Monday, August 4, 2014

مسلمانان عالم



شہیر شجاع

اسرائیل جس نے زمین غصب کر کے ایک خطے سے پوری قوم کو یرغمال بنا یا ۔۔۔ اس قدر ترقی کی کہ ۔۔۔۔ آج دنیا کا ہر شعبہ اس کی دسترس میں ہے ۔۔۔ جب چاہے جیسے چاہے ۔۔۔ اپنی برتری ثابت کرنے میں پیش پیش رہتا ہے ۔۔۔ اور ایک طرف ہم ہیں ۔۔۔ جس کی ترقی صرف اتنی ہے کہ اسلامی بینکنگ کے نظام کو ہم اب تک ہضم نہ کر پائے ۔۔ جبکہ طول و عرض میں پھیلے ترقی یافتہ سمندر کو کیسے عبور کریں اور اس پر اپنی دھاک بٹھائیں ۔۔ یہ سوچ نہ جانے کیوں ناپید ہے ۔۔۔۔ ہر بینک نیو یارک کی لونڈی ہے ۔۔۔ میرا ہر پیسہ نیو یارک جاتا ہے ان کی منظوری کے بغیر اس پیسے کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔۔ یہ کیسا طوق ہے جس سے ہر صاحب بصیرت صرف نظر کیے ہوئے ہے۔۔۔۔

قصہ درد

شہیر شجاع

ایک زمانہ تھا ۔۔۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی اقتداء میں ۔۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے رفعہ یدین فرمایا جبکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ترک رفع یدین فرمایا ۔۔۔۔۔۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تصوف کے خلاف گئے جبکہ جنید بغدادی رحمہ ۔۔ تصوف کے امام کہلائے ۔۔۔۔۔ ان تمام حضرات کی ساری زندگی اٹھا کر دیکھ لیں ۔۔۔ ان میں سوائے علمی اختلافات کے ۔۔۔۔تعلقات باہم احترام و عقیدت کے تھے....
ہم توان حضرات کے مقتدی و مقلدین ہیں ۔۔۔ کیا واقعی ؟   

آج تو اس پائے کے یا ان کے آس پاس کے درجے کے علماء بھی نظر نہیں آتے ۔۔ لیکن چند ایک ضرور   ہیں جو مسلسل علمی ریسرچ میں مشغول ہیں ۔۔ اور عوام الناس کو ۔۔ صہیونی و نصرانی نظام سے اسلامی نظام کی طرف مائل کرنے پر مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔۔۔۔
چلیں ان کے کام میں کمی ہوسکتی ہے ۔۔۔ اگر ایسا ہو تو ان سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے اور اس اختلاف کو خالصتا علمی انداز میں مدلل عوام کے سامنے لانا چاہیے ۔۔۔ لیکن ۔۔ محض فتوی سازی علماء کا پیشہ نہیں ہے ۔۔۔ علماء ذمہ دار ہیں اس معاشرے کی ضروریات و مشکلات کا حل تلاش کرنے کے  ...

کیا واقعی ۔۔ علماء اپنے فرائض سے آگاہ ہیں ؟ کیا وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام نہیں لے رہے ؟ ۔۔ کیا وہ خود ٹھنڈی ٹھار گاڑیوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر محض فتوی سازی کے علاوہ ۔۔۔ اب تک کونسا علمی کام سامنے لے کر آئے ہیں ؟؟؟ جس سے عالم اسلام کو اس فرسودہ نظام نصاری کے چنگل سے آزادی کی کوئی نوید نظر آتی ہو ؟...
اہل حدیث ، بریلوی ، غامدی ۔۔۔ یہ سب تو اپنے کاموں میں جتے ہوئے ہیں ۔۔ ہمارا کام ان کی سرکوبی نہیں تھا ۔۔ ہمارا کام عوام کو صحیح علم سے آشنا کرانا تھا ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک طبقہ علماء کا گزرا ہے اور ان کی تقلید میں آج بھی چند ایک علماء اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہیں ۔۔ لیکن ایک بڑی تعداد ہےجن کو ہمارے معاشرے میں ایک مقام میسر ہے ۔۔ مگر ان کا کوئی کارنامہ ہمارے سامنے نہیں  ....

ہر سال ہزاروں کی تعداد میں مدارس سے علماء فارغ التحصیل کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ۔۔۔ اور میں معاشرے میں ان کے کردار کی تلاش میں سرگرداں اپنے خیالات کے گھوڑے دوڑاتا ہوں تو ۔۔۔ وائے ناکامی ۔۔ کہنے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا...


جبکہ دوسری طرف ۔۔۔۔۔ ہماری یونیورسٹیز ہیں ۔۔۔۔ جہاں ڈگری مقصد ہے ۔۔۔ اور منزل اچھی نوکری ۔۔۔  وائٹ کالر نوکری ۔۔  چند کامیاب ہوتے ہیں چند ناکام ۔۔۔ لیکن کیا علم کا حق ادا ہوا ؟ ۔۔۔۔۔ ایک طرف اسرائیل ہے ۔۔ جو زمین کے ایک چھوٹے سے خطے میں قابض ہو کر ۔۔ دنیا کی تمام تر اعلی صلاحیتوں کا مالک ہے ۔۔ اور مسلسل آگے ہی بڑھ رہا ہے ۔۔۔ دنیا کے تقریبا تمام ممالک اس کے کسٹمرز اور کلائینٹس ہیں ۔۔۔ اور ہم ہیں کہ۔۔۔
سوائے یہ کہنے کہ ۔۔ یونی لیور ۔،۔۔ نیسلے وغیرہ کا بائیکاٹ کرو ۔۔۔۔ کے علاوہ کچھ نہیں کرتے  ۔۔۔

علماء کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی نہیں ہے ۔۔ لیکن ہماری عصری یونیورسٹیز نے ۔۔ یونی لیور و نیسلے و دیگر کا کونسا توڑ مسلم امہ کے سامنے پیش کر دیا  ؟؟؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...