Showing posts with label میرے افسانے. Show all posts
Showing posts with label میرے افسانے. Show all posts

Thursday, May 1, 2014

زاویہ


محمد شہیر شجاعت ۔
 2/2/2014

زاویہ
وقت  پر اگر انسان کا زور ہوتا تو وہ اسے روک لیتا  ، آگے نہ بڑھنے دیتا ۔ زندگی اگر انسانی سوچ  پر منحصر ہوتی ، اگر انسان کے بس میں وقت کی ڈور تھما دی جاتی تو ساری دنیا امن و شانتی کا گہوارہ ہوتی ،یا پھر بحر ظلمات میں ڈولتی ناو۔ جس کی نہ ہی کوئی منزل ہوتی اور نہ ہی کوئی سمت ۔ ہر آنے والا کل اپنے ساتھ ایک نیا پن ، نئے تجربات ، نئے احساسات ، نئی روشنیوں کے ساتھ ساتھ تاریک  گوشے بھی لے کر آتا ہے ۔غم نہ ہوتے تو خوشی کے صحیح احساس سے انسان محروم رہ جاتا ۔ اور خوشی نہ ہوتی تو غم کی  عجیب و غریب راہداریوں کے تجربات سے انسان نا آشنا رہ جاتا ۔ہم گزرے کل کی وجہ سے جینا نہیں چھوڑسکتے اور نہ ہی آنے والے کل کے ڈر سے آج کو مسخ کرنا عقل مندی ہے ۔ ہر  چیز میں اللہ کی مصلحت چھپی ہے ۔ یہ تو ہم انسانوں کے نظریات ہیں ۔ ڈارون انسان کی ابتدائی شکل کو بندر کہتا ہے ۔مختلف انسان اپنے اپنے نظریات کے تحت اس  ابتداء کو قبول کرتے ہیں اور کچھ رد ۔ ایسی ہی ایک کہانی ہے یہ جس کے دو کردار ہیں کاشف اور سنبل ۔
کاشف  کی زندگی میں بھونچال آگیا تھا ۔ اس کے رات دن تنہا گزرنے لگے ۔ اپنے آپ کو معمول پر لانے کی ہر ممکن کوشش ناکام جا رہی تھی ۔  جب وہ سنبل کے عشق میں ڈوبا ہوا تھا تب کوئی اکثر اس  کی راہ تکا کرتا تھا ۔ اس کی ایک جھلک کو بیتاب رہتا تھا ۔ اصل میں اسے آگے بڑھنے میں دیر ہوگئی تھی تب تک کاشف سنبل کا ہو چکا تھا ۔اب جب اس شخص نے اسے اس حال میں دیکھا تو اس سے نہ رہا گیا ۔۔ وہ آگے بڑھ کراس کے سارے دکھ اپنے سینے میں اتار لینا چاہتا تھا ۔ بانہوں میں بھینچ کر اسے اپنے سینے کی گرمی میں ڈبودینا چاہتا تھا ۔
کاشف  کے سینے کا کرب بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا ،وہ ہر احساس سے عاری پل پل مر رہا تھا جیسے، وہ اس کرب کو اپنی آواز دینا چاہتا تھا ۔ لیکن جب بھی کوشش کرتا ۔ اس کے الفاظ منجمد ہوجاتے۔ کرب اس کو اپنی جکڑ میں لے لیتا اور وہ گھٹ کر رہ جاتا ۔ اکثر دن ڈھلے وہ  سمندر کنارے چلا جاتا اورکسی چٹان پر کھڑےہو کر زور زور سے چیختا ، اپنا کرب کم کرنے کی کوشش کرتا پھر وہیں گھٹنوں میں سر رکھے خوب روتا ، جیسے کہ شیرخوار بچہ بلک بلک کر روتا ہے ۔ بے بسی کی اس کیفیت  نے اسے رب سے جیسے نہایت ہی قریب کر دیا تھا ، ہر وقت رب کو یاد کرتا ، دعائیں کرتا۔اس کے دوست پریشان تھے  ہر وقت اس کی دلجوئی کی کوشش کرتے پر ناکام رہتے ۔ 
وہ اپنے کالج کے ہونہار طالبعلموں میں سے تھا اور ساتھ ہی خوش باش بھی ، اس کی ٹولی کالج  میں تفریح کا کوئی موقع ضایع نہیں ہونے دیتی تھی ۔ اسی دوران جب  اس نے سنبل کو کینٹین میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ چہکتے دیکھا تھا تب سے وہ تو دیوانہ ہی ہوگیا تھا۔
