Showing posts with label سیاست. Show all posts
Showing posts with label سیاست. Show all posts

Wednesday, July 31, 2019

مذہب کارڈ

 مذہب کارڈ
شہیر شجاع
آج کل مذہب کارڈ پر زور و شور سے بحث جاری ہے ۔ ہر کس و ناکس اس بحث میں حصہ لے رہا ہے ۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ اس بحث میں نامی گرامی "علم والے " حضرات بھی شامل ہیں ۔  اس بحث کی ابتداء مولنا فضل الرحمن صاحب کے  ملین مارچ سے شروع ہوئی ۔ اس بحث کے  فی الحال دو گروہ ہیں ۔ ایک پی ٹی آئی ۔ دوم جے یو آئی ۔
جے یو آئی اور ان کے  بیانیے سے اتفاق کرنے والے کہتے ہیں   کہ عمران خان کا " مدینے کی ریاست " کا نعرہ ،
ہاتھ میں تسبیح اور" ایاک نعبد وایاک نستعین"  سے اپنی تقاریر کی ابتداء اور ہر جلسے سے پہلے تلاوت قرآن پاک ۔۔ یہ سب مذہبی کارڈز ہیں ۔۔ 
ہم اس پہ غور کرتے ہیں کہ کیا یہ واقعی  ایسی مثالیں ہیں جنہین مذہب کا ناجائز استعمال اور نتیجتا مذہبی استحصال کہا جا سکتا ہو ؟ یا ان اعمال سے مذہب اور مذہبی سوچ  کا استحصال ہوتا ہو ؟
مدینے کی ریاست کیا  ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ  وسلم اور خلفاء راشدین کے زیر اثر ریاست کا دھانچہ ہے ۔ اس کو عدل و انصاف ،  باہمی مساوات ،   دردمندی ، دیانت داری کے استعارے کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اور اغلب گمان یہی ہے کہ اس کے یہی معانی ہونگے ۔  اگر چہ یہ اس کا اپنا نعرہ ہے اس سے کسی دوسرے کی ذات کا یا کسی بھی طبقے یا خاص گروہ کے جذبات کا استحصال نہیں ہوتا تو اسے مذہبی کارڈ نہیں بلکہ سیاسی نعرہ کہنا درست ہوگا ۔ جس پر عمل درآمد  اس  پر واجب ہوگا اور اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتا ہے تو عوام کے سامنے وہ جوابدہ ہوگا ۔ اسی طرح عمران خان کا ہاتھ میں تسبیح لینا اس کا ذاتی عمل ہے ۔  اس کی نیت تک رسائی صرف اللہ پاک کو ہے ۔ کہ اس نے کس نیت سے تسبیح ہاتھ میں رکھی ہے اور اس تسبیح کو لیے وہ امریکہ جیسے ملک کے دورے تک کر لیتا ہے ۔ اگر  نیت پر شک کرنا حاصل گفتگو ہے  پھر تو یہ مذہب کارڈ ہے وگرنہ یہ سراسر مذہب کے ساتھ زیادتی ہے کہ تسبیح ہاتھ میں لینے کو مذہب کارڈ کہا جائے اور آئندہ سیاسی شخصیت کا تسبیح ہاتھ میں لینا  " کفر" سمجھا جائے ۔ اسی طرح ایاک نعبد وایا ک نستعین جیسی مبارک آیت کو  ابتداء بناکر عوام کو ایک نیک شعورکی جانب راغب کرنا (خواہ وہ قصدا ہو یا نہ ہو ) مذہب کارڈ ہے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسے سیکولر نظام کی بات کر رہے ہیں جہاں اللہ کا نام لینا  سیاست میں ناجائز ٹہرا لیا جائے ۔  کیا یہ مذہبی جماعتیں اور ان کے چاہنے والے بذات خود ایک گھڑا نہیں کھود رہے ؟
