Showing posts with label ، مسلم ، تاریخ ، مسلم اقدار ۔،. Show all posts
Showing posts with label ، مسلم ، تاریخ ، مسلم اقدار ۔،. Show all posts

Thursday, September 8, 2016

قربانی اور بیتا منظر

قربانی اور بیتا منظر
شہیر شجاع
ذوالحجہ کا مہینہ جب شروع ہوتا ہے تو عالم اسلام میں ایک ہلچل شروع ہوجاتی ہے ۔ جس کی جس قدر استطاعت ہو وہ اس قدر اپنے ایام کو عبادات کے لیے وقف کردیتا ہے ۔ جیسے کہ  ذوالحجہ کی پہلی تاریخ سے لیکر  یوم عرفہ تک کے روزے رکھنا ۔ قربانی کرنا ۔ حج کرنا ۔ یہ تین عبادات خاص ہیں  ۔  تقریبا صاحب حیثیت افراد قربانی کا فریضہ تو ضرور انجام دیتے ہیں ۔     اور  حج کی استطاعت والے افراد مہینوں پہلے سے ہی حج کی تیاریاں شروع کردیتے ہیں  ۔ عبادات تو ہر مذہب کا فرد کرتا ہے ۔ مگر عبادت کا لطف اور اس کا حقیقی  رس اسی وقت  حاصل ہوسکتا ہے جب  ہر اس عمل کا مکمل علم ہو ۔ مگر ہم اکثر چھلکوں پر خوش ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ شاید آج ہم  بندگی خالق سے  زیادہ   سماج میں  عزت کی نگاہ سے دیکھے  جانے کو محبوب رکھنے لگے ہیں ۔
دین ابراہیمی  میں  پہلونٹے بچے کو معبد  کی بھینٹ چڑھادیا جاتا تھا ۔  یعنی اسے عبادت گاہ کی نذر کردیا جاتا تھا جہاں اس کی ساری زندگی خدائی خدمت گار کی حیثیت سے گزرا کرتی ۔  جس دن سے بچہ پیدا ہوتا اس دن سے اس کے بال نہیں منڈوائے جاتے یہاں تک کہ وہ دن آپہنچتا جس دن اسے معبد کی نذر کیا جانا ہوتا ۔ اسے معبد میں لا کر اس کے بال  کترتے ۔ اس کو غسل دیتے ۔ یہ وہی سنت  ہے جس کی ایام احرام میں آج بھی پابندی کی جاتی ہے ۔ اللہ جل شانہ نے ابراہیم علیہ السلام سے جب  ایک بہت بڑا کام لینے کا ارادہ کیا ، جس کے بعد دنیا  والوں کے لیے ایک عظیم الشان مثال قائم ہونی تھی ۔  رب ذوالجلال اور اس کے  پاکیزہ بندے کے تعلق کی تمثیل ہونی تھی ۔  اللہ جل شانہ نے پکارا ۔
یا ابراہیم ۔
 اللہ جل شانہ کی پکار ہو ۔ بندہ بھی وہ جس کی آل اولاد  میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہونا ہو ۔ وہ کیسی ہستی ہوگی ؟
فورا پکار اٹھے ۔ لبیک ۔میں حاضر ہوں ۔  اس لبیک میں اطاعت کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجزن ہے ۔
اور یہ لبیک وہی لبیک ہے جو آج  حج کے دوران ہر عبادت گزار پکارتا جاتا ہے ۔ اس  لبیک کی صداوں سے  مکہ معظمہ گونجتا رہتا ہے اور اس کی تقلید میں سارے جہاں میں آباد مسلم مچل جاتے ہیں اور اس ورد کا گردان کرتے ہیں ۔ یہ وہی لبیک ہے ۔ جس میں  عظیم تسلیم و رضا  لپٹی ہوئی ہے ۔ غیر متزلزل رضا ۔  خالق و مخلوق کے مابین ۔ آزمائش کی ابتداء ہوتی ہے ۔ آپ علیہ السلام کو خواب  میں اپنے محبوب ترین بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ہوتا ہے ۔ آپ  علیہ السلام ذرا رنجیدہ ہوتے ہیں  پر رضائے الہی  کے سامنے ان کا رنج لا یعنی ٹہرتا ہے ۔ اپنے محبوب بیٹے اسمعیل علیہ السلام سے اللہ جل شانہ کے حکم کا ذکر کرتے ہیں ۔ بیٹا بھی کون ، اسمعیل علیہ السلام  ، جن کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے ایک عہد قائم کرنا ہے ۔  جس سلسلے سے اللہ جل شانہ نے اپنے محبوب ترین  انسان کو پیدا کرنا ہے ۔ رحمت اللعالمین کو مبعوث فرمانا ہے ۔ ان کی تسلیم و رضا کا کیا عالم ہوگا ؟
