Thursday, May 21, 2015

جامعہ۔۔۔ بعد از مذہبی و عصری جامعہ ۔






جامعہ۔۔۔ بعد از مذہبی و عصری جامعہ ۔

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیسویں صدی   کی ایک خاص بات یہ رہی کہ ۔۔۔ جہاد  کو بالکل بدنام کر دیا گیا ۔ یہاں تک کہ خواہ حقیقی جہاد بھی کیوں نہ ہو رہا ہو  ، دہشت گردی کہلایا ۔ جس میں  نشانہ بنا ۔۔ مدرسہ یا مدرسے  کے  طلباء    و فضلاء یہاں تک کہ معاشرے نے اس طبقے کو بالکل ہی اپنے سے جدا کر دیا ۔ جسے مذہبی طبقے کے نام سے جانا جانے لگا ۔ یہ معاشرے کا بہت ہی بڑانقصان تھا جس میں بنیادی ستون کو کاٹ کر الگ کر دیا گیا ۔ جسے معاشرے میں محدود کر دیا گیا ہو ۔اس میں احساس کمتری کا جنم لینا  ہی تھا ۔ جس کے پاس ذریعہ معاش بھی صرف مدرسہ تھا ۔ مدرسے سے فراغت کے بعد مدرسہ ۔۔ معاشرے میں اس کا کوئی مقام نہیں ۔۔ سوائے اس کے کہ نکاح خوانی کر لے  یا جنازہ پڑھا لے ۔
 جس کا دو طرفہ نقصان ہوا ۔۔۔  معاشرہ دین سے  کٹ گیا ۔ جبکہ مدرسہ   ارتقاء سے  رہ گیا ۔ اس میں کوئی ارتقائی تبدیلی نہ آئی ۔۔ یہ ضرور ہے کہ چند علماء  نے اس بات کو محسوس کیا ۔۔ اور نظام  مدارس کو ارتقاء کی جانب گامزن کیا جس کا خا طرخواہ نتیجہ ہم دیکھ سکتے ہیں؎۔
بہر حال  دوسری طرف ہماری عصری جامعات کا حال  مزید گیا گزرا ہے ۔۔۔  میرے ایسے کئی احباب ہیں جو ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں ۔ بس صرف ڈگری ہی ہے ان کے پاس ۔ علم ان کو چھو کر نہیں گزرا ۔ کیونکہ  یہ ہمارا تعلیمی نظام ہے  ۔ جہاں   یہ سکھایا جاتا ہے کہ ۔۔ کس ڈگری کے سہارے  کتنی بڑی پوسٹ حاصل کی جا سکتی ہے ۔ جب مقصد ہی میں کھوٹ ڈال دیا جائے تو ۔۔ نتیجہ کیا خاک نکلنا ہے ۔۔۔۔
اب جبکہ ۔۔۔۔ عصری جامعہ کے طلباء  دہشت  گردی میں ملوث  پائے گئے ۔ اگر مدرسہ پروپیگنڈا شروع کردے کہ عصری جامعات سوائے جہالت کے کچھ نہیں سکھا رہے ؟  تو پھر آپ کے پاس کیا جواب ہوگا ؟  یہ دہشت گردی و نام نہاد جہاد ۔۔ دونوں ایک ہی قسم سے تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔  دونوں  کا ایک ہی مقصد ہے ۔۔ "حقوق "۔۔۔ کیونکہ ۔۔۔ بقول فیض اللہ  خان ۔۔۔ نہ آپ کو پینٹ کوٹ میں ڈاکٹر مرسی قبول ہے ۔۔ اور نہ  ہی پگڑی میں ۔۔ ملا عمر ۔۔۔۔  اس کے بعد ۔۔ مدرسہ ہو یا عصری جامعہ ۔۔ جب  معاشرہ اسے دھتکار دیتا ہے ۔۔۔ تو ایک موڑ آتا ہے کہ وہ تشدد پر اتر آتا ہے ۔۔۔     مجھے افسوس ہے کہ ۔۔ مدرسے کا طالبعلم بھی میں ہوں ۔ جامعہ کا طالبعلم بھی میں ہوں ۔ اور دونوں کو ایک دوسرے سے جدا بھی میں نے ہی رکھا ہے ۔     آپ ان دونوں کو   ایک چھت کے نیچے بیٹھنے  ، ایک  دوسرے کو باس  اور تابعدار کی حیثیت سے کام کرنے دیں ۔۔۔ پھر دیکھیں معاشرہ کیسے تبدیل ہوتا ہے ۔