اب آتے ہیں مذہبی جماعتوں کی جانب سے استعمال ہونے والے مذہبی کارڈز کیا ہیں ؟ مولانا فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں عمران خان یہودی ایجنٹ ہے ؟ اس کے بعد ایک غلغلہ برپا ہوتا ہے کہ عمران خان کا خاندان قادیانی ہے اور یہ قادیانیت نواز حکومت ہے ۔  عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا اور اسی طرح قادیانیت  سے مربوط کرنا کیا یہ بہتان طرازی نہیں ؟  اسی طرح نظام مصطفی ریلی کا انعقاد کرنا ۔ اور ایسی ریلیوں کو حکومت مخالفت کے لیے استعمال کرنا کیا مذہبی کارڈ کا درست استعمال ہے ؟ یہ سوال میں آپ پر چھوڑ تا ہوں ۔  اور چند گزارشات  اپنی جانب سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو منطقی اور شعوری سطح  کے ساتھ انصاف پر مبنی ہو ۔
مذہبی کارڈ دراصل اسی بہتان طرازی  اور ریاست کے آئین  کی مخالفت  اور عام آدمی کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اس کے استحصال کا نام ہے ۔ جس سے  سماجی شعور میں ایک پراگندگی پیدا ہو ۔ اور اجتماع " مذہبی " بنیاد پر گروہوں میں بٹ جائے ۔  اس کی ایک عام فہم مثال جے یو آئی سے لیکر جماعت اسلامی تک  کے  سیاستدانوں کے خطابات  سے لی جا سکتی ہے ۔ جہاں وہ اپنے مخالفین کو " طاغوت " کہتے ہیں ۔ مدارس کے طلباء  اور ان جماعتوں سے جڑے افراد کا شعوری استحصال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ   اپنے مخالفین   کو طاغوت سمجھنے لگیں ۔ جس سے ایک خلیج ہے  جو بڑھتی جاتی ہے ۔ اسی شعور کوابھار کر کبھی نظام مصطفی ریلیاں نکلتی ہیں ، کبھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے  سیاسی اجتماعات ہوتے ہیں ۔  ہمیں مذہبی جماعتوں سے یہی گلہ ہے کہ ایسا نہ ہو کسی دن وہ خود ہی سیکولر نظام کی  بنیاد رکھ دیں ۔ اور اللہ کا نام لینے والا سیاسی زبان  میں " طاغوت" کہلائے ۔
آپ بھی  " نبوی عدل و انصاف " کے نعرے لگائیں ۔ سود سے پاک نظام کا نعرہ لگائیں ۔ روٹی ، کپڑا مکان کا نعرہ لگائیں ۔ مگر مذہب کا کم از کم درست استعمال کریں ۔  مذہب کارڈ کا مطلب "الزام تراشی " یا مذہبی جذبات کو ابھار کر کسی کی مخالفت پر  افراد کو مجبور کردینا  نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ عمران خان کے ہی جیسا آپ بھی مذہب سے جڑے ایسے نعرے پیش کریں جس میں عوام کو اپنی فلاح و بہبود نظر آئے ۔  
تہذیب کی ابتداء کسی جانب سے تو شروع ہونی چاہیے ۔ اور وہ یہ ہے کہ  تنقید و اختلاف کے الفا ظ " تمسخرانہ  " و " استہزائیہ " نہ ہوں ۔ بلکہ قبول و رد میں دلیل کار فرما ہو ۔ تب ہی  باہمی روابط میں شایستگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ ورنہ کدورتیں  تو موجود ہیں ہی ۔ بڑھتے بڑھتے یہ تشدد سڑکوں پر عام نہ ہوجائے ۔ 

