Sunday, August 28, 2016

ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت

ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست ۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ فی الوقت جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں ہیں وہ کوئی نہ کوئی لسانی عصبیت رکھتی ہیں سوائے  تحریک انصآف اور جماعت اسلامی کے ۔  میری اس رائے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے پر فی الحال ہمارا موضوع   ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی حرکیات یاتنظیم پر نظر ڈالنا ہے ۔  کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے ۔  اس تاثر کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ اول ان کے راہنما اپنی پارٹی کے مخلص ہیں اور پارٹی کے آئین پر آخری سانس تک چلنے والے محسوس ہوتے ہیں ۔ دوم : ایک اعلان ہوتا ہے اور کراچی سارا سمندر بن کر امڈ آتا ہے  ۔ 
کیا کبھی غور کیا گیا کہ واقعی یہ دونوں باتیں کسی بھی جماعت کو منظم کہلانے  پر دال ہیں ؟ مزید بھی ہو سکتی ہیں مگر عموما ً یہی دو عنصر ہیں جو  ذہن پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ۔  میں سمجھتا ہوں ۔ پاکستان کی سب سے زیادہ غیر منظم جماعت ایم کیو ایم ہے ۔   کیونکہ ایم کیو ایم  کا تنظیم ساز ادارہ لندن میں بیٹھا ہے ۔ وہی ساری حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے ۔ اُس ادارے  کے تابع  ایک لایعنی سا ادارہ پاکستان رابطہ کمیٹی کے نام سے قائم ہے ۔ جس کے سرکردہ راہنماوں کو کبھی ساری عوام کے سامنے مرغا بنا دیا جاتا ہے ۔ کبھی تھپڑ رسید کروائے جاتے ہیں اس طرح ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کروایا جاتا ہے کہ تم ہمارے تابع ہو اور ہمیشہ رہو گے ۔ کبھی سر اٹھانے کی کوشش نہ کرنا ۔  سو پاکستان کا یہ متابع ِلندن ادارہ   اکثر بہت سے ایسے احکامات سے بھی لاعلم رہتا ہے، جو وہاں سے  کسی بھی کارکن یا کارکنوں کے گروپ کو دیے جاتے ہیں ۔ یہ وہ گروپس ہیں جنہیں لندن والے نائن زیرو کو زیر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ اور اگر کوئی بہت بڑی واردات انجام دینی ہو تو جنوبی افریقہ ، دبئی ، بنکاک و دیگر ممالک میں لندن کمیٹی کے تابع فرمانبرداروں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔ جو وہاں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اپنا کام انجام دیتے ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں ۔ اس کے بعد نائن زیرو کو علم ہوتا ہے کہ ارے یہ تو ایم کیو ایم کے نام پر کام ہوگیا ۔ اور پھر  عجیب کیفیت کے زیر اثر نائن زیرو اس  امر پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دھبے کو دھوئے  کہ اس کے چھینٹے انہی کو ناپاک کر رہے ہوتے ہیں ۔  یقینا بہت سے امور باہمی  مشاورت سے بھی انجام پاتے ہونگے ۔
اس ساری غیر یقیینی صورتحال میں رابطہ کمیٹی پاکستان یا نائن زیرو  کس طرح سے اپنی سیاسی حرکیات کو تنظیمی طور پر   درپیش امور پر زیر استعمال لائے ۔ ؟  یہ یقینا نہایت ہی مشکل و کٹھن عمل ہے جو اب تک پاکستان رابطہ کمیٹی انجام دیتی آرہی ہے ۔  نتیجتاً بہت سے عناصر اپنے ذاتی فوائد اکھٹے کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم کو نہایت ہی محفوظ مقام سمجھ کر اس میں شامل ہوتے رہے ۔ خواہ وہ کارکن کی صورت میں ہو  ، خواہ وہ لیڈر کی صورت میں ۔ اوپر سے نیچے تک ایسے لوگ ایم کیو ایم میں  موجود ہیں جن کو مہاجر تحریک یا الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں وہ میدان میں آکر الطاف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور زیر زمین اپنے  ذاتی امور کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ کارکن سطح پر  ایک مثال دوں گا ۔ کہ شیعہ سنی لڑائی کا ایک محفوظ پلیٹ فارم ایم کیو ایم ہے ۔ جس میں ایم کیو ایم کے مختلف لیڈرز بھی شامل ہیں ۔ ایم کیو ایم کے یونٹس و سیکٹرز کو بھی تب اس بات کا علم ہوتا ہے جب ایسے کارکن پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ انکشاف ہوتا ہے یہ تو لشکر جھنگوی کے لیے کام کر رہا تھا اور فلاں تو سپاہ محمد کا کارکن تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اسی طرح مالی فوائد سیمٹنے والے بہت سے عناصر کراچی  کے بدنام زمانہ علاقوں لانڈھی کورنگی ، ملیر ، کے علاقوں سے نکل کر اب کلفٹن و ڈیفینس میں کروڑوں کی پراپرٹیز کے مالک ہیں ۔  کیسی تنظیم ہے ؟ کیسا منظم سیاسی ادارہ ہے ؟ جس کے راہنما آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے ۔ محض ایک خوف کی سی  کیفیت  ہے اور چلتے چلے جا رہے ہیں ۔
یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ایم کیو ایم کوئی بہت ہی منظم ادارہ ہے بلکہ یہ خو ف کا مجموعہ ہے خواہ وہ اپنے  کارکنان و ذمہ داران کے لیے ہو یا جہاں اس کا سایہ پڑ جائے ۔۔۔ اس کے باوجود   کراچی کی مہاجر عصبیت مجبور ہے ۔ بھٹو کے کوٹہ سسٹم  کے بعد مہاجروں کے پاس کوئی ایسا دروازہ نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں ۔ ان کی آواز صرف ایم کیو ایم ہی بنتی محسوس ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا مینڈیٹ اب تک کوئی اور حاصل نہ کرسکا ۔  جماعت اسلامی نے خوب ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا مگر مہاجر کے سامنے جمعیت سے نفرت کے اسباب موجود ہیں جس نے کبھی بھی مہاجروں کے دل ان کی جانب مائل نہیں  ہونے دیے۔ ایک عرصے کے بعد عمران خان  نے کراچی کا رخ کیا تو کراچی  نے ایک نئی سانس لی جس کی گرماہٹ پورے پاکستان نے محسوس کی ۔ مگر افسوس تحریک انصاف بھی کراچی کو  اپنا نا بنا سکی ۔ اور ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ ایم کیو ایم کے پاس محفوظ رہا ۔
اس سرسری خاکے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر غیب سے ریاست کی مدد ہوئی ہے ۔ اور خود ایم کیو ایم  اپنی روش تبدیل کرنے کی جانب اور اپنی سیاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب قدم بڑھانے پر مائل نظر آتی ہے  ۔مگر  ہر طرف وہی غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے ۔ یہ وقت، ریاست کے  اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کو ضایع نہ کرے اور اسی ایم کیو ایم کے لوگوں کو سپورٹ کرے جنہوں نے ایک تبدیلی کی جانب اپنا پہلا قدم بڑھایا ہے ۔ یہ قدم مزید مضبوط ہو سکتا ہے ۔ اگر ان کی پیٹھ تھپتھپائی جائے ۔ انہیں سیکیورٹی کا احساس دلایا جائے ۔ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے لیے ۔  بصورت دیگر لندن والے ہاتھ دراز ہونے کے امکان ہیں ۔ انہیں کمزور کرنے کے لیے انہیں مضبوط کرنا ہوگا ۔ اگر ریاست یہ سمجھتی ہے کہ وہ اپنی اسی روش کے ذریعے ایم کیو ایم کو ختم کردے گی تو یہ ایک سراب ہے ۔  پی ایس پی  عوام کی نظر میں ایک ہائیڈ آوٹ محسوس ہورہی ہے ۔ جس نے بھی جان بچانی ہو اس میں داخل ہوجائے ۔  ایسے منظر ناموں کے بعد کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟
مینڈیٹ والی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ بہت سے بھڑکتے لاووں کو الاو دینے کے مترادف ہوگا ۔ اس کا یہی حل ہے کہ مثبت راستہ اپنایا جایے ۔ اگر یہ لوگ واقعتا سچے ہوئے تو آگے جا کر لندن سے مکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کر لینگے ۔ فی الحال ان کے لیے ایسا ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ ریاست انہین تحفظ کا احساس دلانے میں ناکام ہے ۔  بصورت دیگر  سچ و جھوٹ واضح ہوجائے گا ۔ اور یہ اپنی موت آپ ہی مرجائیں گے ۔ یہ ویسا ہی احساس ہے جو ہم میں جاگ رہا ہے ۔ ہم اب کراچی کو صحت مند سیاسی جماعتوں  کے میدان کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔

