Showing posts with label علم. Show all posts
Showing posts with label علم. Show all posts

Sunday, July 28, 2019

علم کیا ہے

علم کیا ہے
احمد جاوید صاحب

کچھ صاحبان علم سیر کے لیے نکلے ہوئے تھے ،، راستے میں انہیں ایک بورڈ نظر آیا جہاں لکھا ہوا تھا " ہمارے یہاں علم والوں کو علم سکھایا جاتا ہے "
یہ اس بورڈ  میں موجود اشاروں کو فالو کرتے ہوئے نزدیکی ایک جگہ تھی وہاں پہنچ گئے ، 
اور وہاں اندر آنے کی اجازت طلب کی جو انہیں مل گئی ۔وہاں  پہنچے  تو ایک ضعیف  سے آدمی کچھ نوجوانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، انہوں نے اندازہ لگالیا کہ یہی شخص یہاں کا معلم ہے
 انہوں  نے پوچھا کہ ہم تو ایک تجسس سے آئے ہیں آپ کا بورڈ پڑھ کے ۔ 
کہ آپ علم رکھنے والوں کو علم سکھاتے ہیں یہ کیا بات ہوئی ؟
انہوں نے جواب دیا کہ شاید میری یہ بات تمہیں کسی دلیل سے نہ سمجھ آئے میں چاہتا ہوں تمہارے سامنے اسکامظاہرہ کردوں ۔
انہوں نے کہا ٹھیک ہے
استاذ نے انہی میں سے ایک صاحب سے پوچھا
یہ جو سامنے صحن میں ایک چیز کھڑی ہوئی  ہے یہ کیا ہے  ، تمہیں معلوم ہے ؟
صاحب نے جواب دیا جی ہاں ہمیں معلوم ہے
یہ درخت ہے
انہوں نے پوچھا  کیا اس درخت نے اپنا یہ نام تمہیں خود بتایا ہے؟
انہوں نے کہا نہیں یہ درخت کیسے بتا سکتا ہے اس کا یہ نام تو ہم نے خود اسے دیا ہے۔
استاذ نے کہا کہ جب ایک چیز کا نام ہی تم نے رکھا ہو اور اس چیز کی ساری پہچان اس نام سے جڑی ہوئی ہو جو تم نے اسے دیا ہو  تو اس میں اس چیز کا علم تو نہیں ہے ناں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اس چیز کے بارے میں ایک تصور پہلے سے بنا رکھا تھا اور اس چیز کو دیکھ کر اپنے اس تصور کو اس شے پر اوڑھا دیا۔اب تم کہتے ہو تمہیں اس چیز کا علم ہے ؟ اس چیز کا علم تو اس شے سے پوچھ کر یا اس کے اندر اتر کر یا اس کے بھیتر جھانک کر ہی ممکن ہے ناں۔
جی استاذاس پہلو سے تو ہم نے کبھی  نہیں سوچا تھا
انہوں نے کہاں نہیں تم نے مزید کئی پہلو نہیں دیکھے ہونگے لیکن آج تم یہ سبق بہرحال مجھ سے لے لو
کہ ہم وہی کچھ جانتے ہیں جیسا ہم جاننا چاہتے ہیں
انہوں کہا بالکل جناب میں نے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی ۔


علم وہ ہے جس کا فائنل معلوم جس کا حتمی معلوم اللہ ہو جو علم اللہ کو معلوم کروانے میں مدد نہیں دیتا وہ علم نہیں وہ چیزوں پر ایک غاصبانہ قبضہ ہے۔

Wednesday, October 10, 2018

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

شہیر

علم کی حیثیت ٹکوں کی رہ جائے گی کیسے سوچا جاسکتا تھا ؟ کبھی ماسٹر ، استاذ نے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔  محلے کے بدنام ترین لوگ بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے ،  اسکی زندگی عموما سادہ اکثر کسمپرسی کی حالت میں ہی دیکھی گئی ۔ مگر اس کے چہرے پر اطمینان جھلکتا تھا ۔ احساس ذمہ داری کی شکنیں اس کی پیشانی سے عیاں ہوتی تھیں ۔ جیسے سارے جہاں کا درد اس کے سینے میں ہو  ۔
ہم بچپن میں بڑوں سے پوچھا کرتے تھے تعلیم کی آخری حد کیا ہے ؟ ہمیں بتایا جاتا ویسے تو کوئی حد نہیں مگر آخری ڈگری جو سب سے بڑی ڈگری کہلاتی ہے وہ " پی ایچ ڈی " ہے ۔ اس وقت تو اس کے معنی کا بھی ادراک ممکن نہیں تھا ۔ مگر اس نام کا ایک رومان بسا تھا ذہن میں ۔ کہ جس شخص نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ہو ۔ اس کا ذہن کس قدر وسیع ہوگا اور اس کے سینے میں علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوگا ۔ کتنی دنیا اس سے مستفید ہوگی ؟  جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ، علم کے معانی کا ادراک کچھ کچھ ہوتا گیا ۔ مگر ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک عظیم المیے سے بھی سامنا ہوا ۔ جہاں علم کی حیثیت ارزاں  ہوتی دیکھی ۔ جہاں ڈگریوں کو  علم کا مساوی درجہ دیا جانے لگا ۔ اور مقصد ڈگری کے معنی ملازمتوں کا حصول جانا گیا ۔ جتنی اعلی ڈگری اتنی اعلی " نوکری " ۔ یہ ایک ایسا تضاد تھا جو بمشکل سمجھ آتا ۔ آج اس تضاد نے یہ دن بھی دکھایا کہ  اعلی ترین ڈگری یعنی اعلی ترین " علمی سند " رکھنے والے  " نوکری" نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں ۔ اک آہ سی نکلتی ہے ۔ یہ کیسا علم ہے ؟   یہ کیسی سند ہے ؟ یا معاشرہ علم والوں سے متنفر ہوچکا محض " سرمایہ دارانہ پروڈکٹ" کا طلبگار رہ گیا ہے ؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...