Showing posts with label سیاستدان. Show all posts
Showing posts with label سیاستدان. Show all posts

Sunday, October 7, 2018

دھوکہ

جاگیردار کے " منہ " سے جمہوریت ، قانون ، اقدار ، روایات ، ثقافت ، تہذیب جیسی باتیں  قطعا اثر انداز نہیں ہوتیں ۔ جنہوں نے انسانوں کو غلام اور باندی بنا رکھا ہو وہ سیاست میں صرف اپنی جاگیرداری کی حفاظت کے لیے ہی وارد ہوئے ہیں  ۔ ان کی باتیں ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ۔ جاگیردار جاگیردار ہی ہوتا ہے خواہ وہ  آکسفرڈ کا ڈگری یافتہ کیوں نہ ہو ۔


شہیر

Sunday, April 30, 2017

سیاتدان ، فوج اور ہم

ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے سیاست کو ایک گالی کے طور پر پایا ہے ۔کسی بھی نوجوان کا کسی تنظیم سے تعلق اس بات
کی نشاندہی ہوتا تھا کہ "یہ بگڑ گیا ہے یا بگڑا ہوا ہے " ۔۔ تنظیم کا لفظ ہی معیوب سمجھا جاتا تھا ۔۔ چہ جائیکہ مختلف سماجی
تنظیمیں بھی کام کرتی تھیں ۔ وہ بھی اس وجہ سے پس جاتی تھیں ۔ 
جبکہ ہر بچہ فوجی بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا ۔ آرمی میں افسر بننا یا پائلٹ بننا یا نیوی میں جانا ۔ یہ سب سے پہلی ترجیح ہوا کرتی
تھی ۔۔ یہ ایک عام ماحول ہوا کرتا تھا ۔ اس کی وجوہات پر میں نہیں جاتا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی گئیں ۔  پروپیگنڈے  کا دور شروع ہوا جس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خوب جلا پائی ۔ تعلیمی نظام برباد ہوا ۔ اور ہر والدین
کی زبان میں انجینئر یا ڈاکٹر کا رٹا شروع ہوگیا ۔
یہ تین ایسے نکات ہیں جس پر غور و فکر کم ہی کیا جاتا ہے بلکہ کیا ہی نہیں جاتا ۔
میں اگر جائزہ لوں اپنی شعوری عمر کا ۔۔۔
سیاست آج بھی ویسی ہی ہے جیسی تھی ۔ والدین کبھی اپنی اولاد کو تنظیمی کام کرنے کا مشورہ  کبھی نہیں دیں گے ۔۔
تعلیمی نظام روز بروز روبہ زوال۔۔۔
فوج وہ واحد ادارہ ہے جس نے اپنی ساکھ برقرار رکھی ہے ۔
باتیں بہت ساری کی جا سکتی ہیں ۔ مگر آج کے تناظر میں جو دو شدید آراء نظر آرہی ہیں وہ نہایت مایوس کن ہیں ۔ کیا آپکو لگتا ہے  کہ  اللہ کا نظام کسی بھی طرح   کسی عیب کے ساتھ ہوسکتا ہے  ؟ نہیں جناب سیاستدانوں نے سیاست کو گالی بنائی تو ایک ادارے کی ساکھ کو اللہ نے بہتر رکھی ۔ تاکہ معاملات کچھ نہ کچھ معتدل رہیں ۔اپنے اختیارات سے تجاوز سب کرتے ہیں
مگر فوج مخالف جس فضا کی جانب آپ جانے لگے ہیں وہ نہایت ہی نقصاندہ ہے ۔ اس ادارے کو کم از کم ادارے کی حدتک رہنے دیں ۔ یہ سپریم کمانڈر کا کام ہے وہ اپنے اس ماتحت ادارے کو کیسے کنٹرول کرتا ہے ۔ ہمارا کام سیاستدانوں کوکنٹرول کرنا ہے کیونکہ ہم انہیں اپنے ووٹ سے منتخب کر کے لاتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اپنے مفادات کی  تکمیل پر جت
جاتے ہیں ۔ سیاست کا ادارہ "امانت دار " ہوجائے ۔ فوج بھی ادارے کی حیثیت سے اس کے ماتحت کھڑی ہوگی اس
کے سامنے نہیں ۔
سربراہ کو نمونہ بن کر دکھانا ہوتا ہے ۔ تب ہی اس کے ماتحت اس کو سپریم کمانڈر کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ۔ اس
کی مثال ہم اپنے ایک گھر سے بھی لے سکتے ہیں ۔ جس کا سربراہ عموما والد ہوتا ہے ۔ اور یہی اصول ہے ۔  