Thursday, May 14, 2015

Nadra , Police , System

عام آدمی

مجھے اپنی ذلالت کا اس شدت سے احساس ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ احساس بھی یوں ہو رہا ہے کہ اب تک اس قدر ذلت کو ہضم کرنے کی میرے معدے  میں قوت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجدید پاسپورٹ کے لیے نادرا سے رجوع کیا ۔۔ انہوں نے ۔۔ کہا کہ پولیس انکوائری ہوگی ۔۔ کہ آیا آپ کراچی کے رہائشی ہو بھی کہ نہیں ۔۔ بہت بحث مباحثے کے بعد میں نے ان کی خواہش کا احترام کیا ۔۔ اور واپس آگیا ۔۔ اب اگلا مرحلہ ان کا تھا کہ وہ انکوائری کرتے اور پھر مجھے کال کرتے ۔۔ یہ ان کا ہی بنایا گیا نظام ہے ۔۔
ڈھائی  ماہ گزرنے کے بعد جب میں نے نے استفسار کیا تو ۔۔۔ معلوم ہوا کہ ۔۔ انکوائری کی فائل تو دو ماہ سے ۔۔ کراچی اسپیشل برانچ والوں کے پاس ہے ۔۔۔ لہذا مجھے انکوائری ریفرنس دیا گیا ۔۔ اور کہا کہ اسپیشل برانچ جائے اور ان سے کہیے کہ " یہ میرا انکوائری ریفرنس ہے براہ مہربانی آپ میری انکوائری کیجیے " ۔۔ آآآآآآہ ۔۔ ( نادرا کو انکوائری کرنی ہے ۔۔۔ اور وہ انکوائری میں نے ہی جا کر پولیس کی منت سماجت کر کے کروانی ہے ۔۔ جس کا عوضانہ بھی ادا کر نا ہے ۔۔ ) ۔۔۔
یہ مجھ سے ہضم نہیں ہو رہا ہے ۔۔۔۔
مرنے والا بھی عام آدمی
پسنے وال ابھی عام آدمی
نظام کا شکار بھی عام آدمی
زبردستی کا شکار بھی عام آدمی
راہزنی کا شکار بھی عام آدمی
رشوت زنی کا شکار بھی عام آدمی

کہاں جائے یہ عام آدمی ؟ ۔۔۔۔

پھر کہتے ہیں کہ ۔۔ کراچی والے متحدہ کو اور سندھ والے پیپلز پارٹی کو کیوں ووٹ دیتے ہیں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ تڑپنے کي اجازت ہے نہ فرياد کي ہے
گھٹ کے مر جاوں يہ مرضي ميرے صياد کي ہے



