Tuesday, April 26, 2016

قدرتی تقاضہ


قدرتی تقاضہ

شہیرشجاع

دنیا کے حالات انسانی زندگی کی کشمکس کی بنا پر نمو پذیر ہوتے ہیں ۔ قومیں سنورتی ہیں ، سنور کر بگڑتی ہیں ۔ بگڑ کر سنورتی ہیں ، تہذیبی اختراع  ایک تمدن کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور اسی تمدن سے تہذیب بتدریج مٹ جاتی ہے ، اور کوئی نئی تہذیب یا تہذیبی ملغوبہ جنم لیتا ہے ۔ 
بخت نصر کی طرز حکمرانی بدرجہ ہولناکی  کے بعد قدرتی تقاضے  کے امر پر "سائرس" کا ظہور ہوتا ہے ۔  سائرس کے بعد  امن و شانتی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ۔ ایک مرتبہ پھر سکندر مقدونی کی صورت میں ایک آفت نمودار ہوتی ہے ۔ اور اس آفت کی موت کے ساتھ ہی وہ ساری سلطنت پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔  ان ساری صورتحال کے درمیان جو غور کرنے کی بات ہے وہ ہے رعایا ۔ انسان ۔۔   کہ مسلسل استحصال کے دوران اس کے اندر کے ایک بے چینی جنم لیتی ہے ۔  اور سکون کی تلاش میں اس کی طبیعت سرگرداں ہوجاتی ہے ۔ زمین کا قدرتی تقاضہ یہی ہے کہ اب کوئی نجات دہندہ کا ظہور ہو ۔  پھر کسی نبی کی صورت میں یا شفیق فاتح کی صورت میں دنیا کا عمل آگے بڑھتا ہے  تہذیبیں بنتی ہیں اور اس میں بگاڑ آتا ہے ، اور پھر ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے ۔
اسی طرح آج کی دنیا  بھی سسک رہی ہے ۔ وہ کسی نئی تہذیب ، نئے  نجات دہندہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔  ہر طرف آہ و بکا ہے ۔ زندگی سسک رہی ہے ، تڑپ رہی ہے ۔  مگر یہ زمانہ آخری  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ ہے ۔  اب نجات دہندہ کوئی اور نہیں ۔   بذات خود ہر انسان ہے ۔   آج کا انسان بالغ نظر ہے ۔ عقلی طور پر مستحکم ہے ۔ اس کے پاس  ان عولم کا خزینہ ہے جو پہلے نہ تھا ۔ آج کے انسان کی طاقت علم ہے ۔
مگر اخلاص و قبولیت ، سچ و جھوٹ کی تمیز میں  خود تراشے ہوئے بتوں سے باہر نکلنا بھی ضروری ہے ۔ اور یہی آج کا قدرتی تقاضہ ہے ۔

