Showing posts with label ادب ، افسانہ. Show all posts
Showing posts with label ادب ، افسانہ. Show all posts

Sunday, May 9, 2021

ہیولا

 

ہیولا

شہیر شجاع

سخت دھوپ کی تمازت سے اس کا بدن بھیگ چکا تھا ۔ وسیع النظر پھیلا صحرا جہاں دور دور تک سائے کی امید بھی نہیں تھی اورریت کی تپش سے اس کے پاوں شل ہورہے تھے ۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا لیکن اس کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیاگئیں اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی آنکھوں کے سامنے چھجا بنائے اٹھ گیا ۔ کچھ دیر تو اندھیرا سا چھایا رہا ۔ اس کینظروں کے سامنے کھلا آسمان تھا جو نیلگوں سمندر جیسا محسوس ہوتا تھا جہاں دور نظر دوڑائی جائے تو بھاپ اڑتی محسوس ہوتیہے ۔ سورج کی شعاعیں اس کا بدن جھلسا رہی تھیں وہ زیادہ دیر آسمان کی جانب نگاہ نہ رکھ سکا ۔

اس کے ذہن میں ایک گونج لہرائی “ غور کرو “ ۔ 

وہ کچھ دیر کے لیے ساکت ہوگیا ۔ مگر فورا ہی عیاری کے ساتھ اس کو جھٹک دیا ۔ اس نے سوچا میرا یہ سفر اور کس لیے ہے ؟ 

اس کا سفر مگر بنا کسی تدبیر کے تھا ۔ اس کو زعم تھا کہ شعور کے گوشے متحرک ہیں ۔ وہ دیکھ رہے ہیں ، تجزیہ کر رہے ہیں ، فکرمند ہیں ، اور نتیجہ خیزی تو وہ حاصل کر ہی لے گا ۔

وہ کچھ دور اور چلا ایسے میں اسے اپنے بائیں جانب مگر بہت دور ایک ہیولا سا نظر آیا ۔ 

اس کو تجسس ہوا کہ یہ کیا ہے ؟ کہیں میرے جیسا مسافر ہی تو نہیں ؟ 

اس نے اس ہیولے کی جانب اپنا رخ موڑ لیا ۔ وہ جتنا آگے جاتا ، ہیولا اس سے مزید دور ہوتا جاتا ۔ کافی طویل سفر پھر بھی اس نے کرلیا مگر اب آرام کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ہیولا اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے ۔ اتنی مشقت کے بعد اسکے سفر میں کسی انجان منزل کے تعاقب میں کوئی حقیقت نمائی میسر آئی تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میںتھکن سے چور وہ نڈھال جسد نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو صحرا میں چاندنی بکھری ہوئی تھی اورآسمان میں پورا چاند اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ 

اس نے یک ٹک چاند پر نظریں جمائی رکھیں ۔ جو کچھ اس کے ذہن کے نگار خانے میں چاند سے متعلق مواد تھا انہیں دہرانے لگا ۔ مگراسے اس مخصوص وقت میں چاند بالکل بھی دلکش نہ لگا ۔ اس نے اپنے بستے سے دفتر نکالا اور قلم ہاتھ میں لیکر چند دکھ بھرےاشعار منضبط کردیے ۔ وہ انہیں بار بار پڑھتا ، نوک پلک سنوارتا ۔ اس کا دل خوشی سے معمور ہوجاتا ۔ 

اس نے حقارت سے چاند کی جانب دیکھا اور وہی اشعار جو اس نے ابھی نذر دفتر کیے تھے انہیں لے میں دہراتارہا ۔ 

اچانک اسے اس ہیولے کا خیال آیا ۔ اس نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی مگر چاندنی سے پرے گھپ اندھیرے کے وہ کچھ نہ دیکھ سکا ۔ 

مگر وہ مطمئن تھا کہ اس کا سفر ضرور رنگ لائے گا ۔ وہ اپنی “ انجان منزل “ کو ضرور پالے گا ۔ اس نے اپنے سفری بستے سےچائے بنانے کا سامان نکالا ۔ چائے بنائی اور چسکیاں لینے لگا ۔ اس دوران وہ کافی ہشاش بشاش ہوچکا تھا ۔ کبھی کبھی دور کسیکتے کے بھونکنے کی آواز سے وہ چونک جاتا اور اسے ہیولے کا خیال آجاتا ۔ اسے محسوس ہوتا شاید وہی اس کی طلب تھی جو ابنظروں سے اوجھل پوچکی ہے۔ 

اس نے اپنا سامان باندھا اور پھر ایک نئی امنگ کے ساتھ اس “ ہیولے “ کے راستے کا تعین کر کے اس جانب چل پڑا ۔ 

