الیکٹرانک میڈیا کا حقیقی منصب
شہیر شجاع
جب تک پی ٹی وی اکلوتا چینل تھا سماج بھی اپنی حدود میں کافی بہتر حالت میں موجود تھا ۔
اعتماد کی فضا قائم تھی ۔ مذہبی نقائص اپنی جگہ موجود تھے مگر وہ مذہب کے
علمبرداروں کے درمیان ہی موجود رہیں ۔ اگرچہ اس کی سطح اپنی حدود پھلانگ کر عوام میں
سرایت کرتی گئیں ۔ مساجد پر پہرے بٹحا دیے گئے ۔ مسجد مسلمان کی نہیں مسلک کی
میراث قرار پائی ۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ نفرتوں کی آگ میں آپس میں الاو اس قدر اونچے ہوتے گئے کہ یہ سوچنا محال
ہوگیا کہ اسے مدہم کیسے کیا جائے ؟ اللہ نے کرم کیا ۔ علماء اور دانشوران ملت میں
سے بہت سے افراد نے جدودجہد شروع کی اور اس الاو کو دھیما کرنے میں کافی بہتری آئی
۔ اس میں سوشل میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم رہا ۔ بہرحال آج صورتحال اپنے گزرے کل سے کافی مختلف
ہے ۔ تعصبات مسالک قدرے لچکدار ہوچکے ہیں ۔ ان میں آپس میں مل بیٹھنے کا رجحان بھی
دیکھنے میں آرہا ہے ۔ کلمہ کی بنیاد پر یکجا ہونے کا تصور پروان چڑھ رہا ہے ۔ مگر ساتھ ہی لسانی و سیاسی تعصبات نے بھی خوب
اپنی جگہ بنائی ہے ۔ مذہبی تنافر میں جہاں کمی آئی وہیں ان تعصبات نے شدت اختیار
کی ۔ عصبیت بری چیز نہیں گر اجتماعی ہو ۔
کسی ایک نکتے پر سب کا اجماع ہو جو تمام عصبیتوں کو جوڑے رکھے وہاں مختلف عصبیتیں
تعمیر کا بھی کردار ادا کرتی ہیں ۔ اس کے لیے راہنمائی کی ضرورت رہتی ہے ۔ ہمارا
معاشرہ راہنماوں کے قحط سے دوچار ہے ۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا کا کردار کلیدی ہے ۔
سماج کو تبدیل کرنے میں میڈیا اپنا بہترین کردار ادا کرسکتا ہے ۔ مگر وہ ایک ایسے
رخ پر چل نکلا ہے جہاں سے ہوائیں مزاج میں
تلخیاں پیدا کرتی ہیں ۔ نفرتوں کے الاو کو
مزید دہکاتی ہیں ۔ جہاں وہ معلومات کی فراہمی کا دعویدار ہے وہیں اذہان کو شدید
متاثر کرنے کا جرم قبول کرنے سے بھی روگرداں ہے ۔ اس ہتھیار کو الیکٹرانک میڈیا
مثبت پیش رفت کے لیے استعمال کرسکتا ہے ۔ لسانی و سیاسی تعصبات کو اجتماعی رنگ دے
سکتا ہے ۔ جہاں سیاست کے مفہوم و معانی سے عوام کو روشناس کرائے ۔ مگر وہ مختلف
سیاسی عصبیتوں کے درمیان جنگ کا میدان تخلیق کرتا ہے ۔ جس سے معاشرہ مزید پراگندہ
حال ہو کر کھائی کی جانب گرتا چلا جا رہا ہے ۔ مذہبی موضوعات میں مثبت عوامل کو نظر انداز کر کے
منفی عوامل کو اجاگر کرتا ہے جس سے مغرب کا پروپیگنڈہ مزید تقویت پاتا ہے کہ ملا سوائے مسلکی عصبیتوں کو فروغ دینے کے اور
کوئی کام نہیں کر رہا ہے ۔ اور جو ملا
دینی ، علمی ، تحقیقی جدوجہد میں مصروف ہیں ان کی جدوجہد سے سماج استفادہ کرنے کے باوجود اس کی پذیرائی
کرنے سے معذور ہے ۔ جس وجہ سے یہ رجحان عام نہیں ہو پارہا ہے ۔ یہی میڈیا اگر اپنے
پروگرامز کی ترتیب تبدیل کردے ۔ سیاسی نمائندوں سے ان کی جدوجہد کے مقاصد اور
مستقبل کی پیش رفت پر گفتگو کرے ۔ سیاست کی حیثیت اور اس کے سماجی اثرات پر گفتگو
کرے ۔ سیاسی نمائندے جب کیمرے کے سامنے پیش ہوں تو انہیں ہوم ورک کی ضرورت ہوگی ۔
کہ ان سے ان کے کام کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔ ان کے مقاصد اور ان کی تکمیل کی جانب پیش رفت
کے متعلق سوالات کیے جائیں گے ۔ نہ کہ لوڈ شیڈنگ کیوں کم نہیں ہوئی ؟ فلاں نے
وہ سڑک بنائی اور وہ کیوں نہیں بنائی ؟ اسپتال اس لیڈر کی جانب سے ابتداء
کردہ اس حکومت میں کیوں مکمل نہیں ہوئی ؟ ایسے سوالات کیے جائیں ۔ بلکہ یہ پوچھا
جائے کہ اسپتال ، تعلیمی اداروں کے قیام کی وجوہات کیا ہیں ؟ آپ کے خیال میں یہ
کیوں ضروری ہیں ؟ اور اس کی تختی پر آپ کے نام کے بجائے انجینئرز کے نام کیوں نہیں
لکھے جاتے ؟ پیسہ تو عوام کا ہے ۔عوام کی حیثیت سیاسی نمائندوں کی نظر میں کیا ہے
؟
اسی طرح مذہب کے ان نمائندوں کو مین اسٹریم میں لایا جائے
جو حقیقی نمائندے ہیں ۔ جو عوام کی نظروں میں
صرف علم والے ہیں ۔ ان کے انٹرویوز ہوں ۔ ان سے مذہب و مسلک کی حدودو قیود
پر بات ہو ۔ اخلاقی کردار پر بات ہو ۔ حقوق العباد پر بات ہو ۔ مذہبی تعصبات سے
دور کیسے رہا جائے ؟ ایسے سوالات اٹھائے جائیں ۔
اور ایسے بہت سے سود مند کام ہیں
جس سے سماج میں تبدیلی آسکتی ہے ۔ سماج میں علماء ، دین ، مذہب و مسلک ، سیاست و
سیاسی نمائندے ، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقیقی حقوق کے بارے میں آگاہی حاصل
ہوسکتی ہے ۔ کاش کہ الیکٹرانک میڈیا بے تحاشہ پیسہ کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے منصب
حقیقی کی جانب بھی توجہ دے ۔ بیشک یہ بھی جہاد ہوگا ۔ اور اس کا ثمر اسی دنیا
میں بھی اسے ملے گا ۔