Saturday, April 23, 2016

اعزاز و معزز

اعزاز و معزز

شہیر شجاع

پہلی صف میں کھڑا وہ  اطمینان سے  نہیں بیٹھ رہا تھا ۔ مسلسل متحرک ۔۔۔ لطف یہ کہ اسے کوئی منع بھی نہیں کر رہا تھا ۔ جیسے کہیں اس کے ذہن کے گوشوں میں تکبر کا عنصر موجود ہو ۔  یہ روز کا معمول تھا ۔ علم ہوا وہ  بچہ امام صاحب  کے بیٹے ہیں ۔کالج میں پانچ لڑکوں کی ٹولی یوں گھومتی جیسے یہ کالج نہ ہو غلاموں کی بستی ہو ، اور وہ ان کے آقا ۔ ان پانچ میں ایک نمایاں ہوتا ۔ بقیہ گروہ کے لڑکوں کا طرز عمل اس کو عالیجاہ سمجھنے اور سمجھانے میں بالکل بھی دھوکا نہیں کھا سکتا تھا ۔ معلوم ہوا وہ کالج کے پرنسپل کا لڑکا ہے ۔ اسی طرح مزید بھی کئی ٹولیاں ہوتیں ، سننے میں آتا کہ فلاںمجلس شوری کے ارکان( ایم این ایز)کی اولاد ہیں ۔  جب کالج و جامعہ سے فراغت  کے بعد در در کی ٹھوکروں کی جزا میں ایک نوکری نصیب ہوئی ۔ ہر موقع پر احساس دلایا جاتا کہ ، تم بے اختیار ہو ، اپنے دماغ کو کام میں لانے کی ضرورت نہیں ۔ بس احکام بجا لاو ۔ ہر ہر موقع پر عزت نفس  کا مجروح ہونا ، احساس تذلیل بڑھا جاتا ۔ اپنے آپ سے کراہت شدید کراہت محسوس ہونے لگتی ۔ بازار جاتا تو دکاندار ایسی چبھتی نظروں سے دیکھتا جیسے  میں کوئی کریہہ صورت  بھکاری ہوں ۔ جبکہ میں سودا اتنا ہی لیتا جتنے میرے پاس پیسے ہوتے ۔ اگر کم پڑجاتے تو سامان کم کروالیتا ۔ جس وجہ سے دکاندار کی " چار باتیں " بھی کڑوے گھونٹ پی لیتا ۔ بجلی کا بل جمع کروانے جاتا ، سخت دھوپ میں طویل قطار ، کئی گھنٹے بعد کھڑکی کے سامنے میرا چہرہ ہوتا ۔ بل جمع کرنے والا یوں مخاطب ہوتا جیسے وہ میرا بل جمع کر کے مجھ پر احسان کر رہا ہو ؟ کیا واقعی ؟ میں سوچتا  ! مہینے بھر میں نے بجلی استعمال کی ،  خواہ دن میں چند گھنٹے استعمال کی مگر کی ، بل کم ہے یا زیادہ ، ادا کرنا ہی ہے ،  مجھ جیسے کریہہ انسان کی بجلی والی کمپنی کیونکر مدد کرے گی ۔ لیکن جب میں وہ بل ادا کرنے گیا ہوں تو مجھے اتنی عزت تو ملنی چاہیے کہ میں ان کا  " معزز صارف " ہوں ۔ جب بھی بجلی کے بل پر لکھا معزز صارف دیکھتا ہوں ، تو معزز کے الفاظ ٹوٹ کر بکھرنے لگتے ہیں ۔ آخر ایک دن میرے دل کا سارا  غبار نکل ہی گیا ۔ جب میری ملاقات اس خوبرو نوجوان سے ہوئی  ۔ جو میڈیکل یونیورسٹی میں صرف اس لئے نکال باہر کیا گیا کیونکہ وہ فیس نہیں ادا کر پایا تھا  ۔ اس کے بعد اس نے وہ راستہ اختیار کیا جہاں وہ بااختیار تھا ۔ روپیہ پیسہ ، گھر بار ، رعب دبدبہ سب کچھ تھا ۔ عزت تو نہ پہلے تھی نہ اب ہے ۔ مجھے اس کا راستہ پسند آیا ۔اسے اگلے دن ملنے کا کہا ۔ رات بھر سوچتا رہا ۔ کروٹیں بدلتا رہا ۔ بہت سے خیالات ، افکار ذہن کے پردے پر چلنے لگے ۔دن سے رات تک جتنے عوامل کا مجھے سامنا ہوتا ، ان کا تجزیہ ہوتا رہا ۔ اور بالآخر فیصلہ میرے پاس تھا ۔ کب آنکھ لگی کب صبح ہوئی پتہ نہ چلا ۔ اگلے دن وقت مقررہ پر میں اس کے ساتھ رواں دواں تھا ۔ اس کی منزل تو شاید جیل ہی تھی ، یا کسی پولیس مقابلے میں نعش ہوجانا ۔ مگر میں نے  اس سے بھہی آگے جانا تھا ۔ " معزز " ہونا تھا ۔ سیاستدان ہونا تھا ۔

