۔ اس جماعت پر اگر پابندی لگتی کے تو کم از کم کراچی کی سیاست کو بہت نقصان پہنچے گا ۔ ایجنسیوں کی کٹھ پتلیاں ، پاک سرزمین پارٹی و ایم کیو ایم حقیقی آپس میں خون ریزی شروع کردیں گی ۔ حقیقی نے تو ویسے ہے اپنے علاقوں کا سکون خراب کررکھا ہے ۔ کراچی کا باشندہ ہونے کے ناطے اس وقت کراچی کو دو جماعتیں اون کرتی ہیں ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اور ان دونوں جماعتوں کا حقیقی سیاست میں ہونا اہم ہ ۔ بشرطیکہ ایم کیوایم کی تشکیل نو ہو اور وہ ماضی کی سیاست سے باہر نکلیں ۔

Wednesday, April 13, 2016

امارت و تجارت اور ہماری ذہنی اپج



صرف اتنا ہی جان لینا میرے لیے کافی ہے کہ یہ تاجر ہیں ۔۔۔ اور امارت و تجارت کا آپس میں میل جول نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ تاجر ہمیشہ اپنے سرمایے کا مفاد سب سے مقدم رکھے گا ۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ امیر کے لیے اس کی جمعیت کا مفاد مقدم ہوگا ۔۔۔۔  ۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔ امیر اور عام کی تفریق میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے ۔۔۔۔ ایک ہی عمل کسی عام شخص کی نسبت برا نہ مانا جاتا ہو ۔۔۔ لیکن وہی عمل امیر ۔۔۔ کی نسبت بہت معنی رکھتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک پوری قوم کی رائنمائی کا دعویدار ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ ایک بہت بڑی جمعیت کے نمائندے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یعنی سفیر السفراء ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو وہ مقام ہے جہاں ساری جمعیت اپنے حق میں بہتر فیصلے کرنے کے لیے اس پر اعتماد کرتی ہے ۔۔۔۔۔ سو جمعیت کے افراد گناہ گار بھی ہونگے تو عام بات ہوگی ۔۔۔۔ مگر گناہ اگر امیر سے سرزد ہوجائے تو بلاشبہ یہ عام بات نہیں کہلائے گی ۔۔۔۔۔

Saturday, March 12, 2016

مصطفی کمال کی آمد

مصطفی کمال کی آمد 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے پنجاب میں اپنے پنجے گاڑنے کی سر توڑ کوشش کی ۔۔۔۔ اسٹریٹیجی ان کی " میاں صاحب" کی ذات کو نشانہ بنانا رہی ۔۔۔۔ جس بنا پر وہ ہنجے کیا جماتے ۔۔۔ مزید نفرتوں کو پروان چڑھا گئے ۔۔۔
اور اب اسی اسٹریٹیجی کے ساتھ " مصطفی کمال " صاحب میدان میں آئے ہیں ۔۔۔ دعوی یہ ہے کہ ۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی انکھیں کھولیں گے ۔۔۔
سیاسی اسٹریٹیجی کے بنانے میں سب سے اہم ۔۔۔ سماج کا مطالعہ ہے ۔۔۔۔ جو کہ ہمارے کسی سیاستدان میں نظر نہیں آتا ۔۔۔
اگر اسی طرح ایک " معتقد " سماج میں ۔۔۔ اپنے مخالف کی ذات کو ٹارگٹ کرکے کامیابی کے خواب دیکھنے ہیں تو ۔۔۔ انہیں پہلے سے پیشتر واپس چلے جانا چاہیے ۔۔۔۔ کیونکہ اس طرح سے تفریق در تفریق تو جنم لے سکتی ہے ۔۔۔۔ مگر تعمیر نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔
مزید یہ کہ ۔۔۔۔ وسیم آٖتاب صاحب نے جو پریس کانفرنس کی ۔۔۔ اگر وہی اس نئی جماعت کا بیانیہ ہو جائے تو ۔۔۔ پاکستان کو بہترین راہنما میسر آسکتے ہیں خصوصا ۔۔۔ اردو بولنےوالوں کو ۔۔ 

