Showing posts with label ادب ، ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب. Show all posts
Showing posts with label ادب ، ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب. Show all posts

Saturday, April 23, 2016

اعزاز و معزز

اعزاز و معزز

شہیر شجاع

پہلی صف میں کھڑا وہ  اطمینان سے  نہیں بیٹھ رہا تھا ۔ مسلسل متحرک ۔۔۔ لطف یہ کہ اسے کوئی منع بھی نہیں کر رہا تھا ۔ جیسے کہیں اس کے ذہن کے گوشوں میں تکبر کا عنصر موجود ہو ۔  یہ روز کا معمول تھا ۔ علم ہوا وہ  بچہ امام صاحب  کے بیٹے ہیں ۔کالج میں پانچ لڑکوں کی ٹولی یوں گھومتی جیسے یہ کالج نہ ہو غلاموں کی بستی ہو ، اور وہ ان کے آقا ۔ ان پانچ میں ایک نمایاں ہوتا ۔ بقیہ گروہ کے لڑکوں کا طرز عمل اس کو عالیجاہ سمجھنے اور سمجھانے میں بالکل بھی دھوکا نہیں کھا سکتا تھا ۔ معلوم ہوا وہ کالج کے پرنسپل کا لڑکا ہے ۔ اسی طرح مزید بھی کئی ٹولیاں ہوتیں ، سننے میں آتا کہ فلاںمجلس شوری کے ارکان( ایم این ایز)کی اولاد ہیں ۔  جب کالج و جامعہ سے فراغت  کے بعد در در کی ٹھوکروں کی جزا میں ایک نوکری نصیب ہوئی ۔ ہر موقع پر احساس دلایا جاتا کہ ، تم بے اختیار ہو ، اپنے دماغ کو کام میں لانے کی ضرورت نہیں ۔ بس احکام بجا لاو ۔ ہر ہر موقع پر عزت نفس  کا مجروح ہونا ، احساس تذلیل بڑھا جاتا ۔ اپنے آپ سے کراہت شدید کراہت محسوس ہونے لگتی ۔ بازار جاتا تو دکاندار ایسی چبھتی نظروں سے دیکھتا جیسے  میں کوئی کریہہ صورت  بھکاری ہوں ۔ جبکہ میں سودا اتنا ہی لیتا جتنے میرے پاس پیسے ہوتے ۔ اگر کم پڑجاتے تو سامان کم کروالیتا ۔ جس وجہ سے دکاندار کی " چار باتیں " بھی کڑوے گھونٹ پی لیتا ۔ بجلی کا بل جمع کروانے جاتا ، سخت دھوپ میں طویل قطار ، کئی گھنٹے بعد کھڑکی کے سامنے میرا چہرہ ہوتا ۔ بل جمع کرنے والا یوں مخاطب ہوتا جیسے وہ میرا بل جمع کر کے مجھ پر احسان کر رہا ہو ؟ کیا واقعی ؟ میں سوچتا  ! مہینے بھر میں نے بجلی استعمال کی ،  خواہ دن میں چند گھنٹے استعمال کی مگر کی ، بل کم ہے یا زیادہ ، ادا کرنا ہی ہے ،  مجھ جیسے کریہہ انسان کی بجلی والی کمپنی کیونکر مدد کرے گی ۔ لیکن جب میں وہ بل ادا کرنے گیا ہوں تو مجھے اتنی عزت تو ملنی چاہیے کہ میں ان کا  " معزز صارف " ہوں ۔ جب بھی بجلی کے بل پر لکھا معزز صارف دیکھتا ہوں ، تو معزز کے الفاظ ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں ۔ آخر ایک دن میرے دل کا سارا  غبار نکل ہی گیا ۔ جب میری ملاقات اس خوبرو نوجوان سے ہوئی  ۔ جو میڈیکل یونیورسٹی میں صرف اس لئے نکال باہر کیا گیا کیونکہ وہ فیس نہیں ادا کر پایا تھا  ۔ اس کے بعد اس نے وہ راستہ اختیار کیا جہاں وہ بااختیار تھا ۔ روپیہ پیسہ ، گھر بار ، رعب دبدبہ سب کچھ تھا ۔ عزت تو نہ پہلے تھی نہ اب ہے ۔ مجھے اس کا راستہ پسند آیا ۔اسے اگلے دن ملنے کا کہا ۔ رات بھر سوچتا رہا ۔ کروٹیں بدلتا رہا ۔ بہت سے خیالات ، افکار ذہن کے پردے پر چلنے لگے ۔دن سے رات تک جتنے عوامل کا مجھے سامنا ہوتا ، ان کا تجزیہ ہوتا رہا ۔ اور بالآخر فیصلہ میرے پاس تھا ۔ کب آنکھ لگی کب صبح ہوئی پتہ نہ چلا ۔ اگلے دن وقت مقررہ پر میں اس کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ اس کی منزل تو شاید جیل ہی تھی ، یا کسی پولیس مقابلے میں نعش ہوجانا ۔ مگر میں نے  اس سے بھہی آگے جانا تھا ۔ " معزز " ہونا تھا ۔ سیاستدان ہونا تھا ۔

