Sunday, August 22, 2021

ہراسانی کیسے ختم ہو

  ہماری ذہنی ساخت ہی مکمل طور پر مجرمانہ ہوچکی ہے ہم جرم کو جرم نہیں سمجھتے بلکہ فخریہ بیان کرتے ہیں یہ بھی ایک درست تجزیہ ہے ۔ مگر اس میں ایک خامی ہے ۔ جنس کا تعلق شہوات سے ہے اور محض قوانین سے نہیں روکا جا سکتا اس کے لیے ایک طویل المدت پالیسی درکار ہے جو اس نسل کو نہیں تبدیل کرسکتی مگر آئیندہ نسل میں جا کر یہ تبدیلی نظر آنے کے امکانات ہیں ۔ وہ تعلیمی نظام سے لیکر نکاح کے رواج تک کے تمام مراحل پر مشتمل ہوسکتا ہے ۔ جس میں پرہیزگاری کی اہمیت زیادہ ہے اور یہی تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے ۔

ہراسانی ۔ مغربی کلچر بمٓقابلہ مشرقی کلچر

 مغرب میں جنسی ہراسانی نہیں ہوتی کا ایک  زاویہ  اوربھی ہے ۔ وہاں حیا کا معیار مختلف ہے ۔ وہاں کسی لڑکی پر آواز کس دیں تو وہ مائنڈ نہیں کرے گی ۔ رستے میں روک کر اس سے ہنسی مذاق کریں تو بھی شاید اس کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہو ۔ جبکہ ہمارے ہاں حیا کا معیار بلند ہے ۔ یہاں رستہ بھی پوچھنا ہو تو ہم مردوں کا انتخاب کریں گے ۔ سو یہ ہمارے معاشرے کی مثبت بات ہے اور اسی کو معیار بنا کر جنسی ہراسانی پر ہمیں کہانیان سنائی جاتی ہیں ۔ جبکہ ان سب کے باوجودمغربی ماحول میں زیادہ زنا بالجبر اور جنسی ہراسانی کے کیس سامنے آتے ہیں جیسے “ می ٹو “ کی تحریک وہیں چلتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔


Dil or Qalb

 دل اور قلب

شہیر شجاع

ہم اکثر کہا کرتے ہیں “میرا دل کھانے کا کر رہا ہے ، یا میرا دل چاہ رہا ہے ، یا میرا دل خراب ہورہا ہے ۔۔۔۔یا “ اس “ پہ میرا دل آگیا ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ “ ۔ درحقیقت اس چاہنے کا یا مائل ہونے کا تعلق دل سے نہیں طبیعت سے ہے ۔ طبیعت مائل ہوتی ہے کچھ کھانے کی جانب ، کچھ کرنے نہ کرنے کی جانب ، کہیں گھومنے پھرنے کی جانب ، کسی کو مارنے نہ مارنے کی جانب ، کچھ حاصل و ترک کی جانب ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ طبیعت ہے جو خواہش ابھرنے کا سبب ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں طبیعت نفس کا حصہ ہے ۔ قلب تو کچھ اور ہی شے ہے ۔

Tuesday, August 3, 2021

Divide and Rule

 

آئی جی پولیس افضل شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا ، دو پلاٹ اپنی بیگم ، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے ۔ یہ وہ پلاٹس ہیں جو پولیس شہداء کے خاندانوں کی ملکیت ہونے تھے یا ان سے متعلق تھے ۔ ان پلاٹس پہ شوکت عزیز  کا نام بھی ہے ۔ اور بھی کئی نام جو کل رؤوف کلاسرہ نے اپنے کالم میں ذکر کیا ۔

ایک جانب ہم اپنے اقدار و تہذیب کی بات کرتے ہیں ، مساوات کی بات کرتے ہیں ، مرد و عورت کے درمیان مقابلہ بازی کرتے ہیں ، خصوصا وہ پسا ہوا طبقہ جو پاکستان کاسب سے بڑا طبقہ ہوگا  جس کو مکمل غذا  بھی میسر نہیں  ہوتی، نہ یہ نظام تعلیم اسے کوئی مقصد زندگی فراہم کرسکا ہے ،سوائے اس کے کہ ڈگری لو اور نوکری(غلامی) تلاش کرو ۔ بابووں کے پیر پکڑو ۔ سفارشیں تلاش کرو ۔ ایک ایسا نظام زندگی اس زمین کے لوگوں کو مہیا کیا گیا ہے جہاں وہ  جھوٹے تصورات  یا زعم میں جی رہے ہیں ۔ وہ بیک وقت احساس کمتری ، خود ترسی  کا بھی شکار ہیں اور یہ زعم بھی پال رکھا ہے کہ ان سے برتر کوئی نہیں ۔ زعم دانش سے لیکر پارسائی تک  ، ایسا کیا ہے جو ہمارے جسموں میں خون بن کر نہ دوڑ رہا ہو ۔ ایسے میں جب اس طبقے سے کوئی اوپر پہنچتا ہے تووہ جہاں بھی پنیر بٹ رہی ہو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا چھینتا ہے یا چراتا ہے ۔ 

پھر یہ اشرافیہ جن کا بچہ جو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتا ہے وہ بھی کیوں اس دوڑ میں صف اول میں جگہ بناتا ہے ؟ برانڈڈ اسکولوں میں پڑھ کر ، برانڈڈ طرز زندگی جی کر جب وہ "سول سرونٹ" یا بااختیار ہوتا ہے تو "بابو" بن جاتا ہے اور اسے آس پاس کی بستیوں سے گھن آنے لگتی ہے ۔ اس کو صبح چائے پلانے والے " چاچا خیر دین " ، ان کو اس سے کچھ فاصلے سے ملنا ہوتا ہے ۔ چوری کرنا یا قانون توڑنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ دوسروں کاحق  چھینتا ہے ،قتل کرتا ہے ، وائٹ کالر ڈاکے ڈالتا ہے، اور یہ سب وہ مکمل دلی اطمینان کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کا ضمیر اسے قطعی ملامت نہیں کرتا ۔

ایسے سماج میں جہاں گھٹن ، جبر ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے ، انسانیت سوز واقعات کا  تواتر کے ساتھ پیش آنا کوئی انہونے واقعات نہیں  ہیں ۔  اس جبر اور اس گھٹن کو لبرل فکر "مذہبیت " کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ اور مذہبی فکر "لبرل فکر " کو ۔  

یہاں بنیادی غلطی کہاں ہو رہی ہے ؟ اس جانب  ہماری کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ ہمارے لیے ظلم وہ ہے جو ہمارے نظریے کے مطابق ہے  ۔ یہاں کوئی واقعہ رونما ہوا "اور میڈیا کی زینت بنا " ہم نے  دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کردیے ۔ صفیں مرتب ہوگئیں  ۔ اور دونوں جانب جیسے دو فوجیں کھڑی  ہوں اور  ایک دوسرے کی جانب نیزے تن جاتے ہوں۔ اذہان میں موجود تصورات مزید شدت اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہیں مذہبیت نشانہ بنتی ہے تو کہیں لبرل  سوچ پر گولہ باری ہوتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ دراز ہے  اور رہے گا ۔  

