Showing posts with label مذہب. Show all posts
Showing posts with label مذہب. Show all posts

Wednesday, May 31, 2017

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب

الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب
شہیر شجاع
جب تک پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا سماج بھی  اپنی حدود میں کافی بہتر حالت میں موجود تھا ۔ اعتماد کی فضا قائم تھی ۔ مذہبی نقائص اپنی جگہ موجود تھے مگر وہ مذہب کے علمبرداروں کے درمیان ہی موجود رہیں ۔ اگرچہ اس کی سطح اپنی حدود پھلانگ کر عوام میں سرایت کرتی گئیں ۔ مساجد پر پہرے بٹحا دیے گئے ۔ مسجد مسلمان کی نہیں مسلک کی میراث قرار پائی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نفرتوں  کی آگ میں آپس میں  الاو اس قدر اونچے ہوتے گئے کہ یہ سوچنا محال ہوگیا کہ اسے مدہم کیسے کیا جائے ؟ اللہ نے کرم کیا ۔ علماء اور دانشوران ملت میں سے بہت سے افراد نے جدودجہد شروع کی اور اس الاو کو دھیما کرنے میں کافی بہتری آئی ۔ اس میں سوشل میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا ۔  بہرحال آج صورتحال اپنے گزرے کل سے کافی مختلف ہے ۔ تعصبات مسالک قدرے لچکدار ہوچکے ہیں ۔ ان میں آپس میں مل بیٹھنے کا رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کلمہ کی بنیاد پر یکجا ہونے کا تصور پروان چڑھ رہا ہے ۔  مگر ساتھ ہی لسانی و سیاسی تعصبات نے بھی خوب اپنی جگہ بنائی ہے ۔ مذہبی تنافر میں جہاں کمی آئی وہیں ان تعصبات نے شدت اختیار کی ۔  عصبیت بری چیز نہیں گر اجتماعی ہو ۔ کسی ایک نکتے پر سب کا اجماع ہو جو تمام عصبیتوں کو جوڑے رکھے وہاں مختلف عصبیتیں تعمیر کا بھی کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس کے لیے راہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارا معاشرہ راہنماوں کے قحط سے دوچار ہے ۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا کردار کلیدی ہے ۔ سماج کو تبدیل کرنے میں میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے ۔ مگر وہ ایک ایسے رخ پر چل نکلا ہے جہاں سے ہوائیں  مزاج میں تلخیاں پیدا کرتی ہیں ۔ نفرتوں  کے الاو کو مزید دہکاتی ہیں ۔ جہاں وہ معلومات کی فراہمی کا دعویدار ہے وہیں اذہان کو شدید متاثر کرنے کا جرم قبول کرنے سے بھی روگرداں ہے ۔ اس ہتھیار کو الیکٹرانک میڈیا مثبت پیش رفت کے لیے استعمال کرسکتا ہے ۔ لسانی و سیاسی تعصبات کو اجتماعی رنگ دے سکتا ہے ۔ جہاں سیاست کے مفہوم و معانی سے عوام کو روشناس کرائے ۔ مگر وہ مختلف سیاسی عصبیتوں کے درمیان جنگ کا میدان تخلیق کرتا ہے ۔ جس سے معاشرہ مزید پراگندہ حال ہو کر کھائی کی جانب گرتا چلا جا رہا ہے ۔ مذہبی  موضوعات میں مثبت عوامل کو نظر انداز کر کے منفی عوامل کو اجاگر کرتا ہے جس سے مغرب کا پروپیگنڈہ مزید تقویت پاتا ہے کہ  ملا سوائے مسلکی عصبیتوں کو فروغ دینے کے اور کوئی کام نہیں کر رہا ہے ۔  اور جو ملا دینی ، علمی ، تحقیقی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی جدوجہد سے  سماج استفادہ کرنے کے باوجود اس کی پذیرائی کرنے سے معذور ہے ۔ جس وجہ سے یہ رجحان عام نہیں ہو پارہا ہے ۔ یہی میڈیا اگر اپنے پروگرامز کی ترتیب تبدیل کردے ۔ سیاسی نمائندوں سے ان کی جدوجہد کے مقاصد اور مستقبل کی پیش رفت پر گفتگو کرے ۔ سیاست کی حیثیت اور اس کے سماجی اثرات پر گفتگو کرے ۔ سیاسی نمائندے جب کیمرے کے سامنے پیش ہوں تو انہیں ہوم ورک کی ضرورت ہوگی ۔ کہ ان سے ان کے کام کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔  ان کے مقاصد اور ان کی تکمیل کی جانب پیش رفت کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔ نہ کہ لوڈ شیڈنگ کیوں کم نہیں ہوئی ؟  فلاں نے  وہ سڑک بنائی اور وہ کیوں نہیں بنائی ؟ اسپتال اس لیڈر کی جانب سے ابتداء کردہ اس حکومت میں کیوں مکمل نہیں ہوئی ؟ ایسے سوالات کیے جائیں ۔ بلکہ یہ پوچھا جائے کہ اسپتال ، تعلیمی اداروں کے قیام کی وجوہات کیا ہیں ؟ آپ کے خیال میں یہ کیوں ضروری ہیں ؟ اور اس کی تختی پر آپ کے نام کے بجائے انجینئرز کے نام کیوں نہیں لکھے جاتے ؟ پیسہ تو عوام کا ہے ۔عوام کی حیثیت سیاسی نمائندوں کی نظر میں کیا ہے ؟
اسی طرح مذہب کے ان نمائندوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے جو حقیقی نمائندے ہیں ۔ جو عوام کی نظروں میں  صرف علم والے ہیں ۔ ان کے انٹرویوز ہوں ۔ ان سے مذہب و مسلک کی حدودو قیود پر بات ہو ۔ اخلاقی کردار پر بات ہو ۔ حقوق العباد پر بات ہو ۔ مذہبی تعصبات سے دور کیسے رہا جائے ؟ ایسے سوالات اٹھائے جائیں ۔  اور ایسے بہت سے  سود مند کام ہیں جس سے سماج میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ سماج میں علماء ، دین ، مذہب و مسلک ، سیاست و سیاسی نمائندے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقیقی حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل ہوسکتی ہے ۔ کاش کہ الیکٹرانک میڈیا بے تحاشہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے منصب حقیقی کی جانب بھی توجہ دے ۔ بیشک یہ بھی جہاد ہوگا ۔ اور اس کا ثمر اسی دنیا میں  بھی اسے ملے گا ۔ 

