Wednesday, October 10, 2018

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

شہیر

علم کی حیثیت ٹکوں کی رہ جائے گی کیسے سوچا جاسکتا تھا ؟ کبھی ماسٹر ، استاذ نے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔  محلے کے بدنام ترین لوگ بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے ،  اسکی زندگی عموما سادہ اکثر کسمپرسی کی حالت میں ہی دیکھی گئی ۔ مگر اس کے چہرے پر اطمینان جھلکتا تھا ۔ احساس ذمہ داری کی شکنیں اس کی پیشانی سے عیاں ہوتی تھیں ۔ جیسے سارے جہاں کا درد اس کے سینے میں ہو  ۔
ہم بچپن میں بڑوں سے پوچھا کرتے تھے تعلیم کی آخری حد کیا ہے ؟ ہمیں بتایا جاتا ویسے تو کوئی حد نہیں مگر آخری ڈگری جو سب سے بڑی ڈگری کہلاتی ہے وہ " پی ایچ ڈی " ہے ۔ اس وقت تو اس کے معنی کا بھی ادراک ممکن نہیں تھا ۔ مگر اس نام کا ایک رومان بسا تھا ذہن میں ۔ کہ جس شخص نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ہو ۔ اس کا ذہن کس قدر وسیع ہوگا اور اس کے سینے میں علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوگا ۔ کتنی دنیا اس سے مستفید ہوگی ؟  جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ، علم کے معانی کا ادراک کچھ کچھ ہوتا گیا ۔ مگر ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک عظیم المیے سے بھی سامنا ہوا ۔ جہاں علم کی حیثیت ارزاں  ہوتی دیکھی ۔ جہاں ڈگریوں کو  علم کا مساوی درجہ دیا جانے لگا ۔ اور مقصد ڈگری کے معنی ملازمتوں کا حصول جانا گیا ۔ جتنی اعلی ڈگری اتنی اعلی " نوکری " ۔ یہ ایک ایسا تضاد تھا جو بمشکل سمجھ آتا ۔ آج اس تضاد نے یہ دن بھی دکھایا کہ  اعلی ترین ڈگری یعنی اعلی ترین " علمی سند " رکھنے والے  " نوکری" نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں ۔ اک آہ سی نکلتی ہے ۔ یہ کیسا علم ہے ؟   یہ کیسی سند ہے ؟ یا معاشرہ علم والوں سے متنفر ہوچکا محض " سرمایہ دارانہ پروڈکٹ" کا طلبگار رہ گیا ہے ؟

Sunday, October 7, 2018

دھوکہ

جاگیردار کے " منہ " سے جمہوریت ، قانون ، اقدار ، روایات ، ثقافت ، تہذیب جیسی باتیں  قطعا اثر انداز نہیں ہوتیں ۔ جنہوں نے انسانوں کو غلام اور باندی بنا رکھا ہو وہ سیاست میں صرف اپنی جاگیرداری کی حفاظت کے لیے ہی وارد ہوئے ہیں  ۔ ان کی باتیں ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ۔ جاگیردار جاگیردار ہی ہوتا ہے خواہ وہ  آکسفرڈ کا ڈگری یافتہ کیوں نہ ہو ۔


شہیر

زبان و بیان

زبان و بیان

شہیرشجاع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غَلَطْ کو غَلْطْ مت کہو
غَلْطْ غَلَطْ ہوتا ہے ۔۔

الفاظ کی تصحیح ( درستی اور درستگی غلط املا ہیں ) یا "ان کا درست تلفظ" ( "ان کی درستی "غلط ترکیب ہے )  اس طرح سکھایا جاتا تھا ۔ اب تو دیکھاگیا ہے لہجوں کو ہی زبان کا درجہ دیے جانے پر دانشور مصر ہیں ۔ جان لینا چاہیے لہجہ "جیسا"بھی ہو( "کوئی "بھی ہو غلط ترکیب ہے ) جب لکھا جائے گا تو املا و ترکیب درست ہونا ضروری ہے ۔ اس کی توجیہ لہجوں کی نسبت نہیں پیش کی جا سکتی ۔ آپ انگریزی کے پرچے میں a اور an کی غلطی پر پورا نمبر کاٹ لیتے ہیں ۔ سارا زور پھر اپنی ہی زبان پہ کیوں ؟ جیسے مرد کا سارا زور اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی پر ، قانون کا غریب پر ، انصاف کا نادار پرچلتا ہے ۔

ایک عمومی غلطی کی نشاندہی کی جسارت کرنے جارہا ہوں ۔۔
جیسے حیرانی کو حیرانگی ، ناراضی کو ناراضگی ، اسی طرح مزید بھی ہونگے ۔ بھئی اگر کلیہ یہی ہے تو بے خوابی کو بے خوابگی کیوں نہیں لکھتے ؟ جان لینا چاہیے جن الفاظ ( صفات ذاتی یا اسم) کے آخر میں "ہ" آتا ہو وہی الفاظ(اسم کیفیت میں )  " گ" میں تبدیل ہونگے ۔ بصورت دیگر محض " ی " کا اضافہ ہوگا ۔