Tuesday, August 23, 2016

مسئلہ ایم کیو ایم

مسئلہ ایم کیو ایم

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. 

ملک میں مجھ کو ذلِیل و خوار رہنے دیجئے 
آپ اپنی عزّتِ دربار رہنے دیجئے 

اکبر 

ہمارا مسئلہ یہ ہے ہمماضی میں اپنے کو قید کرلیتے ہیں ۔ آگے نہیں بڑھنا چاہتے ۔ ایم کیو ایم نے جس وقت اپنی آواز بلند کی اس وقت یقینا ً ایک ایسی آواز کی شدید ضرورت تھی ۔ جسے پذیرائی بھی ملی اور نوجوان بچے بڑے بوڑھوں نے جوق در جوق اس آواز پر لبیک کہا ۔ الطاف حسین صاحب کو اپنا راہنما تسلیم ہی نہیں دل و جان سے عزیز بنایا ۔ ان کی ایک آواز اٹھتی اور مرد و خواتین ، غرض ہر طبقے کے مہاجر گھر سے نکل آتے ۔ بلکہ آج بھی ایک اچھی خاصی تعداد ان کو اپنا راہنما کم پیر مانتی ہے ۔ لیکن الطاف حسین نے اس ملک کے سب سے زیادہ مہذب و تعلیم یافتہ طبقے کو کیا دیا ؟ 
زوال اور صرف زوال ۔۔
جو کہ مسلسل جاری ہے ۔۔۔ اسی کی دھائی میں ان کے تعصبانہ نعرے قابل قبول اور حقیقت بر مبنی تھے ۔ مگر اب دو ہزار سولہ ہے ۔ اور حضرت بیس سال سے بھی زائد عرصہ ہوا پاکستان سے باہر ہیں اس دوران زمینی حقائق بہت زیادہ تبدیل ہوئے ہیں جس کا حضرت کو ادراک شاید بالکل نہیں ، اور اس کا اظہار وہ وقتا فوقتا اپنی تقاریر میں کرتے رہتے ہیں ۔ راہنما اپنی قوم کو تہذیب دیتا ہے مگر یہاں تو انہوں نے تہذیب کو ہی الوداع کہہ دیا اور اپنے چاہنے والوں کو ایک ایسے سراب میں ڈالے رکھا جہاں سراب کے سوا کچھ نہیں ۔ بہترین اذہان ان کے مصاحبین میں شامل ہیں ان کی تنظیم کو خوش اسلوبی سے منظم رکھے ہوئے ہیں جن میں اکثر کا کردار خصوصا کراچی کی سیاست میں اچھے حروف میں یاد کیا جانے کے قابل ہے ۔ مگر الطاف حسین صاحب کی بصیرت اب تک اسی کی دھائی میں قید تنہائی کی زندگی گزار رہی ہے ۔ جس کا خمیازہ مہاجروں کے سپوت بھگت رہے ہیں ۔ انہیں وطن دشمن عناصر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔ ان کی " پیشوائی " کے اب تک قائم رہنے میں صرف ان کے جان نثار کارکنوں کا ہی ہاتھ ہے جو ہمہ وقت ان کے ایک اشارے پر جان لینے اور جان دینے پر تیار رہے ۔ اور رہتے ہیں ۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ تین دھائیاں گزرنے کے باوجود ارتقائی منازل نہ طے کرسکے ؟ اور اپنی قوم کو مسلسل آگ و خون ، نفرت و بے چارگی کی دلدل میں دھنساتے رہے ۔ یہاں تک کہ ایک پوری نسل کو برباد کر کے چھوڑا ۔ 
اس جماعت کے کارکن نہ جیالے ہیں نہ شیر نہ ٹائیگرز ۔۔۔ یہ باشعور اور بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔اس کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ الطاف حسین صاحب کی اس قدر ہٹ دھرمیوں ، غلطیوں ، کوتاہیوں کے باوجود اس تنظیم کو منظم رکھنا اور عوام کے ساتھ مکمل رابطے میں رہنا ، خدمت میں بھی کسی سے کم نہ ہونا ۔ 
میں منفی پہلووں کی بات نہیں کروں گا کیونکہ جو منفی پہلو مثلا دہشت گردی ، جس زمرے میں خون ریزی و بھتہ خوری کو لے لیں ۔۔۔ یہ دہشت گردی ہر جماعت میں موجود ہے ۔ ن لیگ کی پولیس گردی ، اور گلو بٹیں تو سامنے ہیں ۔ اور بھتے کی جگہ یہ سرمایہ داروں سے فنڈز لیکر ہم پر ٹیکس کی صورت میں بھتہ لے رہے ہیں ۔۔ پیپلز پارٹی کی کراچی میں امن کمیٹی زائد ہے ۔۔ اے این پی ، سے لیکر جماعت اسلامی کی شباب ملی ۔۔ کونسی جماعت ہے جس کو دہشت گردی کی صف سے باہر رکھا جا سکے ؟ ایم کیو ایم کا مسئلہ الطاف حسین صاحب کا طرز سیاست ہے ۔ ایم کیو ایم کے ان تمام کارکنوں ، عہدیداروں کو چاہیے لندن رابطہ کمیٹی سے برات کا اظہار کریں اور ملک میں اپنی تنظیم کو از سر نو تشکیل دیں ۔۔۔ اس جماعت پر اگر پابندی لگتی کے تو کم از کم کراچی کی سیاست کو بہت نقصان پہنچے گا ۔ ایجنسیوں کی کٹھ پتلیاں ، پاک سرزمین پارٹی و ایم کیو ایم حقیقی آپس میں خون ریزی شروع کردیں گی ۔ حقیقی نے تو ویسے ہے اپنے علاقوں کا سکون خراب کررکھا ہے ۔ کراچی کا باشندہ ہونے کے ناطے اس وقت کراچی کو دو جماعتیں اون کرتی ہیں ، جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم اور ان دونوں جماعتوں کا حقیقی سیاست میں ہونا اہم ہ ۔ بشرطیکہ ایم کیوایم کی تشکیل نو ہو اور وہ ماضی کی سیاست سے باہر نکلیں ۔