Tuesday, July 26, 2016

بندوبست

بندوبست

شہیرشجاع

آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ، جو اس کے گالوں کو چھو کر اس میں توانائی کا احساس جگارہی تھیں ۔ وہ یک ٹک آسمان کے بادلوں کو دیکھے جا رہا تھا ۔ منڈلاتی چیلوں  کو گھورتا ۔ ان کے پھیلے پروں پہ اٹکے وجود کو اڑتا دیکھ کر اس کا دل مچل سا جاتا اور چہرے پر ایک مسکراہٹ طاری ہوجاتی ۔ کبھی کوئی چیل ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرنے لگتیں تو اس کے پیلے پیلے دانت جھلکنے لگتے ۔ ناک سکڑ سی جاتی اور معصوم آنکھوں میں تارے جھلملالنے لگتے ۔
کچھ شور کی آواز سے اس کی نظریں اپنے دائیں جانب اتریں ۔ چند زرق برق لباس اور بیوٹی پارلر کے حسن میں ڈھلی  آنٹیوں کو دیکھ کر وہ ذرا ٹھٹکا ان میں ایک تقریر کر رہی تھیں ، باقی ان کا ساتھ دے رہی تھیں ، اسے کیا سمجھ آنی تھیں وہ اس جھنڈ میں اپنی بوسیدہ سے کپڑوں میں ملبوس فاقہ کش ماں کا ڈھانچہ تلاش کرنے لگا ۔ کامیابی نہ ملنے پر اس کا چہرہ ذرا ڈھل سا گیا ۔ اس کی آنکھوں کے تارے مزید گہرے سے ہوگئے ۔ اتنے میں اسے ایک ٹھکوکر لگی ۔ خوبصورت جوتوں میں ملبوس پیر اس کی گود میں تھا ۔ اور ایک وقت کے کھانے کا کچھ بندوبست ہونے لگا تھا ۔