Sunday, March 12, 2017

پسند کی شادی اور لبرل ذہن

پسند کی شادی اور لبرل ذہن
شہیر شجاع
پسند کی شادی پر دو پیپلز پارٹی کے وزرا آپس میں مرنے مارنے پر تیار کھڑے ہیں ۔ دونوں مختلف قبائل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی جماعت پیپلز پارٹی ہے ۔ اور پیپلز پارٹی لبرل نظریے کی علمبردار بھی ہے ۔ جیسے ہی معاملہ اپنی ذات تک آیا سارا لبرل ازم رفو چکر ہوگیا ۔  دونوں قبائل جن کے دو افراد  اسمبلی کے ممبر ہیں ۔ جو پچھلے دنوں قبول اسلام جیسے مسئلے پر قانون سازی کر رہے تھے ۔ ان  کی پسلی  سماجی روایت کے سامنے ٹوٹ گئی ۔ اور اسلام پسندوں کو رجعت پسندی کا طعنہ دیتے نہیں تھکتے ۔  یہ ایک ایسا عبرت ناک واقعہ ہے ان کے لیے  جو سماجی روایتوں ، اور معاشرتی طور اطوار کو مذہب سے جوڑ کر مذہب کو تختہ مشق بنائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ۔  مذہبی نقطہ نظر جو بھی ہے سو ہے ۔ اس تک تو معاشرہ آج تک پہنچ ہی نہیں پایا ۔  کیونکہ اس سے پہلے اسے سماجی روایتوں کو بھی الانگنا ہوتا ہے جس کی جرات کرنا عموما ناممکن ہوتا ہے ۔ مذہب سے لاتعلقی  کے بہت سارے نقصانات کا اس سماج کو سامنا ہے اس کے باوجود ہر لبرل ذہن، ہر مشکل کا تانہ بانہ مذہب سے جوڑنے کا قائل رہتا ہے ۔ کیونکہ سیکولر معاشرے کی مادر پدر آزادی عام ذہن کو زیادہ متاثر کرتی ہے ۔ سو وہ اس مملکت خداد کے اسلامی مملکت ہونے کو ان تمام الجھنوں کا باعث گردانتا ہے ۔ اور ہر برائی کی جڑ لفظ " مذہب " سے جوڑنے پر ذرا تامل نہیں کرتا ۔ بہتر ہوتا کہ اس متذبذب پراگندہ شعوری دور میں ہم اپنی جڑ ، اپنی بنیاد یعنی مذہب جو  ہمارا نصب العین اور ہماری زندگی کا منشور بھی ہے اس جانب لوٹتے مگر جو لوٹنا بھی چاہتا ہو اسے بھی متنفر کرنے پر مصر ہیں ۔ لبرل کا لفظ ہی اعتدال پسندی کا اظہار ہے مگر اس کے پس منظر میں چھپی منافقت جلد سمجھ نہیں آتی یہاں تک کہ ذہن پر ایک دبیز تہہ چڑ چکی ہوتی ہے ۔ آنکھوں میں ایک خاص عینک براجمان ہوچکی ہوتی ہے ۔

Sunday, March 13, 2016

معاشرت ومذہب

ایک سچا واقعہ ( ایک سبق )