آپ نہایت ہی عزم و استقلال  کے ساتھ گردن جھکا دیتے ہیں  ، اور اپنے آپ کو رضائے رب ذوالجلال  کے آگے سرنگوں کردیتے ہیں ۔ فلک  بھی دم بخود اس منظر کو دیکھتا ہوگا ، ہوائیں کانپ جاتی ہونگی ، زمین لرز جاتی ہوگی ۔ یہ کیسے بندے ہیں ؟ کہ بس ابھی ایک باپ نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دینی ہے ۔ اور وہ خون جذب کرنے کی ہمت  یہ زمین اپنے آپ میں نہ پاتی ہوگی ۔ یہ اسمعیل علیہ السلام کا خون ہے ، جو کہ نہایت ہی جلیل القدر باپ کے ہاتھوں گرنے والا ہے ۔  اس خون میں دنیا و مافیہا سے ماورا تسلیم و رضا لپٹا ہوا ہے جس کی مثال دنیا نے اب تک نہ دیکھی ہوگی ۔  آپ دونوں قربان گاہ کی جانب محو سفر ہیں ۔ عالم مبہوت ہے ۔ شیطان کیونکر ایسے وقت میں  خاموش بیٹھا رہ سکتا ہے ۔ وہ  وسوسے ڈالنے پہنچ جاتا ہے ، آپ علیہ السلام اسے کنکریاں مار کر بھگاتے ہیں ، سبحان اللہ اور ان مقامات کو بھی اللہ جل شانہ نے ابد فرمادیا ۔ حج کے ارکان ان مقامات پر اس سنت ابرہیمی علیہ السلام کی تکمیل کے بنا مکمل نہیں قرار پاتے ۔ آپ مروہ پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ قربان گاہ ہے ۔ یہاں امت ابراہیم قربانی سے پہلے  بار بار چکر کاٹا کرتے تھے ۔ کہا جاتا ہے صفا مروہ کی سعی اسی سنت کی یادگار ہے ،واللہ اعلم ۔  قربان گاہ مگر مروہ ہے کیونکہ قربانی معبد کے لیے دی جاتی تھی اور مروہ کعبہ  کے ساتھ ہی ہے ۔ ( اب جگہ کی کمی کی وجہ سے منی منتقل کردی گئی ہے ) ۔
باپ چھری تیز کر رہے ہیں ۔ بیٹا  بڑے ہی چاہ سے اپنے باپ سے مخاطب ہوتا ہے ۔
ابو آپ  اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجیے ، کہیں کسی بھی  لمحے آپ پر  میری محبت نا غالب آجائے ۔ باپ اپنے بیٹے کی جانب تحسین آمیز نظروں سے دیکھتا ہے ۔ کیا سپردگی کا عالم ہے ۔   چھری کی دھار مزید تیز ہورہی ہے ۔  باپ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیتا ہے ۔
اور پھر ۔۔۔
اللہ اکبر کی صدا کے ساتھ چھری چلا دیتا ہے ۔ 
ایسی تسلیم و رضا ، ایسی سپردگی ،   حب الہی  ، اطاعت رب ذوالجلال ، رضائے خالق  کی مثال کو  خالق کائینات اللہ جل شانہ کو کس قدر پسند آئی ہوگی ؟ کہ اس سنت کو اس سپردگی و رضائے الہی کی مثال کو قیامت تک کے لیے جاری فرمادیا ۔ جو آج مسلمان قربانی کی سنت ادا کرتے ہیں ۔ اس کے پس منظر میں کتنی عظیم  مثال ہے ۔ اس مثال کو سینے میں جلا بخشتے ہوئے جب  مسلم ، جانور کی گردن میں چھری پھیرے تو اس کے جذبے کا کیا عالم ہونا چاہیے؟
آپ علیہ السلام اپنی پٹی اتارتے ہیں ، کیا دیکھتے ہیں نیچے مینڈھا ذبح ہوا پڑا ہے اور اسمعیل علیہ السلام کھڑے مسکرا رہے ہیں ۔
صدا بلند ہوتی ہے ۔ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، ہم نیکو کاروں کو ایسے ہی جزا دیا  کرتے ہیں ۔ ( سورۃ الصافات)