کیونکہ ہمارا مسئلہ سماجی نہیں "ذاتی " ہے ۔ جس دن ہم من حیث القوم سوچنا شروع کردیں گے ہمیں مسئلے کی جڑ نظر آجائے گی ۔ کہیں یہ"ڈیوائڈ اینڈ رول" تو نہیں ؟

Sunday, August 1, 2021

ذات کی اسیری

 ذات کی اسیری

تنہائی انسان کو یا تو آئینے کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے یا سرابوں میں بھٹکا دیتی ہے جہاں وہ اپنی ذات کی تصویر کشی کرتا رہتا ہے ، مختلف رنگوں سے خوشنما بناتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ “ ان “ تصاویر کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ۔
آج ہم مجموعی طور جو اسیران ذات ہیں یا اس مرض کا شکار ہیں اور آئینے سے کتراتے ہیں اس کا سبب کیا ہے ؟
ایک سب سے بنیادی سبب “ نظام زر “ ہے ۔جس نے انسان کو روح سے خالی کردیا ہے ۔ اس نظام نے انسان کی زندگی کو ایک ایسے “ جبر” میں مبتلا کر رکھا ہے جو اس کی نفسیات ، نظام فکر میں رچ بس گیا ہے۔
بصیرت ، “ ذاتی مفاد” کے تابع ہو کر رہ گئی ہے ۔ انسان اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے کے لائق ہی نہیں رہ گیا ۔

سرمایہ دار اور حضرت انسان

 سرمایہ دار اور حضرت انسان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے زوال کے بعد جتنے بھی نظام آئے وہ ناکام ہوئے مگر سرمایہ دار کامیاب ہی نہیں کامیاب ترین ثابت ہوا ۔ اس کا سبب جو مجھے نظر آتا ہے اس نے انسان کا بخوبی مطالعہ کیا اور اس کی “ جبلتوں “ کو نشانہ بنایا ۔ اور اپنی “ مصنوعات” کی طلب پیدا کرتا رہا ۔ اس دوران جو سب سے بڑی رکاوٹ اسے پیش آئی وہ انسانوں کے عقائد تھے ۔ اور اس کو کمزور کرنا نہایت ضروری تھا اسے گاہک بڑھانے تھے اسی طرح ہی پیداوار میں اضافے کا فائدہ ہوسکتا تھا ۔ اس نے اس کے لیے میڈیا کو استعمال کیا اور انسان کے جلد باز جبلت کو نشانہ بنایا ۔ اور اس طرح وہ انسانوں کو اس کی انسانی حیثیت سے گرا کر جانوروں کی جبلت کی سطح پر لے آیا جہاں وہ آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ اپنی خواہشات کا اسیر ۔ اپنی ذات میں گم ۔ اسے اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ وہ مکمل حیاتیاتی مادہ ہے اور وہ جو سوچتا ہے وہی حقیقت ہے ۔ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے عاری ہوچکا ہے ۔ اس کی زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ وہ اس حصار سے نکل کر سوچنے سے ہی عاری ہوچکا ہے ۔ ایسے میں جب اس کے سامنے مذہب کا نام لیا جاتا ہے تو وہ ناک بھنویں چڑھاتا ہے کیونکہ مذہب تو “ بندگی” کا نام ہے ۔ جس میں خواہشات کے بجائے فطرت کی بات ہوتی ہے ۔ جس میں “ وقتی “ فائدے سے قطع نظر “ دائمی فائدے “ کا عندیہ ہے ۔ اور یہ باتیں اس کی جلد باز طبیعت کو ناشاد کرتی ہیں۔ یوں سرمایہ دار آج اتنی بڑی طاقت بن چکا ہے کہ اربوں انسان ویسا سوچنے لگے ہیں جیسا وہ چاہتا ہے ۔

نام کے سابقے لاحقے

 نام کے سابقے لاحقے

المیہ ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو ان کی ڈگریوں سے پہچانتے ہیں لیکن ان کے افعال و کردار کو ان کی ڈگری سے منسوب صرف اس صورت کرتے ہیں جب ڈگری “ مولانا ، مفتی “ وغیرہ کی ہو ۔ بصورت دیگر محض برائی دکھتی ہے ۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ محض ڈگری لے لینے سے کوئی “ عالم “ نہیں ہوجاتا ۔ مثلا ایم بی بی ایس کا ڈگری یافتہ بھی تب عالم کہلاتا ہے جب وہ ایک طویل پریکٹس کے مرحلے سے گزرتا ہے ۔ اسی طرح مختلف ڈگریوں پہ یہ قانون لاگو کیا جا سکتا ہے ٹھیک اسی طرح درس نظامی یا افتاء کی ڈگری لے لینا اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ “ عالم “ بھی ہے ۔ یہ تو تب اس پر لاگو ہوگا جب وہ عملی دنیا میں ثابت کر کے دکھائے گا ۔ چونکہ ہمارا معاشرہ “ ڈاکٹر صاحب ، مولانا صاحب ، مفتی صاحب ، حاجی صاحب ، چوہدری صاحب وغیرہ وغیرہ “ کہنا اور کہلانا پسند کرتا ہے تو نام کے ساتھ ڈگریاں جوڑنا بھی رواج ہوچکا ہے ۔ اس رواج نے ہمیں مزید اس سبب سے بھی نقصان پہنچایا کہ ہم نہایت ہی سطحی فکر کے ساتھ مستقل نظریات تعمیر کرلینے میں طاق واقع ہوئے ہیں سو نام کا سابقہ ہی شخصیت کو عزت دینے کے لیے کافی ہے ۔ ہمیں شخصیت سے کیا غرض ؟ تو بھائی ذرا فکر کو گہرائی دینے کی ضرورت ہے ۔ غلط کو غلط کہہ دینا کافی ہوتا ہے اس کے لیے نام کے سابقے لاحقے معنی نہیں رکھتے ۔ جب غلط کو غلط کہنے کا رواج ہوگا تب یہ لاحقے والوں کو بھی پرواہ ہوگی کہ وہ کس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کا نقصان کیا ہوسکتا ہے ۔

عورت کا مسئلہ

 آپ نے نکاح کو مشکل بنا رکھا ہے ۔ جلدی شادی کو عیب سمجھتے ہیں ۔ کثیر الازدواج آپ کے لیے روح فرسا ہے ۔ اور پھر معاشرے میں روا مرد و عورت کے مسائل کا حل مادر پدر آزادی میں تلاش کرتے ہیں ۔ نور اور عینی کی مثال لاتے ہیں ۔ لیکن ان دونوں پہ غور نہیں کرتے ۔ صرف درندگی نظر آرہی ہوتی ہے ۔ درندہ تو درندگی سے باز نہیں آئے گا ۔ ایسے میں غور کرنا ہوتا ہے کہاں کیا غلط ہو رہا ہے ؟