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کی ماں بستر مرگ پر پڑی تھی ۔۔۔۔ مذہب سے وہ ہندو تھے ۔۔۔ طبی علاج معالجے کے بعد ۔۔۔ روحانی علاج شروع ہوا ۔۔۔ تانترکوں نے بتایا کہ ۔۔۔۔۔ بی بی پر کالا عمل کیا گیا ہے ۔۔۔۔ بڑے بڑے تانترک بلائے گئے ۔۔۔۔ کوئی کہتا سمند رکی تہہ سے سیپیاں لے آو تو کوئی کہتا ۔۔۔۔ آسمانی پرندہ جو اونچا اڑتا ہو اس کے پر ۔۔۔۔ وہ سب کچھ کرتا گیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں ایک دانہ اناج نہ ایک پائی پیسہ بچا۔۔۔ دو دن کا فاقہ تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سائیکل نکالی ۔۔۔۔ بالکل مایوس ۔۔۔ مایوسی کی آخری حدوں میں وہ انسان ۔۔۔۔ چلا جا رہا تھا ۔۔۔ ندی کنارے سائیکل کھڑی کرکے ایک طرف بیٹھ گیا ۔۔۔ سرجھکائے کافی دیر بیٹھا رہا ۔۔۔ سامنے سڑک ہر دو بندے آتے دکھائی دیے ۔۔۔ وہ اٹھا ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ وہ رک گئے ۔۔۔
اس نے کہا ۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ اور اپنی صورتحال بتائی ۔۔۔
انہوں نے کہا۔۔۔ کہ یار ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔ ؟ تھے وہ بھی ہندو ۔۔
انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ ۔۔۔ یہاں سے کچھ دور ایک عبادت گاہ ہے ۔۔۔ وہاں چلے جاو۔۔۔۔
اس نے سائیکل اٹھائی ۔۔۔ اس راہ کو چل دیا ۔۔۔۔
وہ ایک کنیسا تھا ۔۔۔۔
اندر داخل ہوا ۔۔۔۔ کلائیوں ۔ بازووں ۔۔۔ اور گلے میں ۔۔۔۔ رنگ برنگی رسیوں سے لدا پھندا ۔۔۔۔
سامنے سے پادری کی اس پر نظر پڑی ۔۔۔ بندہ اس کے قریب پہنچا ۔۔۔
پادری اس کو دیکھے وہ پادری کو۔۔۔۔
پوچھا ۔۔۔ کیا بات ہے بیٹا ۔۔۔؟
اس نے اپنی روداد کہہ سنائی ۔۔۔۔ پادری نے آہستہ سے سر کو جنبش دی ۔۔۔۔ اور کہا ۔۔۔۔
یہ رسیاں ساری کاٹ کر پھینک دو ۔۔۔ اس نے تعمیل کی ۔۔۔۔
دو شیشیاں دی ۔۔۔ ایک میں پانی اور دوسری میں تیل ۔۔۔ کہا۔۔
پانی سارے گھر میں چھڑک دینا ۔۔۔۔ اور تیل مریض کے جسم میں مل دینا ۔۔۔۔۔
""" ہر اتوار کویہاں آجانا """ اور اگر نہ آسکو تو گھرپر ہی عبادت کر لینا """
بندے کا دل عجب سکون سے سرشار ہوگیا۔۔۔۔ وہ پلٹا ۔۔۔ پادری کی باتوں میں عمل کیا ۔۔۔۔ اس کی مشکلات بھی دور ہوگئیں ۔۔۔ تب سے وہ کرسچئین ہے۔۔۔۔