Wednesday, April 13, 2016

امارت و تجارت اور ہماری ذہنی اپج



صرف اتنا ہی جان لینا میرے لیے کافی ہے کہ یہ تاجر ہیں ۔۔۔ اور امارت و تجارت کا آپس میں میل جول نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ تاجر ہمیشہ اپنے سرمایے کا مفاد سب سے مقدم رکھے گا ۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ امیر کے لیے اس کی جمعیت کا مفاد مقدم ہوگا ۔۔۔۔  ۔۔۔ اسی طرح ۔۔۔۔ امیر اور عام کی تفریق میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے ۔۔۔۔ ایک ہی عمل کسی عام شخص کی نسبت برا نہ مانا جاتا ہو ۔۔۔ لیکن وہی عمل امیر ۔۔۔ کی نسبت بہت معنی رکھتا ہے ۔۔۔۔ کیونکہ وہ ایک پوری قوم کی رائنمائی کا دعویدار ہوتا ہے ۔۔۔۔ وہ ایک بہت بڑی جمعیت کے نمائندے کی حیثیت سے جانا جاتا ہے یعنی سفیر السفراء ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تو وہ مقام ہے جہاں ساری جمعیت اپنے حق میں بہتر فیصلے کرنے کے لیے اس پر اعتماد کرتی ہے ۔۔۔۔۔ سو جمعیت کے افراد گناہ گار بھی ہونگے تو عام بات ہوگی ۔۔۔۔ مگر گناہ اگر امیر سے سرزد ہوجائے تو بلاشبہ یہ عام بات نہیں کہلائے گی ۔۔۔۔۔

مخالفت کا ایک اصول



نئی نسل ۔۔۔۔۔ تعلیم و تعلم سے دور ہو چکے ہے ۔۔۔۔۔ علم کا ماخذ و مقصد بدل چکا ۔۔۔۔ جب مقصد ہی فوت ہوجائے تو ۔۔۔۔۔ جدوجہد بے فیض ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ ہمارا نظام تباہ ہوچکا ۔۔۔ زندگی کا کوئی شعبہ تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا ذریعہ نہ رہا ۔۔۔۔۔ مخالفت ٹھیک ہے ۔۔۔ رائے کا حق سب کا انفرادی ہے ۔۔۔۔۔ مخالف سے اختلاف کا مطلب مطابق کو ہر قسم کی قانونی اور "اخلاقی" چھوٹ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ مطابقت بھی اصولوں پر مبنی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مطابق کے ہر اصول و افعال و افکار کے ساتھ رضامندی ہو ۔۔

Saturday, April 2, 2016

لاشعوری بحث و مباحثہ

لاشعوری بحث و مباحثہ
شہیر شجاع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکثر مضحکہ خیز لگتا ہے ۔۔۔۔ دنیا کے جمہوری ایوانوں میں ۔۔۔۔ قوانین ۔۔۔ خارجہ و داخلی پالیسیز پر بحث ہوتی ہے ۔۔۔۔ جبکہ ہمارے ایوانوں میں ۔۔۔۔۔ ٹرائل چل رہے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہم قوم کی حیثیت سے ان رہنماوں پر ۔۔۔ لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر و موثر کرنےپر زور دینے کے بجائے ۔۔۔۔ اس سے بھی کہیں آگے بڑھ کر بیانیوں پر تبادلئہ خیال کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ غلط ہے ۔۔۔۔ فکری رجحان معاشرے میں پیدا ہونا چاہیے ۔۔۔۔ مگر فی الوقت یہ موضوع صرف ایک محاذ کی طرح ہے جس کا ریاست پر خاطر خواہ اثر ہونا نہیں ۔۔۔۔ کیونکہ نظام ریاست جب معطل ہو تو ہر فریق ۔۔۔۔ انتہاوں تک جاپہنچتا ہے ۔۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...