Showing posts with label شعور. Show all posts
Showing posts with label شعور. Show all posts

Sunday, March 8, 2020

اسمارٹ فون اور شعور


اسمارٹ فون اور شعور

شہیر شجاع

اسمارٹ فون ایک ایسا آلہ ہے جو ساری دنیا میں تقریبا ہر انسان کے زیر استعمال ہے ۔ اور ہر شخص انفرادی طور پر اپنے افادات وترجیحات و ذوق کے پیش نظر اس کا درست و غلط استعمال کر رہا ہے ۔ اگر ہم پاکستانیوں کی بات کریں تو محسوس ہوتا ہے مجموعیطور پر اس آلے نے ہمارے مجموعی شعور کی تنزلی کو خوب عیاں کیا ہے ۔ 

میں بہت سے رویوں میں سے دو ریوں کا ذکر کروں گا۔ ایک تو وہ جب نواز شریف یا دیگر سیاستدان  پاکستان سے باہر تشریف لےجاتے ہیں تو وہاں عوام سیل فون ہاتھوں میں لیے نازیبا نعروں سے ان کا استقبال کرتے پائے جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے اخلاقی و شعوریگراوٹ کی انتہا ہے کہ ہم مذہبی تو دور قومی غیرت سے بھی ہاتھ دھو کر ذاتی نفرتوں کے خوگر ہوچکے ہیں ۔ 

دراصل ان سطور کے لکھنے کا سبب ایک ویڈیو بنی جس میں کوئی “ غیرت مند “ پاکستانی ، حامد میر صاحب کو ائر پورٹ میں ذلیلکرنے پہ تلا ہے ۔ دل پہ چوٹ سی لگی ۔ کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ اور شدید ترین چوٹ تب لگتی ہے جب اس کی عقیدت یاوفاداری پہ شبہ کیا جائے ۔ پھر سونے پہ سہاگہ اس کے اپنے ہی لوگ سر راہ اس انسان کو رسوا کرنے لگیں ۔ 

اختلاف گھر کے اندر ہوتا ہے ۔ احتجاج ہو غصہ ہو ناراضی ہو یہ سب گھر کے اندر آپس کے معاملات ہوتے ہیں ۔ اس میں اختلاف رائےتک ہی بات رہنی چاہیے ۔ اور غیرت تو کسی بھی طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

 

Tuesday, March 21, 2017

تعلیمی شعور

آج کے ہمارے معاشرتی تناظر میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ " تعلیم ہمیں تہذیبی شعور فراہم نہ کرسکی ۔ ہمیں مہذب نہ بنا سکی " ۔ ہماری اخلاقی روایتوں کو بلند آہنگ کیا کرنا ہمیں اخلاق کا مفہوم تک نہ سمجھا سکی ۔ دینی روایتیں وقت کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہوسکیں ۔ ثقافت کشمکش میں تبدیل ہوگئی ۔ شعور ہیجان کا شکار ہوکر ہمہ وقت ردعمل دینے کا پابند ہوگیا ۔ تعلیم ماں ، بہن ، بیٹی ، بیوی کے درمیان اعتدال نہ فراہم کرسکی ۔ آفس میں خاتون سیکریٹری کے بنا مکتب کا تصور نہیں اور جاب کرتی خاتون بیوی ہونے کیلیے ناموزوں ، بہن بیٹی کی تعلیم غیرضروری مگر بیوی اعلی تعلیم یافتہ چاہیے ، بہن بیٹی معاشرتی فلاحی کاموں کا حصہ بننا چاہے تو نامنظور لیکن بیوی جاب لیس ہو تو بھی نامنظور ۔ بنیاد پرستی جس کا حقیقی مفہوم حقیقت کی جانب رجوع ہے ، عصر حاضر کی گالی اور جدت میں تصورات سے خالی نقالی میں راضی ۔ افکار کی دنیا میں الحاد تک کا سفر ، کہیں فکر و استنباط سے مکمل روگردانی ۔ کہیں عورت پیر کی جوتی تو کہیں بازار کی جنس ۔ عجب تضاد کا شکار معاشرہ قول و فعل کے "عظیم" تضاد کے ساتھ زندہ و تابندگی کے زعم میں سینہ تانے زوال کی جانب محو سفر ہے ۔