 سنبل۔۔۔ حسن کا پیکر ، چشم ما روشن دل ماشاد ، حسن کی دیوی تھی۔جس راہ سے اس کا گزر ہوتا ، وہ راہ اس کی گزرگاہ ہونے کی گواہ ہوجاتی ۔ کہتے ہیں دل کو دل کی خبر ہو ہی جاتی ہے۔ وہ بھی کاشف کی دلچسپی محسوس کر چکی تھی اور انتظار میں تھی کہ کاشف خود آگے بڑھے ۔
  ایک نئے تجربے و کیفیت سے گزرتے ہوئے اسے محسوس  ہوا کہ  اب اس کی تمام تر ترجیح صرف اور صرف سنبل ہی ہے ۔  اس کیفیت  کا احساس اسے عجب لگا ۔ خواب سجنے لگے  ،شعر بننے لگے، پھول کھلنے لگے ، باغ مہکنے لگے، ہوا میں جیسے سنبل کی خوشبو بس گئی تھی ، ہر سانس میں اسے اسی کی مہک آتی ۔ہر آہٹ میں اسے وہی دکھائی دیتی ، پرندوں کی چہچہاہٹ میں اس کی قلقاری سنائی دیتی ۔  ایک الگ ہی احساس تھا ۔ الگ ہی دیس تھا جہاں وہ بسنے لگا تھا  ۔
 ا س سے پہلے کے دیر ہوجاتی ۔ اس نے سنبل سے اظہار عشق کر ڈالا ۔ وہ تو انتظار میں تھی  ہی  ۔ اور دونوں پنچھی اڑنے لگے ، بسنے لگے ، سجنے لگے ۔سنورنے لگے ۔ وعدوں ، ارادوں اور خواہشوں کی ڈور میں بندھنے لگے ۔ آنکھیں بند تھیں بس دلوں کے دروازے  ، خوابوں کے  دالان کھلے تھے ، جہاں صرف اور صرف کاشف اور سنبل تھے اور ان کی ایک انوکھی دنیا  ۔
کاشف اور سنبل   کی  بھی امتحان کی گھڑی آپہنچی تھی ۔ ان کی تب آنکھ کھلی جب سنبل کا رشتہ طے ہوگیا۔ سنبل کے چچا زمان صاحب  کا بیٹا  عاطف تعلیم مکمل کر کے فرانس سے واپس آگیا تھا اور اب  اپنا بزنس سیٹل کر رہا تھا ۔ سنبل کے چچا کی نظر تو پہلے ہی اس پر تھی لیکن وہ اسی انتظارمیں تھے کہ عاطف واپس آجائے اور  خود کفیل ہوجائے تو پھر وہ مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے بھائی سے رشتے کی بات کر سکتے ہیں ۔ لہذا جیسے ہی زمان صاحب نے  اس کے بابا یعنی فہیم احمد صاحب سے  اپنی خواہش کا اظہار کیا تو فہیم صاحب نے بہت  خوش دلی سے اس رشتے کو قبول کر لیا ۔
فہیم صاحب نے جب اسے  اس خبر سے آگاہ کیا تو ۔۔ اس کے تو پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔ یک دم خاموش بابا کو تکتی ہی رہ گئی ۔ فہیم صاحب کو اپنی بیٹی کے اچھے اور دلی رشتے کی اتنی خوشی تھی کہ  خوشی میں بس بولے ہی چلے جا رہے تھے بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ جھومتے جارہے تھے  اور اس دوران اپنی بیٹی کا زرد چہرہ دیکھنے سے چوک گئے ورنہ شاید وہ پل آنے والا کل بدل دیتا ۔سنبل چونک کر پیچھے کو سرکی ۔ سیل فون کی گھنٹی بجی تھی ۔ اس  نے سیل فون اٹھایا اسکرین میں کالر آئی ڈی دیکھی اور کال ٹون کو سائیلنٹ کر کے بابا کو جھومتا چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگئی ۔۔