Saturday, March 7, 2015

افسانہ ٹھنڈا گوشت کے مقدمے کے تناظر میں ۔۔ ریاستی و معاشرتی نظریاتی سوالات


افسانہ ٹھنڈا گوشت کے مقدمے کے تناظر میں ۔۔ ریاستی و معاشرتی نظریاتی سوالات ۔۔۔
شہیر شجاع ۔۔

ٹھنڈا گوشت کا عدالتی مقدمہ ۔۔۔ حضرت منٹو نے اپنی ایک کتاب میں ۔۔۔ تقریبا من و عن پیش فرمایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ری پٹیشن پر جب فیصلہ حضرت منٹو مرحوم کے حق میں ہونا تھا ۔۔۔ تو جج صاحب  منٹو مرحوم سے  مخاطب ہوئے اور مسکرا کر کہا " میں اگر سعادت حسن منٹو کو سزا دوں تو وہ یہ کہیں گے کہ ایک داڑھی والے نے مجھے سزا دی" ۔۔ یہ پہلو بہت پرانی چلی آرہی مذبی و لامذہبی چپقلش کی طرف خوب اشارہ ہے۔۔۔
پھر ۔۔ فیصلے میں جو پیراگراف سب سے اہم ہے فرماتے ہیں ۔۔۔۔ فاضل مجسٹریٹ (جنہوں نے منٹو مرحوم کے افسانے پر فرد جرم عاید کر دیا تھا )۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے اس بیان سے ابتداء کی کہ " فحاشی " ۔۔ کی اصطلاح اس ماحول کے ساتھ متعلق ہے جس میں اس کے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ اس نے کہا کہ مختلف قوموں اور سوسائیٹیز کے معیار مختلف ہو سکتے ہیں ۔۔۔ یہاں تک وہ درست تھا ۔۔۔ اس نے غلطی وہاں کی جب اس نے سمجھا کہ پاکستان کے مروجہ " اخلاقی معیار " ۔۔۔۔۔۔۔ " قرآن و سنت کی تعلیم" ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے سوا اور کہیں سے زیادہ صحیح طریقے سے معلوم " نہیں " ہوسکتے ۔۔۔۔۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اس کے مطابق غیر شائستگی اور شہوت پرستی شیطان کی طرف سے ہے  ۔۔۔