Sunday, August 21, 2016

جھیل جنارے



جھیل کنارے
شہیر شجاع
میں اکثر ڈھلتی شام جھیل کنارے بیٹھ جایا کرتا ۔۔۔۔ جھومتے پیڑوں سے چَھن کر سسکتی دھوپ خاموش و تنہا جھیل کے بوسے لیتی ، تو شرمائی ہوئی جھیل کا ارتعاش دلی کیفیت کو مرتعش ہوتا ۔ دور جھیل میں ڈولتی ناو تند و تیز ہواوں کے زور پر ہچکولے کھاتی ، اس میں سوار انسان نہایت معمولی مخلوق محسوس ہوتے۔ فیملیاں مختلف گاڑیوں میں جوق در جوق اپنے ذوق طبع کا ساماں کرنے اس طرف کھنچے چلے آتے ۔ پانی میں خوب اٹھکھیلیاں کرتے ۔ کچھ جوان غوطے لگاتے دور تک چلے جاتے اور جیسے ہی دور کسی جانب وہ ابھرتے ,جھیل کے قہقہے میرے دل کو سکون بخشتے ۔ بچے بھی کھلکھلا کر تالیاں بجاکر داد دیتے اور کوئی تو اپنے بڑوں کی تقلید پر مائل ہوجاتا مگر دوسرے ہی لمحے جھیل کا پانی اس کے نتھنوں اور منہ کے ذریعے اس کو تنبیہ کرتا تو وہ خوفزدہ ہو کر رونے لگتے ۔ میرا دل اس وقت فرط جذبات سے گومگو کی کیفیت سے محظوظ ہوتا ۔ مگر افسوس جوان بوڑھے بچے اس خوبصورت جھیل سے اپنے دلوں کو آسودہ کرنے کے بعد جاتے جاتے اسے آلودہ کرجاتے ۔ اور اس کا کنارہ محض پانی کے جوہڑ کی تصویر محسوس ہونے لگتا ۔ اس وقت مجھے محسوس ہوتا جیسے جھیل سسک رہی ہو ۔ ان سسکیوں کی آواز پر پرندے لبیک کہہ رہے ہوں اور دونوں مل کر اس آلودگی کو آہستہ آہستہ اپنے سے دور کرنے کی ناکام کوشش میں مگن ہوں ۔ اس جدوجہد میں درد بھری پانی کی لہریں میں اپنے دل میں محسوس کرتا ۔ جیسے اپنی بانہوں میں لاتعداد مخلوق کو سمیٹے یہ جھیل فریاد کر رہی ہو کہ " بخدا یہ غلاظت میرے موطنین کو بیمار کردے گی ، ان کی زندگیاں پریشان ہوجائیں گی ، کہیں ایسا نہ ہو میں ایک دن حقیقی پانی کا جوہڑ بن جاوں جہاں گندے مچھر مسکن بنا لیں ۔ کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ ہوجاوں ۔ پھر تم مجھ سے رومانس کرنے جو روز آجاتے ہو وہ نفرت میں بدل جائے ، بخدا یہ نفرت تم نے خود بویا ہوگا مگر تم الزام مجھ کو دے رہے ہوگے " ۔
اور میرا دل لرز کر رہ جاتا ۔ کیفیت میں بے بسی سی محسوس ہوتی ۔ جھیل کے ساتھ خود بھی آنسو بہانے لگتا ۔۔۔ جب تک اندھیرا اچھی طرح نہ پھیل جاتا میں وہیں بیٹھا رہتا ۔ دم توڑتی دھوپ اپنے ساتھ روشنی کی بھی رسوائی کا سامان ہوتی ۔ جھیل کی ہلکی ہلکی مرتعش لہریں جیسے انہیں الوداع کہہ رہی ہوں کہ شب بخیر کل ملیں گے ۔ روشنی کو دلاسہ دے رہی ہوں کہ یہ رات تو بیت جائے گی کل دن پھر تمہارا ہوگا ۔

