Tuesday, December 19, 2017

عشق کی رمز

عشق کی رمز

بلال الرشید

 لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اٹھارہویں صدی میں اودھ کی ریاست تشکیل دینے والا نواب سعادت خان تھا، جس نے ایک لاوارث بچے کو گندگی کے ڈھیر سے اٹھا کر امان بخشی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ نواب صفدر جنگ کا تھا، سعادت خان نے جس سے اپنی بیٹی بیاہی اور پھر ریاست سونپ دی۔
واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ ایک مہم سے واپسی پر، ایک ویرانے میں‘ نواب کو نوزائیدہ بچّے کے بلکنے کی آواز آئی۔ مہربان دل کے مالک نواب نے ایک نوزائیدہ انسانی بچّہ دیکھا، جس کا رنگ کوئلے کی طرح کالا تھا۔ ایک جنگلی کتا اسے نوچ رہا تھا۔ نواب کی بروقت مداخلت سے جان تو اس کی بچ گئی لیکن اس وقت تک اس کی ایک آنکھ ضائع ہو چکی تھی۔ اس کا چہرہ لہولہان تھا؛ اگر چہ انتہائی کالے رنگ کی وجہ سے خون نظر نہ آ رہا تھا۔ چہرے کے خدوخال میں خوبصورتی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ حالات و واقعات کے سبب یہ بات ظاہر تھی کہ وہ گناہ کی پیداوار تھا۔ باپ تو اس کا تھا ہی نہیں۔ وہ اس قدر بد نصیب تھا کہ ماں بھی اسے مرنے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ نواب کے حکم پر تڑپتے‘ بلکتے بچّے کو مرہم لگایا گیا۔ ایک دودھ پلانے والی آیا ڈھونڈی گئی۔ اسے اجرت پر دودھ پلانے کا حکم دیا گیا۔ اس عورت کا اپنا بچّہ گورا چٹا اور خوبصورت تھا۔ وہ انتہائی ناگواری سے اس غیر بچّے کو دودھ پلایا کرتی۔ مالی بدحالی نہ ہوتی تو شاید وہ کبھی ایسا نہ کرتی۔
نواب نے اس بچّے کا نام حکیم رکھا۔ گوکہ عام طور پر لوگ اپنی گفتگو میں اسے 'کوئلہ‘ کہا کرتے۔ حکیم کمتری کا استعارہ تھا۔ ایک ایسا شخص، جس کا وجود ایک گناہ کی نشانی تھا، جس کی ماں اسے مرنے کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ اسے زندہ رہنے کا حق دیا جا سکتا تھا لیکن اس کی عزت نہیں کی جا سکتی تھی۔ حکیم خاموش طبع لڑکا تھا۔ پیدائشی طور پر جیسے اسے اپنی ذات میں موجود کمتریوں کا ادراک تھا۔ اسے کبھی شوخی کرتے نہ دیکھا گیا۔ پیدائشی طور پر وہ تمیزدار اور تہذیب یافتہ تھا۔ ہر حکم وہ خاموشی سے بجا لاتا۔ یہ خاموشی اور افسردگی اس کی ذات کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ خدا ترس اور مہربان نواب نے حکیم کو اپنے محل میں ذاتی خدمات گار کا منصب سونپ رکھا تھا۔ جب وہ جوان ہوا تو اسے برص کا مرض لاحق ہوا۔ کہیں کہیں سے اس کا چہرہ دودھ کی طرح سفید ہو گیا۔ یوں تیز کالے اور سفید رنگ کے امتزاج نے اس کی بدصورتی میں آخری حد تک اضافہ کر دیا۔
مہر النسائ‘ نواب کی بھتیجی تھی۔ اس کے مرحوم بھائی کی بیٹی۔ وہ اس قدر حسین تھی، جتنی کوئی بنتِ حوا ہو سکتی ہے۔ وہ حکیم ہی کی ہم عمر تھی۔ وہ حسین تھی، حسب نسب والی، عقلمند، سلیقہ شعار، پڑھی لکھی۔ جیسے حکیم خامیوں والا تھا، ویسے ہی وہ خوبیوں والی تھی۔
عزت، شہرت، دولت، صحت، اولاد اور دنیا کی ہر نعمت نواب کے پاس موجود تھی ۔ ہاں! البتہ اسے ایک استاد کی تلاش تھی۔ وہ استاد جو انگلی پکڑ کر اسے عشق کے کارزار میں چلنا سکھائے۔ وہ اُس ذاتِ قدیم سے، اس ربِ ذوالجلال والاکرام سے عشق کرنا چاہتا تھا۔کبھی کبھار، اپنے دربار میں جب وہ رموزِ عشق بیان کرتا تو آنسوئوں سے اس کی داڑھی تر ہو جاتی۔ اسے ایسے استاد کی تلاش تھی، جو اس کا دل تڑخا دے۔ اس کا آئینہ چکنا چور کر کے اسے نگاہِ آئینہ ساز میں ممتاز کر دے۔ اسی تلاش میں اس کے بال سفید ہو چلے تھے۔