معزز جج آگے فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال یہ نہیں ۔۔ بلکہ سوال یہ کہ ۔۔ ہمارے سماج یا معاشرے کی اصلی حالت کیا ہے ؟ ۔۔۔ جیسا کہ ظاہر ہے ہم نے اپنا نصب العین ابھی تک حاصل نہیں کیا ۔۔۔ اپیل کرنے والوں کو اس کے مطابق جانچنا چاہیے ۔۔۔۔۔ جس طرح کہ ہماری سوسائیٹی ہے ۔۔ نہ ۔۔۔ کہ اس طرح جیسا کے اسے ہونا چاہیے۔۔۔
یہ جملہ بہت سے معانی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔۔ جس پر کچھ گزارشات آگے پیش کروں گا۔۔۔
مگر اس سے پہلے  ۔۔ چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں ۔۔
کیا ۔۔۔۔ معاشرہ اپنے آپ کو خود ترتیب دیتا ہے ؟
یا ۔۔۔ ریاست معاشرے کی ترتیب میں مصلح کا کردار ادا کرتی ہے ؟
یا ۔۔۔۔ معاشرے کی ترتیب میں ریاست کو مصلح کا کردار ادا کرنا چاہیے ؟
یا ۔۔۔۔ ریاست  ۔۔ معاشرے کو اپنے حال پر چھوڑ کر ۔۔ ان کی منشاء کے مطابق قوانین عمل میں لائے ؟
اگر چہ ریاست  کہتی ہے کہ مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے ۔۔۔ تو اخلاقی معاملہ بھی وہ درحقیقت فرد کے سپرد کر رہی ہے ۔۔۔۔ اس بات کے مد نظر ۔۔ اگر افسانہ ٹھنڈا گوشت پر کوئی فرد اعتراض کرتا ہے ۔۔ تو وہ اس کا انفرادی فعل ہوا ۔۔ اس بنا پر اسے ذہنی مریض ۔۔ یا اس جیسا کوئی  جملہ کہہ کر اس کی انفرادیت یا اس کی شخصی آزادی کوسلب نہیں کیا جاتا ؟ یہاں پر ۔۔ لامذہبی ریاست کو موزوں قرار دینے والے ۔۔۔ بذات خود متشدد نہیں ہوگئے ؟ بہر حال آگے بڑھتے ہیں ۔
جب یہ بات مان لی گئی کہ مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے ساتھ ہی ۔۔ اخلاقی معاملہ بھی فرد کے سپرد کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ تو معاشرے کے کی اصلاح و معاشرے کی ترتیب میں ۔۔ ریاست کا کیا کردار ہوگا ؟
کیا زنا بالجبر کو اگر ریاست خلاف قانون مانتی ہے ۔۔ تو ظاہر ہے زنا بالرضا کی آزادی ریاست بہر طور دے گی ۔۔۔ یہاں اخلاقی کردار ریاست کے ہاتھ سے نکل گیا ۔۔
اسی طرح اگر فرد چاہتا ہے کہ اس کا گھر اس کے رب کے احکامات کے طابع چلے ۔۔ تو اس کے پڑوسی کو کون سا قانون حق دیتا ہے کہ ۔۔۔ وہ اپنے پڑوسی کے انفرادی عمل پر نکتی چینی کرے ؟ ۔۔۔ اور اگر اس کی نکتہ چینی کے مقابلے میں ۔۔ مذہبی زندگی کا خواہشمند ۔۔۔ لامذہبیت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے ۔۔۔ تو اس کی آواز کو متشدد کہہ کر کیوں بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے ؟

Friday, January 23, 2015

احساس جرم




دنیا کا ہر مذہب آزاد ہے ۔۔ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کریں ۔۔ یا اپنے مذہبی لوگوں کی حمایت کریں ۔۔۔ مذہب کے نام پر قتال کریں ۔۔ خواہ مذہب کے پھیلاو کے لیے زمینوں پر قابض ہوں ۔۔۔ سب آزاد ہیں ۔۔ سوائے مسلمانوں کے ۔۔ جن کے لیے اسلام کا نام لینا تک جرم ہے ۔۔۔۔۔ خصوصا وہ جن کو مین اسٹریم میں مقام حاصل ہے ۔۔۔ وہ مسلمان " سیکولر " کہلانے پر مصر ہیں ۔۔ کیوں ؟ ۔۔ جب ہندوستان میں پچپن گھر صرف اس لیے جلا دیے جاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ۔۔ اور اویسی بھائیوں پر الزامات کی بوچھاڑ ہوتی ہے کہ انہوں نے اسلام کا نام کیوں لیا  " ایک ہندو دیس " میں ۔۔۔  فلم پی کے کا ہیرو مسلمان ہونے کی بنا پر ۔۔۔ سنیما ہال جلا ڈالیں ۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ۔۔ بالی ووڈ کے بادشاہ کہلانے والے " سیکولر سیکولر " کی رٹ لگائے آج بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔۔ ہندو لڑکیوں سے شادی کرنی پڑتی ہے انہیں ۔۔ یہ کیسا احساس جرم ہے ؟؟؟