عینی ایک بیوی ہے اور اس کے پاس شرعی اختیار ہے کہ وہ علیحدہ ہوجائے ۔ مگر آپ کے معاشرے میں مطلقہ ہونا جیسے اچھوت ہونا ہے ۔ کیونکہ یہ “ہزاروں سالہ تہذیبی زمین “ ہے ۔ یہاں صاحب استطاعت مردوں کو ایک شادی کی آزادی ہے خواہ وہ باہر زنا کرتا ہھرے ۔ مگر دوسری تیسری شادی کی اجازت نئیں ہے ۔ عورت کی طلاق ہوجائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو اب اس کے لیے ساری زندگی گھٹ گھٹ کر جینا آپ ہی نے لکھ دیا ہے ۔ کیونکہ مردوں کو اسے اپنانے کی آپ کی جانب سے اجازت نہیں ۔
ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی اپنی “ مرضی “ سے تعلقات استوار کرلے اور توڑ لے ، پھر اور کسی سے جوڑ لے ۔ یعنی اسے اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ سو مردوں کے بستر کی زینت بنے پھر بھی کوئی پسند نہ آئے تو اکیلی رہے ۔ یہاں عورت کے لیے کیا مثبت ہے ؟ پھر اس کی توجیہہ کے لیے عورت کے ساتھ پیش آئے درندگی کے واقعات کو سامنے لاتے ہیں ۔ ان کا آپس میں کیا تال میل ہے ؟ دلیل لائیں تو کم از کم منطقی لائیں ۔ عورت کو سوچنا ہوگا وہ “ شوپیس “ نہیں ہے ۔ اس کی زندگی نکاح میں ہے اور اگر شوہر پسند نہیں تو بے جھجھک علیحدہ ہوجائے نہ کہ ظلم سہتی رہے ۔ یہ مسائل چلتے رہیں گے ، دانش گاہیں آباد رہیں گی ان دانشوروں سے جن کے قلم مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔

سسٹم

 جس ذہن کو سسٹم یا نظام زر کے خلاف متحرک ہونا تھا اس کے سامنے “ سسٹم “ نے “ مذہبی فکر” کا عفریت کھڑا کردیا اور وہ اس لکیر کو پیٹنے میں مصروف ہے ۔ کیونکہ اگر سسٹم کے خلاف کوئی اٹھ سکتا یا اٹھتا ہے تو وہ یہی مذہبی ذہن ہی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ مذہب کا استعمال بھی “سسٹم” کی بقا کے لیے ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے ۔

Monday, June 21, 2021

مدارس کیون ضروری ہیں

 سوال ہوتا ہے کیا معاشرے کو مدرسے کی ضرورت ہے ؟ 

اگر ایک سطر میں جواب دیا جائے تو یقینا ہے ۔


 پاکستان میں دو نظام تعلیم ہیں ۔ مذہبی و عصری کے دو مختلف ناموں سے یہ چل رہے ہیں۔ درحقیقت یہ مذہبی و عصری کے نام ہی غلط ہیں ۔ یہ دراصل دونوں ہی تعلیمی اداروں کی مختلف شاخیں ہیں ۔ جیسے انجینئرنگ یونیورسٹی علیحدہ ہوتی ہے اسی طرح کامرس کالج ، میڈیکل کالج ، آرٹس کالج وغیرہ کی تقسیم ہے اسی طرح علوم اسلامیہ کے لیے بھی کالج درکار ہے جو مدارس کی شکل میں موجود ہیں ۔ 

اب یہ حکومت کی زیرسرپرستی کیوں نہیں ہیں ؟ اس کا جواب کیا مشکل ہے ؟ 


گورنمنٹ اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہیں اور اگر کوئی اسکول چل بھی رہا ہو تو وہاں سے فارغ التحصیل کے لیے معاشرے میں کوئی معاشی کشش موجود نہیں ہے اور  نجی تعلیمی ادارے “ برینڈز” بن چکے ہیں ۔ جن کی فرنچائز بک رہی ہیں ۔ جتنا بڑا برینڈ اتنا زیادہ “ مال “ ۔ 

عام آدمی کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو وہ اپنے بچے کو ان نجی اداروں میں داخل کرے جو گلی محلوں میں آٹھ دس کمروں میں کارخانوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں ۔ ایک پریکٹس ہے کہ ہاں میرا بچہ اسکول کا جارہا ہے ۔ اور جو اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ کوئی فیس ہی ادا کرسکیں ؟ تو وہ بچہ گلیوں میں پلتا ہے یا کسی ورکشاپ ، ہوٹل وغیرہ میں پایا جاتا ہے یا پھر اسے مدرسہ پناہ دیتا ہے ۔ معاشرے میں آج بھی شرح خواندگی پچاس فیصد سے کچھ اوپر ہے ۔ اور بیروزگاری بھی شایداتنی ہی ہے ۔ 

آپ کے پاس نہ ہی تعلیمی نظام ہے اور نہ معاشرے میں شرح خواندگی بڑھانے کی کوئی سعی ۔ اور نہ ہی اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل افراد کی زندگی کا تجزیہ کہ کتنے فیصد سند یافتہ روزگار حاصل کر پائے اور کن روزگار سے منسلک رہے اور کتنے بیروزگار رہے اور انہوں نے کیا ذریعہ معاش اپنایا وغیرہ وغیرہ ۔

ایسے میں جامعات علوم اسلامی کی ضرورت کی شدت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ زیادہ نازک اور حساس معاملہ ہے جو غیر ذمہ دار افراد کے ہاتھوں میں جانا زیادہ نقصان دہ ہوگا ۔ 

اچھائی برائی پر تنقید اس کے وجود کو اپنا کر کیا جائے تو یقینا مثبت نتائج بھی نکلیں گے ورنہ معاشرے میں موجود تمام معاملوں کی طرح یہ بھی تعصب کا شکار رہ کر ارتقائی شکل اختیار نہیں کر پائے گا ۔ 


شہیر

Sunday, May 30, 2021

خود ساختہ عقلیت پسندوں کی علمی دھوکہ دہی

 

کہیں پڑھا تھا "معاشرے میں فلسفہ تب جنم لیتا ہے جب وہ تہذیب   اپنے علمی نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہو ، اور اس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے " ۔ شاید غزالی ہماری تہذیب کے نقطہ عروج کی نشانی ہیں  اور آج جب ہم علم کی پست ترین سطح پر جی رہے ہیں ایسے میں فلسفہ شناسی کے دعویدار ، عقلیت پسندی کے علمبردار وں کی اہلیت نتیجے میں الحاد سے ہی عیاں ہوجاتی ہے ۔ جو ذہن مذہب جیسے مرتب و منظم نظام علم کو سمجھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو اس کے فلسفے کی اہلیت کیا ہوگی ؟