http://daleel.pk/2016/08/24/5545

Thursday, August 18, 2016

مولانا آزاد کی پیشین گوئی

مولانا آزاد کی پیشین گوئی 
شہیر شجاع 

مولانا آزادؒ نے پاکستان کا مستقبل تو دور رس نگاہوں میں کشید کر لیا تھا مگر کیا ہندوستان وہی ہے جس کے لیے مولانا نے اپنی ساری زندگی تیاگ دی؟
جی ہاں یہ وہ نکتہ ہے جس پر کانگریس و مسلم لیگ جدا ہوئے۔ مسلم لیگ کا مطالبہ جدا ہوا اور تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا۔ ایک ایسی سرزمین اور ایک ایسا خطہ دنیا کے نقشے میں ابھرا جس نے اس عَلم کو تھاما جس کی ٹھیکیداری عربوں کے پاس تھی مگر وہ کم ہمت ثابت ہوئے۔ صرف ترک تھے جنہوں نے جدوجہد جاری رکھی مگر ارض پاک کو جو جغرافیائی و نظریاتی کیفیت میسر آئی وہ سب میں ممتاز تھی۔ معمار اپنا کام کر کے اتنی جلد رخصت ہوگئے کہ ابھی زمین میں بویا گیا بیج پھوٹا بھی نہ تھا۔ اس کو سینچنے کا کام بدقسمتی سے کم عقل، کم فہم، کم ہمت اور وژن سے دور لوگوں نے اپنے کندھوں پر لیا۔ اس کے باوجود ارض پاک نے اپنی حیثیت برقرار رکھی۔ مسلسل چوٹ کھا کر بھی اپنے وجود کی اہمیت کو کم ہونے نہ دیا۔ ایسا ہو بھی کیسے؟ فطرت تو نہیں بدلتی، خواہ آپ کتنا بھی زور لگالیں۔ ایک طرف منفی عناصر تھے تو دوسری طرف بنیادی وجود کو مستحکم رکھنے کی جدوجہد بھی جاری تھی۔
پاکستانی جب سے ہر قسم کی آزمائشوں کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ کہیں سیاسی ظلم ہے تو کہیں نظریاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر یہاں کے باسیوں کو مختلف افکار و نظریات میں الجھادیا گیا، خواہ موضوع مذہب ہو، سیاست ہو، ریاست ہو یا کچھ اور، اور یہ سلسلہ اب تک جاری و ساری ہے۔ مملکت خداداد کے سب سے اہم ستون بھی یہ تین ہی ہیں جو سماج کو تشکیل دیتے ہیں اور فرد کو اجتماع کی تشکیل میں مددگار ہوتے ہیں۔ سیاست و مذہب فرد کے فکر کو چھیڑتا ہے۔ اگر تو مذہب و سیاست کے پیشرو قابل و عالم ہیں اور وہ اس میدان میں نیک نیتی و مکمل تیاری کے ساتھ موجود ہیں تو سماج کی فکری تشکیل میں فرد کو یکسو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بصورت دیگر مزید الجھائو کا باعث بنیں گے، اور یہ الجھائو کسی بھی صورت قابل تعریف سماج کی تعمیر کا باعث نہیں ہوسکتا۔
مولانا آزادؒ نے بھی پاکستان کے مستقبل کی بعینہ یہی تعریف کی تھی جو ہم جی رہے ہیں۔ مگر مسلم لیگ کا موقف بھی بالکل واضح تھا جس کی حقیقت کے طور پر آج کا بھارت ہمارے سامنے ہے ۔ ہم یہاں کسی بھی موقف کے اختیار کرنے والے پر تبرا نہیں کریں گے کیونکہ سیاست ہر انسان کی اپنی سوچ ہے۔ مولانا کو ہندوستان سے محبت تھی، وہ مستقبل میں ایک ایسا ہندوستان تصور کرتے تھے جہاں انسانوں کی حکومت ہو اور انسانیت پھلتی پھولتی ہو، امن و امان اور فکری و سیاسی ترقی ہو۔ جبکہ مسلم لیگ کے جہاندیدہ سیاستدانوں کو اس سوچ سے اختلاف تھا. وہ سمجھتے تھے کہ ایسا ممکن نہیں۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح ایک وقت میں، ایک ایسے ہی سیاسی حل پر آمادہ بھی ہوگئے تھے مگر چند ہی روز میں کانگریسی لیڈر کی تقریر نے ان کو سجدہ سہو پر مجبور کردیا، جس کا اقرار مولانا اپنی کتاب میں خود کرتے ہیں۔ وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’کاش میں کانگریس کی صدارت نہ چھوڑتا تو شاید آج ہندوستان دولخت بھی نہ ہوتا‘‘۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مولانا کی سیاسی بصیرت بہت خوب تھی۔ اس کے ساتھ ہی فکری مشقت ان کی زندگی۔ اگر وہ سیاستدان نہ ہوتے تو ایک بہترین مفکر اور ادیب و عالم کے طور پر آج مسلم امہ کا اثاثہ ہوتے۔ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ رہ جانے والی ان تمام ہستیوں کو ہندوستانی سمجھ کر اپنی تاریخ سے نکال دیا۔ مگر افسوس کہ ہندوستان نے بھی ان مسلمان رہنمائوں کے ساتھ یہی کیا حالانکہ وہ مسلمان رہنما آخر تک ہندوستانی رہے۔