اس کے سامنے کبھی بابا کی خوشیوں بھرا چہرہ آتا تو کبھی اس کے گھر میں آنے والی خوشیوں کا میلہ رقص کرتا ۔ کبھی اس کی ماں کی چہچہاہٹ سارے دالان میں گونج رہی ہوتی تو کبھی ۔۔ کبھی ۔۔ کبھی ۔۔۔۔ کاااااااشف ۔۔ کا چہرہ ۔ اس کی باتیں ۔۔۔۔اس کی یادیں۔۔۔۔ ، ملاقاتیں ، ۔۔۔۔خواب ۔۔۔، وعدے  اس کو اپنی جکڑ میں لے لیتی ۔ وہ تذبذب کا شکار تھی کہ کرے تو کیا کرے ۔۔ وہ منع بھی کرتی تو کیا ہوتا ۔ سب کچھ ٹھیک تو ہوجاتا ۔ پر شاید بہت کچھ وہ کھو بھی دیتی ۔ بابا کا مان نہیں توڑ سکتی تھی ۔ ساری رات وہ اسی کشمکش میں رہی ۔ 
سنبل بیٹا اٹھو دیکھو تم سے کوئی ملنے آیا ہے ۔ ماں نے اس کو آواز دی ۔
نہ جانے کس پہر اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔ماں کی آواز  پر اس نے ہلکے سے آنکھ کھولی۔ اس کی آنکھیں رت جگے کی وجہ سے سرخ تھیں ۔ آنسو وں سے اس کا تکیہ اب بھی کافی تر تھا ۔ اس کے گالوں پر عجیب   سے نقشے بن گئے تھے جو آنسووں کے خشک ہونے سے پیدا ہوئے تھے ۔وہ نڈھال سی اٹھی اور اپنی پیٹھ بستر کے سرہانے سے لگا کر بیٹھ گئی ۔
کون ہے ماں ؟ اس نے ماں سے پوچھا
اتنے میں اس کی نظر اس کے سیل فون پر پڑی جس  میں بیسیوں مس کالز اسکرین پر اس کا منہ تک رہی تھیں ۔سنبل نے او کے کا بٹن دبایا، کالر آئی ڈی نے اس کی دھڑکنیں پھر سے تیز کر دیں ۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔ اس کے اعصاب شل ہونے لگے ۔ اس کا دماغ ماوف ہونے لگا ۔
بیٹا کوئی کاشف نام کا لڑکا ہے ،  میں نے اسے بیٹھک میں بٹھا دیا ہے ۔ماں نے دالان سے ہی سنبل کو آنے والے شخص سے آگاہ کیا ۔
پھر کیا تھا وہ تو تکیے پر ڈھے گئی اور بلک بلک کر رونے لگی ۔ تکیے پر اپنے چہرے کو گاڑ دیا ہو جیسے ، جس کی وجہ سے اس کے رونے کی آواز تکیے میں دب کر رہ گئی ۔
ادھر کاشف بیٹھک میں بیٹھا اپنی منتشر سوچوں کو یکجا کرنے کی کوشش میں مصروف تھا ۔ اس کے دل کی دھڑکن اسے کسی ناگہانی وقت کی آمد سے ڈرا رہی تھی ۔
ماں اپنے کاموں میں مصروف دو دلوں میں گزر رہی اس قیامت سے بالکل بے خبر تھی ۔ صرف ماں ہی نہیں ا س گھر میں بسے افراد ا س کی شادی کی تیاریوں میں غرق تھے   ۔ گہما گہمی ، شور شرابا تھا ۔ ابھی مہمانوں کی آمد بھی شروع نہ ہوئی تھی ۔ ورنہ نہ جانے وہ  کیسے اس صورتحال کو اپنے بس میں کر پاتی ۔
اس نے تکیے سے سر اٹھا یا ۔ اپنے آنسو پونچھے ۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ ایک فیصلہ کر لیا ۔۔۔۔۔واش روم گئی۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔ کوئی اپنی رگ کاٹنے کو نہیں ۔۔ وہ تو بزدلوں کا کام ہے ۔۔۔ بلکہ اس نے  غسل کیا ۔ اپنے آپ کو تروتازہ محسوس رکھنا اب ا س کے لیے ضروری تھا ۔ اس نے  کپڑے پہنے ۔ سیل فون اٹھایا اور کاشف کو  میسیج کیا کہ وہ اس کے گھر سے نکل جائے اور کافی شاپ میں اس کا انتظار کرے جو کہ رات بھر اسے کالز کرتا رہا تھا اور پھر نہایت ہی مجبور ہو کر اس نے سنبل کے گھر آکر صورتحال سے آگاہی حاصل کرنے کا ارادہ کیا تھا ۔
