Wednesday, July 31, 2019

مذہب کارڈ

 مذہب کارڈ
شہیر شجاع
آج کل مذہب کارڈ پر زور و شور سے بحث جاری ہے ۔ ہر کس و ناکس اس بحث میں حصہ لے رہا ہے ۔ سب سے اہم پیش رفت یہ ہے کہ اس بحث میں نامی گرامی "علم والے " حضرات بھی شامل ہیں ۔  اس بحث کی ابتداء مولنا فضل الرحمن صاحب کے  ملین مارچ سے شروع ہوئی ۔ اس بحث کے  فی الحال دو گروہ ہیں ۔ ایک پی ٹی آئی ۔ دوم جے یو آئی ۔
جے یو آئی اور ان کے  بیانیے سے اتفاق کرنے والے کہتے ہیں   کہ عمران خان کا " مدینے کی ریاست " کا نعرہ ،
ہاتھ میں تسبیح اور" ایاک نعبد وایاک نستعین"  سے اپنی تقاریر کی ابتداء اور ہر جلسے سے پہلے تلاوت قرآن پاک ۔۔ یہ سب مذہبی کارڈز ہیں ۔۔ 
ہم اس پہ غور کرتے ہیں کہ کیا یہ واقعی  ایسی مثالیں ہیں جنہین مذہب کا ناجائز استعمال اور نتیجتا مذہبی استحصال کہا جا سکتا ہو ؟ یا ان اعمال سے مذہب اور مذہبی سوچ  کا استحصال ہوتا ہو ؟
مدینے کی ریاست کیا  ہے ؟ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ  وسلم اور خلفاء راشدین کے زیر اثر ریاست کا دھانچہ ہے ۔ اس کو عدل و انصاف ،  باہمی مساوات ،   دردمندی ، دیانت داری کے استعارے کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے ۔ اور اغلب گمان یہی ہے کہ اس کے یہی معانی ہونگے ۔  اگر چہ یہ اس کا اپنا نعرہ ہے اس سے کسی دوسرے کی ذات کا یا کسی بھی طبقے یا خاص گروہ کے جذبات کا استحصال نہیں ہوتا تو اسے مذہبی کارڈ نہیں بلکہ سیاسی نعرہ کہنا درست ہوگا ۔ جس پر عمل درآمد  اس  پر واجب ہوگا اور اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتا ہے تو عوام کے سامنے وہ جوابدہ ہوگا ۔ اسی طرح عمران خان کا ہاتھ میں تسبیح لینا اس کا ذاتی عمل ہے ۔  اس کی نیت تک رسائی صرف اللہ پاک کو ہے ۔ کہ اس نے کس نیت سے تسبیح ہاتھ میں رکھی ہے اور اس تسبیح کو لیے وہ امریکہ جیسے ملک کے دورے تک کر لیتا ہے ۔ اگر  نیت پر شک کرنا حاصل گفتگو ہے  پھر تو یہ مذہب کارڈ ہے وگرنہ یہ سراسر مذہب کے ساتھ زیادتی ہے کہ تسبیح ہاتھ میں لینے کو مذہب کارڈ کہا جائے اور آئندہ سیاسی شخصیت کا تسبیح ہاتھ میں لینا  " کفر" سمجھا جائے ۔ اسی طرح ایاک نعبد وایا ک نستعین جیسی مبارک آیت کو  ابتداء بناکر عوام کو ایک نیک شعورکی جانب راغب کرنا (خواہ وہ قصدا ہو یا نہ ہو ) مذہب کارڈ ہے تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ایک ایسے سیکولر نظام کی بات کر رہے ہیں جہاں اللہ کا نام لینا  سیاست میں ناجائز ٹہرا لیا جائے ۔  کیا یہ مذہبی جماعتیں اور ان کے چاہنے والے بذات خود ایک گھڑا نہیں کھود رہے ؟