Thursday, July 4, 2019

معاشرہ اور سیاست

معاشرہ اور سیاست

شہیر شجاع

فرد کا کردار خاندان کی تخلیق اور خاندانوں کا اجتماع سماج یا معاشرہ تشکیل دیتا ہے ۔ اس تشکیل کو منظم کرنے کے لیے سیاسی کرداروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ جو معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے   قوانین تشکیل دیتی ہے اور ان قوانین پر عمل پیرا ہونے  کی تلقین کرتی ہے ۔ یہ تلقین    بظاہر جبری ہوتی ہے  ۔ لیکن اگر معاشرے کی  تربیت درست پیمانے پر کرنے کے ادارے مضبوط اخلاقی پیمانے اور رویوں پر قائم ہوں تو وہ جبر  "تنظیم " اور " امن و امان " کے استقلال کی ضمانت ہوجاتا ہے ۔ بظاہر جبر کا لفظ  بالفعل انسانی مزاج پر بار  محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن   انسان کے مزاج کو اس " جبر" کو قبول و رد کرنے کا  عمل " باہمی اعتماد" پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر معاشرہ  اپنے تنظیمی و تربیتی اداروں پر اعتماد رکھتا ہے تو اس کا مزاج ،جبر بخوشی قبول کرلیتا ہے کہ اس  میں اجتماع کی بہبود منحصر  ہوتی ہے ۔ اور اگر یہاں باہمی بد اعتمادی نمایاں ہو تو جبر انسان کا مزاج  رد کردیتا ہے ۔ اور وہ اپنی "جبلت" میں آزاد رہنا پسند کرتا ہے ۔ ایسے معاشرے میں چوری چکاری ، ڈاکہ زنی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، خیانت ، قتل و غارت   ، ذخیرہ اندوزی جیسے معاشرتی مسائل  اور  معاشرے کی اکائی خاندان میں بھی فساد برپا ہوتا ہے ۔ جہاں  اخلاق و تہذیب   شرمندہ پھرتے نظر آتے ہیں ۔  
فرد اپنے خاندان کے ساتھ مخلص ہو اور اس کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اپنے اخلاق کو تہذیب و شائستگی سے آراستہ و پیراستہ کرکے اپنے خاندان کی تعمیر کرے گا تب ہی معاشرے  کے مزاج میں  شائستگی نظر آئے گی اور یہی شائستگی  آگے چل کر سیاسی اداروں کی بنیاد بنے گی ۔ (سیاسی ادارہ محض وہ نہیں جسے ہم عرف عام میں حکمران کہتے ہیں ، واعظین سے لیکر تعلیمی ادارے یہ تمام سیاسی ادارے ہیں جو معاشرے کی تشکیل اور تنظیم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں )


Saturday, February 17, 2018

حسن ظن

حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے ۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا ۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف  فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ  دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان  کی پارٹی ہے ۔  میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف  میں کوئی  روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی  " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے ۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت ن لیگ کی جانب سے  نامزد اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے  فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے  ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا  ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا  جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن  اپنے وزیر اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال  سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا مکمل  امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی  پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں ۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔

Wednesday, May 31, 2017

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب
شہیر شجاع
جب تک پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا سماج بھی  اپنی حدود میں کافی بہتر حالت میں موجود تھا ۔ اعتماد کی فضا قائم تھی ۔ مذہبی نقائص اپنی جگہ موجود تھے مگر وہ مذہب کے علمبرداروں کے درمیان ہی موجود رہیں ۔ اگرچہ اس کی سطح اپنی حدود پھلانگ کر عوام میں سرایت کرتی گئیں ۔ مساجد پر پہرے بٹحا دیے گئے ۔ مسجد مسلمان کی نہیں مسلک کی میراث قرار پائی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نفرتوں  کی آگ میں آپس میں  الاو اس قدر اونچے ہوتے گئے کہ یہ سوچنا محال ہوگیا کہ اسے مدہم کیسے کیا جائے ؟ اللہ نے کرم کیا ۔ علماء اور دانشوران ملت میں سے بہت سے افراد نے جدودجہد شروع کی اور اس الاو کو دھیما کرنے میں کافی بہتری آئی ۔ اس میں سوشل میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا ۔  بہرحال آج صورتحال اپنے گزرے کل سے کافی مختلف ہے ۔ تعصبات مسالک قدرے لچکدار ہوچکے ہیں ۔ ان میں آپس میں مل بیٹھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کلمہ کی بنیاد پر یکجا ہونے کا تصور پروان چڑھ رہا ہے ۔  مگر ساتھ ہی لسانی و سیاسی تعصبات نے بھی خوب اپنی جگہ بنائی ہے ۔ مذہبی تنافر میں جہاں کمی آئی وہیں ان تعصبات نے شدت اختیار کی ۔  عصبیت بری چیز نہیں گر اجتماعی ہو ۔ کسی ایک نکتے پر سب کا اجماع ہو جو تمام عصبیتوں کو جوڑے رکھے وہاں مختلف عصبیتیں تعمیر کا بھی کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس کے لیے راہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارا معاشرہ راہنماوں کے قحط سے دوچار ہے ۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا کردار کلیدی ہے ۔ سماج کو تبدیل کرنے میں میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے ۔ مگر وہ ایک ایسے رخ پر چل نکلا ہے جہاں سے ہوائیں  مزاج میں تلخیاں پیدا کرتی ہیں ۔ نفرتوں  کے الاو کو مزید دہکاتی ہیں ۔ جہاں وہ معلومات کی فراہمی کا دعویدار ہے وہیں اذہان کو شدید متاثر کرنے کا جرم قبول کرنے سے بھی روگرداں ہے ۔ اس ہتھیار کو الیکٹرانک میڈیا مثبت پیش رفت کے لیے استعمال کرسکتا ہے ۔ لسانی و سیاسی تعصبات کو اجتماعی رنگ دے سکتا ہے ۔ جہاں سیاست کے مفہوم و معانی سے عوام کو روشناس کرائے ۔ مگر وہ مختلف سیاسی عصبیتوں کے درمیان جنگ کا میدان تخلیق کرتا ہے ۔ جس سے معاشرہ مزید پراگندہ حال ہو کر کھائی کی جانب گرتا چلا جا رہا ہے ۔ مذہبی  موضوعات میں مثبت عوامل کو نظر انداز کر کے منفی عوامل کو اجاگر کرتا ہے جس سے مغرب کا پروپیگنڈہ مزید تقویت پاتا ہے کہ  ملا سوائے مسلکی عصبیتوں کو فروغ دینے کے اور کوئی کام نہیں کر رہا ہے ۔  اور جو ملا دینی ، علمی ، تحقیقی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی جدوجہد سے  سماج استفادہ کرنے کے باوجود اس کی پذیرائی کرنے سے معذور ہے ۔ جس وجہ سے یہ رجحان عام نہیں ہو پارہا ہے ۔ یہی میڈیا اگر اپنے پروگرامز کی ترتیب تبدیل کردے ۔ سیاسی نمائندوں سے ان کی جدوجہد کے مقاصد اور مستقبل کی پیش رفت پر گفتگو کرے ۔ سیاست کی حیثیت اور اس کے سماجی اثرات پر گفتگو کرے ۔ سیاسی نمائندے جب کیمرے کے سامنے پیش ہوں تو انہیں ہوم ورک کی ضرورت ہوگی ۔ کہ ان سے ان کے کام کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔  ان کے مقاصد اور ان کی تکمیل کی جانب پیش رفت کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔ نہ کہ لوڈ شیڈنگ کیوں کم نہیں ہوئی ؟  فلاں نے  وہ سڑک بنائی اور وہ کیوں نہیں بنائی ؟ اسپتال اس لیڈر کی جانب سے ابتداء کردہ اس حکومت میں کیوں مکمل نہیں ہوئی ؟ ایسے سوالات کیے جائیں ۔ بلکہ یہ پوچھا جائے کہ اسپتال ، تعلیمی اداروں کے قیام کی وجوہات کیا ہیں ؟ آپ کے خیال میں یہ کیوں ضروری ہیں ؟ اور اس کی تختی پر آپ کے نام کے بجائے انجینئرز کے نام کیوں نہیں لکھے جاتے ؟ پیسہ تو عوام کا ہے ۔عوام کی حیثیت سیاسی نمائندوں کی نظر میں کیا ہے ؟
اسی طرح مذہب کے ان نمائندوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے جو حقیقی نمائندے ہیں ۔ جو عوام کی نظروں میں  صرف علم والے ہیں ۔ ان کے انٹرویوز ہوں ۔ ان سے مذہب و مسلک کی حدودو قیود پر بات ہو ۔ اخلاقی کردار پر بات ہو ۔ حقوق العباد پر بات ہو ۔ مذہبی تعصبات سے دور کیسے رہا جائے ؟ ایسے سوالات اٹھائے جائیں ۔  اور ایسے بہت سے  سود مند کام ہیں جس سے سماج میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ سماج میں علماء ، دین ، مذہب و مسلک ، سیاست و سیاسی نمائندے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقیقی حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کاش کہ الیکٹرانک میڈیا بے تحاشہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے منصب حقیقی کی جانب بھی توجہ دے ۔ بیشک یہ بھی جہاد ہوگا ۔ اور اس کا ثمر اسی دنیا میں  بھی اسے ملے گا ۔ 

