Thursday, January 9, 2020

نظام اخلاق

نظام اخلاق
شہیر شجاع

نظام اخلاق سماجی دباو کے بنا قائم ہی نہیں ہوسکتا ۔ اس میں سب سے پہلا اور بنیادی حصہ خاندانی نظام کا ہے ، جو فرد کے دلمیں ایک منضبط اخلاقی پابندی کے لیے موثر کردار ادا کرتا ہے ۔ 
مثال کے طور پر اولاد کے لیے والدین کا خوف پھر عزیز و اقارب کا خوف پھر سماج کا خوف ایک ایسا موثر ذریعہ ہے جو پابندی اخلاقکو قائم رکھنے کا سب سے اہم سبب ہے ۔ 
اس خوف پر غور کرنے والے مثبت و منفی معانی کا جامہ پہنا سکتے ہیں ۔ پر جبر کے بنا انسان کی فسادی فطرت کو کسی بھی مثبتنظام کے تابع رکھنا ناممکن ہے ۔ 
اگر جبر کو منفی مفہوم دیا جائے تو ہھر ہر وہ قابون لا یعنی ہوجاتا ہے جو سماج کو جرم سے پاک رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے ۔کیونکہ اس قانون کا “ اثر “ جبر ہی ہے اور نتیجہ امن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ 


Tuesday, January 7, 2020

دو لمحے

دو لمحے
شہیر

لمحہ وصال اسی لمحے فنا ہوجاتا ہے ۔ اور لمحہ وصال وہ لمحہ ہے ۔۔۔۔۔۔جو ۔۔۔ کبھی فنا  نہیں ہوتا ۔۔۔رستے ہوئے زخم کی کی مانند  قائم رہتا ہے ۔ 

Friday, January 3, 2020

زعم دانش

زعم دانش 

ہند جیسی صورتحال پاکستان میں ہوتی تو ہمارے محترم لبرل دوست جوش و خروش کے ساتھ ہر منفی خبر پر آستینیں چڑھائے “ مذہبی جنونی” “ جہالت “ وغیرہ کے نعروں کے ساتھ “ تبرا” فرمارہے ہوتے ۔ 
جبکہ ہند کی حقیقی صورتحال میں انہیں وہاں کا حکومتی غیر انسانی رویہ جہاں گھروں میں گھس کر عورتوں کا استحصال ، مردوں ، جوانوں ، بچوں کو زود کوب کے ساتھ انہیں جیلوں میں بھرا جا رہا ہے ۔ خون بہہ رہا ہے ۔ 
جینوسائڈ کے امکانات پہ بات ہو رہی ہے ۔ 
ایک آزاد معاشرے میں مسلمان ہونا جرم ہوگیا ہے ۔ “انسان” کو نہیں “مسلمان “ کے لیے موت و حیات جیسی کشمکش پیدا ہوگئی ہے ۔
 ایسے میں ہمارے لبرل دوستوں میں “ مثبت سوچ “ اجاگر ہورہی ہے ۔ اور وہ اُس معاشرے کی ہر مثبت آواز کی تعریف کرتے ہوئے ہمارے معاشرے پہ “ تبرا “ کا شوق پورا فرمارہے ہیں ۔ 

زعم تقوی ، خبط عظمت اور زعم دانش

معاشرے کے تین المیے 

شہیر


فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...