اب آتے ہیں مذہبی جماعتوں کی جانب سے استعمال ہونے والے مذہبی کارڈز کیا ہیں ؟ مولانا فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں عمران خان یہودی ایجنٹ ہے ؟ اس کے بعد ایک غلغلہ برپا ہوتا ہے کہ عمران خان کا خاندان قادیانی ہے اور یہ قادیانیت نواز حکومت ہے ۔  عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا اور اسی طرح قادیانیت  سے مربوط کرنا کیا یہ بہتان طرازی نہیں ؟  اسی طرح نظام مصطفی ریلی کا انعقاد کرنا ۔ اور ایسی ریلیوں کو حکومت مخالفت کے لیے استعمال کرنا کیا مذہبی کارڈ کا درست استعمال ہے ؟ یہ سوال میں آپ پر چھوڑ تا ہوں ۔  اور چند گزارشات  اپنی جانب سے پیش کرنے کی کوشش کروں گا جو منطقی اور شعوری سطح  کے ساتھ انصاف پر مبنی ہو ۔
مذہبی کارڈ دراصل اسی بہتان طرازی  اور ریاست کے آئین  کی مخالفت  اور عام آدمی کے مذہبی جذبات کو ابھار کر اس کے استحصال کا نام ہے ۔ جس سے  سماجی شعور میں ایک پراگندگی پیدا ہو ۔ اور اجتماع " مذہبی " بنیاد پر گروہوں میں بٹ جائے ۔  اس کی ایک عام فہم مثال جے یو آئی سے لیکر جماعت اسلامی تک  کے  سیاستدانوں کے خطابات  سے لی جا سکتی ہے ۔ جہاں وہ اپنے مخالفین کو " طاغوت " کہتے ہیں ۔ مدارس کے طلباء  اور ان جماعتوں سے جڑے افراد کا شعوری استحصال اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا کہ وہ   اپنے مخالفین   کو طاغوت سمجھنے لگیں ۔ جس سے ایک خلیج ہے  جو بڑھتی جاتی ہے ۔ اسی شعور کوابھار کر کبھی نظام مصطفی ریلیاں نکلتی ہیں ، کبھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے  سیاسی اجتماعات ہوتے ہیں ۔  ہمیں مذہبی جماعتوں سے یہی گلہ ہے کہ ایسا نہ ہو کسی دن وہ خود ہی سیکولر نظام کی  بنیاد رکھ دیں ۔ اور اللہ کا نام لینے والا سیاسی زبان  میں " طاغوت" کہلائے ۔
آپ بھی  " نبوی عدل و انصاف " کے نعرے لگائیں ۔ سود سے پاک نظام کا نعرہ لگائیں ۔ روٹی ، کپڑا مکان کا نعرہ لگائیں ۔ مگر مذہب کا کم از کم درست استعمال کریں ۔  مذہب کارڈ کا مطلب "الزام تراشی " یا مذہبی جذبات کو ابھار کر کسی کی مخالفت پر  افراد کو مجبور کردینا  نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ عمران خان کے ہی جیسا آپ بھی مذہب سے جڑے ایسے نعرے پیش کریں جس میں عوام کو اپنی فلاح و بہبود نظر آئے ۔  
تہذیب کی ابتداء کسی جانب سے تو شروع ہونی چاہیے ۔ اور وہ یہ ہے کہ  تنقید و اختلاف کے الفا ظ " تمسخرانہ  " و " استہزائیہ " نہ ہوں ۔ بلکہ قبول و رد میں دلیل کار فرما ہو ۔ تب ہی  باہمی روابط میں شایستگی پیدا ہوسکتی ہے ۔ ورنہ کدورتیں  تو موجود ہیں ہی ۔ بڑھتے بڑھتے یہ تشدد سڑکوں پر عام نہ ہوجائے ۔ 