Tuesday, July 7, 2015

پاکستان کے دانشور




پاکستان  کے دانشور

محمد شہیر شجاع

کم و بیش ستر سال سے ۔۔۔ اس سرزمین کو  ۔۔   ادھیڑنے ۔ کھرونچنے  ، اس کی افادیت کو تباہ کرنے میں   سر فہرست ۔ دو کردار  رہے ہیں ۔۔ ایک مذہبی ، دوسرے سیاسی ۔
اور معاشرے کے یہ ہر وہ دو عنصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کی اساس ہوتے ہیں ۔  اسلام تو آیاتھا ۔ دین و دنیا کو ایک کرنے ۔     جس کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے ۔ جن کی  حیات مبارکہ کا ایک ایک گوشہ ہمارے لیے راہ نجات ہے ۔ پر طے یہ پایا گیا ہے کہ ۔ وہ انسان کا نجی معاملہ ہے ۔ معاشرے کی تخلیق میں  انفرادی کردار  ۔ چہ معنی دارد ؟   فرد سے تو کچھ بھی نہیں ۔ جب تک جماعت نہ ہو ۔ اور اس کا یک امیر نہ ہو ۔ اور اس جماعت کے پاس ایک نظام نہ ہو ۔ وہ جماعت کیسے  آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکتی ہے  ۔
جب دین و دنیا کو  الگ کردیا گیا ۔ اور اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ۔ علی الاعلان دین و دنیا کے ایک ہونے  کے نظریے رکھنے والوں کو ۔  اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔  جماعت  نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ۔  ایک جماعت نے  دین و دنیا کی فلاح کی ذمہ داری سنبھال لی  ۔
دوسری جماعت نے  دنیا   میں فلاح   لانے کے  لیے اپنے آپ کو سیاست کا  پہلوان کہا اور دین کو جدا کردیا ۔
اب جب دونوں  جماعتوں کا سرسری جائزہ لیا جاتا ہے تو  نظر آتا ہے ۔۔  دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرارہی ہیں ۔ کہ معاشرے کی تباہی میں  کس کا کردار زیادہ اہم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اربوں کھربوں  کی کرپشن ۔ لوٹ مار اہل سیاست کریں ، غنڈہ گردی  وہ کریں ،  عدل  کے ہاتھ پیر وہ توڑیں ، معاشرے  میں انصاف کو امیروں کی لونڈی بنادیں ۔۔۔۔
اور پھر تمنا کریں کہ ۔۔ وہ سرزمین ۔ پر امن ، شادباد ہو ؟ ۔۔۔۔۔
اور الزام دھردیں  اس جماعت پر جس  نے گرتے پڑتے  دین  کو سنبھالا دیا ہوا ہے ۔ بیشک ان  میں بھی اصلاحات کی ضرورت  ہیں ،  ان  میں بھی  ارتقائی  تبدیلیاں ناگزیر  ہیں ۔ بیشک  اس جماعت میں بھی  ہر قسم کے لوگ موجود ہونگے ۔  مگر  ہم نے کسی بھی سطح پر کسی بھی محمکے ، طبقے یا صنف پر کبھی کوئی توجہ دی ہے جو  اس جماعت کو  جب جی میں آئے  الزام دھر دیتے ہیں ۔  دہشت گرد ، دہشت گرد ہوتا ہے ۔  خواہ وہ  مذہبی و  نظری ۔۔۔ اور ان کے بنانے واے  ، یہ اہل سیاست اور وہ دانشور  ہیں ۔ جو دین کو دنیا  سے جدا سمجھتے ہیں ۔