یہی وہ دن تھے، جب وہ واقعہ پیش آیا۔ ایک شام اچانک نواب نے دیکھا کہ مہر النساء عبادت کے کمرے میں تھی اور چھپ کر حکیم ایک سوراخ سے اندر جھانک رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے نواب کا خون کھول اٹھا لیکن پھر اس نے صبر سے کام لیا۔ اس کا حلم اس کے اشتعال پہ غالب آ گیا۔
نواب نے حکیم کو بلایا۔ وہ چاہتا تو یہ کہہ سکتا تھا کہ تجھے میں نے کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا اور تو نے یہ کیا گستاخی کی۔ الٹا اس نے حکیم سے سوال کیا: کیا تجھے عشق ہو گیا ہے؟ حکیم خاموش رہا۔ نواب نے کہا: ہاں! تجھے عشق ہو گیا ہے اور اس میں تیرا کوئی قصور نہیں۔ نواب نے کہا: جب محبوب بہت اونچی ذات کا ہو اور عاشق کی ذات بہت کمتر ہو تو پھر عشق کی پہلی رمز یہ ہے کہ اس عشق کو چھپایا جائے ورنہ محبوب کی رسوائی ہوتی ہے۔ سچا عاشق اپنے محبوب کو رسوا نہیں کرتا۔ اس نے کہا: عشق کیا ہے تو اسے نبھانا، میرے بچّے! حکیم خاموش رہا۔
دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے گئے۔ حکیم نے نواب کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ مہر النساء کی شادی ہوئی اور وہ اپنے سسرال چلی گئی۔ کئی سال بعد اس کا شوہر ایک جنگ میں قتل ہو گیا۔ وہ پھر واپس آ گئی۔ خمیدہ کمر نواب بوڑھا ہو چکا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ مہرالنساء جب عبادت کے کمرے میں جاتی ہے تو اب بھی حکیم چھپ کر اسے دیکھا کرتا ہے۔
یہی وہ دن تھے، جب حکیم کو تپِ دق نے آ لیا۔ بیماری نے اسے چاٹ لیا۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا؛ حتیٰ کہ قریب المرگ ہو گیا۔ ایک روز نواب نے دیکھا کہ خاموشی سے بستر پہ پڑا وہ اپنی موت کا انتظار کر رہا ہے۔ نواب نرم دل انسان تھا، اس روز تو جیسے پگھل ہی گیا۔ اس نے مہر النسا کو بلایا۔ اسے ساری بات بتائی۔ وہ خود ایک نرم دل عورت تھی۔ نواب نے اسے کہا: میری بیٹی! ایک مرتے ہوئے‘ آخری درجے کے بدنصیب انسان کو آخری خوشی ہم دے سکیں توکتنا اچھا ہو۔
قصہ مختصر یہ کہ نواب مہر النساء کو حکیم کے پاس لے گیا اور اسے کہا کہ وہ اظہارِ محبت کر سکتا ہے۔ وہ سکتے کے عالم میں ان دونوں کو دیکھتا رہ گیا۔ پھر زندگی میں پہلی بار نواب نے اسے روتے ہو ئے دیکھا۔ وہ روتا رہا، روتا رہا۔ پھر اس نے یہ کہا: میں مہر النساء سے محبت نہیں کرتا۔ اس نے کہا: میں تو اس سے عشق کرتا ہوں، جسے مہر النساء سجدہ کرتی ہے۔ کچھ دیر کے لیے نواب حواس باختہ ہو گیا۔ حکیم مہرالنساء کو ہمیشہ اس وقت دیکھا کرتا تھا، جب وہ عبادت کے کمرے میں ہوتی۔ حکیم نے کہا: مہر النسا کے ہر سجدے میں، میرا سجدہ شامل ہے۔
نواب نے کہا: اگر تو خدا سے محبت کرتا ہے تو تُو نے اسے ظاہر کیوں نہیں کیا۔ حکیم نے کہا: عشق کی رمز‘ محبوب کی ذات سب سے اونچی، عاشق کی ذات سب سے کمتر۔ نواب نے کہا: وہ تو دنیاوی عشق کی رمز ہے، خدا سے عشق کی نہیں۔ یہ تو نے کیا کیا میرے بیٹے۔ حکیم نے کہا: لوگ یہی کہتے کہ ایک انتہائی کمتر انسان خدا سے عشق کا دعویٰ کر کے عزت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نواب کو یاد آیا کہ خدا جسے عزیز رکھتا ہے، اسے خوب آزماتا ہے۔ تو درحقیقت حکیم ایک کمتر انسان نہیں تھا بلکہ وہ چنے ہوئے لوگوں میں سے تھا۔ نواب نے حکیم سے پوچھا: وہ کیسا محسوس کر رہا ہے۔ قریب المرگ لڑکے نے جواب دیا: وصل سے پہلے کا وقت ہے۔ دل میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا ہے۔
اس روز نواب پر انکشا ف ہوا کہ عشق کی ہر رمز حکیم کو معلوم تھی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس استاد کو وہ تلاش کر رہا ہے، وہ کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا گیا ایک کالے رنگ کا بچہ ہے۔ جسے وہ کوئلہ سمجھتا رہا، وہ ہیرا تھا۔

