Showing posts with label قربانی. Show all posts
Showing posts with label قربانی. Show all posts

Thursday, September 8, 2016

قربانی اور بیتا منظر

قربانی اور بیتا منظر
شہیر شجاع
ذوالحجہ کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو عالم اسلام میں ایک ہلچل شروع ہوجاتی ہے ۔ جس کی جس قدر استطاعت ہو وہ اس قدر اپنے ایام کو عبادات کے لیے وقف کردیتا ہے ۔ جیسے کہ  ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے لیکر  یوم عرفہ تک کے روزے رکھنا ۔ قربانی کرنا ۔ حج کرنا ۔ یہ تین عبادات خاص ہیں  ۔  تقریبا صاحب حیثیت افراد قربانی کا فریضہ تو ضرور انجام دیتے ہیں ۔     اور  حج کی استطاعت والے افراد مہینوں پہلے سے ہی حج کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں  ۔ عبادات تو ہر مذہب کا فرد کرتا ہے ۔ مگر عبادت کا لطف اور اس کا حقیقی  رس اسی وقت  حاصل ہوسکتا ہے جب  ہر اس عمل کا مکمل علم ہو ۔ مگر ہم اکثر چھلکوں پر خوش ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ شاید آج ہم  بندگی خالق سے  زیادہ   سماج میں  عزت کی نگاہ سے دیکھے  جانے کو محبوب رکھنے لگے ہیں ۔
دین ابراہیمی  میں  پہلونٹے بچے کو معبد  کی بھینٹ چڑھادیا جاتا تھا ۔  یعنی اسے عبادت گاہ کی نذر کردیا جاتا تھا جہاں اس کی ساری زندگی خدائی خدمت گار کی حیثیت سے گزرا کرتی ۔  جس دن سے بچہ پیدا ہوتا اس دن سے اس کے بال نہیں منڈوائے جاتے یہاں تک کہ وہ دن آپہنچتا جس دن اسے معبد کی نذر کیا جانا ہوتا ۔ اسے معبد میں لا کر اس کے بال  کترتے ۔ اس کو غسل دیتے ۔ یہ وہی سنت  ہے جس کی ایام احرام میں آج بھی پابندی کی جاتی ہے ۔ اللہ جل شانہ نے ابراہیم علیہ السلام سے جب  ایک بہت بڑا کام لینے کا ارادہ کیا ، جس کے بعد دنیا  والوں کے لیے ایک عظیم الشان مثال قائم ہونی تھی ۔  رب ذوالجلال اور اس کے  پاکیزہ بندے کے تعلق کی تمثیل ہونی تھی ۔  اللہ جل شانہ نے پکارا ۔
یا ابراہیم ۔
 اللہ جل شانہ کی پکار ہو ۔ بندہ بھی وہ جس کی آل اولاد  میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہونا ہو ۔ وہ کیسی ہستی ہوگی ؟
فورا پکار اٹھے ۔ لبیک ۔میں حاضر ہوں ۔  اس لبیک میں اطاعت کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن ہے ۔
اور یہ لبیک وہی لبیک ہے جو آج  حج کے دوران ہر عبادت گزار پکارتا جاتا ہے ۔ اس  لبیک کی صداوں سے  مکہ معظمہ گونجتا رہتا ہے اور اس کی تقلید میں سارے جہاں میں آباد مسلم مچل جاتے ہیں اور اس ورد کا گردان کرتے ہیں ۔ یہ وہی لبیک ہے ۔ جس میں  عظیم تسلیم و رضا  لپٹی ہوئی ہے ۔ غیر متزلزل رضا ۔  خالق و مخلوق کے مابین ۔ آزمائش کی ابتداء ہوتی ہے ۔ آپ علیہ السلام کو خواب  میں اپنے محبوب ترین بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ہوتا ہے ۔ آپ  علیہ السلام ذرا رنجیدہ ہوتے ہیں  پر رضائے الہی  کے سامنے ان کا رنج لا یعنی ٹہرتا ہے ۔ اپنے محبوب بیٹے اسمعیل علیہ السلام سے اللہ جل شانہ کے حکم کا ذکر کرتے ہیں ۔ بیٹا بھی کون ، اسمعیل علیہ السلام  ، جن کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے ایک عہد قائم کرنا ہے ۔  جس سلسلے سے اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب ترین  انسان کو پیدا کرنا ہے ۔ رحمت اللعالمین کو مبعوث فرمانا ہے ۔ ان کی تسلیم و رضا کا کیا عالم ہوگا ؟
