Saturday, December 31, 2016

چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں

چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں
شہیر شجاع
لمحے کی جیسے کوئی قدر ہی نہ رہی ہو ۔ وقت نے ایسی تیز رفتاری  پکڑی  جیسے اسے دنیا کے لوگوں سے اب کوئی غرض ہی نہ رہ گئی ہو ۔  ایسے جیسے راہ چلتا اجنبی سڑک کنارے کھڑے لوگوں پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈال کر گزر جاتا ہے ۔  جبکہ وہ اگر اجنبی نہ ہو تو والہانہ استقبال کا باہم منظر دیکھنے میں آتا ہے ۔ وائے ٹو کے کا شور بپا تھا ، کل کی سی بات لگتی ہے ۔ بیشمار واقعات و سانحات رونما ہوئے ۔ تاریخ نے ایک نیا رخ لیا ۔ مگر ہمیں محسوس ہی نہ ہوا  ۔ پلَک جھپکتے میں مناظر دھندلا گئے ۔ اور سولہ سال یوں ہی بیت گئے ۔  وہی نعرے وہی شور ، وہی الزام تراشیاں ۔ ایک دوسرے کا گریبان ، طاقتور کا ہاتھ کمزور کا گال ۔ غریب کی جھونپڑی امیر کا بنگلہ ۔ تجارت کی کسوٹی  فریب و مکاری کا بازار ۔ ہر ایک  پاپی ہے مگر کوئی پاپی نہیں ۔   ہمیں برائیاں آسانی سے نظر آجاتی ہیں ۔ مگر اچھائی صرف اپنے آپ میں ہی نظر آتی ہے ۔ فضا سوگوار  محسوس ہوتی ہے مگر  رات اندھیرے پھیلا تعفن ہمیں بدبودار محسوس  نہیں ہوتا ۔ ہمیں تن میں اجلے کپڑوں کی ضرورت تو محسوس ہوتی ہے مگر روح کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ۔ خوشیوں بھرے لمحوں میں بھی اداسی تلاش کر لیتے ہیں ۔ اداسی اس قدر مرغوب ہوگئی ہے کہ اس کو حاصل کرنے میں مشاق  ہوگئے ہیں  ۔  ہماری نفسیات میں تعمیر کا عنصر ناپید اور تخریب کا عنصر وافر ہو چلا ہے ۔ چہار سو فضا پراگندہ ہے ۔ کہیں کوئی روشنی کی کرن نمودار ہوتی ہے تو ہمیں یقین کرنا دشوار ہوجاتا ہے ۔
 یہ وقت آخر اتنا اجنبی کیوں ہوگیا  ہے ؟  صبح اٹھتے ہیں تو وقت نکل چکا ہوتا ہے ۔ شام آتے ہیں تو وقت ساتھ نہیں ہوتا ۔ رات سوتے ہیں تو وقت کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں ۔ کتاب اٹھاتے ہیں تو وقت روٹھ جاتا ہے ۔ سوچتے ہیں تو وقت  کہیں دور نکل چکا ہوتا ہے ۔ وقت سے تو ہماری کافی گہری دوستی ہوا کرتی تھی ۔ آج اس قدر دوری کیوں پیدا ہوگئی ہے ؟   ہم  یا تو دوربین لیکر اپنے سماج کو دیکھتے ہیں یا خوردبین کے ذریعے اپنا  سراپا ۔نتیجتا ہمیں اپنا عکس کہیں نہیں نظر آتا ۔ ہم دوربین اٹھائے اپنے مقاصد کو ترتیب دیتے ہیں ۔ خوردبین کے ذریعے مسائل کی تسخیر ہوتی ہے ۔ اور پھر وسائل کی جستجو میں نکل کھڑے ہوتے ہیں ۔ یہاں تک کہ  ماہ و سال بیت جاتے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر دوربین اٹھاتے ہیں وہی منظر اسی جگہ موجود ہوتا ہے ۔  ہم ایک لمبی آہ بھرتے ہیں ۔ خوردبین اٹھاتے ہیں اور اپنے آپ کو بیشمار مسائل کے حصار میں موجود پاتے ہیں ۔  ایک ہیجان بپا ہوتا ہے ۔ دل کی دھڑکنیں ڈھیلی پڑنے لگتی ہیں ۔  کہیں ہمت و حوصلہ پست ہونے لگتا ہے ۔ کبھی اپنے آپ کو اسی حال پر چھوڑ دیتے ہیں تو کبھی اسی سراب کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں ۔