Friday, April 24, 2015

یہ جھانسے یہ تیرے پر اسرار طریقے





شدید مزاحمت کے بعد ۔۔۔۔۔ نواز حکومت   اپنے پیروں پ رکھڑے ہونے کے قابل ہوئی ۔۔ اور ساتھ ہی ۔ اس کی گردن  کا کالر اونچا ہوگیا ۔ جس سے غرور و تکبر  یوں جھلکتا ہے جیسے  دنیا بس اب ان کی مٹھی میں ہے ۔  چائینا   کی پاکستان  سے دوستی یقینا بیمثال ہے ۔۔  شاید  مستحکم پاکستان ۔۔ کیلیے  پاکستان کے سیاستدان اتنے سنجیدہ نہیں جتنا چائینا سنجیدہ ہے ۔ جس کا عملی نمونہ ۔۔ شاندار کروڑوں ڈالرز کا منصوبہ ہے ۔ 
بیشک اپوزیشن کی سخت مزاحمت سہنے کے بعد حکومت وقت کو اندازہ تو ہوگیا ہے کہ اس نے اگر اب کچھ نہیں کیا تو  عوام اسے معاف نہیں کرے گی ۔ اور بہت سے بہترین کام دیکھنے میں آرہے ہیں ۔ جیسے بجلی کے اداروں کی گرفت ۔  شاید سب سے  بہترین عمل ہے ۔ 
حکومت کے اچھے کاموں کو سراہا جانا ضروری ہے ۔۔ جو کہ میڈیا  کے طرز میں شامل نہیں ۔۔۔
لیکن کیا ۔۔ پاکستان میں یہ تمام اچھے کام ۔۔ انصاف نافذ کیے بنا ۔۔۔ تکمیل یا دیر پا ثابت ہو سکتے ہیں ؟
اداروں کو ٹھیک کرنے کا عمل کہیں نظر نہیں آتا ۔۔۔۔  صرف بجلی کے ادارے کی گرفت ہوئی ہے ۔  لیکن اس ادارے کو درست کرنے کا بھی کوئی طریقہ سامنے نہیں آیا ۔۔  یقینا کل ایک مرتبہ پھر یہ ادارہ عوام کو واپس کیے گئے پیسوں کو سود سمیت  واپس لے لے گا ۔ ہم تو وہ عوام ہیں جہیں علم ہی نہیں ہوا کہ بجلی کے بل کی مد میں ہم کھربوں روپے دان کر چکے ۔
حکومت وقت  سینہ اونچا کر کے  اپنی سیاسی فتح  کا جشن منا لے ۔۔۔ شاید الیکشن در الیکشن اسی بل بوتے پر یہ اقتدار کی کرسی حاصل کرتے جائیں ۔۔  یہ عام آدمی کے حقوق کا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی ۔۔۔ پاکستان کو مستحکم کرنے کا خواب دکھا دکھا کر نہ جانے اور کتنے سال اقتدار سےے جڑی رہے ۔ کیونکہ ہمیں سڑکوں اور قیمتوں کے جھانسے میں رہتے ہیں ۔ ہمیں شاید خود اپنے حقوق کا اندازہ نہیں ہے۔