آپ نہایت ہی عزم و استقلال  کے ساتھ گردن جھکا دیتے ہیں  ، اور اپنے آپ کو رضائے رب ذوالجلال  کے آگے سرنگوں کردیتے ہیں ۔ فلک  بھی دم بخود اس منظر کو دیکھتا ہوگا ، ہوائیں کانپ جاتی ہونگی ، زمین لرز جاتی ہوگی ۔ یہ کیسے بندے ہیں ؟ کہ بس ابھی ایک باپ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دینی ہے ۔ اور وہ خون جذب کرنے کی ہمت  یہ زمین اپنے آپ میں نہ پاتی ہوگی ۔ یہ اسمعیل علیہ السلام کا خون ہے ، جو کہ نہایت ہی جلیل القدر باپ کے ہاتھوں گرنے والا ہے ۔  اس خون میں دنیا و مافیہا سے ماورا تسلیم و رضا لپٹا ہوا ہے جس کی مثال دنیا نے اب تک نہ دیکھی ہوگی ۔  آپ دونوں قربان گاہ کی جانب محو سفر ہیں ۔ عالم مبہوت ہے ۔ شیطان کیونکر ایسے وقت میں  خاموش بیٹھا رہ سکتا ہے ۔ وہ  وسوسے ڈالنے پہنچ جاتا ہے ، آپ علیہ السلام اسے کنکریاں مار کر بھگاتے ہیں ، سبحان اللہ اور ان مقامات کو بھی اللہ جل شانہ نے ابد فرمادیا ۔ حج کے ارکان ان مقامات پر اس سنت ابرہیمی علیہ السلام کی تکمیل کے بنا مکمل نہیں قرار پاتے ۔ آپ مروہ پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ قربان گاہ ہے ۔ یہاں امت ابراہیم قربانی سے پہلے  بار بار چکر کاٹا کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے صفا مروہ کی سعی اسی سنت کی یادگار ہے ،واللہ اعلم ۔  قربان گاہ مگر مروہ ہے کیونکہ قربانی معبد کے لیے دی جاتی تھی اور مروہ کعبہ  کے ساتھ ہی ہے ۔ ( اب جگہ کی کمی کی وجہ سے منی منتقل کردی گئی ہے ) ۔
باپ چھری تیز کر رہے ہیں ۔ بیٹا  بڑے ہی چاہ سے اپنے باپ سے مخاطب ہوتا ہے ۔
ابو آپ  اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے ، کہیں کسی بھی  لمحے آپ پر  میری محبت نا غالب آجائے ۔ باپ اپنے بیٹے کی جانب تحسین آمیز نظروں سے دیکھتا ہے ۔ کیا سپردگی کا عالم ہے ۔   چھری کی دھار مزید تیز ہورہی ہے ۔  باپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے ۔
اور پھر ۔۔۔
اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ چھری چلا دیتا ہے ۔ 
ایسی تسلیم و رضا ، ایسی سپردگی ،   حب الہی  ، اطاعت رب ذوالجلال ، رضائے خالق  کی مثال کو  خالق کائینات اللہ جل شانہ کو کس قدر پسند آئی ہوگی ؟ کہ اس سنت کو اس سپردگی و رضائے الہی کی مثال کو قیامت تک کے لیے جاری فرمادیا ۔ جو آج مسلمان قربانی کی سنت ادا کرتے ہیں ۔ اس کے پس منظر میں کتنی عظیم  مثال ہے ۔ اس مثال کو سینے میں جلا بخشتے ہوئے جب  مسلم ، جانور کی گردن میں چھری پھیرے تو اس کے جذبے کا کیا عالم ہونا چاہیے؟
آپ علیہ السلام اپنی پٹی اتارتے ہیں ، کیا دیکھتے ہیں نیچے مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے اور اسمعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔
صدا بلند ہوتی ہے ۔ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیا  کرتے ہیں ۔ ( سورۃ الصافات)

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...