یہ وقت آخر کیوں نہ اجنبی ہو ؟ ہم نے وقت کو اپنا کب مانا ہے ؟ ہمیشہ اس کو ٹھکرایا ہے ۔ اس کی تذلیل کی ہے ۔ اسے خوش آمدید نہیں کہا ہے ۔ اس کی مہمان نوازی نہیں کی ہے ۔ اسے  بس ہم نے اپنے آس پاس دوڑتے بھاگتے دیکھنے پر ہی اکتفا کیا ہے ۔ سو اس نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا  ۔  وہ آگے آگے اور ہم پیچھے پیچھے ۔ دوڑتے چلے جارہے ہیں اور بس دوڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ ہمیں کوئی دائیں سے چپت مارتا ہے ، ہم اس کی جانب دوڑنے لگتے ہیں ، کوئی بائیں سے تو ہم بائیں  ، غرض ایک نہ ختم ہونے والی جستجو ہے جس کی کوئی منزل ہی نہیں سراب ہی سراب ۔  میں ادب میں پناہ لینا چاہتا ہوں ۔ تو  وہاں مجھے روتا دھوتا شاعر ملتا ہے ۔ جہاں نظر کروں آنسو ہیں کراہیں، اور سسکیاں ۔ سوچتا ہوں کیا دنیا میں کوئی خوش نہیں ہے ؟ کیا  وقت کی ناراضی پر خوشی اس کے ساتھ ہی چلی گئی ہے ؟ میرے سامنے اقبال آتا ہے ۔  ذہن کے در کھلنے لگتے ہیں ۔ ایسے میں ایک زور کی چپت میری  گردن پر پڑتی ہے ۔ طنز و تنقیص کے تیر اوراق کو لہولہان کر دیتے  ہیں ۔ میں  تلملا جاتا ہوں  ۔ میرے کان سرخ ہوجاتے ہیں ۔ مجھے کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی ۔ پھر کوئی سال اختتام کو پہنچتا ہے ۔ پھر دوربین و خوردبین کا سلسلہ ہوتا ہے ۔ اور پھر وہی دوڑ ۔
چلیں دوربین وخوردبین سے خلاصی حاصل کریں ۔ دوہزار سترہ کا سورج طلوع ہو رہا ہے ۔ ہم اپنی  یعنی قدرتی اللہ جل شانہ کی دی ہوئی نعمت آنکھوں سے اپنا  سراپا دیکھیں ۔ ایک تنقیدی نظر ڈالیں ۔ جسم میں موجود نعمتوں کو دیکھ کر رب کے حضور سجدہ ریز ہوجائیں ۔ شکر کے گیت گائیں ۔ دل کو خوشی سے آشنا کریں ۔  پھر چہار جانب نگاہ دوڑائیں  ابتداء اپنے پیروں سے کریں اور نظریں بڑھاتے چلے جائیں ۔ اسی طرح دائیں بائیں آگے پیچھے ۔ جو کچھ دوربین نے دکھایا تھا اس کے علاوہ  حقیقت کا ادراک   کریں ۔ اپنی شناخت کی جانب قدم بڑھائیں۔ پرندوں کی چہکار میں چھپی سرسراتے جمال سے اپنی سماعتوں کو آشنا کریں  ۔ چلیں دو ہزار سترہ کے سورج کو خوش آمدید کریں ۔ وقت سے دوستی کریں ۔ اسے اپنا بنانے کی جستجو کریں ۔ وقت کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کی آرزو کریں ۔  چلیں اپنے شعور کو  بیدار کریں ۔ اپنے آپ کو چہار سو پھیلی پراگندگی کی زنجیروں سے آزاد کریں ۔ ذہن کو سوچنے دیں ۔ افکار کی دنیا آباد کریں ۔ چلیں محبت کو عام کریں ۔ اپنی دنیا  خود آباد کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں اور وقت سے ناطہ جوڑیں  ۔    اسے اپنی تاثیر سے اپنا تابع بنا ئیں ۔ زمانے کی الٹی چال کو نظر انداز کریں ۔ اپنے قدم اور اپنے راستوں کا انتخاب کریں اور اس مین ڈٹ جائیں ۔ دل کو  مسرت و درد کی آماجگاہ بنائیں ۔ وہ درد جو دوسروں کا ہو ۔ جس کو مسرت میں تبدیل کرنے کی جستجو ہو ۔ اس کو اپنے دامن سے شروع کریں ۔ چلیں ماضی سے ناطہ توڑیں وقت سے ناطہ جوڑیں ۔