Thursday, May 7, 2015

ایک گزارش



ایک گزارش 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاسی پارٹیز کو سپورٹ کرنے کے کئی پیمانے ہیں ۔۔۔۔ جیسے ۔۔
ذاتی مفاد ۔۔۔۔ مذہبی مفاد ۔۔۔ لسانی مفاد ۔۔۔۔۔  اور بھی ہونگے ۔۔۔ لیکن جو سب سے اہم ہے ۔۔ وہ قومی مفاد ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا سیاستدان بڑی ہی بے باکی سے کچرا کرتا ہے ۔۔
دراصل اس تمہید کا مقصد ہے ۔۔۔ کہ بحیثیت مجموعی ۔۔ جو عام سیاسی سپورٹر ہے ۔۔۔۔۔ وہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو چاہتا ہے تو ۔۔ اس کے پیچھے ایک ہی مفاد ہوتا ہے جو " قومی مفاد " ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اپنی سوچ و پرکھ کے مطابق کسی بھی جماعت کو سپورٹ کرے اور اس سے توقعات باندھے ۔۔۔۔ یہان تک تو ٹھیک ہے ۔۔۔ لیکن جب بات ۔۔ اختلاف کی آتی ہے تو ۔۔ رویہ جارحانہ تشکیل پاتا ہے ۔۔ اور سب آپس میں ۔۔۔۔ ایک دوسرے کے لیے نفرتوں کے بیج بوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اس نفرت کے کھیل سے باہر آنا چاہیے ۔۔۔
کسی بھی جماعت کے سپورٹر کو محض اس وجہ سے کہ وہ ۔۔ میری جماعت کا سپورٹر نہیں ہے ۔۔۔ سو کم عقل ہے یا ۔۔ کم ظرف ہے یا ۔۔۔ وطن کا غدار ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔ اس قسم کی سوچ صرف نفرتوں کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہیں ۔۔
اس فضا سے کیسے باہر آیا جائے ؟؟ رویہ کیسے تبدیل ہو ؟
اس کی ایک ہی صورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تنقیصی نظر کو ترک کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ اور تنقیدی نظر سے ہر اس کام کو دیکھنا ہوگا جو عمل پذیر ہو رہا ہے یا ہوچکا ہے یا ہونے جا رہا ہے ۔۔ خواہ وہ کسی بھی جماعت کے  تصرف میں ہو رہا ہو ۔۔۔ 
اگر مخالف جماعت   کے کسی غلط رویے کی تنقید کرنا ہو تو ۔۔۔۔۔ رویہ اختلاف رائے والا اپنایا جائے ۔۔ نہ  کہ چیف جسٹس آف پاکستان ۔۔ بن کر فیصلہ  صادر کریں ۔۔
ذاتی نوعیت  کے اختلاف میں حد درجہ احتیاط ہو ۔۔۔۔
ذمہ داری کا احساس ہونا حد درجہ اہم ہے ۔۔۔۔۔۔۔   انسانی عمل ۔۔ کبھی بھی مکمل نہیں ہوتا ۔۔ اس میں  کمی بیشی کا امکان موجود رہتا ہے ۔۔۔۔۔  سو  اگر ہم واقعتا قومی مفاد میں ۔۔  اپنے اپنے نظریات کے مطابق ۔۔ سیاسی پارٹیز  کے جھنڈے کو پسند کرتے تو ہوں ۔۔ لیکن ان سب کو چھاوں ۔۔ سبز ہلالی پرچم سے پہنچ رہی ہو ۔۔۔  تو ہی اختلاف و  اقرار کا حق ادا ہو ۔۔۔۔

شخسیات و نظریات اور تربیت



محمد شہیر شجاع
؎
شخصیت پرستی کا طعنہ دینے کا رواج چل پڑا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یاد رہے ۔۔۔ چے گویرا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منڈیلا ۔۔۔۔۔۔ کارل مارکس ۔۔۔۔ قائد اعظم محمد علی جناح ۔۔۔۔ گاندھی جی ۔۔۔۔۔۔۔ ودیگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو لوگ جانتے ہیں ۔۔۔۔
مگر ان کے ساتھ کون لوگ تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی نہیں جانتا ۔۔۔۔۔
لیاقت علی خان شہید کے ساتھ بھی کچرے کا ڈھیر موجود تھا ۔۔۔ مگر سب قائد ملت کو دیکھتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر شخصیات سے نکل کر نظریات کی کی تکمیل کی طرف جانا ہے تو ۔۔ تربیت بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ کوئی ایک ابھرتا سورج ہوگا ۔۔ اور ہم اس کے پیچھے پیچھے ۔۔۔ جو وہ نظروں سے اوجھل ہوا ۔۔ پھر تاریکی کا دھارا ۔۔

