Sunday, March 13, 2016

ان لوگوں کے لیے جو ریاست کے مذہبی بیانیے کو غلط سمجھتے ہیں ۔۔

ان لوگوں کے لیے جو ریاست کے مذہبی بیانیے  کو غلط سمجھتے ہیں ۔۔ 

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ بھی اسی  شخص کا ہے جو ہندو ازم سے متنفر ہو کر ۔۔ کرسیچینٹی کی پناہ میں آگیا ۔۔۔ اس کا تعلق ہند سے ہے ۔۔ جو کہ ہندووں کی کسی نچلی ذات سے تعلق رکھتا تھا ۔۔ کرشچینیٹی قبول کرنے کے بعد اسے گاوں چھوڑنا پڑا ۔۔۔ مگر جو گاوں اب اس کو میسر آیا وہ دو سو گھروں کا گاوں ہے اور ساری آبادی ہندووں کی ہے ۔۔۔ صرف یہ ایک خاندان کرسچئین ہے ۔۔۔۔  
کہتا ہے ۔۔۔ میرے والد کا انتقال ہوا ۔۔۔ تو ان کی آخری رسومات کے بعد ۔۔۔ قبرستان لے جایا گیا ۔۔ جو کہ ہندووں کا تھا ۔۔ وہ لوگ اس میت کو دفن کرنے  پہ مانع ہوگئے ۔۔۔ کہان ان کا یہ تھا کہ ۔۔۔ چونکہ یہ میت ایک مسلمان کی ہے ۔۔ اسے ہم یہاں دفن ہونے نہیں دیں گے ۔۔۔  یعنی وہ غیر ہندوں کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔ دونوں طرف سے گفت و شنید جاری رہی ۔۔  اتنے میں  اس کو اپنے سیل فون کا خیال آیا جس میں اس کے پادری صآحب نے ایک نمبر دیا تھا کہ اگر کوئی اس قسم کی پریشانی ہو تو کال کر لے ۔۔۔ اس نے اس نمبر پر کال کی ۔۔ اور صورتحال سے آگاہ کیا ۔۔۔۔ آدھا گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ ۔۔ پولیس کی گاڑیاں نمودار ہوئیں ۔۔ اور آنا فانا ۔۔ ساری صورتحال کو اپنے قبضے میں لے لیا ۔۔ اور مکمل احترام کے ساتھ میت دفنائی گئی ۔۔۔۔  جی ہاں وہ کال امریکن ایمبیسی کو کی گئی تھی ۔