Friday, December 30, 2016

لبرل پاکستان یا اسلامی پاکستان فیصلہ آپ کا

لبرل  پاکستان  یا اسلامی پاکستان فیصلہ آپ کا
شہیر شجاع
دنیا میں  چہار جانب جہالت ، ظلم و جور کا بازار گرم تھا ۔   طاقتوروں کا راج تھا ، کمزور غلام تھا ۔ خون ارزاں تھا ۔ عورت ایک جنس تھی یا  لڑکی کی پیدائش پر ہی اسے زندہ درگور کر دیا جاتا ۔ قیصر و کسری خدا بنے بیٹھے تھے ۔   دنیا میں کوئی ایسا نظام نہ تھا جو خدا کی زمین پر  خدا کے بندوں کو ایک صف میں کھڑا کرسکے ۔ انصاف قائم ہو ۔ امیر غریب ، زبان و نسل کی تفریق ختم ہو ۔ ایسے میں اللہ جل شانہ نے دنیا کو اسلام کی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ جس کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا ۔  جس مرسل کو ہی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہو ، اس کے ذریعے سے زمین کے لیے آنے والا نظام کس قدر رحمتوں والا ہوگا ؟  دنیا میں امن و آشتی کا دو ر دورہ ہونے لگا ۔ انسان کو انسان کی شناخت ملنے لگی ۔ اس کی سانسوں نے سکون محسوس کیا ۔ عورت کو اس کا مقام ملا اور علم و ہنر کا دور دورہ ہوا ۔ دنیا  ایک نئے دور میں داخل ہوئی ۔ ایک نئے نظام سے آشنا ہوئی ۔ جس نے تمام تفریق مٹا کر انسان کو اس کی شناخت مہیا کی ۔ اسے سوچنے سمجھنے،  چلنے پھرنے ۔ غرض زندگی کو پنپنے  کے لیے آزادی میسر آئی ۔ 
ہزار سال اس نظام نے دنیا کو مستفید کیا ۔ خلافت راشدہ کے بعد جو بھی ادوار رہے ان میں بیشک یہ نظام مکمل نہ تھا۔ اس کا سارا نزلہ بھی اپنوں پر ہی گرتا رہا ۔ بڑے بڑے علماء و حق گو اس کی زد میں آئے ۔ اقتدار کی کشمکش نے اپنا ہی خون بہایا ۔ مگر تاریخ میں کبھی اس نظام کے علمبرداروں  کے ہاتھوں غیر مسلموں کا ناحق خون بہتا نظر نہیں آتا ۔ تاریخ گواہ ہے  یہ نظام جب تک اپنی بنیادوں پر استوار رہا خواہ  کسی بھی سطح پر رہا اس نے دنیا کے کونے کونے میں امن و آشتی کا پیغام پھیلایا ۔ انصاف کو عام کیا ۔  ظلم و جور  و نانصافی کا شکار ہوئے بھی تو اپنے ہوئے ۔  جیلوں میں  قید زندگی سے ہارے بھی تو اپنے ۔ مگر اپنی رعایا  میں کسی اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک ہوا ہو ایسی مثال نہیں ملتی ۔ زمانہ حال قریب  کی سلطنت عثمانیہ  کے  سلطان سلیمان جسے ذیشان کا لقب بھی اسی دنیا نے دیا ۔ اور رومن بادشاہ یہ کہے بنا نہ رہ سکا کہ دنیا کو اگر امن دے سکتا ہے تو ہ سلیمان ذیشان ہے ۔ سلیمان ذیشان اسی نظام کا علمبردار تھا ۔ ہسپانیہ کے ذروں کو علوم و فنون کے ساتھ ساتھ تمدن سے آشنا کرنے والے بھی اسی نظام کے علمبردار تھے ۔ ایک شاندار  ماضی اس نظام  کی افادیت  کی گواہ ہے ۔ جب دنیا سے اس نظام کے علمبردار ختم ہونے لگے ۔ یہ نظام مٹنے لگا تو اللہ جل شانہ نے ایک ایسی سرزمین کو  چنا جو کہ کسی اور ہی سمت واقع تھا مگر جغرافیہ اس کا نہایت ہی کرشماتی تھا ۔ جس کا نام پاکستان قرار پایا ۔ کہ اس سرزمین کے ذریعے اس نظام کی آبیاری ہوگی ۔ اور دنیا کو پھر سے امن و آشتی ، انصاف ، علوم و فنون ، اخلاق و کردار و دیگر زندگی کے تمام  اصناف سے آراستہ نظام میسر آئے گا ۔ جو کہ صرف اور صرف اللہ کا نام لینے کی وجہ سے   ہمہ وقت ظلم کا شکار رہا ۔ غیر تو غیر اپنے بھی  اس کار گہ عمل میں نمایاں رہے ۔