شہیر شجاع 

Saturday, April 18, 2015

عمران خان کیوں پسند ہے ؟




دو قومی نظریہ کیا تھا ؟ یا کیوں تھا ؟  ۔۔۔۔۔۔ اس میں پاکستان میں ہی دو  باہم مخالف   نظریے کے حامل بستے ہیں ۔   دو قومی نظریے کے وجود سے تو انکار نہیں کر سکتے پر ۔ معانی  میں تضاد نکال لیا جاتا ہے ۔   
مجھے تعجب ہوتا ہے ۔ یہ بات مولانا آزاد  جیسے مدبر  کی سمجھ میں کیوں نہ آئی ۔؟ ۔۔۔ یا اس وقت بھی ہپناٹزم عروج پر تھا ۔۔ اور مولانا نہرو کے زیر قبضہ تھے  ؟؟ J
دو قومی نظریہ   حقیقتا  ہندو مسلم قوموں  کو دو مختلف  قوموں  میں بانٹنا نہیں تھا ۔ کیونکہ پاکستان بننے کے بعد  یہاں بھی مختلف قوموں نے بسنا تھا ۔ پھر کیونکر یہ مطالبہ  با وزن ہو سکتا تھا ؟ 
اصل میں سیکولر ازم کی آڑ میں   جو ہندو پلان تھا ۔  بیشک  جس سے گاندھی جی بری الذمہ ہیں ۔ یہی وجہ تھی کہ  بھارت کے آزاد ہوتے ہی ۔ ہندو کی گولی نے ان کو سورگ پہنچا دیا ۔ 
اس  پلان سے مسلمانوں کا تحفظ حاصل کرنا تھا ۔  جس  کے  ساتھ  ساتھ ۔۔ دنیا میں مسلمان  ایک اسلامی ریاست قائم کر کے   طرز جمہوریت  کے حقیقی معنی  اور  تمام نظاموں  میں سب سے اعلی نظام مساوات   جو کہ اسلام دیتا ہے ۔ اس سے دنیا کو روشناس کراتے ۔
لیکن  اس خطے کے مسلمانوں کو ابھی سالہاسال ۔۔ آزمائشوں میں رہنا تھا ۔ خواہ وہ سرحد کے کسی بھی جانب بستے ہوں ۔  پاکستان  جو کہ زمین کا ایک چھوٹا سا بنجر ٹکڑا تھا ۔ جس کو شروع دن سے کھرونچتے  ۔ چیرتے پھاڑتے ، انسانوں  کے خون کی قیمت ارزاں کرتے ، انصآف کا نام و نشان مٹاتے ۔ اس سر زمین  کو بھی مٹا ڈالنے کی کوششیں جاری رہی ۔ اور جاری ہیں ۔ اس کے باوجود  اس خطے کے لوگوں نے   اپنے آپ کو دنیا  کے سامنے ایک قوۃ کے طور پر منوایا ۔ یہی وجہ ہے کہ  ہر طرف سے ہمیشہ سے دشمنوں کے نرغے میں ہے ۔ نظریاتی و طبعی ۔۔ ہر قسم  کے وار سہتا آرہا ہے ۔
لیکن اب تک اپنے وجودی نظریے پر قائم و دائم ہے ۔۔۔
ہاں بات عمران خان کی کرنی تھی ۔ اس تمہید کو باندھنے کی وجہ  عمران خان ہی تھا ۔ جو  اپنی جوانی میں " کاو بوائے " مشہور تھا ۔ ایک رئیس یہود زادی کو " اسلام " کے دائرے  مین لاکر شادی کرتا ہے ۔  جس کی زندگی شاید عیاشیوں  کو  کی داستاں ہو ۔  جو کتا پالتا ہے ۔ جس  کے جلسوں اور دھرنوں میں   برگر مرد و خواتین  تھرک رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ اس سے جب سوال کیا جاتا ہے ۔ کہ ریاست   کا مذہب ہونا چاہیے یا نہیں ؟
تو وہ  بے باک شخص ۔ دو ٹوک کہتا ہے ۔
" میں سیکولر نہیں ہوں " ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ میری سیاسی آئیڈیولوجی  قائد اعظم رحمہ اللہ   کی آئڈیولوجی ہے ۔ 
جس پر کہا جاتا ہے کہ لوگ کہتے ہیں  کہ قائد تو ۔۔ سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے ۔ ؟
جس پر جواب آتا ہے ۔۔ لوگوں ک وغلط فہمی ہے ۔۔ وہ قائد کو پھر سمجھتے ہی نہیں تھے یا وہ اسلام کو ہی نہیں سمجھتے ۔ اسلام ہی تو ۔۔۔ نظام مساوات ہے ۔۔ جس میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان  ویک نمبر یا دو نمبر شہری نہیں بلکہ ہر شہری   برابر کے حقوق رکھتا ہے ۔۔ جس نظام میں ۔ عمر رضی اللہ عنہ جیسے خلیفہ سے سرعام کوئی بھی عام آدمی پوچھ سکتا ہے کہ ۔۔ " اے عمر  ! یہ کپڑے جو تو نے پہنے ہیں ۔ کہاں سے آئے ؟ ۔۔۔  میں تو اس نظام کا حامی ہوں ۔۔ اور اسی نظام کو قائم کرنے کی جدو جہد مین مصروف ہوں ۔
جی ہاں یہ وہ عمران خان ہے ۔ جو ہر دوسری بات میں قرآن و حدیث کے حوالے سے بات کرتا ہے ۔ مغرب  کی تاریخ سے لیکر اسلامی تاریخ  کا علم رکھتا ہے ۔  جی ہاں شاید یہی ایک لیڈر ہے ۔۔۔ جو تعلیم یافتہ ہے ۔  جو تعلیم  اور انصآف کو عام کرنا چاہتا ہے ۔
اس  کے اس جذبے اور اس شخصیت کے ہوتے ۔۔۔ سو جرم کیوں نہ معاف کروں ؟  جب تک کے اس کو ایک موقع نہ دے دیا جائے ؟