Wednesday, March 22, 2017

ایم کیو ایم اور آج کا سیاسی منظر نامہ

ایم کیو ایم اور آج کا سیاسی منظر نامہ
شہیر شجاع
ایک نوجوان تعلیم یافتہ لڑکا کراچی کی لسانی جماعت کے جھانسے میں آگیا تھا ۔ جو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ گلی محلے کے افراد کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا ۔ جس کے لیے اسے وہ جماعت موزوں نظر آئی ۔ جس کا نعرہ اس کے دل کو چھو گیا ۔ اور وہ اپنی شمولیت کے ساتھ اپنے تئیں ان افراد کی فلاح کے کاموں میں جت گیا جو استحصال کا شکار تھے ۔ دن میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رہتا شام میں پارٹی کے ساتھ مل کر عملی کام کرتا ۔ جلد ہی وہ یونٹ انچارج کی سطح تک پہنچ گیا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔ اسنے دیکھا کیسے کیسے مال بنایا جاتا ہے ؟ کیسے نوجوانوں کو تباہ کرنے کے پلان تشکیل دیے جاتے ہیں؟  وہ تو ایک مثبت مقصد لیے اس جماعت میں شامل ہوا تھا ۔  آہستہ آہستہ پارٹی کے منفی عناصر کے ساتھ اس کی چپقلش رہنے لگی ۔ اس کی پہنچ اب تک اعلی سطح کے کارکنان سے نہ ہو پائی تھی ۔ جبکہ اس کے ساتھ چند ایسے افراد بھی تھے جو دہشت گردی میں ملوث تھے ۔ جن کو احکام "اوپر" سے ڈائریکٹ ملا کرتے تھے ۔ ایسے افراد اس کے خلاف ہوگئے ۔ اکثر مقامات پر جہاں وہ منفی سرگرمیوں کی مخالفت کرتا وہاں خمیازہ بھی اسی کو بھگتنا پڑتا ۔ کسی موقع پر اس کی نوک جھونک ایک دہشت گرد لڑکے سے ہوگئی ۔ اس نے اونچی سطح پر اس کے خلاف جھوٹی رپورٹ کردی کہ فلاں لڑکا  پارٹی کے خلاف جا رہا ہے ۔ اس سے پارٹی کو خطرہ ہے ۔ وہ بھائی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا ۔وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اس کے خلاف احکامات "نازل " ہوگئے ۔ دن دیہاڑے  وہ غائب ہوا اور رات کے کسی پہر اس کی لاش برآمد ہوئی ۔ جس پر چٹ لگی تھی ۔ " جو قائد کا غدار ہے ، وہ موت کا حقدار ہے " ۔ اور ایک مخلص نوجوان "قائد سے غداری کی بھینٹ " چڑھ گیا ۔
اس جماعت کو اور فی زمانہ اس کے ووٹرز کو سمجھنا آسان نہیں ہے ۔ یہ ایک نوجوان کی نہیں پوری نسل کی کہانی ہے ۔  جو تباہ و برباد ہوئی ۔ آج جو حال اس جماعت کا ہے وہ تو کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ لوہا گرم ہے کراچی کو منظم کیا جا سکتا ہے ۔ کراچی کو اس کے اصل جوہر میں واپس لایا جا سکتا ہے ۔ مگر جس سیاسی رویے کے ذریعے کوشش نظر آرہی ہے وہ ایک ڈرامہ ہے ۔ کوئی چاہتا ہی نہیں ہے کراچی اپنے جوہر میں واپس آئے ۔ یہ ایک سونے کی چڑیا ہے جسے دو بڑی جماعتیں استعمال کرتی آئی ہیں اور کر رہی ہیں ۔ وہی انہیں پالتی پوستی ہیں ۔ جب فصل کی کٹائی کا وقت آتا ہے تو کونپلیں کاٹ کر دعوائے پارسائی کرتی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان مضبوط جڑوں سے پھر کونپلیں پھوٹ نکلتی ہیں ۔ پھر دعووں اور نعروں کا بازار گرم ہوتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ تیس پینتیس سال سے چل رہا ہے ۔  