Tuesday, October 31, 2017

انسان بیشک دھوکے میں ہے

سوچتا  ہوں اس جہاں میں ہماری زندگی کیا ہے ؟ ہم کتنے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ؟   انسان سمجھتا ہے کہ اس نے کروڑوں کی پراپرٹی بنا لی ، گاڑی ، بنگلہ ، اسٹیٹس ، ہائی فائی لائف اسٹائل ۔  کچھ نہیں تو ان کے حصول کی تگ و دو میں ساری زندگی گزار دیتا ہے ۔ جبکہ درحقیقت وہ اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں جمع کر رہا ہوتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق ( اللہ کمی بیشی معاف فرمائیں ) جب تک والد حیات ہیں انسان کی ساری کمائی میں ان کا تصرف ہے یعنی وہ جو کچھ کما رہا ہوتا ہے والد کے لیے کمارہا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اس کے بیوی بچے اس کی زندگی میں آتے ہیں ۔ اس کی تمام تر کمائی میں اب ان کا تصرف ہوتا ہے ۔ مگر وہ تکبر سے ناک پھلائے  گھومتا ہے ،اپنی محنت کی کمائی،  پر دوسروں کے مال پر ۔ یہاں تک کہ وہ دنیا سے کوچ کر جاتا ہے ۔ جب منکر نکیر سے سامنا ہوتا ہے ، تو پتہ چلتا ہے اس نے  درحقیقت اپنے لیے کیا کمایا ؟
یا تو دنیا میں حیات اس کی اولاد خدا کے ذکر سے  اپنی زندگی آباد کرتی ہے ، تو اس کو راحت ملتی ہے ۔ یا وہ کچھ جس کے لیے اس نے ساری زندگی تج دی اس پر لڑ جھگڑ رہی ہوتی ہے ، تب اس کے ساتھ کیا رہ جاتا ہے ؟ 

Saturday, July 29, 2017

پانامہ فیصلہ

ن لیگی غم سے نڈھال ہیں بقیہ خوشی سے نہال ہیں ۔ کیا ن لیگیوں کیلیے یہ بات ہی کافی نہیں کہ ن 
لیگی حکومت نہیں گری ؟ بس ایک کلیدی فرد نا اہل ہوا ہے ۔ اس فیصلے پر  دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ۔۔ ہم منشور کے تابع ہیں یا فرد کے ؟ ایک " محبوب فرد " کے اپنے منصب سے ہٹ جانے پر غم و اندوہ کی یہ کیفیت ذاتی محبت کی بنا پر تو درست ہو سکتی ہے ۔ مگر ملکی مفاد کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا زیادہ بہتر ردعمل ہے ۔ آیا کہ محبوب فرد سے منسوب محبوب جماعت اپنے منشور پر قائم ہے ؟ اور وہ اس پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے کہ نہیں ؟
ہاں اگر ہم اب بھی دربار سے منسلک ہیں اور محبوب بادشاہ کی "نظری موت " کے غم سے نڈھال ہیں ۔ پھر امید رکھنی چاہیے ۔ ہم کبھی جمہوری دور میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ جے آئی ٹی کے بننے کے بعد سے میں نے کم از کم اس پورے معاملے میں کسی ردعمل کے اظہار سے گریز کیا ۔ بلکہ معاملات کی درست تفہیم و تعبیر کی کوشش کرتا رہا ۔ کوئی اسے عالمی سازش قرار دیتا رہا ۔ کوئی اسے شفاف احتساب ۔ غرض خودساختہ لیڈروں کی زبان ہمارے منہ میں رہی ۔ اور خوب جگالی ہوتی رہی ۔ نتیجتا ، آج ایک جانب دلوں میں دو مضبوط اور محترم اداروں کے لیے نفرت کا لاوا بھڑک اٹھا ہے ۔ کیا  اب بھی سیاسی ادارے نے اپنی ساکھ کے حصول کے لیے  حسن اخلاص اور حسن نیت کے ساتھ جدوجہد نہیں کرنی چاہیے ؟ پارلیمنٹ کے افراد ہی پارلیمنٹ کو کوئی حیثیت نہیں دیتے ۔ جبکہ یہی وہ ادارہ ہے جو تمام اداروں کا سربراہ ہے ۔ جب سربراہ کے دامن میں چھینٹے ہونگے تو ماتحت کیونکر اس کا احترام کریں گے ؟