پاکستان وجود میں آگیا ۔ جب دنیا سے اسلامی نظام ختم ہو چکا تھا ۔ سوشل ازم ، کمیونزم ، فاشزم اور کیپٹل ازم آپس میں نبرد آزما تھے ۔  یہ تمام ہائے نظام بنیادی طور پر  نظام حیات کا محض ایک حصہ تھے ۔ سو کیونکر انسان کو ایک مکمل نظام مہیا کر سکتے تھے؟  بھلا ایک ٹکڑا بھی کبھی مکمل قرار پا سکتا ہے ؟     اسلام کے علمبردار وں کے لیے یہی دین نظام حیات تھا ، اور ہے ۔ سو دنیا نے اس بات کو محسوس کر لیا ۔ وہ تو چاہتے تھے کہ یہ نام دنیا سے ختم کر دیا جائے ۔ سو جمہوریت نام کا ایک نیا اصطلاحی نعرہ بلند ہوا ۔ جو بظاہر قابل قبول بھی تھا ۔ پاکستان نے بھی اسے قبول کیا کہ یہ بنیادی نظام سے تضاد نہیں رکھتا تھا ۔ سو  اللہ بھلا کرے اس جمہوریت کا جس نے  سیاست کو اقتدار کی کشمکش میں تبدیل کردیا ۔  مغربی دنیا نے اسے انہی اصولوں پر اپنایا جو کہ اسلام نے دیے تھے ۔ مگر ہم نے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ۔  اب جبکہ جمہوریت  اپنی جڑیں خود ہی کھوکھلی کرنے لگیں تو  بنیادوں پر ضرب لگانے کو نیا شوشہ ہاتھ آگیا ۔ کہ یہ نظام ہی خراب ہے ۔  بھلا کیوں ؟ نظام تو ٹھیک تھا پھر خراب کیوں ٹہرا ؟ اب انجن میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تو انہیں ٹھیک کیا جاتا ہے ، زنگ  لگ جائے تو اس کا زنگ اتارا جاتا ہے ۔ نیا انجن بھی بنایا جائے تو اس کے تمام پرزہ جات وہی ہوتے ہیں جو پچھلے انجن کے تھے ۔ سو انجن کو ہی پھینک دینے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا ۔ اور نت نئی آراء نے ابحاث کی شکل اختیار کر لی ۔ جس میں سیکولر و لبرل خیالات کا زور و شور سے نعرہ بلند ہونے لگا ۔ پھر سوال اٹھتا ہے کہ کیا اسلامی نظام میں حقوق تلفی کی جاتی ہے ؟ یا اس میں اب بھی کجی ہے ؟ یا اسلامی نظام میں سیاست و سیادت کے اصول کامل نہیں ہیں ؟  اسلامی نظام کیا معاشرت کے اصول نہیں سکھاتا ؟ کیا   ارتقائی دنیا کے جدید قوانین کے لیے پیمانہ نہیں مہیا کرتا ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ اس نام کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا  گوارا کر لیا گیا اور لبرل و سیکولر جیسے " ناموں " کو چسپاں کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ؟ اگر اپنی زمین میں امن قائم کرنا ہے ۔ انصاف مہیا کرنا ہے ۔ اقلیتوں کو آزادی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کرنے ہیں ۔ کیا نظام کو سیکولر و لبرل نام دے دینے سے ہی ایسا ممکن ہے ،جبکہ نظام  اسلامی ہی ہو ؟ پھر کیوں اسلام کا نام اور اس عظیم نظام کو صفحہ ہستی سے مٹادینے کی تگ و دو ہے ؟