گزرتا ہے ہر شخص چہرہ چھپائے
کوئی راہ میں آئینہ رکھ گیا ہے

Monday, February 13, 2017

ویلنٹائن

ویلنٹائن
شہیر شجاع

پاکستانی معاشرہ ذرا جدا ہے ۔۔۔ یہاں جو ہوتا ہے سینہ ٹھوک کر ہوتا ہے ۔۔ خواہ اچھا ہو یا برا ۔۔۔ خنجر کی ہو یا جوتے کی نوک پر ہوتا ہے ۔۔۔ بات نہ بنے تو ٹی ٹی کلاشنکوف نکل آتے ہیں  ۔۔۔ یہاں ہر کوئی آزاد ہے ۔۔۔۔۔ ویلنٹائن ویلنٹائن کا شور ہے ۔۔۔۔ کسی کے لیے یہ " یوم محبت " ہے ۔۔ تو کسی کے لیے " یوم تجدید حیا " ۔۔۔۔ ہر دو گام پر سینے چوڑے ہیں ۔۔۔ گردنیں تنی ہوئی ہیں ۔۔۔  ہر ایک کے پاس دلائل ہیں ۔۔۔  بس کیا کیجیے کہ ۔۔۔  خنجر بھی ہر ہاتھ میں موجود ہے ۔۔ سینے بھی ان کے سامنے سپر ہیں ۔۔۔۔
لفظ " محبت " فطری طور پر محبوب ہے ۔۔۔ اسی طرح لفظ " آزاد" ۔۔۔ یہ الفاظ انسان کو مسحور کردیتے ہیں ۔۔ وہ انہیں اپنی زندگیوں میں شامل کرلینے پر مجبور  کرتے ہیں ۔۔۔۔
ٹھیک ہے جنہیں عالمی یوم محبت میں شانہ بشانہ حصہ لینا ہے ۔۔ وہ لیں ۔۔ بصد شوق لیں ۔۔۔ مگر جو اس عالمی یوم محبت کے فلسفے کو رد کرتے ہوں ۔۔ وہ بھی ان کے درمیان نہ آئیں ۔۔۔ انہیں منانے دیں ۔۔ کیونکہ ابھی ہمارا معاشرہ اس قدر زوال پذیر نہیں ہوا کہ ایسے دن کا سہارا لیے بنا ۔۔۔ جبلی خواہشات کی تکمیل کی جا سکے سو ایسے عالمی دن کی ضرورت موجود ہے ۔۔۔۔۔ سو وہ اپنے جہاں میں خوش آپ اپنے جہاں میں خوش رہیں ۔۔ آپ کا جہاں اس وقت دنیا میں  یوں مشہور ہے کہ آپ نفرتوں کے سوداگر ہیں ۔۔ سو مزید اپنی بدنامی کا باعث نہ بنیں ۔۔ ۔ بلکہ آپ کے نام سے جڑے ان غلط تصورات کو دور کرنے کی جانب توجہ دیں ۔۔۔۔
جب انسان میں غلبہ غلامی اپنی جگہ بنا لیتا ہے ۔۔ پھر اس کا شعور اپنے آپ سے جدا ہوجاتا ہے ۔۔۔ بنیادوں سے جڑے رہنے والی خواہش ۔۔ قدامت پسند ، رجعت پسند ، بنیاد پرست   جیسے تصورات کہلاتی ہے ۔۔۔ آزاد خیال سب ہی ہوتے ہیں ۔۔۔۔ دنیا بدل گئی ہے ۔۔۔ مگر ہماری نظریاتی بحثوں میں اب تک جدت آئی ہے اور نہ ہی خاطر خواہ اعتدال ۔۔۔۔ ہر جانب اپنے نظریات پر شدت پسندی کا غلبہ ہے ۔۔۔ کوئی اپنا محاسبہ کرنے پر رضامند نہیں ۔۔۔
سو ویلنٹائن والوں کو " عالمی یوم محبت " مبارک ۔۔۔۔ 

تم شوق سے کالج میں پڑھو, پارک میں کھیلو..
جائز ہے غباروں میں اڑو, چرخ پہ جھولو...
پر ایک سخن بندہ عاجز کی رہے یاد ..
اللہ کو اور اپنی  حقیقت کو نا بھولو

اکبر الہ آبادی

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...