Saturday, December 26, 2015

سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ


سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ ۔

شہیر شجاع

سائنس اور مذہب ۔۔ ہر دو کی ارتقاء کو قبول کرنے میں انسان  کا رویہ ایک ہی جیسا ہے ۔ ۔۔۔ مگر انتہا  میں ایک بہت بڑا فرق ہے ۔۔ ۔۔
  سائنس انسان کے غور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔۔ جس میں یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں ۔۔ مختلف لوگ اپنی تحقیقات پیش کرتے ہیں ۔۔ یعنی اپنا علم پیش کرتے ہیں ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ مزید لوگ آتے ہیں جو ان ہی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔ یعنی علم کی اعلی سے اعلی شکل دریافت کرتے  ہیں ۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۔۔ پچھلی تحقیق  کا خالق  ناکارہ تھا ۔۔ بلکہ اس کا مقام اس کی عزت و احترام بھی ساتھ ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔۔۔ مگر تاج اسی کے سر بیٹھتا ہے  جو تحقیق کو ایک کمل شکل دے ۔۔۔ مگر یہ بھی ہے کہ  سائنس میں ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحقیق مکمل ہو ۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے  ۔۔ ۔
مذہب  میں صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔ یہ علم آسمان سے اللہ کی طرف سے انسان کے لیے آتا ہے ۔۔۔ اور اس کا ذریعہ اللہ جل شانہ ۔۔ انہی انسانوں میں سے ایک انسان کو منتخب فرماتے ہیں ۔۔ جسے تمام انسانون میں اعلی و ارفع کرتے ہیں ۔۔۔ اور اسے نبی  و رسول اللہ ۔۔ کا نام یا مقام دیتے ہیں۔۔ اور ان کے ذریعے سے وہ علم دنیا کے دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔ 
ہر  دو میں انسان کے دو مختلف رویے رہے ہیں ۔۔ سائنسی تحاقیق  میں ہر اول محقق کا نام و مقام باقی رہتا ہے ۔۔ لیکن ساتھ ہی ۔۔ نئے محقق کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اسے نسبتا زیادہ سراہا جاتا ہے ۔۔
جبکہ مذہب کے معاملے میں ہر نئے علم کے لانے والے کو انسان رد کرتا آیا ہے ۔۔۔ اور اصرار یہی رہا کہ جو پہلے علم لانے والا تھا وہی برحق تھا ۔۔
موسی علیہ السلام کے ماننے والوں نے عیسی علیہ السلام کو رد کیا ۔۔ عیسی علیہ السلام پر یقین رکھنے والوں نے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا ۔۔۔ بس وہی کامیاب رہا ۔۔ جس نے علم کو علم سمجھا ۔ ۔ اور علم کی ارتقاء کو قبول کیا ۔۔

ماخوذ از ۔۔۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...