جیسے: وابستہ سے وابستگی
۔۔۔۔۔۔۔ وارفتہ سے وارفتگی
۔۔۔۔۔۔۔ کمینہ سے کمینگی
۔۔۔۔۔۔۔ نغمہ سے نغمگی
۔۔۔۔۔۔۔ بیگانہ سے بیگانگی
اسی طرح دیگر ۔۔۔

جبکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیران سے حیرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناراض سے ناراضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست سے دوستی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہم سے فہمی
وغیرہ وغیرہ

اس پر ایک تنقید یوں کی جا سکتی ہے کہ " کوڑھ " سے "کوڑھی" کیوں ہے کوڑھگی کیوں نہیں ؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کوڑھی " کیفیت" نہیں ہے بلکہ "صفت "کی ہی قسم ہے ۔

Friday, October 5, 2018

وصل کا لمحہ



وہ بستر پہ لیٹا یک ٹک چھت گھور رہا تھا ۔ ذہن متلاطم تھا ۔ دل بے چین تھا ۔ جوں جوں وصل کالمحہ قریب محسوس ہو رہا تھا ، اک نیا کرب انگڑائی لینے لگا تھا ۔ اس نے جو وصل کی دعائیں مانگی تھیں ، راتوں کی تنہائی میں رویا تھا ، گڑگڑایا تھا ۔  مجمع میں  بھی تنہا تنہا سسکتا تھا ۔ وصل کی تمنا میں پل پل تڑپا تھا ۔ خوابوں میں وصل کو فصل گلوں میں مہکتے ، چہکتے محسوس کرتا تھا ۔ اس  خوشبو کو بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے  گھونٹ گھونٹ سانسوں کے ذریعے روح کو سرشار کیا کرتا تھا ۔ اب جب وہ لمحہ قریب تر تھا ،  کرب کی سسکی نے اس کے اند رہلچل مچا دی تھی ۔  اس نے اپنے آپ کو سمیٹا ۔ چادر کھینچ کر سر تک ڈھانپ لی ۔  نیند آہستہ آہستہ دستک دینے لگی ۔
وصل و فراق باہم بغلگیر ہورہے تھے۔
شہیر


Wednesday, September 12, 2018

مظلومیت ، بازارِ جنس

مظلومیت بھی ایک جنس ( پروڈکٹ ) ہے جس کا بازار ، بازار حسن کی مانند لگتا ہے ۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں شوخ حسیناوں کا بدن اپنی اجناس کی نمائش کے لیے چنا جاتا ہے جبکہ یہاں خون اور آنسووں پر اپنی ذات کو بیچا جاتا ہے اور جو ذات بازار میں نمایاں ہوجائے اسے ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے ۔۔۔
وہاں کم از کم وہ شوخ چنچل حسینہ اپنے بدن کو پیش کرنے پر مال کماتی ہے ۔۔۔ یہاں خون آلود اجسام ، آنسووں سے لبریز سیاہ چہرے چیتھڑوں میں ملبوس انسان کچھ دیر کے لیے اپنے دلوں کو امید کی کرنوں سے منور کرلیتے ہیں جو کچھ ہی عرصے بعد کسی نئے خریدار کی یاد میں یاس و حسرت میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔۔

شہیر


Wednesday, August 29, 2018

سماج

اقبال نے کہا تھا ۔۔۔ 

تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں 
میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں 


ہم اس عشق کی ابتداء تک بھی نہ پہنچ سکے ۔ پراپنی زندگیوں میں اپنی سوچوں  اور اپنے برتاو میں انتہاوں تک پئنچ گئے ۔ 
فوری ردعمل ہمارے ہیجان کو ظاہر کرتا ہے ۔ اور کسی بھی سوچ کی بنیاد پر ہم ہر عمل کو پرکھنے پر مجبور ہیں ۔
آج اس سوچ کی وجہ عمران خان کو قرار دیا جاتا ہے ۔ جبکہ ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہم ہر سطح پر انتہا پسندی کا شکار ہیں ۔ خاندانی معاملات سے لیکر سماجی رویوں تک ہمارا رویہ انتہا پسندانہ ہے ۔ 
جہاں تک سیاسی  وابستگی کی بات ہے ۔ اس وابستگی نے ہمیں اس سماجی فکر کا آئینہ دکھایا ہے ۔ میں ن لیگی دوستوں کی بات نہیں کروں گا کہ میں پی ٹی آئی کا سپورٹر ہوں تو میری بات اپنا ابلاغ  نہیں  کر پائے گی ۔پی ٹی آئی کے دوستوں کو لگتا ہے   وہی محب وطن ہیں اور درست سوچ انہی کی عقل کو گوارا ہے ۔ اپنے مخالفین کے لیے سخت الفاظ کا استعمال ان کے ہاں عام ہے اور سب سے زیادہ جو مسئلہ گمبھیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے ، وہ علماء کے لیے ان کی زبان ہے ۔ علماء پہلے ہی اپنا احترام نسبتا کھو چکے ہیں جس نے عوام کو ان سے بتدریج متنفر کیا ہے اور آج یہ صورتحال ہے کہ جو منہ میں آئے کہہ دیا جائے ۔ 
اس کی ذمہ داری جمعیت اور جماعت اسلامی کے دوستوں پر بھی عائد ہوتی ہے اگر پی ٹی آئی خبط عظمت میں مبتلا ہے تو جمعیت و جماعتی " زعم تقوی " میں مبتلا ہیں اور ہم جاہلین و بد اعمالوں کے لیے ان کا رویہ نہایت افسوسناک ہے ۔ لہذا علماء و دیندار طبقے کے لیے دشنام طرازی عام سی بات ہوتی جا رہی ہے ۔ 