Saturday, February 25, 2017

قصور کس کا ؟ سیاست یا معاشرت

قصور کس کا ؟ سیاست یا معاشرت
شہیر شجاع
جب ہم اللہ جل شانہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں تو پھر ہماری زندگی سے برکت و رحمت اٹھ جاتی ہے ۔ ہمارے کام سیدھے نہیں ہوتے ۔ سب کہتے ہیں خود ٹھیک ہوجاو معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا ۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ۔۔ معاشرے میں امور سیاست ناگزیر ہے ۔ اور سیاست کا سب سے اہم مقصد معاشرے کو پر امن اور باہم مربوط رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے ۔چونکہ یہ معاشرہ طاقت ور کا معاشرہ بن چکا ہے ۔ کمزور کے لیے کوئی پرسان حال نہیں ہے وہا ں ذہنی پراگندگی اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ پیٹ کے مسائل کاشکار ذہن کہیں نہ کہیں اپنی فرسٹریشن نکالتا ہے ۔ آپ اگرامور سیاست کو اس سے ماوراء سمجھتے ہیں تو یورپ کے قوانین میں ایک بچے کو کیوں اختیار ہے کہ اگر اس کے والدین تشدد کریں تو وہ شکایت درج کرائے؟ اور اس کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا وہ قانون درست ہے ۔ مگر ہمارا اپنا دین اتنا خوبصورت اور معتدل ہے کہ اسے اگر رائج کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا جائے تو ایسے معاشرتی مسائل سے بہت حد تک چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ یورپ کی عورت ہم سے کہیں زیادہ پسماندہ تھی ۔ وہاں مگر اسے حقوق دینے کے چکر میں حدود ہی کراس کردی گئیں جس وجہ سے وہ آزاد تو ہوگئی مگر خاندانی زندگی سے محروم ہوگئی ۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے ۔۔ یہاں رائج صدیوں پرانے رواج ۔۔۔ ناخواندگی ۔۔ او ر جو خواندہ عناصر ہیں وہ بھی تعلیم کے ایسے فرسودہ معیار کی وجہ سے محض ایک دوڑ کا حصہ ہیں ۔۔ تربیت کہاں ہے ؟ جس معاشرے کی تعلیم ، تربیت نہ کرسکے اس تعلیم کا کیا فائدہ ؟ پھر آپ مردوں پر الزام لگائیں یا عورت کو قصور وار کہیں ۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔ عدالتوں میں وکلاء اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔۔ مگر اسی قانون کے داو پیچ کے ذریعے مجرموں کو بے قصور ثابت کرتے ہیں ۔۔۔ جبکہ ان کے پاس قانون کا حقیقی علم ہوتا ہے ۔ معاشرہ تو اپنے دین سے ہی نابلد ہے ۔۔ رائج فرسودہ روایات کو ہی دین سمجھ کر اسے مذہب کا نام دے لے اور کسی جاہل پر رعب جمائے تو کس کا قصور ہے ؟
میرا ماننا یہی ہے کہ جب تک ہم "علم" کو اور اس کی "حقیقت" کو نہیں سمجھتے ۔۔ اور اسے عام کرنے کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ یہ معاشرہ یونہی چلتا رہے گا ۔  میں نے سندھ کے دیہات دیکھے ہیں ۔۔ جہاں وڈیرا "خدا" بنا بیٹھا ہے ۔ کون قصور وار ہے ؟ کبھی "چوہدری" "خانصاحب" اور "سردار" خدا بنے بیٹھے تھے ۔۔ آج شاید چوہدری و خانصاحب سے معاشرہ جان چھڑا چکا ۔۔ مگر سردار و وڈیرے اب بھی موجود ہیں ۔۔۔ دیہی زندگی انہی کی مرہون منت ہے ۔ وہاں معاشرہ کیا پنپے گا ؟ جہاں سے جو نوجوان کسی طرح تعلیم حاصل کرنے شہروں میں آجاتے ہیں پھر وہ واپسی کا رستہ بھول جاتے ہیں ۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی بھی ایسا طاقت کا ذریعہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اپنے سماج کو ان "خداوں " سے نجات دلا سکے ۔
پھر بھی قصور معاشرے کا ہے ؟
شہروں میں پھر بھی بہت حد تک فرسودہ روایتیں کم ہوگئی ہیں ۔ مگر وہ  "خداوں" کی چھت تلے زندگی کے اثرات اب بھی موجود ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے وہ کہہ دینا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے جاننا اہم ہے ۔
اس کا حل میرے نزدیک ۔۔۔ ایک تو امور سیاست ہے ۔۔ دوسرا عوام کا "علم " و حکمت" یعنی دین کی جانب رجوع ہے ۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں "علم و حکمت " کی جانب رجحان کے لیے حالات سازگار نہیں ۔ عام آدمی نیند سے اٹھ کر دوبارہ نیند کی آغوش میں جانے تک "روٹی" کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ تو وہ اپنی زندگی کے اہم مقاصد و منازل کی جانب کیاتوجہ کرے گا ۔ جبکہ اس کے آس پاس ۔۔   دین کا آئینہ یوں پیش  کیا گیا ہے کہ اسے مسجد و منبر سے ہی نفرت ہوگئی ہے ۔ 
زندگی آزمائش ہے ۔۔ اور دنیا آزمائش گاہ ۔۔۔ یہ آخرت کی کھیتی ہے ۔ آخرت کی کھیتی جی ہاں ۔ یہ غور طلب بات ہے ۔۔ کھیت میں سنڈیاں حملہ کردیں  تو اس پر چیخ و پکار نہیں اس کا حل تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ۔۔۔
دین اسلام یا تو بہت آسان ہے ۔۔۔ یا انتہائی مشکل ۔۔ کیونکہ یہ غور و فکر ۔۔ اور  معرفت الہی  کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔۔۔۔

