Saturday, November 26, 2016

امید و یاس

امید و یاس
شہیر شجاع

وہ کوئی پچپن ساٹھ کے درمیان ہونگے ۔  درزی تھے اور اپنی مشین پر بیٹھے تھے ۔ چہرے کی ہلکی سی جھریاں شدید محسوس ہورہی تھیں ۔ آنکھوں میں امید و اداسی کی کشمکش عیاں تھی ۔ پردیس کی طویل غریبی ان کی پیشانی سے جھلک رہی تھی ۔ 
کیا بات ہے حفیظ بھائی آج کچھ زیادہ پریشان لگ رہے ہیں ؟ 
نہیں کچھ نہیں ۔ انہوں نے جواب دیا
ارے کچھ تو ہے ؟ ۔ پاکستان میں سب خیر تو ہے ناں ؟ کفیل کی پرابلم ؟ کیا مسئلہ ہے بتائیں تو ؟
نہیں یار ۔ سب خیر ہے بس کچھ سوچ رہا تھا ۔ وہ اٹھ کر میری جانب آگئے ۔ مصافحہ ہوا ۔ اب بھی چہرہ سپاٹ تھا ۔
ایک جانب چہرہ کیے اب بھی سوچوں کی دنیا سے باہر نہ نکل پائے تھے ۔
میرا تجسس بڑھتا جا رہا تھا ۔ نہ جانے کس مسئلے میں الجھے ہیں ؟
یکدم گویا ہوئے ۔
وہ بولتے جا رہے تھے ۔ اور  میں بس سنتا جا رہا تھا ۔ ان کا چہرہ سرخ ہو تا جا رہا تھا ۔ آنکھوں میں امید کا جلتا دیا بخوبی محسوس کر سکتا تھا ۔
یار شہیر یہ سی پیک کامیاب ہوگیا ناں پھر دیکھنا ۔ ان شاء اللہ پاکستان کو پھر کوئی پکڑ نہیں پائے گا ۔ پاکستان پھر یوں اوپر کی جانب جائے گا ۔  پاکستان ترقی کی منزلیں آنا فانا طے کرے گا ۔ پھر ان کی زبان رکی نہیں ۔ دل کے پھپھولے ہمارے اطراف فضا میں ستاروں کی مانندچمچمانے لگے  ۔  
 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...