Monday, January 12, 2015

رانگ نمبر


شہیر شجاع
جب پیرس میں اخباری دفتر میں تشدد کی واردات ہوئی تو ہر طرف سے اس کی مذمت میں بیانات آئے ۔۔۔۔  بیشک مذمت ہونی بھی چاہیے ۔۔۔ لیکن سب سے اہم بیان ترکی صدر کا تھا " ہم اس تشدد کی مذمت کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات کو بھی ختم کرنے کی بھی ضرورت ہے " ۔۔۔  انہوں نے ایسا کیوں کہا ؟ ۔۔ کیونکہ ان میں اب بھی غیرت باقی ہے ۔۔۔ جب اس جریدے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے گستاخانہ خاکے چھاپے تو ۔۔۔ مسلمان اس معاملے کو حل کرنے کے لیے عدالت گئے ۔۔ جہاں ۔۔۔ انہیں آزادئ اظہار میں رکاوٹ کا طعنہ دے کر دفع کر دیا گیا ۔۔۔ اس کے بعد اس جریدے کے ایڈیٹر کو مزید شہہ مل گئی ۔۔ اور وہ مسلسل اس کام میں لگ گیا ۔۔۔ جبکہ مسلمان مسلسل قانونی چارہ جوئی میں مصروف رہے  ۔۔ لیکن عدالت ، حکومت نے ان کی ایک نہ سنی ۔۔۔۔ آخر کار کہیں کسی نے تو تشدد کا راستہ اختیار کرنا تھا...
مذہبی تعصب تو وہاں بھی عیاں تھا ۔۔ پھر کسی کو کیوں نظر نہ آیا ؟ ۔۔۔  ...
آج پاکستان میں سانحہ پشاور کے دردناک سانحے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ مذہب کے خلاف " مذہبی ٹھیکیدار" کا سہارا لے کر ۔۔۔ مذہب کی حیثیت کو ہی ختم کرنے کی جو کوششیں شروع ہوئی ہیں ۔۔۔ کیا وہ کسی بھی منطق سے درست نظر آتی ہیں ؟ ۔۔۔۔  دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے ۔۔۔  اسے مذہب سے جوڑ کر دہشت گردوں کو  کھلی چھوٹ دینے کے مترادف ہے ۔۔۔  ہم سیکولر ہیں نا لبرل ۔۔ ہم مذہبی اقدار کی حامل  قوم ہیں ۔۔۔ ویسے تو ہم ۔۔ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے ہیں ۔۔۔ لے دے کر جو بچا رہ گیا ہے ۔۔۔ اسے بھی نابود کرنے کے لیے ۔۔۔۔۔ خؤد ہی کھڑے ہوگئے ہیں ۔۔۔
جب دنیا میں جہالت تھی ۔۔۔ انسانیت نا پید تھی ۔۔۔ لڑکی کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا ۔۔ بات بات پر انسان کی جان لے لی جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو انسانیت کا درس لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام آیا تھا ۔۔ جس نے انسان کو جینے کا سلیقہ سکھایا ۔۔۔ رہن سہن کے آداب بتائے ۔۔ میل جول کے اطوار پہنائے...
پاکستان کے نظام میں عدل نام کی کوئی چیز جب ہے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سالہا سال سے برپا دہشت گردی ۔۔ خون ریزی  ۔۔ پر ملزمان کی شناخت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج مذہب پر اتنا بڑا وار کیوں ؟ ۔۔۔  بیشک ۔۔ مذہب کی آڑ میں ۔۔۔۔ بہت سا فساد برپا ہے ۔۔۔۔  نظام کو شفاف بنائیں ۔۔۔ ان فسادیوں کو بے نقاب کریں ۔۔۔۔۔ لیکن اس طرح سے اپنی ہی جڑوں کو  کمزور کرنا کسی بھی طریقے سے  کیسے درست ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ ۔  آج جہاں دیکھو ۔۔ شور بپا  ہے ۔۔۔۔ داڑھی  ، ٹوپی والے دہشت گرد ہیں ۔۔ ان میں اخلاق و تہذیب نہیں ۔۔۔ انہیں جیسے صرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ  جیکٹ پہنو اور خود کو اڑا دو ۔۔ جنت ملے گی حوریں ملیں گی ۔۔۔۔۔۔۔  کیسی غلیظ سوچ کو پروان چڑھایا جارہا ہے ۔۔۔۔۔۔  پاکستان ایک ایسی سر زمین ہو گئی ہے ۔۔ جہاں من چاہا  کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ہمیں کسی بھی رخ پر ہنکا کر لے جایا جا سکتا ہے ۔۔۔ ہمیں  کالے کو گورا اور گورے کو کالا دکھا کر یقین بھی دلایا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔  ہم کتنے  بے حس ہو چکے ہیں ۔۔۔ ہمیں علم ہی نہیں ۔۔۔ ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیوں جا رہے ہیں  ؟ 