Thursday, December 22, 2016

مجلس شوری ، قانون سازی اور عوام

مجلس شوری  ، قانون سازی اور عوام
شہیر شجاع
ہماری عدالتوں سے ایک  گونج لہراتی ، بل کھاتی ملک کے دانشوروں ، قانون دانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، عام شہری ، صحافت کے ایوانوں ، غرض چپے چپے  سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ لیکن کہیں اس گونج پر فکر کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ وہ صدا کیا ہے ؟
" ہم انصاف دینا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر قانون کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے " ۔  یہ وہ صدا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک کے گوشے گوشے کی پکار ہے ۔  ہم نے بڑی مشکلوں سے اللہ جل شانہ  کے فضل و کرم سے ایک بہترین آئین  کی تشکیل کی  ۔ یہ واقعہ قیام پاکستان کے کوئی چھبیس سال بعد پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی آئین بنے ،ٹوٹے ،  پھاڑے گئے ۔ ۔  آج  ستر سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ ہماری  مجلس شوری  یا پارلیمنٹ  اب تک قانون سازی  کے عمل کو اس مقام تک نہیں پہنچا پائی جہاں سے عدالتیں  مملکت خداداد کے باشندوں کو  انصاف فراہم کرسکیں ۔   کہا جاتا ہے بوٹوں کی دھمک نے  پارلیمنٹ کی تکریم کو اس قدر پامال کیا ہے کہ اس کو اپنے مقام تک پہنچنے میں  وقت لگ رہا ہے ۔ یا یہ کہ طاقت کا مکمل ادارہ اب تک پارلیمنٹ نہیں بن سکا ہے ۔ یا اس جیسے مختلف  بہانوں  کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک  کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی رہی ہیں اور جا رہی ہیں ۔ سوال یہ کہ پارلیمنٹ  کی تکریم کو حقیقت بنانے کے لیے ملک کا غریب و نادار یا متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل کر ، اور لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ دے کر چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے ۔ کیا ان ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ؟   بہت عرصے  بعد عام آدمی پارلیمنٹ کی  جانب نظریں مرکوز کرنے اور وہاں پیش آنے والے واقعات  کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ تو وہ دیکھتا ہے اس ادارے  میں  " پارٹیاں(ٹولے) " ہوتی ہیں ۔ " ذمہ دار " یا " سیاستدان" نظر نہیں آتے ۔   جہاں جھوٹ کو " سیاسی بیان " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور سیاست کے لفظ کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ سیاست کو سماج کا سب سے بہترین اور محترم پیشہ قرار دیا گیا ہے ۔ کیا یہ وہی سیاست ہے ؟ یہ سوال ایک عام سماج کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھتا ہے ۔  وہ دیکھتا ہے  ۔پارلیمنٹ  جسے ہم اپنی زبان میں مجلس شوری کہیں تو  اس ادارے کے خدو خال اور اس کے  اغراض و مقاصد زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،  وہاں قوم کے نمائندوں کی جگہ پارٹی کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر یا رہنما کی اصطلاح ایک ایسے شخص کی ہے جو ان نمائندوں کے لیے نعوذ باللہ خدا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس کے اچھے برے افعال کی پردہ پوشی اور سینہ زوری کی حد تک  دفاع ان نمائیندوں کی ذمہ داری ہو ۔ جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا ہے ، ان کے  اغراض کہیں دور سڑکوں میں ایک پنڈال کے اوپر ڈائس میں کھڑے شخص کے جھوٹے وعدوں کی شکل میں گونج بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس گونج  کو سینے سے لگائے ،افراد  ان کے حق میں سڑکوں پر کئی دنوں تک اپنے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ حلق  سے محض نعرے بلند ہوتے ہیں جس کا مقصد ان کے حقوق ، اور انصاف کی سربلندی ہی ہوتا ہے ۔ اور پھر ایک دن لمبی قطاروں کے صبر آزما لمحات ، جس میں سوا نیزے   پر آئے سورج کی تپش  ، دھول مٹی وغیرہ سے نبرد آزما ہو کر  صرف ایک ووٹ دیتے ہیں  ۔ جس ووٹ کو پانے کے لیے  وہ ادارہ انسانیت سوز حالات  تک سے  اپنی عوام کو نہیں نکال پائے ۔  
بہر حال  مجلس شوری  دراصل ملک کے بہترین اذہان  کے مل بیٹھنے کا ادارہ ہے ۔ جنہیں عوام الناس منتخب کرتے ہیں ۔  وہ دیکھتا ہے ، ملک کے سب سے بہترین اذہان ، جھوٹ  ، فریب ، مکاری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد اپنے ملک سے وفاداری بھی نہیں بلکہ اپنی پارٹی سے وفاداری ہے ۔ وہاں ٹھیکوں پر بحث ہوتی ہے ۔ وہاں وزارتوں پر بحث ہوتی ہے ۔ اس مجلس میں شوری کا عمل مفقود دیکھ کر اس کا دل بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے دماغ میں گونج ابھرتی ہے ۔ جمہوریت ہی ہماری بقا ہے ۔ ایک اور گونج ابھرتی ہے ، جمہوریت بہترین اتنقام ہے ۔ وہ سوچتا ہے ۔ انتقام کس کے خلاف ؟
یوں صدی بیتتنے کو ہے اور قانون سازی کا عمل جمود کا شکار ہے ۔ وہ منتخب نمائندے   اپنے اپنے مفاد کے لیے لڑتے رہیں گے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈائس پر کھڑے ہو کر ہمیں چورن بیچیں گے ۔ اور ہم ذوق و شوق سے وہ چورن  چاٹ کر اسی   جنون کے ساتھ انہیں واپس انہیں مسندوں پر بٹھائیں گے ۔ جہاں  بیٹھ کر ان کی تمکنت  ایک مرتبہ پھر قائم ہوجائے گی ۔ پھر مفادات کی جنگ ہوگی ۔ انصاف  کے ادارے ایک جانب کھڑے ان کا چہرہ تکتے رہیں گے ۔  اور انصاف کی  بے بس صدائیں ہونہی  ایوانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی ۔  

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...