دوسری طرف قائداعظم رحمہ اللہ نے ایک ایسی سرزمین کا خواب دیکھا جہاں دنیا کے سامنے ایک ایسا سیاسی و سماجی نظام کا تجربہ پیش کیا جائے جس کی اساس اسلام ہو۔ اور دنیا کو باور کرایا جائے کہ جتنے بھی خود ساختہ نظام ہیں، ان میں انسانیت کی بہبود نہیں۔ یہ محض ریت کی دیوار ہیں۔ بہرحال کامیابی و ناکامی ہمارا موضوع نہیں۔ آزادی کے بعد سے اب تک طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو سوائے ابتداء کے چند عشروں کے فکری سطح پر دونوں خطے نہایت ابتری کا شکار ہوئے ہیں۔ اہل سیاست نے تعمیر کے بجائے ہیجان کو فروغ دیا۔ اہل صحافت و اہل ادب نے ان موضوعات پر توجہ دی جو سماج کا موضوع تھے ہی نہیں۔ ان کی کوشش اہل سیاست اور اہل فکر پر مرکوز رہی جبکہ یہ دونوں طبقے بذات خود تدبیر و تعلیم، خدمت و تعلّم کے بجائے جنگ و جدل پر مصر رہے۔ جس نے عام آدمی کی تخلیقی و فکری ساخت کو متاثر کیا، وسائل کو راحت اور مسائل کو غم سمجھا۔ جس نے اس نہج پر لا کر سماج کو تحلیل کردیا کہ وہ اب یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ آزاد کیوں ہوئے تھے؟ ان کی آزادی کا مطلب کیا تھا؟ انگریز ہم پر حکمران تھا تو ہم نے کیونکر اس سے آزادی حاصل کی؟
اس کا جواب جو سب سے آسان فی الوقت نظر آتا ہے اور جو ہم نے ثابت کیا کہ ہم تو اپنی تعمیر کے اہل ہی نہیں تھے۔ ہر طرف ظلم و جور، بد امنی، قتل و غارت لوٹ کھسوٹ، عصمت دری اور باہمی دشمنی جیسے اوصاف کو ہم نے فروغ دیا۔ سماج نے ان تمام عناصر کو قبول کیا کیونکہ ان کی فکر صرف اور صرف وسائل کا تصرف رہ گیا ہے۔ اس سے آگے ان کی تربیت کا کوئی ایک بھی معمول نہیں نہ ہی کوئی ایسے ادارے وجود میں آسکے جو اذہان کو اپنا موضوع بنائیں، سماج کی تشکیل میں کردار ادا کریں۔ ہوا یہ کہ ہر ایک اپنی استعداد کے مطابق بیڑا اٹھائے کھڑا ہوگیا، یہ بھی مایوسی کی آخری سطح ہے۔ جب عام آدمی اپنی استعداد کو خاطر جمع کرکے خدمت میں مصروف ہوجائے کہ یہ کام اب ہمیں خود کرنا ہے۔ سماج کو ریاست کی توجہ حاصل کرتے نہ جانے اور کتنا عرصہ بیت جائے۔ اس سے چند افراد کو تو راحت کے مواقع میسر آگئے مگر تصویر جوں کی توں ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ اور مولانا آزاد کے الفاظ اہل ادب بڑے کروفر سے دہرا رہے ہیں جو کل تک ان پر تبرا کرتے تھے۔ آج ان کے اذہان بھی وسائل کے تصرف کی جنگ سے پراگندہ ہیں۔
ہم نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر آزاد ہو نہ پائے، خواہ ہندوستان ہو یا پاکستان ، دونوں آزاد مملکتیں اپنے معاشرے کو آزاد اقدار پر تشکیل دینے میں ناکام ہیں، اپنا گھر، اپنا وطن، اپنی زمین، اپنے اقدار محض جذبات تک محدود ہیں۔ ہماری اہلیت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اہل فکر کو یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ عوام کو سیاست کی تعلیم و ترغیب اس وقت فائدہ مند ہو جب ایک باشعور سماج تشکیل پاچکا ہو۔ اس معاشرے کو از سر نو مرتب کرنے کی ضرورت ہے، اس کی تربیت کی ضرورت ہے، اور یہ کام اہل علم اور اہل صحافت و ادب کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