یہ پیراگراف دیکھیں

"مذہب جو بذات خود تضادات کا مجموعہ ہے ، وہ فلسفے اور منطق کے بارے میں بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ، کیونکہ اس کے لیے اسے فلسفیانہ اور منطقی ہونا پڑے گا ۔ فلسفے کی تاریخ میں فلسفیانہ اور منطقی دلائل کے استعمال سے کسی فلسفے کا رد ایک عمومی رویہ ہے ، کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ غزالی کی بہرحال ناکامی یہ ہے کہ وہ چند تضادات کو عیاں ہی کرسکا لیکن ان کی تحلیل نہ کر پایا ، جیسے فختے نے کانٹین  طریقہ کار کا استعمال کر کے کانٹ کے فلسفے میں موجود تضادات کی تحلیل کی تھی ۔ " (ایک  کانٹ کا مرید یا جدید عقلیت پسند )

 

ذرا غور کریں  حضرت نے پہلے مذہب پہ   دوحکم لگائے ۔ نمبر ایک " تضادات کا مجموعہ " ۔ نمبر دو یہ فسلفے اور منطق کے بارے میں بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔

یہ جو دوسرا حکم ہے  اس کو قوت بخش بنانے کے لیے جو گرہ انہوں نے استعمال کی وہ ان کی مخالفت میں جا رہی ہے " کیونکہ اس کے لیے اسے فلسفیانہ اور منطقی ہونا پڑے گا "۔ گویا یہ اپنے پہلے حکم کی دلیل کے طور پر پیش فرما رہے ہیں کہ مذہب  چونکہ ہے ہی تضادات کا مجموعہ لہذا جب مذہبی آدمی فلسفے و منطق پہ نقد کرے گا تو  اسے مذہب سے نکل کر فلسفے و منطق کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا ۔ 

خود ہی مدعی ، خود ہی منصف

کیسے کرلیتے ہیں یہ لوگ ، جو اپنے آپ کو عقلیت پسند کہتے ہوں اور اتنی دیدہ دلیری سے  علمی دھوکہ دہی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔ دراصل مندرجہ بالا اقتباس حضرت کے ایک مکمل مضون سے لیا گیا ہے جہاں وہ غزالی کے اس نقطے کو بنیاد بنا کر بحث فرما رہے ہیں جہاں غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " ان لوگون سے انہی کی زبان میں مناظرہ کریں " ۔ اس جملے کو بنیاد بنا کر انہوں نے یہ مکمل تعبیر باندھی ہے ۔

غزالی کے اس جملے کے معنی بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ کہ ہر علم کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔ چونکہ ملحدین  نے جو فلسفہ و منطق کے اصول وضع کیے ہیں وہ  ایک طرح سے ان کے لیے مذہب کا ہی درجہ اختیار کرچکا ہے ۔ ان کے نزدیک منطق وہی ہے جو وہ کہیں ۔ خواہ اپ سو دلائل پیش کردیں انہوں نے تسلیم نہیں کرنے ۔ اس طرح  مذہبی اصطلاحات کی توہین ہی ہونی ہے کہ آپ کسی " میں نہ مانوں" کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔  کیونکہ وہ "اہل " ہی نہیں ہے کہ اعلی علوم  اور اس کے اصول و ضوابط کو تسلیم کرسکے ۔ اس کی عقل ابھی اس درجے تک پہنچی نہیں مگر وہ "زعم " میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ لہذا کوشش کی جائے کہ اسی کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے اس کا زعم توڑنے کی کوشش ہو ۔

اس کا مطلب اگر عقلیت پسند یہ نکالیں کہ مذہب میں اہلیت ہی نہیں تو  "عقل والوں "کے سامنے اس خود ساختہ عقلیت پسندی  کی قلعی کھل جانی چاہیے ۔

Sunday, May 9, 2021

ہیولا

 

ہیولا

شہیر شجاع

سخت دھوپ کی تمازت سے اس کا بدن بھیگ چکا تھا ۔ وسیع النظر پھیلا صحرا جہاں دور دور تک سائے کی امید بھی نہیں تھی اورریت کی تپش سے اس کے پاوں شل ہورہے تھے ۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا لیکن اس کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیاگئیں اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی آنکھوں کے سامنے چھجا بنائے اٹھ گیا ۔ کچھ دیر تو اندھیرا سا چھایا رہا ۔ اس کینظروں کے سامنے کھلا آسمان تھا جو نیلگوں سمندر جیسا محسوس ہوتا تھا جہاں دور نظر دوڑائی جائے تو بھاپ اڑتی محسوس ہوتیہے ۔ سورج کی شعاعیں اس کا بدن جھلسا رہی تھیں وہ زیادہ دیر آسمان کی جانب نگاہ نہ رکھ سکا ۔

اس کے ذہن میں ایک گونج لہرائی “ غور کرو “ ۔ 

وہ کچھ دیر کے لیے ساکت ہوگیا ۔ مگر فورا ہی عیاری کے ساتھ اس کو جھٹک دیا ۔ اس نے سوچا میرا یہ سفر اور کس لیے ہے ؟ 

اس کا سفر مگر بنا کسی تدبیر کے تھا ۔ اس کو زعم تھا کہ شعور کے گوشے متحرک ہیں ۔ وہ دیکھ رہے ہیں ، تجزیہ کر رہے ہیں ، فکرمند ہیں ، اور نتیجہ خیزی تو وہ حاصل کر ہی لے گا ۔

وہ کچھ دور اور چلا ایسے میں اسے اپنے بائیں جانب مگر بہت دور ایک ہیولا سا نظر آیا ۔ 

اس کو تجسس ہوا کہ یہ کیا ہے ؟ کہیں میرے جیسا مسافر ہی تو نہیں ؟ 

اس نے اس ہیولے کی جانب اپنا رخ موڑ لیا ۔ وہ جتنا آگے جاتا ، ہیولا اس سے مزید دور ہوتا جاتا ۔ کافی طویل سفر پھر بھی اس نے کرلیا مگر اب آرام کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ہیولا اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے ۔ اتنی مشقت کے بعد اسکے سفر میں کسی انجان منزل کے تعاقب میں کوئی حقیقت نمائی میسر آئی تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میںتھکن سے چور وہ نڈھال جسد نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو صحرا میں چاندنی بکھری ہوئی تھی اورآسمان میں پورا چاند اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ 