Monday, May 4, 2015

معاشرتی ترقی ۔۔۔۔۔



معاشرتی ترقی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 شہیر شجاع

معاشرہ کئی اکائیوں سے مل کر تشکیل پاتا ہے ۔۔۔ جس کی ایک بہت ہی بنیادی اکائی ۔۔ مساوات ہے ۔۔۔۔ مساوات کے ضمن میں ۔۔ محنت کش طبقے کی بات کرنا چاہوں گا ۔۔ جسے دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔۔۔ جس کی مزدوری  کے لے سیاستدان سڑکوں پر نکلتا ہے ۔۔ دین اس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے اس کے مزدوری ادا کر دیے جانے کا حکم دیتا ہے ۔۔۔۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔ ایک محنت کش کے کھردرے ہاتھوں کو محسوس کر کے چوم لیتے ہیں ۔۔۔   جس کی محنت کے بل بوتے پر انجینئر اپنی تخلیق کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔۔ بہر حال یہ ایک سب سے مضبوط اور قابل فخر اکائی ہوتی ہے ۔۔۔ 
ہم معاشرتی اصلاح ۔۔ کی تو خوب باتیں کرتے ہیں ۔۔ لیکن وی آئی پی کلچر  پر شاذ و نادر ہی گفتگو ہوتی ہے ۔۔ کیونکہ تکبر ہم میں رچا بسا ہے ۔۔۔  چپراسی  کو ہمارا معاشرہ جزوقتی غلام کا مقام دیتا ہے ۔۔ جبکہ وہ محنت کر کے حلال روزی کما رہا ہے ۔۔۔ اسی طرح اس معاشرے میں کئی ایسے کردار ہیں ۔۔ جو " کمینے " کہلائے جاتے ہیں ۔۔۔
میں ایک کمپنی میں ملازمت کیا کرتا تھا ۔۔ رمضان کا مہینہ تھا ۔۔ پوری کمپنی میں ایک ہی لوڈر تھا ۔۔ اور دو ڈپارٹمنٹ تھے ۔۔مختصر یہ کہ ۔۔۔ اس سے زائد کام لینے پر میں نے احتجاج کیا تو ۔۔ میرے مینیجر نے مجھے جواب میں کیا کہا " ۔۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔۔ پورے ملز ایریا میں جا کر دیکھ لو ۔۔۔ سب سے زیادہ میں ہی تنخواہ دیتا ہوں ۔۔۔
پتہ ہے کتنی ؟
پورے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو ہزار پانچ سو ۔۔
آآآآآآآاااہ ۔۔۔
یہ دس سال پرانی بات ہے ۔۔۔ پر دو ہزار پانچ سو کی اس وقت بھی کیا اوقات ہوگی ۔۔ جب حکومت کی طرفسے کم سے کم تنخواہ چھ ہزار مقرر تھی ۔۔
میری ان صاحب سے خوب نوک جھونک ہوئی بالآخر  پیر پٹختے مجھے واپس آجانا پڑا ۔۔
سوچتا ہوں ۔۔۔ یہ جو بڑے بڑے افسان ہیں ۔۔( ہمارے معاشرے میں تو ۔۔ بہت ہی بڑے کہلائے جاتے ہیں ناں ) جن کو چائے پینی ہو تو غلام کو آواز دے دی ۔۔۔ جوتے پالش کرنے ہوں ۔۔ تو غلام کو آواز دے دی ۔۔۔ کپڑے استری کرنے ہوں ۔۔۔ تو  خاص دھوبی ۔۔۔۔۔
یوں محسوس ہوتا ہے ۔۔ جیسے ہمارے معاشرے میں ۔۔۔ محنت کش طبقہ ۔۔۔ ان افسران بالا کی غلامی کے لیے پیدا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ جن کی قدر ۔۔۔ کھوٹے سکے کی ہے ۔۔۔
اور سڑکوں پر سیاستدان محنت کش طبقے کے لیے آواز بلند کرتا  لاوڈ اسپیکر پھاڑ ڈالتا ہے ۔۔۔ اور ڈائس سے اتر کر ۔۔ ایک غلام آتا ہے  ۔۔ صاحب کا پسینہ صاف کرنے ۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...