قول احمد جاوید صاحب
ہر تہذیب کا ایک اجتماعی شعور ، اجتماعی قلب ، اور اجتماعی ارادہ
ہوتا ہے۔ اپنے اجتماعی شعور کو سیراب کرنے کے لیے ہر تہذیب اپنا نظام علم بناتی ہے
۔اسی طرح تہذیب کا اجتماعی ارادہ اس کے مقاصد کو حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے ۔ اب اگر
تہذیب اپنی اوریجنل مراد ، خؤاہش سے دستبردار ہوکر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے
کا فیصلہ کرلے تو اس کا وہ اجتماعی ارادہ معطل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں
تخلیقی اعمال نہیں ہو سکتے ، بڑے مقاصد حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں ہوسکتی ۔
اسی طرح تہذیب کا اجتماعی قلب اس تہذیب کی محبت ، نفرت اور اس کے جذبات ، احساسات کو
ایک خاص ہیئت ، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے ۔ ہر تہذیب اپنا نظام احساسات بھی رکھتی
ہے ۔ اگر تہذیب اپنے نظام احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہوجائے تو اس کا قلب دھڑکنا
بند کردیتا ہے ۔ ان تینوں سطحوں پر اگر دیکھیں تو ہم بانجھ پن کا شکار ہوچکے ہیں ۔
" اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں رہے کہ یہ رہا ہماری
تہذیب کا اجتماعی ذہن او ر یہ رہے اس کے افکار
و اقدار ، یہ رہی ہماری منزل اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند ۔ جس تہذیب کے اندر اس
کی آبیاری ، اس کی نگہداشت ، حفاظت کا نظام ختم ہوجائے ، اس تہذیب کو باطنی قوت فراہم
کرنے والا نظام تعلیم ، نظام اخلاق ، نظام انصآف وغیرہ ختم ہوجائے تو پھر وہ تہذیب
بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہوجاتی ہے ۔ بڑا آدمی اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر
بن جانے والے کو کہتے ہیں ۔ جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہوجائے گا ، وہ پھر خالی لوگ
ہی پیدا کرے گی ۔ ۔