معاشرت ومذہب

ایک سچا واقعہ ( ایک سبق )
شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص کی ماں بستر مرگ پر پڑی تھی ۔۔۔۔ مذہب سے وہ ہندو تھے ۔۔۔ طبی علاج معالجے کے بعد ۔۔۔ روحانی علاج شروع ہوا ۔۔۔ تانترکوں نے بتایا کہ ۔۔۔۔۔ بی بی پر کالا عمل کیا گیا ہے ۔۔۔۔ بڑے بڑے تانترک بلائے گئے ۔۔۔۔ کوئی کہتا سمند رکی تہہ سے سیپیاں لے آو تو کوئی کہتا ۔۔۔۔ آسمانی پرندہ جو اونچا اڑتا ہو اس کے پر ۔۔۔۔ وہ سب کچھ کرتا گیا یہاں تک کہ اس کے گھر میں ایک دانہ اناج نہ ایک پائی پیسہ بچا۔۔۔ دو دن کا فاقہ تھا ۔۔۔۔۔ اس نے سائیکل نکالی ۔۔۔۔ بالکل مایوس ۔۔۔ مایوسی کی آخری حدوں میں وہ انسان ۔۔۔۔ چلا جا رہا تھا ۔۔۔ ندی کنارے سائیکل کھڑی کرکے ایک طرف بیٹھ گیا ۔۔۔ سرجھکائے کافی دیر بیٹھا رہا ۔۔۔ سامنے سڑک ہر دو بندے آتے دکھائی دیے ۔۔۔ وہ اٹھا ان کی طرف بڑھا ۔۔۔۔ وہ رک گئے ۔۔۔
اس نے کہا ۔۔۔۔ میں بہت پریشان ہوں۔۔۔ اور اپنی صورتحال بتائی ۔۔۔
انہوں نے کہا۔۔۔ کہ یار ہم تمہاری کیا مدد کر سکتے ہیں ۔۔۔ ؟ تھے وہ بھی ہندو ۔۔
انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ ۔۔۔ یہاں سے کچھ دور ایک عبادت گاہ ہے ۔۔۔ وہاں چلے جاو۔۔۔۔
اس نے سائیکل اٹھائی ۔۔۔ اس راہ کو چل دیا ۔۔۔۔
وہ ایک کنیسا تھا ۔۔۔۔
اندر داخل ہوا ۔۔۔۔ کلائیوں ۔ بازووں ۔۔۔ اور گلے میں ۔۔۔۔ رنگ برنگی رسیوں سے لدا پھندا ۔۔۔۔
سامنے سے پادری کی اس پر نظر پڑی ۔۔۔ بندہ اس کے قریب پہنچا ۔۔۔
پادری اس کو دیکھے وہ پادری کو۔۔۔۔
پوچھا ۔۔۔ کیا بات ہے بیٹا ۔۔۔؟
اس نے اپنی روداد کہہ سنائی ۔۔۔۔ پادری نے آہستہ سے سر کو جنبش دی ۔۔۔۔ اور کہا ۔۔۔۔
یہ رسیاں ساری کاٹ کر پھینک دو ۔۔۔ اس نے تعمیل کی ۔۔۔۔
دو شیشیاں دی ۔۔۔ ایک میں پانی اور دوسری میں تیل ۔۔۔ کہا۔۔
پانی سارے گھر میں چھڑک دینا ۔۔۔۔ اور تیل مریض کے جسم میں مل دینا ۔۔۔۔۔
""" ہر اتوار کویہاں آجانا """ اور اگر نہ آسکو تو گھرپر ہی عبادت کر لینا """
بندے کا دل عجب سکون سے سرشار ہوگیا۔۔۔۔ وہ پلٹا ۔۔۔ پادری کی باتوں میں عمل کیا ۔۔۔۔ اس کی مشکلات بھی دور ہوگئیں ۔۔۔ تب سے وہ کرسچئین ہے۔۔۔۔

Saturday, March 12, 2016

مصطفی کمال کی آمد

مصطفی کمال کی آمد 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان نے پنجاب میں اپنے پنجے گاڑنے کی سر توڑ کوشش کی ۔۔۔۔ اسٹریٹیجی ان کی " میاں صاحب" کی ذات کو نشانہ بنانا رہی ۔۔۔۔ جس بنا پر وہ ہنجے کیا جماتے ۔۔۔ مزید نفرتوں کو پروان چڑھا گئے ۔۔۔
اور اب اسی اسٹریٹیجی کے ساتھ " مصطفی کمال " صاحب میدان میں آئے ہیں ۔۔۔ دعوی یہ ہے کہ ۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی انکھیں کھولیں گے ۔۔۔
سیاسی اسٹریٹیجی کے بنانے میں سب سے اہم ۔۔۔ سماج کا مطالعہ ہے ۔۔۔۔ جو کہ ہمارے کسی سیاستدان میں نظر نہیں آتا ۔۔۔
اگر اسی طرح ایک " معتقد " سماج میں ۔۔۔ اپنے مخالف کی ذات کو ٹارگٹ کرکے کامیابی کے خواب دیکھنے ہیں تو ۔۔۔ انہیں پہلے سے پیشتر واپس چلے جانا چاہیے ۔۔۔۔ کیونکہ اس طرح سے تفریق در تفریق تو جنم لے سکتی ہے ۔۔۔۔ مگر تعمیر نہیں ہو سکتی ۔۔۔۔
مزید یہ کہ ۔۔۔۔ وسیم آٖتاب صاحب نے جو پریس کانفرنس کی ۔۔۔ اگر وہی اس نئی جماعت کا بیانیہ ہو جائے تو ۔۔۔ پاکستان کو بہترین راہنما میسر آسکتے ہیں خصوصا ۔۔۔ اردو بولنےوالوں کو ۔۔ 