http://daleel.pk/2016/08/18/4871

Saturday, August 13, 2016

جشن آزادی مبارک

جشن آزادی مبارک 
شہیر شجاع

رات کے دوسرے پہر ٹیبل پر کہنی جمائے ، ٹھوڑی کو مٹھی میں سمائے ، قلم کو انگلیوں میں پھنسائے ، آنکھوں کو کاغذ میں جمائے ۔۔۔کمر کرسی میں پھنسائے ، آنکھوں میں سپنا سجائے ، ذہن کو جشن آزادی کے لفظوں میں بسائے ، یوں ہی تو نہ بیٹھا تھا ؟ 
ارادہ تو تھا کہ جشن آزادی پر جذبات کو چند لفظوں میں پروئے ۔۔۔۔ صفحہ قرطاس کی زینت بناوں گا ۔۔۔۔ مگر اب الفاظ چڑیوں کی مانند میرے آگے یہاں وہاں پھر رہے تھے ۔۔۔۔ ان کی چہچہاہٹ کانوں کے ذریعے دماغ میں ایک شور بپا کیے ہوئے تھا ۔۔۔۔ دل کی دھڑکنیں ۔۔۔۔ بےربط ہوچلی تھیں ۔۔۔ میری انگلیاں قلم کو میرے ہی گالوں میں چبھونے لگیں ۔۔۔ سامنے کھلی کھڑکی سے چاند کی کرنیں ۔۔۔ سرخ محسوس ہونے لگی تھیں ۔۔۔۔ ان کرنوں کا لاوا جیسے میرے کاغذ کو جلا رہا تھا ۔۔۔ اور اس کے شعلے میرے سینے کو بھسم کردینا چاہتے تھے ۔۔۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ آواز بن کر کانوں کو ستانے لگی ۔۔۔۔ جیسے مجھ سے شکوہ کر رہی ہوں ۔۔۔ مگر میں اس آواز کو چڑیوں کا شور ثابت رکھنے پر مائل تھا ۔۔۔ میں وہ شکوہ قبول کرنے پر آمادہ نہ تھا ۔۔۔۔ آوازیں مزید تیز ہونے لگیں ۔۔۔ چڑیوں کا ساتھ دینے ، طوطا مینا بھی آگئے ہوں جیسے ۔۔۔ میرا دماغ پھٹنے لگا تھا ۔۔۔۔ میرا سینہ آگ کی تپش سے بھسم ہوجانا چاہتا تھا ۔۔۔۔ 
کہیں دور سے آواز آئی ۔۔۔۔۔ میں تو آزاد ہی پیدا ہوا تھا ۔۔۔۔ میری سانسیں آزاد تھیں ۔۔۔ میرا سونا میرا جاگنا آزاد تھا ۔۔۔۔ پھر یہ جشن کس لئے ؟ 
شور مزید گہرا ہونے لگا ۔۔۔ 
میں نے سر جھٹک دیا ۔۔ میں مزید سننا چاہتا تھا ۔۔۔ 
آواز تک رسائی ہوئی ۔۔۔۔ !
تو آزاد پیدا ہوا ۔۔۔۔ پھر زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ۔۔۔۔ کسی زنجیر کا نام مغل ٹہرا ۔۔ کہیں انگریز ۔۔۔ 
شور نے ایک مرتبہ پھر میری یکسوئی غافل کرردی ۔۔۔۔۔ شاید یہ کوئی دوسرا مخاطب تھا ۔۔۔ اور میں ان دونوں کی گفتگو کو سننا چاہتا تھا ۔۔ کیا واقعی ؟ 
ہاں اس انگریز سے میرے اجداد نے آزادی حاصل کی ۔۔۔۔ اس کی قیمت کا مجھے ہمیشہ پڑھایا گیا ہے ۔۔۔۔ 
دوسری آواز آئی ۔۔۔۔ لیکن تیرا دل و دماغ اس قیمت کو بھول چکا ہے ۔۔۔ ورنہ تیرا سینہ پھٹ جائے ۔۔۔ آنکھوں سے لہو بہنے لگے ۔۔۔ دماغ کی رگوں میں آگ دوڑنے لگے ۔۔۔ سانسیں تندور بن جائیں ۔۔۔۔ 
 ۔۔۔۔ شور تھم چکا تھا ۔۔۔ پر میں اب بھی گم صم ۔۔۔ تھا ۔۔۔۔ 
پھر پہلی آواز آئی ۔۔۔۔ میں تعلیم یافتہ ہوں ۔۔۔ میں نے تہذیب بنائی ۔۔۔ تمدن اختیار کیا ۔۔۔۔ 
ایک زور دار قہقہہ بلند ہوا ۔۔۔۔۔ میرے کان سن سے ہوگئے ۔۔۔ میں نے قلم کو کاغذ میں چبھودیا ۔۔۔۔ 
مختلف آوازوں کا شور یکبارگی اٹھا ۔۔۔۔۔ الفاظ قابل سماعت تھے ۔۔
میرا چچا ڈی ایس پی ہے ۔۔۔ 
دوسری آواز آئی ۔۔۔ میرا ماموں سیکریٹری ہے ۔۔
تیسری آواز آئی ۔۔۔ میرے ابا سیاستدان ہیں ۔۔۔ پھر بہت سی آوازوں نے ایک ساتھ کہا ۔۔۔۔ ہم آزاد ہیں ۔۔۔ ہم مامون و محفوظ ہیں ۔۔۔۔ تم کیوں شکوہ کرتے ہو ۔۔؟  ۔۔۔۔ 
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی ۔۔۔