اس نے یک ٹک چاند پر نظریں جمائی رکھیں ۔ جو کچھ اس کے ذہن کے نگار خانے میں چاند سے متعلق مواد تھا انہیں دہرانے لگا ۔ مگراسے اس مخصوص وقت میں چاند بالکل بھی دلکش نہ لگا ۔ اس نے اپنے بستے سے دفتر نکالا اور قلم ہاتھ میں لیکر چند دکھ بھرےاشعار منضبط کردیے ۔ وہ انہیں بار بار پڑھتا ، نوک پلک سنوارتا ۔ اس کا دل خوشی سے معمور ہوجاتا ۔ 

اس نے حقارت سے چاند کی جانب دیکھا اور وہی اشعار جو اس نے ابھی نذر دفتر کیے تھے انہیں لے میں دہراتارہا ۔ 

اچانک اسے اس ہیولے کا خیال آیا ۔ اس نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی مگر چاندنی سے پرے گھپ اندھیرے کے وہ کچھ نہ دیکھ سکا ۔ 

مگر وہ مطمئن تھا کہ اس کا سفر ضرور رنگ لائے گا ۔ وہ اپنی “ انجان منزل “ کو ضرور پالے گا ۔ اس نے اپنے سفری بستے سےچائے بنانے کا سامان نکالا ۔ چائے بنائی اور چسکیاں لینے لگا ۔ اس دوران وہ کافی ہشاش بشاش ہوچکا تھا ۔ کبھی کبھی دور کسیکتے کے بھونکنے کی آواز سے وہ چونک جاتا اور اسے ہیولے کا خیال آجاتا ۔ اسے محسوس ہوتا شاید وہی اس کی طلب تھی جو ابنظروں سے اوجھل پوچکی ہے۔ 

اس نے اپنا سامان باندھا اور پھر ایک نئی امنگ کے ساتھ اس “ ہیولے “ کے راستے کا تعین کر کے اس جانب چل پڑا ۔ 

Thursday, April 29, 2021

تہذیبی طعنہ زنی

تہذیبی طعنہ زنی 

شہیر شجاع


ہمیں اکثر طعنہ دیا جاتا ہے کہ "مغل، لودھی و سوری غزنوی باہر سے آئے تھے اور اپنی تہذیب لیکر آئے تھے اس پہ اسلامی تہذیب کا لیبل لگا کر فخر نہ کرنا چاہیے ۔ بلکہ ہماری تہذیب ہندوستانی ہے ۔"میرا کم فہمی پر مبنی شعور اس طعنے کو ہضم نہیں کر پاتا کیوں کہ تہذیب  اور ثقافت میں ایک بنیادی فرق ہوتا ہے ۔ ثقافتیں زمین سے جڑی ہوتی ہیں ۔ جیسے بلوچ ژقافت ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، پختون  اسی طرح دیگر ثقافتیں ۔ مگر تہذیب کو زمین سے جوڑ کر دیکھنا ایک خلا پیدا کرتا ہے ۔

کیا عورت کو ستی کرنا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا بیوہ کو سفید کپڑے پہنا کر ایک کونے میں ڈال دینا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا گائے کو ماتا ماننا ہماری تہذیب ہے ؟ کیا بڑوں کے پیر چھونا ہماری تہذیب ہے ؟  نہیں ہماری تہذیب کی خاصیت ہی یہی ہے کہ یہ پوری امت پر محیط ہے ۔ یہ آسمانی تہذیب ہے ۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کے آداب سکھاتی ہے ۔ یہ پہننے اوڑھنے کا سلیقہ فراہم کرتی ہے ۔ یہ کھانے پینے سے لیکر زندگی کے ہر لمحے میں راہنمائی کرتی ہے ۔ پھر تہذیب کسی بھی زمینی خطے سے منسلک نہیں رہ جاتی ۔ بلکہ یہ تو اس اسلامی تہذیبی اقدار کی خصوصیت ہے کہ اس کو کسی کی بھی زمینی عصبیت حاصل نہیں ۔ عرب ہوں ترک و افغان ہوں یا کسی بھی خطے کا باشندہ تہذیبی عصبیت کا دعوی نہیں کرسکتا ۔ یہ ایسی خصوصیت ہے جو تمام عالم اسلام کو ایک لڑی میں پروتی ہے ۔

زمینی تہذیب کی باتیں عموما زبان کو لیکر کہی جاتی ہیں ۔ کہ ہندو پاک کا مسلمان اردو میں سنسکرت یا ہندی کی نسبت عربی و فارسی کو فوقیت و اہمیت دیتا ہے ۔ اور طعن طرازی کے اسباب میں ایران و عرب سے  تنافر ہوسکتے ہیں واللہ اعلم ۔ اگر ایسا ہے تو یہ ایک بڑی فاش غلط فہمی محسوس ہوتی ہے ۔ کیونکہ ہر تہذیب کی ایک علمی زبان ہوتی ہے ۔ اور مسلمانوں کی علمی زبان "عربی " ہے ۔ ٹھیک اسی طرح جیسے یہود کی نسبت عبرانی سے اور ہنود کی سنسکرت سے  وغیرہ وغیرہ ۔ ہم کسی انگریز مسلمان  کو بھی اگر بات کرتے سنیں گے تو ہم اس خصوصیت کو ب؟خوبی محسوس کر سکتے ہیں جب وہ عربی الفاظ کا استعمال جا بجا کرتا نظر آتا ہے ۔ اس کا سبب عربوں کا کوئی کارنامہ ہے نہ ہی ان سے نسبت یہ فقط علمی نسبت ہے ۔ اور ہندوستان میں چونکہ فارسی زبان بھی علم و ادب کی سرکاری سرپرستی کی حامل رہی ہے تو اس زبان  نے بھی علمی ماخذ کا کوئی درجہ حاصل کرلیا جو خصوصا ادب سے متعلق ہے ۔ ہم اگر بحیثیت ہندوستانی جائزہ لیں تو ہماری مذہبی علمی  ماخذ عربی ہے اور اور ادب  کے لیے فارسی کی جانب جانا پڑتا ہے ۔ ہم دیکھیں گے کہ ہمارا  تقریبا سارا ادب فارسی سے متاثر ہے ۔ ہم فارس کے ادیبوں کو تو جانتے ہیں مگر عرب ادباء سے شاذ ہی واقفیت رکھتے ہیں ۔ سو ایسی شفاف صورتحال میں ہندوستانی تہذیب کہہ کر اپنے آپ سے یا اپنی زبان سے کراہت محسوس کرنا درست رویہ نہیں ہے ۔ عصبیتی طور پر ہم سب مسلمان ہیں اگر فکر کی بنیاد اسی اینٹ پر ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ تہذیبی زبان کی بنیاد کسی قوم کی  جاگیر نہیں ہے ۔ اور ہندوستانی ہونے کی بنیاد پر عربی زبان سے تنافر کا کوئی سبب باقی نہیں رہ جاتا بلکہ ان دونوں زبانوں کو رواج دینے کی سعی کی صورت نکلتی ہے ۔