Thursday, July 27, 2017

سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں

 سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں  
............................................................شہیر شجاع

مغربی ممالک کی مہیا کی گئی پر آسائش زندگی میں جیتے ہوئے اپنے اس سماج کو قابل گردن زدنی قرار دینا نہایت آسان ہے ۔یہ زمین صدیوں سے غیر منصفانہ روایتوں اور رواجوں کی بنیاد پر سسک رہی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مغربی دنیا ہر قسم کے اخلاقی و سماجی مسائل سے پاک ہے ۔ جہاں مادر پدر آزاد معاشرہ ہونے کے باوجود زنا بالجبر کی شرح ہم جیسے گھسے پٹے معاشرے سے کہیں زیادہ ہے ۔ سڑ کوں پر اور اپنی گاڑیوں کو اپنا گھر بنانے والوں کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جہاں ۔۔ایس آئی یوٹی ، شوکت خانم، اخوت اور نہ جانے کتنے ایسے ادارے موجود ہیں ۔ یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ۔ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جاگیر داروں ، سرداروں ، وڈیروں ، خانوں ، چوہدریوں کی غلامی کر رہا ہے ۔ عام آدمی کے پاس تعلیمی وسائل ہیں نہ تربیتی مراکز اس سماج کو میسر ہیں ۔ اگر کہیں کچھ مثبت ہے بھی تو اس میں بھی کیڑے نکالنے کی روایتیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ آپ کے پاس ایسا کیا ماڈل ہے جو اس سماج کو تعلیم یافتہ بنائے ? اس کو اپنے اقدار سے روشناس کرائے ؟ اس کے اخلاقی اقدار کو قائم کرے ؟ مسلکی عصبیتیں بہت بعد کی چیزیں ہیں صاحب ۔ یہاں نسلی و لسانی عصبیتیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں ۔ وہ تو آپ کو مغرب نے ایک بتی کے پیچھے لگا یا ہے ۔ مذہب کا نام آتے ہی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔ دل میں نفرت آنکھوں میں انگارے دوڑ جاتے ہیں ۔ ہر جانب ملا کسی دیو کی طرح دکھنے لگتا ہے ۔ آپ کبھی مدارس کا دورہ تو کر کے دیکھیے ۔ پانی والی دال اور سوکھی روٹی کھا کر ٹاٹ کے بستر پر سوکر ، چٹائیوں میں بیٹھ کر جو اپنی جوانی لٹا دیتے ہیں ۔ ان کے لیے اس معاشرے میں کیا مقام ہے ؟ امام مسجد بنا دو ؟ موذن لگا دو ، نکاح پڑھوالو ؟
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟

Wednesday, June 7, 2017

نظام تعلیم ، توجہ درکار ہے ۔

نظام تعلیم  ، توجہ درکار ہے ۔
شہیر شجاع
مدارس کے تعلیمی نصاب پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے ۔ اور یہ بجا بھی ہے ۔ جبکہ عصری تعلیمی نظام بھی اس قدر بوسیدہ ہے کہ دو نسلیں برباد ہوچکی ہیں ۔  مگر پھر بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں ۔ تنقید و تنقیص کا میدان گرم ہے ۔ حل کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ 
معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام ، ایک بہترین معاشی نظام کے قیام کی وضاحت کرتا ہے ۔  دوران تعلیم ہر طالبعلم کا  ذہن بعد از حصول ڈگری بہترین ذریعہ معاش کی کھوج میں لگا رہتا ہے ۔ مدرسے کے طالبعلم کے پاس محدود آپشن ہوتے ہیں ۔  وہ مسجد مدرسے کے گرد ہی سرگرداں رہتا ہے ۔ کیونکہ اس سے باہر کی دنیا نے اس کے لیے کسی ذریعہ معاش کا انتظام نہیں کیا ہوتا۔ سو جن میں لیاقت ، علمیت  و دیگر صفات موجود ہوتی ہیں وہ  کسی بہتر مقام کو پالیتے ہیں ۔ چند  جن میں استطاعت ہو وہ عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں اور  اپنے آپ کو اس سماج کے لیے قبول کرواتے ہیں ۔ اور جو بچ رہتے ہیں ، ان کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہوتی ہے ۔ کوئی مسجد کی امامت سنبھال لیتا ہے ، چھوٹے مدرسوں میں مدرس لگ جاتا ہے ۔ یا پھر چار و ناچار کوئی ہنر سیکھ کر اپنی دال روٹی چلانے لگتا ہے ۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اس سماج کی رگ کو سمجھتے ہیں وہ اپنی  خانقاہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو ہاتھوں ہاتھ بھی لیا جاتا ہے ۔ اور وہ  علماء سے کہیں بڑھ کر مقام حاصل کرتے ہیں ۔  جبکہ عصری جامعات سے فارغ التحصیل طلباء کا ذہن شروع سے وائٹ کالر نوکری کے گرد طواف کرتا رہتا ہے ۔ جونہی فائل ہاتھ میں دبائے  انٹرویوز  کی بسیں مس کرتا جاتا ہے وہ دلبرداشتہ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کے پاس بھی معاشرے میں آپشنز نہیں ہیں ۔
چونکہ معاشرے میں " محنت مشقت " کو عزت و ذلت کے دائرے میں بانٹ دیا گیا ہے ۔  لہذا وہ طلباء پیزا ڈیلیوری مغرب میں جا کر تو شوق سے کرلیں گے ، کیونکہ وہاں محنت کا مطلب محنت ہے ۔ مگر اپنے ملک میں شرم محسوس کریں گے ۔ اسی طرح کسی ہنر کو سیکھ کر اپنے معاش کا ذریعہ بنانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے ۔ کاروبار کی جانب بھی یوں توجہ نہیں دے سکتا کہ وسائل کہاں سے لائے اور اگر وسائل کسی حد تک موجود بھی ہوں تو بازار میں بازار پر اعتماد نہیں کر سکتا ۔اس کے علاوہ کاروبار کی بھی سطح مقرر ہے ۔ کہ فلاں کاروبار بڑآ ہے فلاں چھوٹا ۔ کہ فلاںباعث عزت ہے فلاں نہیں ۔   خیر ہم حل کی جانب سوچتے ہیں  ۔
حل کیا ہونا چاہیے ؟  یہاں کئی کام حکومت کی جانب سے کیے جا سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت نہایت اہم ہوچکی ہے ۔ کیونکہ اب استاذ کی مسند پر بھی وہی طالبعلم بیٹھا ہے جو ڈگری کے حصول کے بعد دلبرداشتہ سڑکیں ناپتا رہا ہے ۔ اور اب اس مسند پر بھی محض اس لیے بیٹھا ہے کہ فی الحال یہی غنیمت ہے ۔ اور اگر اساتذہ واقعی مخلص ہیں بھی تو ان میں اتنی علمیت موجود ہی نہیں جو ایک استاذ کے شعور کو درکار ہوتا ہے ۔ جس کے ذریعے سے ایک نسل کی تربیت ہوتی ہے ۔ سو اساتذہ کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ طلباء میں "علم " کی حکمت ، ضرورت ، حیثیت ، مقام ، مقصد ، سبب ، علت غرض " علم " ہی ان کے لیے مقصد حصول ہو ۔ اور اس حصول کے لیے وہ مٹی پتھر ڈھونا بھی قبول کرلے ۔  مستحق طلباء کے لیے بینکس یا دیگر معاشی اداروں کو قائل کرے کہ وہ ان کی مدد کریں ۔  اسی طرح مدارس کے طلباء کے لیے مختلف حکومتی ونجی اداروں میں نوکریوں کا انتظام کیا جائے ۔  جب وہ طلباء دفاتر میں فائلیں اٹھائیں پھریں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے نظام تعلیم میں کیا کمیاں ہیں ۔ اسی طرح جب طلباء انٹرویو دینے آیا کریں گے تو انہیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ان کو مزید بھی کچھ سیکھنا ضروری ہے ۔ پھر ایک   داخلی طور پر ہی تحریک اٹھے گی جس نے خود بخود ہی مدارس کے کرتا دھرتاوں کو مجبور کردینا ہے کہ ان کے نصاب میں مناسب تبدیلی ضروری ہے ۔ ان کے مدرسے کا  فارغ التحصیل  کے ذریعہ معاش کے ساتھ ساتھ سماج کے مقتدر طبقات کے ساتھ گھلنے ملنے سے مجبور ہے ۔ اور جب تک مدرسے کا طالبعلم آٖفس میں گریجویٹ کلرک کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ نہیں کرے گا ۔ ہر دو افراد ایک مقام پر یکجا نہ ہونگے یہ خلیج بھی یونہی حائل رہے گی ۔  محض تنقید کرنا اور مطالبہ کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان سب کے موثر ہونے کے لیے ایک اہم سیڑھی معاشرے میں میرٹ کا قیام بھی ہے ۔
تنقید اب تنقیص کی حدوں کے اندر سرایت کر چکی ہے ۔ عملی اقدامات کے لیے ان اذہان کی ضرورت ہے جو  مخلص ہوں اور واقعتا مسائل کا حل چاہتے ہوں ۔ ورنہ اب تک کی ہماری حکومتوں نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں صفر کام کیا ہے ۔ عمارت دیوار کھڑی کردینے کا نام نہیں جب تک بنیاد مضبوط نہ ہو ۔ تعلیمی نظام کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اس ڈھب میں دینی تعلیم کو بھی شامل کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کی ہٹ دھرمی پر اسے چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ۔ اس کے لیے نئی تدابیر درکار ہوتی ہیں ۔  نظام تعلیم ، تدابیر کا ضرورت مند ہے ۔
اور یہی آنے والے کل کے سماج کا اخلاقی و شعوری نظام متعین کرے گا ۔ 