کاشف  نے میسیسج پڑھا ۔۔۔عجب کشمکش تھی اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔  اور پھر  وہ اٹھا اور یہ جا وہ جا ۔۔ کافی شاپ کے سامنے جا کر ادھر ادھر ٹہلنے لگا ۔۔ اس کا دل خوب زور زورسے دھڑکنے لگا تھا ۔۔ اعصاب شل ہوئے جا رہے تھے ۔ ایک انجانا خوف اسے ستائے جا رہا تھا ۔کچھ ہی دیر گزری تھی کہ سیل فون نے کسی میسیسج کی آمد کی اطلاع دی ۔ اس نے سیل فون اپنی جیب سے نکالا ۔ میسیج اوپن کیا ۔۔ اور پھر اس کی کیفیت بدلنے لگی چہرہ زرد ہونے لگا ۔آنکھوں میں تاریکی سی چھانے لگی ، دل کی دھڑکن  تیز تر ہوگئی ، اور پھر وہ نڈھال دیوار سے ٹیک لگائے گرتا چلا گیا ۔دیوار کے ساتھ اپنی پیٹھ اور سر کو ٹکائے پیروں کو زمیں میں پھیلائے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس میں جان ہی نہ بچی ہو ۔ بس ابھی اس کی روح قبض ہوئی کہ ابھی ہوئی ۔ کچھ دیر تک وہ اسی طرح پڑا رہا ، اس کے آنسو تھے کہ بہے چلے جا رہے تھے ۔ اس کے گالوں کو تر کرتے ہوئے اس کی چھاتی تک کو تر کر گئے تھے آتے جاتے  لوگوں کی اس پر توجہ نے اسے وہاں سے اٹھنے پر مجبور کیا ۔ اس نے سیل فون اٹھایا کال کرنے کی کوشش کی لیکن سیل فون بند تھا ۔ کئی میسیجز اس نے بھیج ڈالے ۔ پھر وہاں سے اٹھا اور تھکے قدموں واپس نکل گیا ۔ سنبل نے ان کے رشتے  میں آخری کیل ٹھونک  دی تھی ۔ وہ آخری میسیج کاشف کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا ۔
سنبل کیسے کسی اور کی ہو سکتی ہے ؟ کیسے؟ کیسے ؟  کیسے کسی اور کی سہاگن ہو سکتی ہے ؟ کیسے سنبل کو گوارہ ہوگا کہ اس کا گھونگھٹ کاشف کے علاوہ کوئی اور اٹھائے ؟ کئی سوالات اس کو پریشان کئے دے رہے تھے ۔ اس کی نہیں سمجھ آرہا تھا کہ اسے سنبل سے ہمدردی ہو رہی تھی یا اس کی نہ ہونےکا ملال ۔ اس کے دل میں ٹیسیں اٹھتیں ۔ ذہن کام کرنا چھوڑ دیتا ۔ عجب درد نے  اسے جکڑ لیا تھا ۔
سنبل کی ڈولی بڑی دھوم دھام سے اٹھی ۔ عاطف کا گھر بس چکا تھا ۔ پر کیا سنبل کا بھی گھر بسا تھا ؟ شاید ہاں ۔۔ نہیں نہیں سنبل کا گھر کیسے بس سکتا ہے ؟ اس نے تو قربانی دی  تھی ۔لیکن یہ فیصلہ بھی تو دل گردے کا کام تھا ۔۔ بہر حال یہ ایک سوالیہ نشان تھا ۔ عاطف کو احساس تک نہ ہو پایا کہ سنبل اپنے پیچھے کیا کچھ چھوڑ آئی تھی ۔ یہ بھی سنبل کا ہی کمال تھا ۔