Saturday, April 17, 2021

رمضان اور ذوق عبادت

 عبادت کا ذوق عبادت کے سو بہانے تلاش کرلیتا ہے اور ذوق نہ ہو تو ترک کے بھی ہزار بہانے تراش لیتا ہے ۔ 

یہ وہ مہینہ ہے جہاں انسان اپنے نفس کے روبرو ہے ۔ چاہے تو پہچان لے ، یا جانے دے ۔ 

کم از کم اسلامی ملک ہونے کا اتنا فائدہ ہے کہ عبادت کا احترام موجود ہے ۔ چہ جائیکہ اسے ترک کرنے کے ہزار بہانے تراش لیے جائیں طنز ، طعن و تشنیع کے تیر تیار کر لیے جائیں ، پھر بھی عبادت کی اجتماعیت کے اثر سے طبیعت میں موجود ہونے کی جو حقیقت ہے یہ غیرمذہبیت کو سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے ۔ جیسے قرآن مجید کی تلاوت کریں تو کہتے ہیں “ سمجھ تو کچھ نہیں آرہا پھرپڑھنے کا کیا فائدہ ، یہ تو وقت کا ضیاع ہے “ اس قسم کے غیرعقلی افکار کے ذریعے وہ خود تو محروم ہیں ہی دوسروں کو بھی رکھنا چاہتے ہیں ۔

یہ قرآن کا مہینہ ہے سمجھ کر پڑھنے کی کوشش یقینا ضرور کرنی چاہیے مگر جہاں تک ہوسکے اس قسم کی تاویلات کو محرومی کا سبب نہ بنائیں ۔ 

یہ ماہ رمضان ، یہ بابرکت و رحمت و فضیلت کا مہینہ اپنے بہترین “ اذواق” کی تعمیر کا نادر موقع ہے ۔ اللہ جل شانہ اس سے استفادے کی توفیق عطا فرمائیں آمین


شہیر شجاع

Sunday, March 14, 2021

جھانسہ

جھانسہ

شہیر شجاع

یہ میں ہی تو ہے جو انسان کے اندر کے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جہاں وہ  خود اذیتی کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس کا سبب اس کی ذاتی خواہشات کی ناآسودگیاں ہوتی ہیں ۔ اس کی جبلی تشنگیاں ہوتی ہیں ۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ اسے اگر پڑھنا ہے تو اس لیے کہ وہ سماج میں اونچا مقام حاصل کرسکے اور اس کے حصول کے لیے اسے کسی اونچے عہدے تک پہنچنا ہوگا جہاں بیٹھ کر وہ اپنا بینک بیلنس پھیلا سکے اور آسائشات زندگی کو اپنے زندگی میں شامل کرسکے ۔ اور یہ فکر اس طرح پروان چڑھتی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہی جبلتوں کی تسکین بن کر رہ جاتا ہے ۔ اور اسے ہر پرآسائش انسان اپنے سے بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ ہر "مادر پدر آزاد" انسان میں اسے آزادی نظر آتی ہے ۔ اور پھر اس قسم کا نعرہ جنم لیتا ہے  " میرا جسم ، میری مرضی " ۔ جب اسے کہا جاتا ہے کہ تمہاری عزت ، احترام ، وجہ تقدیر ، سبب محبت  اور توقیر ذات تو بہن ، بیٹی ، بیوی اور سب سے بڑھ کر "ماں" ہونے میں ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے " ان سب میں  ، میں کہاں ہوں ؟" اس ذات کے پیچاک میں غلطاں و پیچاں انسان اس حقیقت سے بھی ناآشنا ہوجاتا ہے کہ انسان کی پہچان و قدر ہی اجتماعی ہے ۔ افراد میں تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ،ورنہ رہبانیت بری کیوں ہوتی ؟ دنیا میں  خاندان کا وجود ہی کیوں ہوتا ؟ ریاستیں ہی وجود میں نہ آتیں  اور نہ ہی تہذیبوں سے ہم آشنا ہوتے ۔ یہ انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو باہم مل کر "ایک تہذیب" کی تشکیل کرتا ہے ، ہر شخص کی شناخت اس کی ذات سے نہیں اس کی تہذیب سے ممکن ہوتی ہے ۔ اگر کسی شخصیت میں سو گن ہوں اور انہیں سراہنے والا ہی کوئی نہ ہو تو ان کمالات کا کیا فائدہ ؟ نہ ان کمالات سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ اور نہ دوسروں کو ۔ بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں ہونے میں جو احترام ، توقیر و قدر ہے وہی بھائی ، بیٹے ، شوہر اور باپ ہونے میں ہے ۔ انسان کی انفرادی حیثیت میں کیا شناخت اور کیا  اخلاقی قدر ہوسکتی ہے ؟ اس "میں" کے جھانسے سے نکل کر حقیقت میں اپنے آپ کو ، اپنی حقیقت کو پہچاننا نہایت ضروری ہے ۔ ورنہ  یہ میں درحقیقت جو "نفس" ہے جسے رب تعالی شانہ نے انسان کا ازلی دشمن قرار دیا ہے ، اس نے برباد کردینا ہے ۔  


Thursday, March 4, 2021

اقتدار کا کھیل

 

اقتدار کا کھیل

شہیر شجاع

اکثر دو مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی باہم ملاقات کی ہنستے مسکراتے تصویر نظر آتی ہے تو خیال گزرتا ہے کہ یہ جو ڈائس پہ کھڑے ہو کر مکے لہرا کر عوام کے سامنے مخالف کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں ، عام آدمی کے دلوں میں اک نفرت بیدار کر رہے ہوتے ہیں ، تو کیا یہ بس سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہوتی ہے ؟  اور ان کی جماعت کو چاہنے والوں میں اضافہ ہو ۔ یا واقعتا ان کے بھی دلوں میں مخالف سے نفرت موجود ہوتی ہے ؟ اگر دلوں میں نفرت ہونے کے باوجود جو یہ ہنستے مسکراتے مل رہے ہوتے ہیں ، کیا یہ منافقت ہوتی ہے ؟ محض ڈھکوسلا اور دکھاوا ؟