Wednesday, May 31, 2017

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب
شہیر شجاع
جب تک پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا سماج بھی  اپنی حدود میں کافی بہتر حالت میں موجود تھا ۔ اعتماد کی فضا قائم تھی ۔ مذہبی نقائص اپنی جگہ موجود تھے مگر وہ مذہب کے علمبرداروں کے درمیان ہی موجود رہیں ۔ اگرچہ اس کی سطح اپنی حدود پھلانگ کر عوام میں سرایت کرتی گئیں ۔ مساجد پر پہرے بٹحا دیے گئے ۔ مسجد مسلمان کی نہیں مسلک کی میراث قرار پائی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نفرتوں  کی آگ میں آپس میں  الاو اس قدر اونچے ہوتے گئے کہ یہ سوچنا محال ہوگیا کہ اسے مدہم کیسے کیا جائے ؟ اللہ نے کرم کیا ۔ علماء اور دانشوران ملت میں سے بہت سے افراد نے جدودجہد شروع کی اور اس الاو کو دھیما کرنے میں کافی بہتری آئی ۔ اس میں سوشل میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا ۔  بہرحال آج صورتحال اپنے گزرے کل سے کافی مختلف ہے ۔ تعصبات مسالک قدرے لچکدار ہوچکے ہیں ۔ ان میں آپس میں مل بیٹھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کلمہ کی بنیاد پر یکجا ہونے کا تصور پروان چڑھ رہا ہے ۔  مگر ساتھ ہی لسانی و سیاسی تعصبات نے بھی خوب اپنی جگہ بنائی ہے ۔ مذہبی تنافر میں جہاں کمی آئی وہیں ان تعصبات نے شدت اختیار کی ۔  عصبیت بری چیز نہیں گر اجتماعی ہو ۔ کسی ایک نکتے پر سب کا اجماع ہو جو تمام عصبیتوں کو جوڑے رکھے وہاں مختلف عصبیتیں تعمیر کا بھی کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس کے لیے راہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارا معاشرہ راہنماوں کے قحط سے دوچار ہے ۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا کردار کلیدی ہے ۔ سماج کو تبدیل کرنے میں میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے ۔ مگر وہ ایک ایسے رخ پر چل نکلا ہے جہاں سے ہوائیں  مزاج میں تلخیاں پیدا کرتی ہیں ۔ نفرتوں  کے الاو کو مزید دہکاتی ہیں ۔ جہاں وہ معلومات کی فراہمی کا دعویدار ہے وہیں اذہان کو شدید متاثر کرنے کا جرم قبول کرنے سے بھی روگرداں ہے ۔ اس ہتھیار کو الیکٹرانک میڈیا مثبت پیش رفت کے لیے استعمال کرسکتا ہے ۔ لسانی و سیاسی تعصبات کو اجتماعی رنگ دے سکتا ہے ۔ جہاں سیاست کے مفہوم و معانی سے عوام کو روشناس کرائے ۔ مگر وہ مختلف سیاسی عصبیتوں کے درمیان جنگ کا میدان تخلیق کرتا ہے ۔ جس سے معاشرہ مزید پراگندہ حال ہو کر کھائی کی جانب گرتا چلا جا رہا ہے ۔ مذہبی  موضوعات میں مثبت عوامل کو نظر انداز کر کے منفی عوامل کو اجاگر کرتا ہے جس سے مغرب کا پروپیگنڈہ مزید تقویت پاتا ہے کہ  ملا سوائے مسلکی عصبیتوں کو فروغ دینے کے اور کوئی کام نہیں کر رہا ہے ۔  