Monday, February 9, 2015

سیاست و ادارے ۔۔۔ اور ہم کراچی والے ۔۔۔۔



شہیر شجاع 

مخالفت ۔۔۔۔۔۔ مخالفت ۔۔۔ مفاہمت ۔۔۔۔۔۔ اور پھر مخالفت ۔۔ اور پھر مفاہمت ۔۔۔۔۔ یہ ہماری سیاسی جماعتوں ۔۔۔ اور ہمارے " راہنماوں " کی خاصیت ہے ۔۔۔۔۔ جہاں مخالفت کی ضرورت پیش آئی ۔۔۔ دھڑلے سے ۔۔۔۔۔ چھوٹے بڑے کھٹے میٹھے ۔۔۔ تلخ و شیریں جملوں کو ۔۔۔۔۔ میڈیا کے سامنے پیش کر دیا ۔۔۔۔۔۔ مخالف کو گر بات بری لگی ۔۔۔۔ تو اس نے ۔۔۔ ان کے جواب میں ۔۔۔۔ جملوں کے بجائے ۔۔ الزامات کی بوچھاڑ کر دی ۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔۔۔ لیکن ہم ۔۔ جنہیں رہنما مانتے ہیں ۔۔ اور اپنے آج اور کل کی ذمہ داری سونپ کر ۔۔۔ ان کی باتوں ۔۔ قراردادوں ۔۔ و ۔۔۔ نعروں کے جواب مین ۔۔۔۔۔۔۔۔ خون کا آخری قطرہ تک پہادینے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ ہمارے وہ راہنما ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے عزم کو۔۔۔۔ اپنی ۔۔ مخالفت ۔۔ و مفاہمت کی آڑ میں ۔۔۔ عملی جامہ پہناتے رہتے ہیں...۔۔۔۔
ایم کیو ایم ۔۔۔۔۔ اور جماعت اسلامی ۔۔۔۔ یہ دو جماعتیں ۔۔۔۔ کراچی کی بڑی جماعتیں ہیں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔ عسکری ونگز ہیں ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ تلخ الزامات کی بوچھاڑ لگی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں جماعتیں ۔۔۔۔ اپنے اپنے چند سالہ دور اقتدار ۔۔ جو کہ بلدیاتی اقتدار کے طور پر سامنے آیا ۔۔۔۔ کراچی کو ۔۔۔ موریشئیس و ۔۔ نہ جانے دنیا کی کون کون سے مدائن سے ۔۔۔ تشبیہہ دینے کی کوشش کر چکی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس نہ ہوسکا ان سے تو ۔۔ امن قائم نہ ہوسکا ۔۔۔۔ کراچی سے تعصب کا خاتمہ نہ ہوسکا ۔۔۔۔۔۔ جس شہر نے ۔۔۔۔ مختلف تہذیبوں کو سینے سے لگایا ۔۔۔۔۔۔ اس کو یکجا ۔۔ ایک جان نہ کر سکے ۔۔۔۔ دونوں اس شہر کے خادم اور اصل ہونے کے دعویدار ہیں ۔۔۔حقوق کی جدو جہد میں ۔۔۔۔۔ حقوق ہی سلب ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔ انسانی خون قصبہ خانے میں بہتے خون کی طرح بہا ہے ۔۔۔۔ ہم کس پر یقین کریں اور کس پر نہ کریں  ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ تو ہماری سیاست کا پہلا سبق ہے ۔۔۔ اور دوسرا سبق ۔۔۔ جان کی کوئی قیمت نہیں ۔۔۔۔
اب الطاف حسین اور اس کی جماعت پر ایک الزام لگا ہے ۔۔۔۔۔ انسانیت سوز الزام ۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں ۔۔ سینکڑوں جانوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔۔۔ اس کی حقیقت سے جب ادارے واقف تھے ۔۔۔ تو پھر اتنے عرصے ۔۔۔ الطاف حسین کی تقریر کا انتظار تھا؟
۔۔۔ کہ جہاں مخالفت ہوگی ۔۔ وہاں ۔۔۔ اس انسانیت سوز واقعے کو ۔۔ مفاہمت کے لیے استعمال کیا جائے گا ؟ ۔۔۔۔۔ ۔۔

تو کیا ہم اب بھی ۔۔۔ ان جماعتوں اور اداروں کو اپنے حقوق ۔۔ جان و مال کا محافظ سمجھ کر ۔۔۔۔ ان کے شطرنج کے پیادے ہی بن کر رہ جائیں؟؟
جہاں ۔۔۔ ہماری پسند ہو ۔۔۔ وہاں ۔۔۔۔ بڑھ چڑھ کر زندہ باد کے نعرے ماریں ۔۔ اور جہاں ۔۔ ناپسند ہو ۔۔ وہاں مردہ باد کے نعروں سے اپنا سینہ چیریں ؟  ؟؟

ہم تو اس جلتے شہر کے باسی ہیں ۔۔۔ جہاں ہمیں سمندر برد ہوجانے کے مشورے سے نوازا جاتا ہے ۔۔۔ اور جب سمندر برد ہوجانے کے بجائے ۔۔۔۔ اس شہر کا باشندہ ۔۔۔ اپنے حق کی آواز اٹھاتا ہے ۔۔ تو وہ ۔۔ مہاجر ، پٹھان ، بلوچی ، سرائیکی ، ہزاروی ،، اور نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جاتا ہے ۔۔۔۔
ہم ڈرتے نہیں ہیں ۔۔۔۔ بلکہ ان راہنماوں اور ۔۔۔ اداروں کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں ۔۔۔۔۔ اسی لیے اب ان سیاسی بھیڑیوں کے دوسرے بھیڑیوں پر الزامات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...