پہلے زمانوں میں اقتدار کی جنگیں تلواروں کے سائے میں ہوا کرتی تھیں ۔ جو اقتدار کے خواہش مندوں کے درمیان فیصلے جنگ کے میدان میں ہوا کرتے تھے ۔ خون کی ندیاں بہہ جایا کرتی تھیں ۔ اور جیتنے والا اقتدار کا حقدار ٹہرتا تھا ۔ پھر زمانے نے کروٹ لی انسان نے فیصلہ کیا کہ اب ان جنگوں سے سے گریز کرنا چاہیے اور اقتدار کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ۔ وہ جسے بہتر جانیں اسے اپنا بادشاہ چن لیں ۔ جس کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے ہوا کرے ۔ اب بھی وہی دو فریق تھے ۔ ایک عوام دوم اقتدار کے خواہش مند ۔ لیکن اب میدان کارزار تلواروں کے سائے میں نہیں بلکہ  پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے اور اپنے نشان پر مہر لگوانے کے لیے عوام کی ذہن سازی یا رائے سازی کے لیے سجنے لگے ۔ پہلے تو بس طاقت اور جنگی حکمت نے فیصلہ کرنا ہوتا تھا ۔ اب معاملہ مختلف ہوگیا ۔ اب ایک ہی تخت کے کئی امیدوار ہیں اور ان سب کی خواہش کہ عوام انہیں اقتدار سونپ دیں اور اپنا بادشاہ مان لیں ۔ عوام سے حق اقتدار حاصل کرنے کے دو اسباب ہوسکتے ہیں ۔ ایک اپنے آپ کو عوام کا درست انتخاب ثابت کیا جائے ۔ اور اپنی خصوصیات بتائی جائیں اور عملا بھی دکھائی جائیں ۔ دوم  ، مخالف کو غلط اور بد ثابت کیا جائے ۔

ہم دیکھ سکتے ہیں  ہماری جماعتیں عموما دوسرا رستہ اختیار کرتی ہیں ۔ کیونکہ یہ آسان بھی ہے اور پر اثر بھی ۔ کیونکہ اس تالاب کی ساری مچھلیاں ہی گندی ہیں ۔ اور گندی مچھلی دوسری مچھلی کو گندا ثابت کرتی ہے ۔

یہ ہماری سیاست ہے اور یہ ہم عوام ہیں ۔ اور یہ اقتدار کا کھیل ہے ،۔

Wednesday, March 3, 2021

رومانوی تصورات اس کے قاتل ہیں

رومانوی تصورات اس کے قاتل ہیں

شہیر شجاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چلی جارہی تھی ،اس وادی کی جانب جہاں اسے نجات نظر آتی تھی ۔ اس کا ذہن رومانوی تصورات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ۔ وہ محسوس کر رہی ہوگی  کہ اسکے ندی میں کودنے کے بعد وہ پانی ہوجائے گی اور ندی کی طرح بہتی رہے گی ، یا ہوا میں تحلیل ہوجائے گی اور اڑتی پھرے گی ، اپنے اداس والدین کو تھپکیاں دیا کرے گی ،اپنے شوہر کی بے بسی دیکھا کرے گی ، اپنے ستانے والوں کودکھی دیکھ کر مسکرایا کرے گی ، اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوئے گی اور سمندر کی گہرائیوں میں موتیاں چنے گی ، صبح و شام کی مسرتیں سمیٹے گی ،"خدا سے شکوے کرے گی کہ اسے ایسا کیوں بنایا ؟" انہی سوچوں میں گم اس کے قدم آگے کی جانب بڑھتے جا رہے تھے ۔ اک سرد لہر اس کے بدن میں دوڑ جاتی تھی ۔ "میدان کارزار میں شہادت کے طالب کے تصورات کی مانند کہ اس کی جان جان آفرین کے سپرد ہو رہی ہے ، اور اس نے ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوجانا ہے ۔ "وہ مسکرائی ہوگی ۔ اس کے اندر موجود نفسانی برتری کی خواہش نے انگڑائی لی کہ ہر نفس خود پسند ہوتا ہے اسے اپنی بڑائی سننا اپنی تعریف سننا پسند ہوتا ہے ۔ شاید اسی نفسیات کے تحت اس نے ندی کنارے سیل فون نکالا ہوگا اور ویڈیو بنانے لگی ہوگی۔ جس میں وہ اپنی موت کی ذمہ داری سے ہر ایک کو سبکدوش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ ایک ایسا تضاد جس میں آج ہمارا تمام معاشرہ مبتلا ہے ۔ اس کے والدین اسے زندہ رہنے کی ناکام تلقین کر رہے ہیں ۔ مگر اس کو موت کے بعد کے نجات کا تصورمرنے پر ابھار رہا ہے ۔ اس کے ذہن میں سینکڑوں بالی ووڈ فلموں کی مناظر چل گئے ہونگے ۔ بالآخر انہی کسی منظر کے تصور میں وہ پانی میں کود گئی ہوگی ۔ اور جب پانی اس کے پھیپھڑوں میں جانا شروع ہوا ہوگا وہ تلملائی ہوگی اس نے جان ماری ہوگی کہ کسی طرح وہ یہاں سے نکل آئے اور جب اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہونگی اور اس کی روح کھینچی جا رہی ہوگی تو اسے اپنے ماں باپ کی تلقین ضرور یاد آئی ہوگی ۔

مگر وقت گزر چکا تھا ۔

"معاشرتی و سماجی ناانصافیاں  ساری دنیا میں موجود ہیں ۔ اس کی صورتیں مختلف ہیں ۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ لڑکی کو خود مختار ہونا چاہیے ۔ یہ لڑکی بھی خود مختار تھی ۔ جاب کرتی تھی ۔ اپنی زندگی خود گزار سکتی تھی ۔ اسے ایسے سسرالیوں یا شوہر کی ضرورت نہیں تھی جو اس کی زندگی میں زہر گھول دیں ۔ مگر اس کے باوجود اس نے کونسا رستہ اختیار کیا ؟ اور کیوں ؟

احمد جاوید صاحب نے تہذیب کی کیا عمدہ  تعریف فرمائی ہے ۔ ہر تہذیب دو عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تصور حقیقت اور تصور غایت ۔ یہی دو بنیادی عناصر تہذیب کی تشکیل کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہماری تہذیب ہمارے ہاتھوں ہی مٹ رہی ہے ۔ ہماری تہذیبی فکر میں "تصور حقیقت " و "تصور غایت " نہ صرف دھندلا گیا ہے بلکہ اس پر رنگ برنگی لیپا پوتی بھی ہوگئی ہے ۔   

Saturday, February 27, 2021

شکوہ کناں پردیسی

 شکوہ کناں پردیسی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اکثر دیکھنے میں آتا ہے پردیسی دوست شکوہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ان کی کمائی پہ دیس میں ان کے والدین اور ان کے بھائی بہن عیاشیاں کر رہے ہیں اور ان کی اہمیت محض پیسہ کمانے کی مشین جیسی رہ گئی ہے یا اس قسم کے دوسرے شکوے ۔ 