اور جو ملا دینی ، علمی ، تحقیقی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی جدوجہد سے  سماج استفادہ کرنے کے باوجود اس کی پذیرائی کرنے سے معذور ہے ۔ جس وجہ سے یہ رجحان عام نہیں ہو پارہا ہے ۔ یہی میڈیا اگر اپنے پروگرامز کی ترتیب تبدیل کردے ۔ سیاسی نمائندوں سے ان کی جدوجہد کے مقاصد اور مستقبل کی پیش رفت پر گفتگو کرے ۔ سیاست کی حیثیت اور اس کے سماجی اثرات پر گفتگو کرے ۔ سیاسی نمائندے جب کیمرے کے سامنے پیش ہوں تو انہیں ہوم ورک کی ضرورت ہوگی ۔ کہ ان سے ان کے کام کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔  ان کے مقاصد اور ان کی تکمیل کی جانب پیش رفت کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔ نہ کہ لوڈ شیڈنگ کیوں کم نہیں ہوئی ؟  فلاں نے  وہ سڑک بنائی اور وہ کیوں نہیں بنائی ؟ اسپتال اس لیڈر کی جانب سے ابتداء کردہ اس حکومت میں کیوں مکمل نہیں ہوئی ؟ ایسے سوالات کیے جائیں ۔ بلکہ یہ پوچھا جائے کہ اسپتال ، تعلیمی اداروں کے قیام کی وجوہات کیا ہیں ؟ آپ کے خیال میں یہ کیوں ضروری ہیں ؟ اور اس کی تختی پر آپ کے نام کے بجائے انجینئرز کے نام کیوں نہیں لکھے جاتے ؟ پیسہ تو عوام کا ہے ۔عوام کی حیثیت سیاسی نمائندوں کی نظر میں کیا ہے ؟
اسی طرح مذہب کے ان نمائندوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے جو حقیقی نمائندے ہیں ۔ جو عوام کی نظروں میں  صرف علم والے ہیں ۔ ان کے انٹرویوز ہوں ۔ ان سے مذہب و مسلک کی حدودو قیود پر بات ہو ۔ اخلاقی کردار پر بات ہو ۔ حقوق العباد پر بات ہو ۔ مذہبی تعصبات سے دور کیسے رہا جائے ؟ ایسے سوالات اٹھائے جائیں ۔  اور ایسے بہت سے  سود مند کام ہیں جس سے سماج میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ سماج میں علماء ، دین ، مذہب و مسلک ، سیاست و سیاسی نمائندے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقیقی حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کاش کہ الیکٹرانک میڈیا بے تحاشہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے منصب حقیقی کی جانب بھی توجہ دے ۔ بیشک یہ بھی جہاد ہوگا ۔ اور اس کا ثمر اسی دنیا میں  بھی اسے ملے گا ۔ 

Thursday, May 25, 2017

جبر

افسانہ 

جبر

شہیر شجاع
.............................

ستاروں پہ کمند ڈالنے ، شاہین جیسی پرواز ،  خودی کے اسرار سے پردے اٹھاتا اس نے جوانی کی دہلیز میں قدم رکھا تھا ۔ جذبات اپنی اٹھان پر تھے۔ قدم پرجوش ۔ خون میں گرمی کا درجہ حرارت جیسے اپنی دسترس میں آئی ہر چیز کو پگھلا دے ۔ ساتھ ساتھ جوانی کی جبلتیں ، جو اسے متزلزل نہ ہونے دیتیں ۔ آسمان پر ستاروں کو دیکھتا تو جیسے بس کسی بھی لمحے ستارہ اس کی قید میں ہو ۔ چاند اس کا کھلونا ہوجائے ۔ آس پاس ویرانی دیکھتا تو  مسکرا اٹھتا کہ جلد یہ ویرانی سبزہ زار میں تبدیل ہوجائے گی ۔ 