Sunday, March 15, 2015

مٹی کا ڈھیلا




مٹی کا ڈھیلا 

شہیر شجاع

سخت چلچلاتی دھوپ میں   سر سے پیر تک پسینے میں شرابور ایک پھٹی پرانی نیکر میں ملبوس ۔۔۔  دھول میں  اٹا ۔۔۔ وہ بچہ ہاتھ میں ایک مٹی کا ڈھیلا لیے  گھٹنوں کے بل چلتا کبھی پیروں پر کھڑا ہوجاتا  چند ہی قدم چل پاتا کہ  پھر سے زمین بوس ہوجانے پر مجبور ہو جاتا ۔ اپنی مآں کو آواز دیتا جو اس کا لاغر جسم تاب نہ لا سکتا اور اس کی آواز گلے میں ہی گھٹ جاتی ۔  مٹی کا ڈھیلا  کبھی کترتا کبھی چاٹتا اپنی بھوک پیاس مٹانے کی جدو جہد کرتا  لوگوں کے بیچ چلا جا رہا تھا ۔ آتے جاتے کسی کے پیروں سے لپٹ جاتا اور کھڑے ہونے کی کوشش کرتا تو اسے جھٹک دیا جاتا ۔ لہرا کر گر پڑتا ۔۔۔۔۔
 اس کی آنکھیں پانی سے بری تھیں ۔ اس کا گلا پانی کا  متلاشی تھا ۔
 کسی پی رپر لپٹنے پر جو  لات پڑی تو وہ  کسی پانی کے جوہڑ پر جا گرا۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک دوڑ گئی اس میں لیٹ گیا اور چہرہ پانی میں ڈبوئے  اپنی پیاس بجھانے لگا  اس کی سانس رکنے لگتی تو وہ چہرہ باہر نکالتا  اور قلقاریاں مارتا ہوااپنے منہ سے پانی جھاڑتا ۔
چھی  ، گندا بچہ ۔۔۔ دو بچے پاس ہی  غبارے لیے  آپس میں کھیل رہے تھے ۔ اسے دیکھ ایک کے منہ سے نکلا ۔
 جوہڑ میں کھیلتے بچے کی ان پر نظر پڑی تو ان کو غبارے سے کھیلتے دیکھ کر وہ بھی تالیاں بجاتے ہنسنے لگا خوش ہونے لگا ۔  جو ان بچوں کو نا گوار گزرا اور وہ دوسری طرف چلے گئے ۔ وہ بچہ یک ٹک منہ کھولے دونوں ہاتھ جیسے تالی بجاتے رک گئے ہوں ، ان دونوں کو غباروں سمیت جاتا دیکھتا رہا ۔   پھر کچھ دیر یونہی اس جوہڑ کے پانی میں بیٹھا  ادھر ادھر پانی میں ہاتھ مارتا چھینٹے اڑاتا کھیلتا رہا ۔ آس پاس چھوٹے بڑے ، بوڑھے سب  اپنی اپنی مصروفیات میں مگن آ جا رہاے تھے ۔  فہیم  خان صاحب کی گود میں بیٹھا بچہ منہ میں انگلی ڈالے یک ٹک اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کو دیکھ رہا تھا ۔۔  کہ خان صاحب نے  اس کے ہاتھ میں ایک چاکلیٹ تھما دی۔۔ لیکن وہ ا سچاکلیٹ کو اپنے ننھے منے ہاتھون سے  ناکام کوشش کرتے ہوئے اسی طرف دیکھتا رہا ۔ کہ اس جوہڑ میں کھیلتے بچے کی اس سے نظریں ملیں ۔ کچھ پل ایک دوسرے کو دیکھا اور دنوؤں ہنس پڑے  ۔ اتنے میں خان صاحب گلی کے دائیں جانب مڑ چکے تھے ۔
بچہ جوہڑ سے اٹھا   اسی جانب  چلنے لگا   کبھی دائیں دیکھتا کبھی بائیں دیکھتا ۔ رنگ برنگی چیزیں دیکھ کر خوشی سے تالیاں بجاتا ، قلقاریاں مارتا  ، چلتے پھرتے لوگوں کی لات کھاتا    گلی کے دائیں جانب مڑا  ۔ جو شامیانہ لگا ہونے کی بنا پر بند تھی ۔  اس نے شامیانے کا خوب جائزہ لیا  ننھنے منے ہاتھوں سے اسے ہٹا کر راستہ بنانے کی ناکام کوشش کی ، آخر کار  ایک کونے سے شامیانے کے نیچے لیٹ کر اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔ اندر  الگ ہی شور برپا تھا  موسیقی کی اونچی آواز میں لوگ ناچ رہے تھے  شور کر رہے تھے  ۔ بچہ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا ، اور قلقاریاں مارنے لگا ۔ اپنے ننھنے پیروں سے آگے بڑھتا کسی کے پیروں کے   درمیاں  آجاتا جو اسے عجیب نظروں سے دیکھ کر ۔
ہوہ ۔۔ کون ہے یہ  ۔۔ ڈرٹی کڈ ۔۔ گو ٹو ہیل ۔
اور پرے دھکیل دیا جاتا ۔۔۔ دھکے کھاتے کھاتے وہ بالکل دیوار سے لگ گیا تھا ۔۔ منہ پہ انگلیاں ڈالے اپنی دانست میں عجیب نظروں سے ماحول کا جائزہ لیتا ۔۔۔
 کہ  ایک سمت سے کھانے کی خوشبو نے  بھڑکا دیا ۔
 اور اس سمت کو چلنے لگا  آہستہ آہستہ چلتا گیا ۔اس کے چہرے کے اتار چڑھاو دیدنی تھے ۔۔   اب پھر اس کے سامنے شامیانہ تھا لیکن اسے پچھلی مرتبہ کی جدو جہد یاد تھی اس نے اسے آزمایا تو واقعتا  وہ شامیانے کے نیچے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا ۔
سامنے بڑی بڑی دیگیں لوہے کے تکون نما چولہوں میں پک رہی تھیں جن کو کوئلوں سے آگ دی گئی تھی ۔۔  بچے نے دیگوں کو بڑے غور سے دیکھا ۔۔ ساتھ اپنی  بائیں ہاتھ کی انگلیوں کو دائیں ہاتھ سے بھینچتا جاتا ۔۔ جیسے کچھ سوچ رہا ہو ۔۔۔ کچھ آگے بڑھا ۔۔ دیگ کے قریب ہونا چاہا ۔۔۔ کوئلوں کی گرمی نے اسے  روکا تو وہ  ہلکی چیخیں مارتا  ہوا ۔۔ پیچھے کو سرک گیا ۔۔ اس دیگ کو چھوڑ آگے کی طرف چلتا گیا ۔۔ باورچی لوگ ایک چارپائی پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے  ۔۔  لیکن کسی کی نگاہ اس بچے کی جانب نہ پڑ سکی ۔۔ دیگیں بھی بچے کے قد سے اونچی تھیں ۔۔
ایک دیگ کے نے اسے  اپنی جانب متوجہ کیا ۔۔ وہ رک گیا ۔۔ اور دور سے ہی ہاتھ بڑھا کر دیگ کو ٹٹولنے یا چھونے کی کوشش کی ۔۔۔ گرمی کو برداشت کرتا وہ بضد ہوگیا کہ اسے چھو کر ہی دم لینا ہے ۔۔۔ اسی دوران تھوڑا سا وہ آگے کو سرک گیا تھا اور ایک کوئلہ اس کے پیروں تلے آگیا ۔۔ گرمی کی تاب نہ لاکر ۔۔ وہ لڑکھڑایا ۔۔ اور اس کا سر دیگ سے ٹکرایا جس ٹکر نے اسکے معصوم جسم کو ہوش و خرد سے ماوراء کر دیا ور وہ کوئلوں کے اوپر یوں بیٹھا کہ دیگ پر سر اور پیٹھ ٹکی تھی جبکہ اس کے کولہے  کوئلوں پر سینک رہے تھے ۔۔۔ ذرا ذرا سا وہ بچہ  ہلتا جیسے آگ اس کے اندر کو جھلسا رہی ہو ۔۔ پر اس میں سانس لینے کی سکت نہ ہو ۔۔ ساکت پڑا جھلستا رہا ۔ تپتا رہا ۔۔ جلتا رہا ۔۔
کچھ ہی فاصلے پر ۔۔۔ وہی ناچ گانے ہو رہے تھے ۔۔ تاش کی پتیاں چل رہی تھیں ۔۔ دیگوں میں کھانے تیار ہو رہے تھے ۔۔۔ اور وہ جھلس رہا تھا ۔۔