شاید ایسا ہوتا بھی ہو پر ایسی مثالیں حقیقتا بہت کم ہی ہوتی ہیں ۔ اگر ہوتی بھی ہیں تو میرا ماننا ہے کہ یہ شکوہ ان کا قطعا بجا نہیں ہے ۔ کیونکہ پردیس جانا عموما پاکستان کے اکثر نوجوانوں کا خواب ہوتا ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ وہ باہر جائیں گے تو زیادہ پیسے کمائیں گے ۔ ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی ہوگی ۔ ترقی یافتہ ممالک کی چکا چوند سے لطف اٹھائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ اور باہر جاکر حقیقتا وہ ان آسائشوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ اور ان آسائشات کو ترک کرنا ان کے بس میں نہیں رہتا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آسائشات انہیں وطن واپسی سے روکے رکھتی ہیں ۔ اور وہ اپنی زندگی باہر ہی بسر کرنا بہتر سمجھتے ہیں ۔ 

ہمارے پسماندہ معاشرے میں عموما باہر جانے والے دو قسم کے افراد ہوتے ہیں ۔ ایک اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی نیت سے کوچ کرتے ہیں جبکہ دوسرے اپنے خاندان کو سپورٹ کرنے کے “ بہانے “ سفر کرتے ہیں ۔ سو دوسری قسم کے افراد ہی زیادہ تر اپنے خاندان سے شکوہ کرتے پائے جاتے ہیں ۔ اور “ خود ترسی “ جو ہماری قومی نفسیات بن چکی ہے ، سے مجبور اپنے دوست احباب میں اپنے گھر والوں کو اپنی جان کا دشمن بتاتے لطف محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ خود ان سے بدرجہا بہتر زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ۔ ریالات ، ڈالر ، یورو و دینار میں سے کتنا حصہ وہ گھر والوں پہ خرچ کرتے ہونگے ؟ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باہر آنے کا سبب ہی یہی تھا کہ ان کے خاندان والے زندگی کی آسائشات سے مستفید ہوسکیں اور جب ان کی قربانی سے وہ مستفید ہونے لگیں تو انہیں لگتا ہے کہ وہاں فضول خرچیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ ان کا خیال نہیں رکھتا کوئی ، بلکہ انہیں پیسوں کی مشین سمجھتا ہے ۔ بالآخر ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بعد ایسے افراد اپنی زندگی الگ تھلگ کرلیتے ہیں ۔ اور ان کے والدین آخری سانسیں اپنے عزیز بیٹوں کو دیکھنے ، سننے کو ترستے گزاردیتے ہیں ۔ یہاں تک کے ان کے جنازوں کو کندھا دینا بھی اکثر پردیسی بیٹوں کو نصیب نہیں ہوتا ۔ 

یہ عجیب خود ترسی کی نفسیات ہے ۔ یہاں ہر شخص کی انجانی خواہش جیسے دوسروں کی ہمدردی بٹورنا رہ گئی ہو ۔ وہ بلند اخلاق ، وہ بلند حوصلے ، وہ قربانی کا مزاج مفقود ہو کر رہ گیا ہے ۔ ایسے میں مقاصد زندگی کو طے کرنا ، سوچ و فکر کا تخلیقی و تعمیری ہونا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے ؟ ہمیں اس نفسیات سے باہر نکلنا ہوگا ۔ 

خود ترسی پس ماندگی کی علامت ہے جبکہ عاجزی میں لیاقت چھپی ہے ۔ اور عاجزی علم کی گہرائیوں اور عمل کی مشقتوں میں پنہاں ہوتی ہے۔

شکوہ کناں رہنے میں اطمینان نہیں بلکہ شکر گزاری میں سکون ہے ۔

میں پردیسی شکوہ کناں دوستوں سے اتنا ہی کہوں گا کہ اپنوں پہ اعتماد کرنا سیکھیں اور محض پیسہ کمانے کی وجہ سے اپنے ماں باپ کے خود باپ نہ بن جائیں ۔ آپ کیا جانیں آپ کی ماں راتوں کو اٹھ اٹھ کر ، دن میں چلتے پھرتے آپ کے لیے دعا گو رہتی ہے اور آپ کا باپ اپنے گھر کے سکون کو دیکھ کر آپ کے لیے دعائیں کرتا رہتا ہے ۔ تب جا کر آپ میں اتنی استطاعت پیدا ہوتی ہے کہ آپ بہت سی مشقتوں کو برداشت کرسکیں اور ان سے کہیں بڑھ کر آسائشوں سے مستفید ہوسکیں اور اللہ جل شانہ آپ کے رزق میں برکت ڈال دے جس سے پیچھے والوں کے لیے بھی آپ ذریعہ بنے رہیں ۔ ورنہ آپ میں اتنی استطاعت ، اہلیت و اعلی قابلیت ہوتی تو کبھی اپنا وطن نہ ترک کرتے ۔ بلکہ بدتر حالات کا مقابلہ کرتے اور اپنا رستہ بناتے ۔ 


شہیر شجاع

کامیابی کی بازگشت

 کامیابی کی بازگشت 


ہم پیدا ہوتے ہی جس جملے کی بازگشت سے روشناس ہوتے ہیں وہ ہے “ زندگی میں کامیاب انسان بننا ہے “ ۔ آیا یہ کامیاب انسان کون ہوتے ہیں ؟ یا کامیاب انسان کیسا ہوتا ہے ؟ کامیابی کی حقیقت کیا ہے ؟ کامیابی حقیقتا خارجی ہے یا داخلی ؟ ایسے بہت سے سوالات یقینا ہیں جو کامیابی کی لفظا و معنا تشریح کے لیے ضروری ہیں ۔ یقینا ہم کسی نہ کسی سطح پر اس کے مفہوم سے آشنا ہیں اور وہی مفہوم ہماری عملی زندگی میں کارفرما ہے ۔ یہی مفہوم ہماری فکری راہ متعین کرتا ہے اور راہ عمل کا انتخاب کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ 

اگر ہم ذرا دیر رک کر آس پاس گہری نظر دوڑائیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ ہر کوئی آگے نکل جانے کی تگ و دو میں ہے ۔ کسی طرح اس کی جبلی خواہشات ، صورت حقیقی میں تبدیل ہوجائیں ۔ اور اس کے لیے ہم کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں ۔ خواہ ضمیر بیچنا پڑ جائے ، یہاں تک کہ کسی انسان کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔ ہم سنتے تو ہیں کہ “ زندگی ایک سفر ہے“ ۔ اور ایسے محاوروں سے ہم بہت محظوظ ہوتے ہیں ۔ مگر عملی طور پر ہم دوڑ میں لگے ہیں ۔ ایک ایسی دوڑ جس کی انتہا سے یقینا ہم نا آشنا ہیں ۔ 

کیا کامیابی وہ ہے جو ہم اپنے سے زیادہ با اختیار ، ذی شہرت ، با صلاحیت یا عام افراد میں نمایاں لوگوں یا آسائشات زندگی سے لطف اندوز ہوتے انسانوں کو دیکھ کر محسوس کرتے ہیں ؟

یا یہ کوئی داخلی شے ہے ، جو انسان کی “ فطری “ تسکین سے متعلق ہے ؟


شہیر

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...