پاکستان کا آئین جسے اسلامی کہا گیا ہے اسے مکمل نافذ کر کے ، نظام کو اس کے اصل نام یعنی اسلامی سے پکار کر اس کی افادیت دنیا  کے سامنے  ظاہر کرکے کیوں نہ ان تمام جھوٹے نظاموں کی نفی کی جائے جس نے دنیا میں  آج ایک مرتبہ پھر طاقتور و امیروں کی اجارہ داری قائم کر دی ہے ۔  اس نظام کو کسی نئے بیانیے کی ضرورت نہیں ۔ بیانیہ بھی موجود ہے اور راہ عمل بھی سامنے ہیں ۔ بس اس جانب سفر شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس نام سے آپ کو الرجی ہوگی ہمیں نہیں ہے ۔ ہم اسی نام کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اسے کسی بھی دوسرے نام کی  جسے نک نیم کہہ لیں اس کی ضرورت نہیں ۔ جبکہ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی جانتا ہوں ۔۔ اسلام سربلند ہونے کے لیے دنیا میں آیا ہے ۔ ان تمام بہانوں سے نہ تو  پاکستان کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کی خدمت ہو سکتی ہے ۔  پاکستان کا نظام اسلامی ہے اور رہے گا ان شاء اللہ ۔ اور دنیا ضرور دیکھے گی کہ اسلامی نظام ہی دراصل دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں  کے لیے مفید ہے ۔ جس جانب دنیا نے سفر تو کر دیا ہے ۔ مگر ہمارے اپنے ہی اس نام کو مٹا دینے کی جستجو میں ہیں ۔

Sunday, December 25, 2016

کلچر

کلچر
شہیر شجاع
روز مرہ زندگی میں بہت سے ایسے الفاظ  تبدیل ہو کر ایک بھوت کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔  جس وجہ سے اصل مفہوم ،اعتبار و قدر تک  ، ذہن کی رسائی آسان نہیں رہی ۔ علاوہ یہ کہ غور کیا جائے ۔ ایسا ہی ایک لفظ کلچر ہے ۔  جس کے تحت ، تہذیب ، ثقافت  ، تمدن  وغیرہ آجاتے ہیں ۔ عام دیکھا جائے تو تہذیب و تمدن ، ثقافت ، معاشرت جیسے الفاظ ہماری زبان کا حصہ تو ہیں مگر ان کے معانی کا ادراک موجود نہیں ۔ اس کی جگہ لفظ " کلچر " نے لے لی ہے ۔ جس میں  معاشرے کے ہر اچھے برے افعال کو پرودیا گیا ہے ۔   نواقص و کمال سب ایک ساتھ جڑ کر " کلچر" کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اذہان  پر خلل ڈالنا زیادہ آسان ہوگیا ہے ۔  جہاں رشوت بازاری ، چوری ، ڈاکہ زنی ، زیادتی ، غیرت کے نام پر قتل ، نکاح  کا  مشکل  اور زنا کا آسان ہونا ۔ جہیز و دیگر مختلف    معاشرے کے ناسور،  اسی کلچر کا عکس اختیار کر چکے ہیں ۔ ذہن یہ سوال کرنے لگا ہے کہ ہمارا کلچر خراب ہے ۔ مغربی کلچر میں آزادی ہے امن ہے ، حفاظت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں  اسی روایتی  ذہن کو لیکر چلتے ہوئے بات کریں تو واقعتا ہمارا کلچر ناسور بن گیا ہے ۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے ۔  دوسرے الفاظ میں جیسے کہا جاتا ہے یہ نظام گل سڑ گیا ہے اسے ختم کردینا چاہیے ۔ اس کی جگہ کوئی نیا نظام ہو ۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر غور کیا جائے تو یہ تصور نہایت ہی سطحی تصور ہے ۔