آج بھی کاشف سمندر کنارے چٹان پر بیٹھا دوووور سمند ر میں ڈولتا جہاز تک رہا تھا ۔ اچھلتی کودتی مچھلیاں بھی اس کے دل کو نہیں لبھا پا رہی تھیں ۔ اس کے سینے کا کرب اسے زندگی سے دور کہیں بہت دور لے گیا تھا ۔ وہ تو جینا ہی بھول گیا تھا ۔ ایسے میں اس کے عقب سے ایک نرم و گداز بہت ہی پیار بھری  دل سے نکلتی ہوئی ایک  مدھر آواز آئی ۔ نہ جانے اس آواز میں کیا جادو تھا ، کاشف میں زندگی کی رمق سی دوڑنے لگی ، اس نے کچھ ماضی کی کفییات کو اپنے اندر تر و تازہ ہوتا محسوس کیا ، ایک مچھلی نے سمندر سے اپنا سر نکالا اور ایک جست لگائی اورتھوڑی دور تک ہی جا پائی اور وہ پھر سمندر کے اندر ۔ کاشف کو اس منظر نے لطف دیا تھا ۔ اتنے میں پھر سے ا س کے  عقب سے وہ آواز آئی اب کے اس نے ان سانسوں کی گرمی اپنی پیٹھ پر محسوس کی ۔ وہ تو تڑپ سا گیا ۔ اس کا سینہ اور اس میں بسی کرب جیسے بہہ کر پسینے کی شکل میں نکلتی جارہی تھی،اس میں ایک توانائی سی دوڑ گئی ۔ وہ قدرے سکون سے اٹھا اور پلٹا  ، اس کے سامنے ایک عجیب مانوس سا چہرہ تھا  جو کاشف کو دھڑکتے دل و اعصاب شکن کیفیت کے ساتھ تکے جا رہا تھا۔ کاشف کی نظریں اس پر جم سی گئیں وہ بس تکتا رہا ۔۔ اس کے دل میں  بجلیاں سی کوندنے لگیں ۔ اور ۔۔ اور ۔۔ اور ۔ پھر  کاشف اس حسینہ کو اپنی بانہوں میں لپیٹ چکا تھا  ۔ زینب کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور اس کے گالوں سے بہہ کر کاشف کے شانوں میں جذب ہوگئے ۔

Wednesday, March 12, 2014

پہلا قدم اور اللہ کا کرم




محمد شہیر شجاعت
20/2/2014
ہجرت اپنے اندر بہت کرب سموئے ہوئے ہے ۔ ہجرت کی طرف اپنے من کو  مائل کر لینا بھی جان جوکھم کا کام ہے ۔  حدود میں گھری ساری ہی سرزمین اپنی ہی کیوں نہ ہو ۔ لیکن شہر تو شہر اپنا محلہ بلکہ جس گھر میں ایک عرصہ زندگی کا گزار دیا ہو ، اس کو ترک کرنا بھی اپنے آپ میں دل گردے کا کام ہوتا ہے ۔ 
جس طرح اس کا وجود زندگی کے مختلف تجربات سے گزرا اور گزر رہا تھا اسی طرح اس کا شہر بھی  زمانے سے  مختلف   تجربات کا شکار تھا ۔  کبھی اس شہر کی سڑکوں کو پانی سے غسل دیا جاتا تھا ۔ آج  وہی سڑکیں گرد آلود تھیں بلکہ اکثر جگہیں تو سرخ رنگ  جذب کرتے کرتے اپنا رنگ ہی کھو بیٹھی تھیں۔ کبھی فضا  مختلف  اللسان  انسانوں کی محبت سے  معطر تھی ۔ تو آج  وہی فضا لسانی و مذہبی تعصب سے آلودہ تھی ۔ روزگار و تجارت کے مواقع  نے اس شہر کو  باقی شہروں میں ممتاز کر رکھا تھا ۔   اس شہر نے  ہر ایک کو پناہ دی تھی ،پناہ ہی نہیں بلکہ اپنے سینے سے لگایا ، ہر ضروریات زندگی سے لیکر آسائش زندگی تک سب کچھ مہیا کیے ۔ شاید  اس شہر کی دریا دلی دشمنوں کو راس نہ آئی ، دشمن تو دشمن محافظ شہر بھی  در پردہ دشمنوں کے  نمائندہ ہوگئے ۔  اس ترقی یافتہ دور میں درپردہ عناصر کب تک  مخفی رہ سکتے ہیں ۔  
اس  کے لیے اپنا شہر  اس طرح سے جلتا دیکھنا  اب ممکن نہ رہا تھا ۔  وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا اپنا خون جلاتا رہتا ۔ لیکن دعاوں کے علاوہ وہ کوئی مضبوط قدم نہ اٹھا سکا ۔ اب شاید وہ کمزور ہو گیا تھا ۔ اسی لیے اس نے ہجرت کا فیصلہ کیا ۔ وہ  اکیلا ہی نہ تھا جو اس شہر بے اماں سے کہیں دور زندگی کی تلاش میں نکل نہ جانا چاہتا ہو ۔ جلتا ہوا شہر اپنے  باسیوں کو دیکھتا رہا اور جلتا رہا ، وہی لوگ جنہیں اس شہر نے اپنا سینہ سینچ کر بسایا تھا ، آج وہی سب اسے تنہا دشمنوں کے ہاتھوں جلتا چھوڑ کر چلے جا رہے تھے ۔