Sunday, July 28, 2019

علم کیا ہے

علم کیا ہے
احمد جاوید صاحب

کچھ صاحبان علم سیر کے لیے نکلے ہوئے تھے ،، راستے میں انہیں ایک بورڈ نظر آیا جہاں لکھا ہوا تھا " ہمارے یہاں علم والوں کو علم سکھایا جاتا ہے "
یہ اس بورڈ  میں موجود اشاروں کو فالو کرتے ہوئے نزدیکی ایک جگہ تھی وہاں پہنچ گئے ، 
اور وہاں اندر آنے کی اجازت طلب کی جو انہیں مل گئی ۔وہاں  پہنچے  تو ایک ضعیف  سے آدمی کچھ نوجوانوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ، انہوں نے اندازہ لگالیا کہ یہی شخص یہاں کا معلم ہے
 انہوں  نے پوچھا کہ ہم تو ایک تجسس سے آئے ہیں آپ کا بورڈ پڑھ کے ۔ 
کہ آپ علم رکھنے والوں کو علم سکھاتے ہیں یہ کیا بات ہوئی ؟
انہوں نے جواب دیا کہ شاید میری یہ بات تمہیں کسی دلیل سے نہ سمجھ آئے میں چاہتا ہوں تمہارے سامنے اسکامظاہرہ کردوں ۔
انہوں نے کہا ٹھیک ہے
استاذ نے انہی میں سے ایک صاحب سے پوچھا
یہ جو سامنے صحن میں ایک چیز کھڑی ہوئی  ہے یہ کیا ہے  ، تمہیں معلوم ہے ؟
صاحب نے جواب دیا جی ہاں ہمیں معلوم ہے
یہ درخت ہے
انہوں نے پوچھا  کیا اس درخت نے اپنا یہ نام تمہیں خود بتایا ہے؟
انہوں نے کہا نہیں یہ درخت کیسے بتا سکتا ہے اس کا یہ نام تو ہم نے خود اسے دیا ہے۔
استاذ نے کہا کہ جب ایک چیز کا نام ہی تم نے رکھا ہو اور اس چیز کی ساری پہچان اس نام سے جڑی ہوئی ہو جو تم نے اسے دیا ہو  تو اس میں اس چیز کا علم تو نہیں ہے ناں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اس چیز کے بارے میں ایک تصور پہلے سے بنا رکھا تھا اور اس چیز کو دیکھ کر اپنے اس تصور کو اس شے پر اوڑھا دیا۔اب تم کہتے ہو تمہیں اس چیز کا علم ہے ؟ اس چیز کا علم تو اس شے سے پوچھ کر یا اس کے اندر اتر کر یا اس کے بھیتر جھانک کر ہی ممکن ہے ناں۔
جی استاذاس پہلو سے تو ہم نے کبھی  نہیں سوچا تھا
انہوں نے کہاں نہیں تم نے مزید کئی پہلو نہیں دیکھے ہونگے لیکن آج تم یہ سبق بہرحال مجھ سے لے لو
کہ ہم وہی کچھ جانتے ہیں جیسا ہم جاننا چاہتے ہیں
انہوں کہا بالکل جناب میں نے یہ بات اپنی گرہ میں باندھ لی ۔


علم وہ ہے جس کا فائنل معلوم جس کا حتمی معلوم اللہ ہو جو علم اللہ کو معلوم کروانے میں مدد نہیں دیتا وہ علم نہیں وہ چیزوں پر ایک غاصبانہ قبضہ ہے۔

Tuesday, July 16, 2019

خودداری

خودداری وہ نقطہ اعتدال ہےجسکےایک جانب“ گھمنڈ” ہےدوسری جانب“ کمزوری” ۔یہ دونوں ایسے امراض ہیں جو اپنے ساتھ بہت سی چھوٹی چھوٹی بیماریاں ساتھ رکھتے ہیں۔ 


شہیر شجاع

Tuesday, July 9, 2019

حقیقت اور زندگی



حقیقت،محض ایک لفظ یاشےنہیں ہےاسکےادراک کےلیےاسکےتخلیقی عوامل،اسباب کاادراک ضروری ہے۔تب ہی حقیقت کادرست ادراک ممکن ہے۔تب ہی اس حقیقت کےاثرات ونتائج کی بصیرت ممکن ہے۔ 