تربیت اولاد اور ہم




تربیت اولاد اور ہم

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تربیت اولاد  ہماری  ذمہ داریوں میں نہایت ہی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔۔۔۔  میری نظر جب اپنے اطراف میں پڑتی ہے تو مجھے  نظر آتا ہے کہ ۔۔۔۔ آج کے والدین کی سوچ ، معیار سوچ  و مقصد تربیت یکسر بدل چکا ہے ۔۔۔ ویسے تو ہمارا تہذیبی زوال  کئی سو سال پہلے شروع ہو چکا تھا ۔۔ مگر آسمانی تہذیب اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ۔۔۔ اور جس دن یہ ختم ہوئی اس دن دنیا سے انسان کا وجود بھی مٹ جائے گا یعنی قیامت برپا ہوجائے گی ۔۔  
اس فانی زندگی میں ہمارا اس قدر گم ہوجانے کی واضح دلیل یہ ہے کہ ۔۔ ہم پر سختیاں پڑتے ہی زبان پر شکوے آجاتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے آپ کو کم بخت و  بد نصیب کرداننے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اگر اس کی معمولی سی تصویر دیکھنی ہو تو ۔۔۔  آج کے شعری ادب کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔  جبکہ جو زندگی ہماری ابدی ہوگی ۔۔۔ اس کا  شعور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا نہیں بلکہ بٹھایا جا رہا ہے ۔۔ جس میں وہ عناصر بخوبی کامیاب بھی ہیں ۔۔ کہ مذہبی لوگ عذاب سے ڈرا ڈرا کر انسان کو کمزور کرتے ہیں ۔۔۔ جنت کا تصور ہی پیش نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس جملے نے اس قدر پذیرائی حاصل کی ہے کہ  اب  عذاب آخرت کا تصور ہمارے ذہنوں سے تقریبا محو ہو کر رہ گیا ہے ۔۔ عربوں کے ہاں ایک جملہ اسی مد میں بقدر سننے کو ملتا ہے کہ ۔۔۔ گر غلطیاں ہوجائیں تو ۔۔ کہہ دیتے ہیں ۔۔ اللہ غفورو رحیم ہے ۔۔ وہ معاف کردے گا ۔۔ سو کرتے جاو ۔۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہم نڈر ہوگئے ہیں ۔۔ اور تصور زندگی ۔۔ حقیقتا معیار زندگی کو بلند کرنا ہی رہ گیا ہے ۔۔۔۔  
ہمارا آج کا معاشرہ اس قدر  متذبذب کیوں ہے ؟  آج کے نوجوان میں وہ بنیادی شعور زندگی کیوں موجود نہیں ہے  جس کی بنیاد ہمارے اجداد ہم میں بچپن سے ڈالتے  آئے ہیں۔۔۔ ہر موڑ پر ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہوتے تھے ۔۔ اور علم کی محبت ہمارے دلوں مین انڈیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔ کردار و معیار سوچ کو بلند کرنے  کی  تحریک دیتے تھے ۔۔ اور اس کے طریقے بتاتے تھے ۔۔۔۔ آج  صورت حال یہ کہ بزرگوں سے تو ہم نے مکمل ناطہ توڑ لیا ہے ۔۔ انہیں پرانے زمانے  کی بوسیدہ دیوار کہہ کر ایک طرف دھکیل دیا ہے ۔۔۔  اور ماوں کے دلوں میں یہ بات  سرایت کرتی جارہی ہے کہ ۔۔ ان کی اپنی بھی کوئی زندگی ہے ۔۔۔۔  وہ کیوں قربان کی جائے ۔۔۔  اور باپ   آخر اُس بلندی کو چھونے کی تگ و دو میں اولاد سے  یکسر غافل ہوجاتا ہے ۔۔ اسکول   ٹیوشن آتا جاتا دیکھ کر وہ مطمئن رہتا ہے ۔۔۔ اس بچے کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ۔۔ دن کے چند گھنٹے ماں باپ کے ساتھ بیٹھ جائے ۔۔۔ کہ یہ صحبت بھی  بہت اہم ہے ۔۔۔ بزرگ گھر پر ہوں تو اس سے اچھی کیا بات ہو کہ ان کی صحبت تو والدین کی صحبت سے ہزار درجہ بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔۔  ہم بہت سے تعمیری کام ، رویوں  اور اقدام کا ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ اگر صرف اس جانب توجہ دے لیں ۔۔ اور اپنے مقاصد طے کرلیں تو ۔۔۔ چند ہی سال گزریں گے ۔۔۔۔۔۔ سماج اور معاشرے میں نمایاں فرق خود ہی محسوس ہونے لگے گا ۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...