Monday, June 9, 2014

مسلمان اور اسلام



مسلمان اور اسلام 

شہیر 

فی زمانہ ہر شخص ہی ذی شعور و مدبر ہونے کا دعوے دار ہے ۔۔۔۔۔۔ ہم نے قرآن و سنت کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔۔۔ اور ہمیں اللہ جل شانہ کے دیے ہوئے نظام سے نفرت ہے اور اس نظام کو لاگو کرنے کو ظلم سمجھا جانے لگا ہے ۔۔۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ آج دنیا میں جہاد ختم ہو چکا ہے ۔۔۔۔ مسلمان ۔۔۔ خونریزی پر تلے ہوئے ہیں ۔۔ اور اپنی جان پر وبال ہیں ۔۔۔۔ اپنی ماوں بہنوں کی عصمتیں لٹا رہیں ہیں ۔۔۔۔ ان کی عزتیں پامال ہوتے دیکھ رہے ہیں ۔۔ ان کی سرزمینوں پر یہود و نصاری قابض ہوتے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ لیکن جہاد ساقط ہے ۔۔ کیونکہ مسلمان نے جہاد کی صحیح تفہیم کی ہی نہیں ۔۔۔ ۔۔۔ اس نے غلطی کی کہ سوشلزم کے لیے ورلڈ وار میں حصہ نہیں لیا ۔۔۔۔بلکہ۔۔ امریکہ کے جمہوریت کے نعرے کے جواب میں ۔۔ اسلامی نظام کا خاتمہ کر دیا ۔۔ اور آج وہ انسانیت اور سیکولرازم کے نعرے کے ساتھ پھر سے کھڑا ہونے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔۔ شاید سیکولر نظام میں ہی عافیت ہے۔۔۔
کیا واقعی ؟؟

Sunday, March 23, 2014

ادب برائے زندگی یا ادب برائے ادب

ادب برائے ادب " یا " ادب برائے زندگی
محمد شہیر شجاعت

فلسفی کہتے ہیں ۔۔۔  کہ غیر مادی چیزوں پر دلیل قائم نہیں کی جاسکتی ۔۔۔ کیونکہ برہان کے مقدمات کے لیے شرط ہے کہ وہ مادی ہوں ۔۔۔ اور ان پر جو بھی حکم لگایا جائے گا وہ محض ظنی و قیاسی ہوگا ۔۔۔۔ اگر اس قدر مشقت کے بعد بھی ہمیں ظنی علم حاصل ہوا تو ایسے علم کا کیا فائدہ ؟۔ ایسی صورت میں ظن واحد پر ہی یقین کر لینا چاہیے ۔۔۔ جبکہ ہمارا مقصد ماوراء الحس موجودات کا یقین حاصل کرنا ہے ۔۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انسان دو اجزاء سے مرکب ہے ، جسمانی و روحانی جو جسمانی حصہ کے ساتھ مخلوط ہے ۔۔ ہر ایک جز کے خاص مدارک ہیں ۔۔ اور ان دونوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے روحانی جز ۔۔۔۔ یہ کبھی روحانی مدارک کا ادراک کرتا ہے کبھی جسمانی کا ۔۔۔۔ فرق یہ ہے کہ روحانی کا ادراک بلاواسطہ ہوتا ہے جبکہ جمسانی کا جسم کے آلات و دماغ و حواس کے ذریعے ۔۔۔۔ ہر مدرک کو اپنے ادراک سے ایک خاص سرور حاصل ہوتا ہے ۔۔۔
 
 ادب برائے ادب کا قائل بالواسطہ ادب برائے زندگی کا ہی قائل ہوتا ہے ۔۔۔۔ تو کیوں نہ اس کو نہ چھیڑتے ہوئے ادب کو "ادب " تک ہی محدود رہنے دیا جائے ۔۔ اس طرح سے ادب اپنی وسعت میں لا محدود رہے گا ۔۔۔۔۔ اس کی حد بندی نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔ اب تک کے مطالعے سے میرا تو یہی ماننا ہے ۔۔۔ شاید مجھے بھی کوئی قائل کرلے کے ادب کو بھی محدود ہونا چاہیے ۔۔۔ چہ جائیکہ حدود کا تعین کرنے کے باوجود ۔۔۔۔ اس پر قائم رہنا اور رکھنا ۔۔ یہ بھی اپنے آپ میں ایک سوال ہے ۔۔۔
بہر حال ۔۔۔ اگر ادب برائے ادب کا قائل مجھے سے سوال کرے گا تو وہ مجھے ادب برائے زندگی کا قائل پائے گا  ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...