اس نے کسی پر امن جگہ کی تلاش میں سفر کا آغاز کیا ۔۔  مختلف  شہروں ، دیہاتوں ،پہاڑوں ، صحراوں کی خاک چھانتا  ایک ایسی بستی میں پہنچا جہاں  چند  گنتی کے گھر تھے ایک چھوٹا سا بازار تھا ۔اور مختصر کھیت کھلیان اس بات کا پتہ دے رہے تھے کہ یہی ان لوگوں کی گزر بسر کا ذریعہ ہے ۔ اس کو چند لوگوں سے مکالمے کے بعد علم ہوا کے یہ خوش باش لوگ مسلمان تو ہیں لیکن انہیں دین و دنیا کا کچھ نہیں پتہ ۔۔ بس  یہ کہ مسلمان ہیں اپنے آباء سے سنتے آئے تھے ۔ گاوں کے باسی باہری دنیا سے لاتعلق رہنا پسند کرتے تھے  ۔ ان کے خیال میں  بڑے بڑے شہروں میں انسان نما جاندار بستے ہیں ۔ قصہ مختصر وہ لوگ اپنی زندگی میں خوش تھے ۔
یہ سب دیکھ کر وہ  تو لرز کر ہی رہ گیا ۔
یہاں  اب تک علم کی روشنی پہنچی کیوں نہیں ؟  یہاں تک کہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محرومی کیوں ؟
 کیا یہ دیہات ریاست کی حدود سے باہر ہے ؟
 یا  اس ریاست کے  ذمہ داران اور باسی اپنی ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھے ہیں ؟
ہمیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا وارث کہا گیا تھا ۔ پھر ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون کون سی تعلیمات عام کی ؟ اور کون کون سی تعلیمات اپنے آپ پر ہی رائج کی ؟
اسے رہ رہ کر اپنے جلتے شہر کا خیال ستانے لگا ۔ وہاں تو علم  کی گنگا بہتی ہے ۔ لیکن کیا اس علم کا کوئی فائدہ ہے جس  کے ہوتے ہوئے بھی  آپس میں محبت ، میل جول ، امن  و شانتی سب کچھ نابود ہوتے جارہے تھے ؟
وہ سوچتا جا رہا تھا اور خوف و ندامت کی ملی جلی کیفیت  نے اسےہلا کر رکھ دیا تھا ۔ آج اتنے عرصے بعد وہ اپنی زندگی کا محاسبہ کر رہا تھا ۔۔  کیا کھویا کیا پایا ۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاتھ ملنے کے سوا  اسے کچھ سمجھ نہ آیا ۔
ایک درخت کے سائے میں جا کر درخت کے تنے سے ٹیک لگائے بیٹھ گیا ۔   گاوں والوں اور اپنی زندگی کا موازنہ کرنے لگا ۔ اس کے ساتھ ہی اسے بہت کچھ مثبت  مستقبل  کے لیے نظر آنے لگا ۔  ۔ اسے خیال آیا کہ شاید اس کا یہاں آنا بلا مقصد نہیں ہے۔ اس کی تعمیری سوچ نے بھرپور انگڑائی لی اور اس کو اپنا پہلا قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا ۔ اس نے آسمان کی طرف نظریں اٹھا دیں  اور اپنے رب سے معافی تلافی کرتا رہا اور شکریہ بھی کہ اس کریم رب نے اسے اب ایک موقع عطا کیا تھا ۔
ابتداء کیسے کی جائے ؟ گاوں کے مکھیا کے پاس  جاتا ہوں وہ ہی کارآمد ثابت ہوسکتا ہے لہذا  وہ لوگوں سے پوچھتا ہوا مکھیا تک جا پہنچا ۔۔اور اپناتفصیلی تعارف کروایا  ۔۔۔