Tuesday, May 6, 2014

بند سگنل



محمد شہیر شجاع

ميں سوچوں ميں مگن سکون سے ڈرائيو کر رہا تھا ، آج دفتر سے جلدي چھٹي ہوگئي تھي ۔ سگنل کي بتي لال ہونے پر ميں نے بريک پر پير رکھ ديا اور اپنے دائيں جانب سڑک پر گاڑيوں کے ہجوم کو تھمتا ديکھ رہا تھا کہ ميري بائيں جانب دروازے کي کھڑکي ميں ايک حسين چہرہ ميري توجہ کا منتظر تھا ۔ ميں تو چند لمحے مبہوت اسے ديکھتا ہي رہ گيا ۔

جناب جناب اگلے تين سگنل بعد ميرا اسٹاپ ہے ، کيا آپ مجھے لفٹ دے ديں گے ? اس سريلي اواز نے مجھے سکتے سے باہر نکال کرحقیقی دنیا میں لاکھڑا کیا ۔

جی جی تشریف رکھیے میرا راستہ یہی ہے ۔ میں نے بھی وقت ضایع کیے بغیر دروازے کو کھول دیا۔

حسینہ بلا تکلف سیٹ پر براجمان ہوگئیں ، اپنے پرس سے ٹشو نکال کر ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگیں  ۔ اور تصور میں ، میں اپنے اپ کو ٹشو کے طو رپر محسوس کرنے لگا ۔

ارے سگنل کھل گیا ہے ۔ دیکھیں  ہارن  کے شور نے جینا دو بھر کر دیا ہے ۔ حسینہ نے نسوانی انداز میں جھاڑ بھی پلا دی۔

اور میں کھسیاتا ہوا جلدی سے گاڑی سیلف میں ڈال کر آگے بڑھتا گیا  ۔

اب بھی میں نے گاڑی کی رفتار قدرے مدہم رکھی ہوئی تھی ۔ زیادہ سے زیادہ وقت اس حسینہ کے بازو میں گزارنا چاہتا تھا ، بلکہ موقع کی تلاش میں تھا کہ کسی کافی شاپ میں اس وقت کی کافی لطف دوبالا کر دے۔
بہت شکریہ جناب ، آج کل لوگوں میں یہ جذبہ کہان رہ گیا ہے ؟ خدا آپ کا بھلا کرے ، آج میرا ڈرائیور کمبخت نہ جانے کہاں رہ گیا ، اس کا سیل فون بھی آف ہے ، بہت سوچ بچار کے بعد کوشش کر کے آپ کی  طرف نگاہ کی تھی ، شکر ہے آپ اچھے لوگون میں سے نکلے ، ورنہ بہت بے عزتی محسوس کرتی ۔ حسینہ نے اپنی زبان کیا کھولی اک سماں ہی بندھ گیا ، گم صم  اس کی حرکت کرتی زبان کو دیکھتا ہی چلا گیا
نہ جانے وہ کتنی دیر تک بولتی رہی اور میں دم بخود تکتا رہا ۔۔ ہوش تو تب آیا جب اس نے زور سے مجھے جھٹکا دیا کہ سگنل بند ہے ۔ اور میں نے ہڑبڑا کر ایمرجنسی بریک لگا دیے ۔ سامنے دیکھا تو سگنل کیا سڑک بھی نا پید تھی ۔ نہ جانے کب معجزاتی طور پر مین سڑک سے اتر کر کچے پر اتر آیا تھا بٖغیر کسی کو نقصان پہنچائے ۔ اب جو میں نے شرمندگی سے اس کی طرف نگاہ کی تو وہ کھلکھلا کر ہنس دی اور ہنسی کے پس منظر کو میں دیکھتا ہی چلا گیا ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...