زندگی کےفیصلوںمیں ایک عمل حقیقت کاادراک بھی ہےاوریہ سارےعمل محض جذباتی امفروضوں کے زیراثرنتیخہ خیز یاکارآمدکسی طورممکن نہیں۔زندگی محض روح کاجسم میں موجودہونااورجسم سےنکل جانےکانام نہیں۔یہ توایک مکمل نظام ہےاوراس نظام کودرست انداز  میں چلانےکےلیےشعوری کاوشیں کارآمدہوتی ہیں اگرشعورکوپس پشت ڈال کرمحض جذبات اورمفروضوں کی بنیادپراس نظام کوچلانےکی کوشش کی جائےتومحض وقتی تسکین توحاصل ہوسکتی ہےمگرمستقبل میں خلل کاپیش آنایقینالازم ہے۔ہمیں مفروضوں کی بنیادپرحکم لگانےاورجذبات کی بنیادپرفیصلےکرنےسےآگےبڑھکریہ عمل شعورکوسونپناہوگا۔یہ تہذیب کاتقاضابھی ہے۔اورتب ہی لفظ“ حقیقت” کےادراک تک رسائی ممکن ہے۔ 
شہیر شجاع

Thursday, July 4, 2019

معاشرہ اور سیاست

معاشرہ اور سیاست

شہیر شجاع

فرد کا کردار خاندان کی تخلیق اور خاندانوں کا اجتماع سماج یا معاشرہ تشکیل دیتا ہے ۔ اس تشکیل کو منظم کرنے کے لیے سیاسی کرداروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ جو معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے   قوانین تشکیل دیتی ہے اور ان قوانین پر عمل پیرا ہونے  کی تلقین کرتی ہے ۔ یہ تلقین    بظاہر جبری ہوتی ہے  ۔ لیکن اگر معاشرے کی  تربیت درست پیمانے پر کرنے کے ادارے مضبوط اخلاقی پیمانے اور رویوں پر قائم ہوں تو وہ جبر  "تنظیم " اور " امن و امان " کے استقلال کی ضمانت ہوجاتا ہے ۔ بظاہر جبر کا لفظ  بالفعل انسانی مزاج پر بار  محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن   انسان کے مزاج کو اس " جبر" کو قبول و رد کرنے کا  عمل " باہمی اعتماد" پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر معاشرہ  اپنے تنظیمی و تربیتی اداروں پر اعتماد رکھتا ہے تو اس کا مزاج ،جبر بخوشی قبول کرلیتا ہے کہ اس  میں اجتماع کی بہبود منحصر  ہوتی ہے ۔ اور اگر یہاں باہمی بد اعتمادی نمایاں ہو تو جبر انسان کا مزاج  رد کردیتا ہے ۔ اور وہ اپنی "جبلت" میں آزاد رہنا پسند کرتا ہے ۔ ایسے معاشرے میں چوری چکاری ، ڈاکہ زنی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، خیانت ، قتل و غارت   ، ذخیرہ اندوزی جیسے معاشرتی مسائل  اور  معاشرے کی اکائی خاندان میں بھی فساد برپا ہوتا ہے ۔ جہاں  اخلاق و تہذیب   شرمندہ پھرتے نظر آتے ہیں ۔  
فرد اپنے خاندان کے ساتھ مخلص ہو اور اس کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اپنے اخلاق کو تہذیب و شائستگی سے آراستہ و پیراستہ کرکے اپنے خاندان کی تعمیر کرے گا تب ہی معاشرے  کے مزاج میں  شائستگی نظر آئے گی اور یہی شائستگی  آگے چل کر سیاسی اداروں کی بنیاد بنے گی ۔ (سیاسی ادارہ محض وہ نہیں جسے ہم عرف عام میں حکمران کہتے ہیں ، واعظین سے لیکر تعلیمی ادارے یہ تمام سیاسی ادارے ہیں جو معاشرے کی تشکیل اور تنظیم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں )


Tuesday, July 2, 2019

سر سید کا نظام تعلیم اور ہماری تباہی کا سبب

سر سید کا نظام تعلیم اور ہماری تباہی کا سبب

یار اگر  مسلمانان ہند کو سرسید نہ ملے ہوتے تو آج نہ جانے   مسلمان کہاں ہوتے ؟
دوست کچھ زیادہ ہی  جذباتی ہو رہا تھا ۔  میں نے پوچھا ۔۔۔ یار سرسید تو واقعی اپنی علمیت ، قابلیت و صلاحیتوں میں بے مثال تھے ۔ مگر کیا ان کا سب سے بڑا کارنامہ " علیگڑھ کالج " اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوسکا یا ناکام ٹہرا ؟
ارے یار دیکھو آج بھی وہ کالج مسلمانوں کے لیے چمکتا ستارہ ہے ۔ سرسید کی محنت کی ہی وجہ سے آج مسلمانوں میں ڈاکٹڑز انجینیرز ، پی ایچ ڈیز  سائنسدان موجود ہیں جو اس دھرتی کو فائدہ پہنچا رہے ہیں ۔
اس دھرتی سے بنیادی تعلیم کے بعد تو نوے فیصد باہر کی دھرتی کی " خدمت " کرنے چلے جاتے ہیں ۔ ڈالر و پاونڈ کماتے ہیں ۔کیا اسی لیے سرسید نے مسلمانوں کو ترقی کے شانہ بشانہ چلنے کی تلقین کی تھی  ؟
بھئی یہاں انہیں  مل بھی کیا سکتا ہے ؟ نہ جان کا تحفظ نہ مال کا ۔ اور نہ ہی ان کی صلاحیتوں کی یہاں کوئی حوصلہ افزائی ہے ۔ تو پھر وہ باہر کیوں نہ جائیں ؟
پھر تو تعلیم کا مقصد " کمائی " اور " بلند مراتب " ہی ٹہرے ناں یار ۔ بنیاد ی مقصد تو فوت ہوگیا ۔ کمائی اور بلند مرتبہ تو تاجر و صنعتکار بھی حاصل کرلیتا ہے ۔ اور ہنر مند آدمی بھی ایک اچھی پرآسائش زندگی گزار لیتا ہے ۔ اور اگر اس کی قسمت اچھی ہوئی تو وہ بھی صنعتکار کا درجہ حاصل کر ہی لیتا ہے ۔
  پھر   " تعلیم یافتہ " کہلا کر " تعلیم یافتگی " کی تذلیل کیوں ؟
کیا یہی وہ تعلیم یافتگی ہے جو آج تک ہمارے معاشرے کو سچ  بولنے ، چوری کو برا سمجھنے ، جھوٹ کو برائی سمجھنے ،  عورت کو عزت و احترام کے قابل سمجھنے ، اپنی  ذمہ داریوں کا " ادراک " اور اس کا احساس اجاگر ہونے ، دیانت دار ی  و اخلاص  پر  آمادہ نہ کرسکی ؟   اسی تعلیمی نظام نے ہمیں " یہ "  سیاستدان عطا کیے ۔ ہمارے تمام اداروں  میں اسی تعلیمی نظام سے تربیت یافتہ افراد ہیں  ۔  تہذیب  کے معانی بدلنے کو ہیں ۔  ثقافت  کو بس" گالی " کہنا باقی رہ گیا ہے ۔ 
میں تو  پتہ نہیں اور بھی نہ جانے کیا کچھ بولتا چلا جاتا ۔  کہ اس نے میری توجہ ایک خبر کی جانب کروائی ۔ جس میں ہمارے محترم وزیر " سائنس و ٹیکنالوجی " عوام اور دنیا کو یہ  ہماری تباہی کی اصل وجہ بیان فرما رہے تھے ۔ کہ اس کا سبب " فتوی باز " مولوی ہیں ۔  اور میں چشم تصور میں ان کی وزارت کے کارناموں کو تلاشنے کی کوشش کرنے لگا ۔ 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...