کیونکہ ہمارے پاس اپنی تہذیب  اور ثقافت موجود ہے ۔ اور اپنی مکمل رعنائی کے ساتھ موجود ہے ۔ تمدن  وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں لیکر آتا ہے ۔ مگر تہذیب و ثقافت میں خاص نمایاں بدلاو نہیں آتا ۔ آسان الفاظ میں  ہماری تہذیب آسمانی ہے ۔ اور ثقافت کا تعلق علاقائی طرز زندگی سے ہوتا ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ایک بہترین تہذیب سے آراستہ فرمایا ہے ۔ اس تعلق سے پوری امت مسلمہ  مختلف ثقافتوں کے ساتھ ایک ہی ہار کے مختلف  رنگا رنگ و مختلف خوشبووں سے آراستہ ایک ہار ہے ۔  لہذا ہم اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے چہ جائیکہ پہلے ہم اپنی تہذیب کا مکمل ادراک کریں ۔ اپنی ثقافت کی خوشبو سے اپنے آپ کو مہکائیں اور تہذیب سے اپنے اخلاق و کردار ، طرز زندگی کو  منور کرنے کی  کوشش کریں ۔  جب تک ہم اس عمل سے گزر نہیں جاتے ہم نتیجہ خیز گفتگو کے گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ کیونکہ تجربہ کیے بنا ہم کیونکر حکم لگا سکتے ہیں ؟ آپ عام رائج کلچر سے بیزار تو ہیں ۔ مگر اپنی تہذیب و ثقافت سے نا آشنا بھی ہیں  ۔  اور مشکل یہ ہےکہ،  یہ تہذیب جیسے موئن جودارو جیسی تہذیب ہوگئی ہو جو کہیں نظر ہی نہیں آتی ۔ کہ اسے دیکھ کر ہی احساس ہو کہ ہاں واقعی ہماری تہذیب تو یہ ہے ، جبکہ ہم نے کس رستے کا اپنے آپ کو مسافر بنا رکھا ہے ؟   اسی طرح ثقافت کی اپنی مہک ہے ، اپنی محبت ہے ۔ یہ مٹی کی خوشبو ہے ، اور مٹی میں اچھی کھاد  ہو ، وقت پر پانی ملے ، خوب خیال رکھا جائے تو ہریالی بھی جنت نظیر ہوتی ہے ۔ وگرنہ بنجر زمین  بنا  آب و دانہ سیم و زر کا شکار ہوجاتی ہے ۔ یا پھر  برسات کے بعد کیچڑ بن کر مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔  تمدن    چونکہ زمانے کے ساتھ خاص ہے  اسی لیے اس میں جدت آتی رہتی ہے اور اس جدت کو تہذیب کا پیمانہ  سنوارے رکھتا ہے ۔  معتدل  رہنا ہی  ضمانت ہے سکون کی اور بنا سکون کے تمدن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اور  ثقافت اس میں رنگ بھرتا ہے جس سے زندگی کے لوازمات کی تکمیل ہوتی ہے ۔
اب جو کچھ ہمارے معاشرے میں روا ہے ۔ یہ دراصل کچھ بھی ہمارا اپنا نہیں اور بہت کچھ ہم میں ماحول کے اثرات ہیں ۔ جیسے جہیز ، غیرت کے نام پر قتل  ، جوائنٹ فیملی سسٹم ، مختلف اوہام ، مختلف رسومات خصوصا شادی بیاہ سے متعلق ، عورت کی تعلیم  ، یا عورت کی زندگی سے متعلقات ۔ ایسے بیشتر رواج ماحولیاتی ہیں ۔ یہ نہ ہی ثقافت ہیں نہ تہذیب ۔ یہ تو ہم نے ہندوستان میں رہتے ہوئے ہندووں کے اثرات اپنا رکھے ہیں ۔ جس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ معاشرہ خاطر خواہ خواندہ ہونے کے باوجود اب تک ان رسوم و رواج سے کنارہ نہیں کر پا رہا ہے ۔ رہی سہی کسر امراء  ، رؤساء پوری کردیتے ہیں ۔ جو شان و شوکت کے اظہار میں ایسے رسوم و رواج کو فروغ دینے اور غریب طبقے میں احساس کمتری پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔  سو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل جو کچھ بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہے یہ نہ ہی ہماری تہذیب ہے اور نہ ہی ثقافت ۔ یہ  دوسری تہذیبوں کے اثرات ہیں جو ہمارے اجداد سے چلتے آرہے ہیں جو کبھی ہندو ہوا کرتے تھے ۔  سو یوں سمجھنا کہ ہم کوئی نیا کلچر پیدا کر لینگے ایسا کبھی ممکن نہیں۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی جانب لوٹ جائیں ۔ اپنی ثقافتوں کا احترام کریں اور اپنی جڑوں سے جڑ جائیں ۔ تب ہی جا کر ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے جو کہ ہمارا " کلچر " بن چکی ہیں ۔  جیسے ہمارے پاس آئین موجود ہے یعنی نظام موجود ہے مگر عمل پذیر کچھ اور ہی ہے ۔ سو یہ کچھ اور ختم ہو کر اصل کی جانب لوٹنا اہم ہے ۔

Thursday, December 22, 2016

مجلس شوری ، قانون سازی اور عوام

مجلس شوری  ، قانون سازی اور عوام
شہیر شجاع
ہماری عدالتوں سے ایک  گونج لہراتی ، بل کھاتی ملک کے دانشوروں ، قانون دانوں ، سیاستدانوں ، بیوروکریٹس ، عام شہری ، صحافت کے ایوانوں ، غرض چپے چپے  سے ٹکرا کر پاش پاش ہو رہی ہے ۔ لیکن کہیں اس گونج پر فکر کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔ وہ صدا کیا ہے ؟
" ہم انصاف دینا اور کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر قانون کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے " ۔  یہ وہ صدا ہے جو قیام پاکستان سے اب تک ملک کے گوشے گوشے کی پکار ہے ۔  ہم نے بڑی مشکلوں سے اللہ جل شانہ  کے فضل و کرم سے ایک بہترین آئین  کی تشکیل کی  ۔ یہ واقعہ قیام پاکستان کے کوئی چھبیس سال بعد پیش آیا ۔ اس سے پہلے بھی آئین بنے ،ٹوٹے ،  پھاڑے گئے ۔ ۔  آج  ستر سال مکمل ہونے کو ہیں ۔ ہماری  مجلس شوری  یا پارلیمنٹ  اب تک قانون سازی  کے عمل کو اس مقام تک نہیں پہنچا پائی جہاں سے عدالتیں  مملکت خداداد کے باشندوں کو  انصاف فراہم کرسکیں ۔   کہا جاتا ہے بوٹوں کی دھمک نے  پارلیمنٹ کی تکریم کو اس قدر پامال کیا ہے کہ اس کو اپنے مقام تک پہنچنے میں  وقت لگ رہا ہے ۔ یا یہ کہ طاقت کا مکمل ادارہ اب تک پارلیمنٹ نہیں بن سکا ہے ۔ یا اس جیسے مختلف  بہانوں  کے ذریعے عوام الناس کی آنکھوں میں دھول جھونک  کر ہمدردیاں سمیٹی جاتی رہی ہیں اور جا رہی ہیں ۔ سوال یہ کہ پارلیمنٹ  کی تکریم کو حقیقت بنانے کے لیے ملک کا غریب و نادار یا متوسط طبقہ سڑکوں پر نکل کر ، اور لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے ہو کر ووٹ دے کر چند افراد کو یہ ذمہ داری سونپتا ہے ۔ کیا ان ذمہ داروں نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کی ؟   بہت عرصے  بعد عام آدمی پارلیمنٹ کی  جانب نظریں مرکوز کرنے اور وہاں پیش آنے والے واقعات  کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہوا ہے ۔ تو وہ دیکھتا ہے اس ادارے  میں  " پارٹیاں(ٹولے) " ہوتی ہیں ۔ " ذمہ دار " یا " سیاستدان" نظر نہیں آتے ۔   