 اس کے ہاتھوں میں فائل تھی جس میں سخت گرمیوں میں چارجنگ لائٹ کی روشنی میں کی گئی محنت  کے نتائج تھے ۔  اس کا دل و دماغ شاہین  کی اونچی اڑان کے تصور میں ہر مشکل کو آسان کرتا آج اس کے اعتماد کو اس کے لیے ایک مضبوط ستون تعمیر کرچکا تھا ۔ وہ اس فائل کو لیے کسی بھی منزل کی جانب جاتا ۔پر اعتماد واپسی ہوتی ۔  اس بات کو اب ایک عرصہ گزر چکا تھا ۔ وہ گلیوں میں کھیلتے معصوم بچوں کو دیکھتا جن کے جسم پر کپڑوں کے بجائے چیتھڑے ہوتے ، اس کے چہرے پر اذیت ناک مسکراہٹ ابھر آتی ۔ اسٹاپ پر کھڑے گاڑی کے انتظار میں ایک جانب آٹو ورکشاپ سے گالیوں کی آواز پر نگاہ پھیرتا ، اس کی نظروں کے سامنے معصوم سا شاہین اپنے استاد کے بھاری بھر کم ہاتھوں کے پڑنے پر اپنے گال سہلارہا ہوتا ۔ یہ منظر اس کے دل کی آگ کو مزید دہکا دیتا ۔ اس کے تصور میں موجود سبزہ بھی مانند پڑنے لگا تھا ۔ ویرانیاں سڑکوں ، گلیوں محلوں سے سفر کرتی اب اس کے آنکھوں میں بھی بسر کرنے لگی تھیں ۔ سخت چلچلاتی دھوپ میں کھڑا جب وہ منی بس کا انتظار کر رہا ہوتا ، اس کے ماتھے کا پسینہ اس کو اپنے موزوں تک پھسلتا محسوس ہوتا ۔  آہستہ آہستہ اس کے کندھے بھی ڈھلکنا شروع ہوگئے ، اس کے ہاتھ میں موجود ستاروں پر کمند ڈالنے کی چابی  بھی  بھاری بھر کم چٹان سی محسوس ہونے لگی تھی ۔ جس کا بوجھ اب اس سے سہارا نہ جاتا ہو ۔ نیم دلانا سڑک پر ٹہلتا اب آسمان کی جانب بھی  نگاہ  نہ اٹھتی ۔اس نے وہ چابی الماری میں سنبھال کر رکھ دی تھی ۔ اور ایک دوست کے توسط سے ہنرمندوں کی جماعت میں شامل ہوگیا تھا ۔ دو وقت کی روٹی کا بندوبست تو ہوگیا مگر اس کے تصورات مین موجود شاہین اب تک غافل نہ ہوا تھا ۔ جو اس کے دل کو لمحہ بہ لمحہ کچوکے لگاتا رہتا ۔ ایک عجب جبر تھا ۔ پروں کے ہوتے بھی پرواز سے عاری تھا ۔ سڑک پر ریڑھی کھینچتے جوان و بزرگوں کو دیکھتا تو دل میں ہوک سی اٹھتی ۔ آنکھوں میں ستارے جھلملانے لگتے ۔ کہاں آسمان کے ستارے کہاں آنکھوں میں جھلمل ۔ وقت کے جبر نے  کس موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا ۔ اس کے بابا نے بھی ضعیفی کے برامدے میں ڈیرےڈال لیے تھے ۔ اس کے کندھے اب مزید بوجھ سہہ نہ پارہے تھے ۔ اس کا ہنر اس کے لیے اب مزید کارآمد نہ رہا تھا ۔ بابا سے ذرا پرے دوسری چارپائی پر آنکھیں موندے لیٹا بابا کی کراہوں پر سسک رہا تھا ۔ باورچی خانے سے اماں اور نوراں کی نوک جھونک اس کے حوصلے کی کمر توڑتی جارہی تھی ۔ اگلی صبح بیدار ہوکر وہ سیدھا جمیل کی جانب چلا گیا ۔ جس نے جامعہ سے فراغت کے بعد اپنے بیرون ملک مقیم بھائی کی مدد سے ٹریول ایجنسی کھول لی تھی ۔ وہ اکثر اسے باہر چلے جانے کا مشورہ دیتا رہتا ۔ پر سوکھی زمین کی جانب اشارہ کر کے کہتا کہ اسے سیراب کون کرے گا ؟ اور جمیل خاموش ہوجاتا ۔ آج اس نے جمیل کے سامنے ہار مان لی تھی ۔ جمیل نے اسے قرض و مدد کے سہارے چند ہی دنوں میں پردیس بھیج دیا ۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی وہ فائل تھی ۔ جسے سراہا گیا تھا ۔ وہ اس بلند و بالا عمارت سے باہرنکلا ۔ آسمان کی جانب نگاہ ڈالی دور آسمان کی بلندیوں میں شاہین محو پرواز تھا ۔ اس کے دل میں خوشی تھی یا ویرانی وہ فیصلہ نہ کرپایا ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...