Saturday, February 18, 2017

دیہاتی ، گنوار

دیہاتی ، گنوار
شہیر شجاع
وہ چار اکثر ملکی حالات و واقعات ، خصوصا سیاسی   خبروں پر زور و شور سے تجزیے کرتے ، آپس میں لڑ پڑتے ، ہر ایک کو بزعم خود دانشوری کا خمار تھا  ۔ پانچواں  ان سے الگ تھلگ کچھ دیر رک کر ان کا چہرہ تکا کرتا ۔ یہ لوگ اچٹتی نگاہ اس کی جانب ڈالتے ، ذرا مسکراتے اور گرما گرمی میں مشغول ہوجاتے ۔  ایک دن حسب معمول گرما گرمی  جاری تھی ۔ آج ہی ایک دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہوا تھا ۔  ہر ایک بڑھ چڑھ کر اپنے دلائل دے رہا تھا ۔ وہ  ان کے درمیان آیا اور کہا دیکھو بھائیو ! اور اپنے سیل فون  میں چند تصویریں انہیں دکھانے لگا ۔  ایک تصویر خستہ حال کچے گھر کی تھی ۔ پوسیدہ دیواریں  بذات خود ہی اپنی کہانی سنا رہی تھیں ۔ کہا یہ میرا گھر ہے ، اس کے ساتھ ہی اپنے گاوں کی تصویریں دکھائیں ۔ 
یہاں ہم جتنے بھی لوگ رہتے ہیں اکثر کے پاس تعلیم نہیں ہے ۔ ہمارے بچے بڑے بوڑھے یا تو " صاحب" کی غلامی کرتے ہیں ، یا شہروں میں جا کر مزدوری کرتے ہیں ۔ چند ایک جو کچھ اچھے پیسے کمانے لگتا ہے وہ  شہر میں ہی کسی کرائے کے مکان میں اپنے بچوں کو لے جاتا ہے ۔ پھر بھی اکثر وہاں کے اسکولوں  کی فیسیں ادا کرنے کے لائق نہیں ہوتے ۔ اور اس گاوں میں جو سرکار کا اسکول ہے وہ صاحب کے لڑکوں کا " اڈہ" بنا ہوا ہے ۔ علاج کے لیے  ہمارے دادے نانے  کے نسخوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ بھلا کرے " مولی ساب " کا ، گاوں والوں نے مٹی کا ایک کمرہ  مسجد کے طور پر بنادیا ہے جہاں وہ نماز پڑھاتے ہیں اور ہمارے بچوں کو قرآن سکھا دیتے ہیں ۔ ساتھ ہی ایک اور چھوٹے سے گھروندے میں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں ۔ 
ساب جو لوگ شہر جا کر مزدوری کرتے ہیں ان کو بھی وہاں دیہاتی ، گنوار اور نہ جانے کیسی کیسی ذلت بھری گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔ پر وہ مجبور ہیں ۔ ان کو اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نظر آتا ہے ۔ وہ بس ایک جانور کی طرح ہیں ۔ صبح سے شام تک مزدوری ہوگی تو پیٹ بھرے گا۔ 
ساتھ ہی ایک تصویر دکھائی کہا یہ میرا بھائی ہے جو کل دھماکے میں ختم ہوگیا ۔ اس کے تین بچے اور ایک بیوی ہے ۔  جاہل تھا اس کی اولاد بھی جاہل ، اور اب اس اولاد کی اولاد بھی جاہل ہی رہے گی ۔  مولی ساب کونسا سرکار سے تنخواہ لے رہا ہے ؟ لیکن وہ ہمیں تعلیم دے رہا ہے ۔ ہمارے دادے نانے کون سے سرکاری معالج ہیں ؟ لیکن وہ ہمارا علاج کر رہے ہیں  ۔ ہمارے ہاتھ پیر سلامت ہیں ہم مزدوری کرتے ہیں دو وقت کی روٹی کمالیتے ہیں ، زندگی گزر رہی ہے ۔ ساب  ہم لوگوں کو آپ لوگوں کی اس سیاست ویاست سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔   یہ کہتا ہوا وہ اپنے کام کی جانب چل دیا ۔ اور ان چاروں نے اس کی جانب دیکھا اور بڑبڑائے جاہل ، گنوار ۔

Wednesday, April 13, 2016

امارت و تجارت اور ہماری ذہنی اپج



صرف اتنا ہی جان لینا میرے لیے کافی ہے کہ یہ تاجر ہیں ۔۔۔ اور امارت و تجارت کا آپس میں میل جول نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ تاجر ہمیشہ اپنے سرمایے کا مفاد سب سے مقدم رکھے گا ۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ امیر کے لیے اس کی جمعیت کا مفاد مقدم ہوگا ۔۔۔۔  ۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔ امیر اور عام کی تفریق میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے ۔۔۔۔ ایک ہی عمل کسی عام شخص کی نسبت برا نہ مانا جاتا ہو ۔۔۔ لیکن وہی عمل امیر ۔۔۔ کی نسبت بہت معنی رکھتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک پوری قوم کی رائنمائی کا دعویدار ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ ایک بہت بڑی جمعیت کے نمائندے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یعنی سفیر السفراء ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو وہ مقام ہے جہاں ساری جمعیت اپنے حق میں بہتر فیصلے کرنے کے لیے اس پر اعتماد کرتی ہے ۔۔۔۔۔ سو جمعیت کے افراد گناہ گار بھی ہونگے تو عام بات ہوگی ۔۔۔۔ مگر گناہ اگر امیر سے سرزد ہوجائے تو بلاشبہ یہ عام بات نہیں کہلائے گی ۔۔۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...