پھر کراہنے کی آواز ۔۔۔۔ سسکیوں کی آواز ۔۔۔ تھکن سے چور پیاس کی شدت سے بلبلاہٹ ۔۔۔ غم و اندوہ میں لپٹی تلملاہٹ ۔۔۔۔ خون میں لت پت اجسام میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ۔۔۔۔ 
میرے قلم کا زور کاغذ پر بڑھتا گیا ۔۔۔۔ بڑھتا گیا ۔۔۔ ایک ہاتھ سے میں نے اپنے کان بند کرلیے ۔۔۔ میں ان آوازوں سے تنگ آچکا تھا ۔۔۔۔ مجھے اپنے چہرے پر نازک سی نرم تپش محسوس ہوئی ۔۔۔ قلم کا زور مانند پڑنے لگا ۔۔۔ میں نے کھڑکی کی جانب نگاہ کی ۔۔۔۔ رات بیت چکی تھی ۔۔۔ صبح کے سورج کی پہلی کرنیں ۔۔۔ مسکرا رہی تھیں ۔۔۔۔ میرا قلم چلنے لگا ۔۔۔ چہرہ مسکرانے لگا ۔۔۔۔ جشن آزادی مبارک ۔۔۔۔ صفحہ قرطاس میں ۔۔۔ کھلکھلانے لگا ۔۔۔ اور میں ان کرنوں کا استقبال کرنے لگا ۔۔۔ 

Thursday, August 11, 2016

سلسلہ غورو فکر

سلسلہ غورو فکر 
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے فکری سطح پر فرد کے تصور سماج کو پراگندہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ آج ہم اس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں سماج ہر اس برائی کو قبول کرنے پر آمادہ ہے جس کے ذریعے سے اس کی روز مرہ زندگی معمول پر چلتی رہے ۔ خواہ اس کے عوض کوئی بھی قیمت چکانی پڑے ۔
آج ہماری تعمیری طبقات کی حیثیت کیا ہے ؟
اہل علم کے مخاطب خواص ہیں ۔
اہل ادب ،کے مخاطب خواص ہیں ، یا اپنے ہی ہمعصر جہاں وہ اپنے اپنے نظریات پر بحث کرسکیں ۔
اہل صحافت کے مخاطب عوام ہیں پر موضوع جنگ و جدل پر مبنی ہے ۔ یعنی عوام کے اذہان میدان جنگ ہیں یا جنگی سازو سامان ۔ ان کے حقیقی مخاطب حکومت یا بین الاقوانی سیاست ہے ۔ مقصد حصول محض اجارہ داری ۔
اہل سیاست و اہل صحافت دونوں ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ۔ عام آدمی کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں ۔ اور عام آدمی کی زندگی ویسے ہی وسائل کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ہے ، اسے مذید فکری پراگندگی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے ۔
تعمیر کہاں ہے ؟ آج کے نوجوان کی فکری و تخلیقی صلاحیتوں کو کس نے کشید کرنا ہے ؟
سماج کی تشکیل انتہائی غیر مہذب سطح کو چھو رہی ہے ۔۔۔۔ جہاں نئی نسل کے پاس سوچنے ، غور و فکر کرنے کےلیے کوئی اوزار نہیں ۔ عسرت کے ساتھ چند جماعتیں وہ پڑھتا ہے ۔ اس کے بعد پراگندہ ذہن کے ساتھ وسائل و مسائل کی جنگ سے نبرد آزما ہوجاتا ہے ۔ کیا یہ صورتحال اہل فکر کو پریشان نہیں کرتی ؟ یا شاید اہل فکر بھی اپنی ذات تک محدود ہوچکے ہیں اس  کیپیٹل از م نے ہر انسان کا تصور زندگی وسائل کا تصرف تخلیق کرلیا ہے ۔ رہی سہی کسر الیکٹرانک میڈیا اور اہل سیاست نے پوری کردی ۔ دونوں عناصر نے جذبات کو مخاطب بنایا ۔ اور اذہان کو غورو فکر سے دور کردیا ۔ جذبات کا سیل رواں ہے جو بہتا جا رہا ہے ۔ کہیں انٹرٹینمنٹ کے نام پر ۔۔۔ کہیں لیڈر کے نام پر ۔  ہر دو مقام پر عام آدمی نے فرشتے تخلیق کر لیے ہیں ۔ جہاں اسے چند لمحے آسودہ حال ہونے کو مل جاتے ہیں ۔ اور وہ ان کی پوجا میں مصروف ۔ 