Monday, December 22, 2014

قصور وار کون ؟


پشاور کے اتنے شدید اور نہایت ہی دلگیر اور افسوسناک واقعہ پہ ہر دل رو رہا ہے ۔۔۔ پورے ملک کی حکومتی مشینری سے لیکر عام آدمی تک متحرک ہے ۔۔۔۔ کیا ہوا ؟ ۔۔۔ ان معصوم بچوں کا کیا قصور تھا ؟ ۔۔۔ ان کو کیوں نشانہ بنایا گیا ؟ ۔۔ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی اس آگ میں ان معصوم جانوں کو کیوں جھونکا گیا ؟ ۔۔۔ ایسے کئی سوالات ہیں ۔۔ جو میرے ذہن میں گردش کر رہے ہیں ۔۔۔ اب بہت سے قلم اٹھیں گے اپنے تجزئے پیش کریں گے ۔۔ الزامات کی بوچھاڑ ہوگی ۔۔۔ گریبان پھاڑے جائیں گے ۔۔ لعن طعن کا بازار گرم ہوگا ۔۔ سیاست دان اپنے داو پیچ کا استعمال کریں گے ۔۔۔
لیکن ۔۔۔ ان گھروں کا ماتم اپنی جگہ قائم رہے گا ۔۔۔۔ کیونکہ میکاولی کا فلسفہ ہے ۔۔۔ کہ ۔۔ جو حکمران عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں ۔۔ ان کی حکومت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی ۔۔۔ اور ہم اس کے نمائندگان کو ۔۔ اپنی زندگی بھینٹ کر چکے ہیں ۔۔۔۔   
یہ طالبان کون ہیں ؟ کہاں سے آئے ہیں ؟ ۔۔۔ ان کا مقصد کیا ہے ؟ ۔۔۔ وہ کیا تھے اور کیا ہیں ؟ ہمارے پاس تھنک ٹینکس نہیں ہیں ۔۔۔ دباو میں فیصلے ہوتے ہیں ۔۔۔ پرپیگنڈوں پر رائے عامہ ہموار ہوتی ہے ۔۔۔ ان پاکستانی طالبان کے پیچھے کون سے عناصر سر گرم ہیں ۔۔۔؟ اس پر بات کرنے سے ہر زبان بند ہے ۔۔ ہر قلم خاموش ہے ۔۔۔ کیوں ؟   
اللہ جل شانہ ۔۔ ان معصوم فرشتوں کےوالدین کو خوب صبر دے ۔۔۔ اور ہمیں اس آگ کی لپیٹ میں آنے سے اب محفوظ فرما لے ۔۔ ہماری آنکھیں کھول دے ۔۔ اور صحیح سمجھ بوجھ کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔۔۔ 
شہیر شجاع

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...