اور استدعا کی کہ  اسے اس گاوں میں ایک مسجد بنانے کی اجازت دی جائے ، جہاں وہ ان گاوں والوں کو اسلام کے کم از کم بنیادی علوم سے آگاہ کر سکے ۔ پنج وقتہ نماز کی ادائیگی ممکن ہو، وغیرہ وغیرہ ۔ خصوصا  جہاں سے وہ ابتداء کرنے جا رہا تھا  اس  کے لیے دور رس سوچ کا حامل ہونا بہت ضروری تھا، ۔
اس نے شہر سے مولویوں کو بلانے کی سوچ کو جھٹک دیا تھا ۔ وہ بلاتا بھی تو کس کو؟ایک کو بلاتا تو پیچھے سے کوئی دوسرا بھی آنپہنچتا  ، اس کی بھنک کسی اور کو پڑتی تو پھر کوئی اور ، اور اس طرح یہ گاوں بھی  اکھاڑہ بن جاتا ۔ نیکی گلے پڑجاتی۔ اس نے یہی تہیہ کیا کہ پہلے وہ انہیں بنیادی علوم سے آشنا کرے گا اور لکھنے پڑھنے  کے قابل کرے گا ۔ اور علم کے سمندر میں انہیں غوطہ زن چھوڑ دے گا ۔ پھر وہ خود ہی فیصلہ کرنے کے قابل ہوجائیں گے صحیح غلط کے تو پھر وہ آگے کا سوچے گا ۔
 مکھیا  نیک آدمی تھا ۔   وہ اس گاوں کے باہر کے حالات سے واقف تھا اسی وجہ سے اس کی کبھی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ ایسا قدم وہ اٹھائے ۔ مکھیا کو نہ جانے کیوں اس پر یقین کرنے کا من کر رہا تھا ۔۔۔ مکھیا کو وہ  فرشتہ معلوم ہو رہا تھا ۔ اس نے بڑی ہی خوشدلی سے  اسے صرف  اجازت ہی نہیں  دی  بلکہ مزدور بھی فراہم کر دیے ۔
چند ہی دنوں میں مسجد کی بنیاد ڈالدی گئی ۔  مسجد کا نقشہ  ندیم نے خود ہی تیار کیا تھا ۔  مسجد کی دیواریں  کھڑی ہونے لگیں ۔  اس  نے ہوا اور روشنی  کی سہولت کے پیش نظر ہر دیوارمیں مختلف زاویوں سے ہر  دیوار کےبالکل آمنے سامنے  کھڑکیاں بنوائیں ۔  اسی طرح سے  چند مختلف   کاریگری کے بعد مسجد تیار ہوگئی ۔
درس و تدریس ، صوم و صلوہ کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔جس کے لیے اس نے اپنی تمام جمع پونجی لگا دی تھی اور کتب کا اچھا خاصا ذخیرہ  حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ کچھ ہی عرصے میں جب اسے محسوس ہوا کہ گاوں کے لوگوں میں کافی شعور آنے لگا ہے تو ۔ اس نے  واپس شہر جانے کا فیصلہ کیا کہ وہ مزید چند لوگوں کو ساتھ لائے  جو ان کو  عصری علوم سے بھی آشنا ہونے میں مدد دیں گے ۔ پھر  ہم یہاں اسکول ، کالج ، مدرسوں کا قیام بھی عمل میں لانے کا سوچیں گے ۔
مکھیا جی  !  کیا خیال ہے ۔۔۔ مزید چند درد مند افراد کو بلا لیا جائے ۔ جو ہمیں مزید آگے بڑھنے میں مدد دیں ؟
کہاں سے اور کیسے بلاو گے بیٹا ۔ اور کوئی بنا فائدے کے ہماری مدد کرنے پر رضا مند ہوگا بھی کیسے ؟ مکھیا نے اس  کی بات سن کر ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے  کئی سوال کر ڈالے ۔