جہاں جھوٹ کو " سیاسی بیان " سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اور سیاست کے لفظ کو بدنام کیا جاتا ہے ۔ سیاست کو سماج کا سب سے بہترین اور محترم پیشہ قرار دیا گیا ہے ۔ کیا یہ وہی سیاست ہے ؟ یہ سوال ایک عام سماج کے طالبعلم کے ذہن میں اٹھتا ہے ۔  وہ دیکھتا ہے  ۔پارلیمنٹ  جسے ہم اپنی زبان میں مجلس شوری کہیں تو  اس ادارے کے خدو خال اور اس کے  اغراض و مقاصد زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں ،  وہاں قوم کے نمائندوں کی جگہ پارٹی کے نمائندے آپس میں گتھم گتھا ہوتے ہیں ۔ سیاسی لیڈر یا رہنما کی اصطلاح ایک ایسے شخص کی ہے جو ان نمائندوں کے لیے نعوذ باللہ خدا کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس کے اچھے برے افعال کی پردہ پوشی اور سینہ زوری کی حد تک  دفاع ان نمائیندوں کی ذمہ داری ہو ۔ جنہوں نے انہیں وہاں بھیجا ہے ، ان کے  اغراض کہیں دور سڑکوں میں ایک پنڈال کے اوپر ڈائس میں کھڑے شخص کے جھوٹے وعدوں کی شکل میں گونج بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس گونج  کو سینے سے لگائے ،افراد  ان کے حق میں سڑکوں پر کئی دنوں تک اپنے کام کاج چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ حلق  سے محض نعرے بلند ہوتے ہیں جس کا مقصد ان کے حقوق ، اور انصاف کی سربلندی ہی ہوتا ہے ۔ اور پھر ایک دن لمبی قطاروں کے صبر آزما لمحات ، جس میں سوا نیزے   پر آئے سورج کی تپش  ، دھول مٹی وغیرہ سے نبرد آزما ہو کر  صرف ایک ووٹ دیتے ہیں  ۔ جس ووٹ کو پانے کے لیے  وہ ادارہ انسانیت سوز حالات  تک سے  اپنی عوام کو نہیں نکال پائے ۔  
بہر حال  مجلس شوری  دراصل ملک کے بہترین اذہان  کے مل بیٹھنے کا ادارہ ہے ۔ جنہیں عوام الناس منتخب کرتے ہیں ۔  وہ دیکھتا ہے ، ملک کے سب سے بہترین اذہان ، جھوٹ  ، فریب ، مکاری کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ۔ اور ان سب کا مقصد اپنے ملک سے وفاداری بھی نہیں بلکہ اپنی پارٹی سے وفاداری ہے ۔ وہاں ٹھیکوں پر بحث ہوتی ہے ۔ وہاں وزارتوں پر بحث ہوتی ہے ۔ اس مجلس میں شوری کا عمل مفقود دیکھ کر اس کا دل بیٹھ جاتا ہے ۔ اس کے دماغ میں گونج ابھرتی ہے ۔ جمہوریت ہی ہماری بقا ہے ۔ ایک اور گونج ابھرتی ہے ، جمہوریت بہترین اتنقام ہے ۔ وہ سوچتا ہے ۔ انتقام کس کے خلاف ؟
یوں صدی بیتتنے کو ہے اور قانون سازی کا عمل جمود کا شکار ہے ۔ وہ منتخب نمائندے   اپنے اپنے مفاد کے لیے لڑتے رہیں گے ۔ ہر پانچ سال بعد ڈائس پر کھڑے ہو کر ہمیں چورن بیچیں گے ۔ اور ہم ذوق و شوق سے وہ چورن  چاٹ کر اسی   جنون کے ساتھ انہیں واپس انہیں مسندوں پر بٹھائیں گے ۔ جہاں  بیٹھ کر ان کی تمکنت  ایک مرتبہ پھر قائم ہوجائے گی ۔ پھر مفادات کی جنگ ہوگی ۔ انصاف  کے ادارے ایک جانب کھڑے ان کا چہرہ تکتے رہیں گے ۔  اور انصاف کی  بے بس صدائیں ہونہی  ایوانوں سے ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہوتی رہیں گی ۔  

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...