Tuesday, August 9, 2016

غیر ذمہ دار حاکم اور اندھی رعایا



غیر ذمہ دار حاکم اور اندھی رعایا 

شہیر شجاع

دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا ۔
دہشت گرد کہیں بچ کر نہیں جا سکتے ۔
دہشتگردوں کا انجام عبرتناک ہوگا۔
دہشتگردوں کو پوری طاقت سے کچل دیا جائے گا ۔
ان کا ملک کے کونے کونے تک پیچھا کیا جائے گا ۔

ایسے سینکڑوں بیانات ہمارے اخبارات میں بھرے پڑے ہیں ۔ ذرا غور کیجیے ۔ ایک بھی ذمہ دارانہ بیان ہے ؟ کسی ایک ذمہ دار نے ذمہ داری اٹھائی ہو ؟ کہ اس ملک کی رعایا کی جان مال کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے ۔ خواہ مرکزی حکومت ہو ، صوبائی ہو یا فوج ہو ۔
مذمتی بیانات
الزام تراشی
سیاسی پوائنٹ اسکورنگ
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ وہ تمام کام ان ذمہ دار عناصر کر رہے ہیں جو ان کے کام ہیں ہی نہیں ۔ انہیں ہم نے اپنی جان مال  عزت نفس کے تحفظ کے لیے اپنا حاکم بنایا ۔ یہاں تک کہ ان کے برے افعال کی پردہ داری بھی ہماری عزت نفس قرار پائی ۔ ان پر نکتہ چینی کرتی زبان ہماری دشمن قرار پائی ۔
جبکہ دوسری طرف انہوں نے ہمارا امن تباہ کردیا
ہماری جان محفوظ نہیں ۔۔ ہمارے مال کی کوئی ضمانت نہیں ۔۔۔
ان کے محلات کھڑے ہورہے ہیں ۔۔ ہماری مٹی گھروندے بھی ٹوٹ رہے ہیں۔
ان کی آل اولاد ترقی کر رہی ہے ۔۔
ہماری اولاد سڑک پر بیروزگار پھر رہی ہے ۔
ان کی آل اولاد باہر ملکوں میں ہمارا مال جمع کر کے اپنی نسلوں کا تحفظ کر رہی ہے ۔۔
ہماری اولاد باہر ملکوں میں ذلالت بھری زندگی گزار رہی ہے ۔ جن کے پاس کوئی جائے پناہ نہیں ۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔
ہم نے ووٹ دے کر انہیں ذمہ دار بنایا ۔۔

یا ۔۔

انہیں اپنا آقا بنایا۔۔۔؟؟

ذرا سوچیں ۔۔

کل کی خون کی ہولی ۔۔ میں ۔۔ میرا اور آپ کا خون بہا ہے ۔۔۔۔۔
ذمہ داران ۔۔۔ کا تو پسینہ بھی نہیں بہا ۔۔۔ وہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ ۔۔۔ غیر ذمہ دارانہ بیانات داغ کر ۔۔۔ بری الذمہ ہوگئے ۔۔۔

حاکم وقت ۔۔۔ ہمارے محبوب نہیں ۔۔ تلوار کی نوک پر ہوتے ہیں ۔۔۔ تب ہی جا کر اپنے  حقوق کا تحفظ ہوتا ہے ۔۔
کون جمہوریت کا مخالف ہے ؟ مخالفت غیر ذمہ داری کی ہے ۔۔
مخالفت ہٹ دھرمی پر ہے ۔
مخالفت سینہ زوری کی ہے ۔
مخالفت حَکم کی بادشاہت کی ہے ۔
۔ جس پر ایک دنیا شاد ہے ۔۔۔
وہ نہ میرے ہیں نہ تمہارے ہیں ۔۔۔
وہ ہمارے حاکم ہیں ۔۔۔ ہمارے آقا نہیں ہیں ۔۔

دل خون خون کیوں نہ ہو ؟ ۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...