ہم کوشش تو کر سکتے ہیں مکھیا جی ۔۔ انسان دوست۔۔۔ بھلا۔۔۔ ناپید تھوڑی نا ہوئے ہیں ۔  میں شہر جا کر اپنی بساط  کےمطابق کوشش کرتا ہوں ۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے ۔۔ اللہ  خیر کرے گا ان شاءاللہ ۔
تھوڑے ہی بحث مباحثےے کے بعد مکھیا جی نے رضا مندی ظاہر کردی ۔ اور وہ شہر کو چل پڑا ۔
کچھ ہی دنوں کی محنت کے بعد  بیس افراد اس کے ساتھ تھے ۔ جو کہ  کافی تھے ۔ اپنے اپنے فن میں ماہر وہ لوگ جب اس گاوں میں پہنچے تو اس  کے ساتھ آئے لوگوں نے اس کی محنت کو خوب سراہا اور خوشی کا اظہار کیا کہ اب وہ لوگ یہاں سے اپنے نئے سفر کا آغآز کریں گے اور اس چنگاری کو اس سر زمین کے چاروں کونوں تک پھیلا ئیں گے ۔ 
وہ  اور اس کے ہمرکاب  ۔۔مکھیا کے ساتھ بیٹھے کافی خوش،   مستقبل کی پلاننگ کر رہے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف شہر سے ان کے پیچھے پیچھے دو  دشمن قوتوں کے آلہ کار بھی اس گاوں میں آپہنچے تھے ۔
جب وہ اس تگ و دو میں تھا کہ چند معتبر افراد کو اکھٹا کر ے  اس وقت اس کی کوششوں کی بھنک ان لوگوں کو پڑ چکی تھی ۔ اور انہوں نے اس کے پیچھے اپنے  بہت ہی طاق دو بندے بھیج دیے تھے  ۔
ان دونوں نے  باریک بینی سے گاوں کا جائزہ لیا ۔ ان کی نظر جب مسجد پر پڑی تو  ان کی تو بانچھیں کھل گئیں ۔ وہ سمجھ گئے ہو نہ ہو یہ تمام لوگ ایک ہی وقت میں ایک ساتھ اسی جگہ پر مل سکتے ہیں ۔ اور دونوں پلاننگ کرنے لگے ۔ 
آخر کار یہ طے ہو ا کہ جیسے ہی نماز شروع ہو ایک دائیں کھڑکی سے جبکہ دوسرا بائیں کھڑکی سے ایک ساتھ  حملہ کریں گے ۔  ان میں سے پہلا ، دوسرے کو اشارہ دے گا  دونوں کے پاس موجود  بیپ کے ذریعے اور فائر کھول دیا جائے گا ۔ 
مغرب کی نماز کا وقت تھا ۔وہ  اور اس کے ہمراہی ، مکھیا اور گاوں کے افراد آنے والی قیامت سے بے نیاز مسجد کی طرف رواں تھے۔ مسجد کے وضو خانے سے سب نے وضو کیا ۔ اور آہستہ آہستہ تمام افراد مسجد میں جمع ہوچکے تھے ۔
چاچا زمان نے اقامت شروع کی  ۔ اس نے پروفیسر حامد صاحب کو امامت کے لیے آگے کر دیا ۔
اللہ اکبر کی صدا گونجی ۔ حامد صاحب  کی دل کو موہ لینے والی قرات کا آغاز ہوا ۔ اور یہ دونوں بد بخت اپنی پناہ گاہ سے نکلے اور مسجد کے دونوں اطراف کی کھڑکیوں میں اپنی اپنی جگہ سنبھال لی ۔
حامد صاحب کی قرات جاری تھی ۔ نمازیوں پر رقت طاری تھی ۔ اور یہ بد بخت اپنی اپنی بندوقوں  کے ساتھ تیار کھڑے تھے ۔
ایک ۔ ۔۔ دو ۔۔۔۔ تین ۔۔۔۔ پہلے نے تین کہا اور اگلے کو بیپ دی ۔ دونوں  کی بندوقوں سے  دل دہلا دینے والی آواز  نے مسجد کی فضا  آلودہ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ دو سے زائد فائر نہ ہو سکے ۔
اس بد بخت کے تین کہنے کے ساتھ ہی امام صاحب کی اقتداء میں نمازی رکوع میں جا چکے تھے ۔ اور یہ دونوں بد بخت ایک دوسرے کی ہی گولیوں کا  نشانہ بن چکے تھے ۔



فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...