ہم ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا کر ، مکافات عمل کہہ کر اپنے آپ کو دلاسہ تو دے سکتے ہیں ۔ مگر اس سے یہ توقع رکھنا کہ سماجی شعور ارتقاء پذیر ہوگا ایک دھوکہ ہی ہے ۔ 

Tuesday, April 10, 2018

Jinnah's interview with Beverley Nichols ​

Jinnah's interview with Beverley Nichols 




 
The reasons adduced for joint economic collaboration between India and Pakistan are precisely those advanced against the Partition of the sub-continent. Arguments, decisively settled by Partition, have been resurrected. The objections of the Indian National Congress to a division of the sub-continent's economy and security forces had been overruled at the creation of Pakistan by the Muslim's decision to be 'separate and equal'. Many years ago, in a conversation between Mr. Jinnah and the British author Beverley Nichols, the economic and defence
consequences of Partition were discussed. 



CHPTER III

DIALOGUE WITH A GIANT

TAKEN FROM A BOOK Verdict on India by Beverley Nichols
Publishers: JONATHAN CAPE, THIRTY BEDFORD SQUARE, LONDON

I have called Mr. Jinnah ‘the most important man in Asia’. That was to ensure you kept him spot lit in your mind. Like all superlatives the description is open to argument, but it is not really so far from the truth. India is likely to be the world’s greatest problem for some years to come, and Mr. Jinnah is in a position of unique strategic importance. He can sway the battle this way or that as he chooses. His 100 million Muslims will march to the left, to the right, to the front, to the rear at his bidding and at nobody else’s…. that is the point. It is not the same in the Hindu ranks. If Gandhi goes, there is always Nehru, or Rajagopalachari or Patel or a dozen others. But if Jinnah goes, who is there?

By this I do not mean that the Muslim League would disintegrate – it is far too homogeneous and virile a body – but that its actions would be incalculable. It might run completely off the rails, and charge through India with fire and slaughter; it might start another war. As long as Jinnah is there, nothing like this will happen.

And so, you see, a great deal hangs on the grey silk cord of that monocle.

I first met him on December 18th, 1943. He said he could give me half an hour, and gave me nearly three. In that space of time he surveyed a very wide field; the gist of his remarks, however, the living essence, is in the following dialogue, which he has been good enough to edit.

Here we are then, sitting in a quiet room looking out on to a garden, discussing one of the most important problems in the world, with man most competent to solve it.

II

SELF The most common accusation of your critics is that you have not defined Pakistan with sufficient precision – that there are many details of defence, economics, minorities, etc., which you have left deliberately vague. Do you think that is a just criticism?
JINNAH It is neither just nor intelligent, particularly if it is made by an Englishman with any knowledge of his own history. When Ireland was separated from Britain, the document embodying the terms of separation was approximately ten lines. Ten lines of print to settle a dispute of incredible complexity which has poisoned British politics for centuries” All the details were left to the Future – and the Future is often an admirable arbitrator. Well, I’ve already given the world a good deal more than ten lines to indicate the principles and practice of Pakistan, but it is beyond the power of any man to provide, in advance, a blue-print in which every detail is settled. Besides, Indian history proves that such a blue-print is totally unnecessary. Where was the blue-print when the question of Burmah’s separation was decided at the Round Table Conference? Where was the blue-print when Sind was separated from Bombay? The answer, of course, is ‘nowhere’. It didn’t exist. It didn’t need to exist. The vital point was that the principle of separation was accepted; the rest followed automatically.

SELF        How would you describe the vital principles’ of Pakistan?
JINNAH In five words. The Muslims are a Nation. If you grant that, and if you are an honest man, you must grant the principle of Pakistan. You would have to grant it even if the obstacles were a hundred times more formidable than they actually are. Of course, if you do not grant it, then …. He shrugged his shoulders and smiled …..Then, there is an end of the matter.

SELF When you say the Muslims are a Nation, are you thinking in terms of religion?
JINNAH Partly, but by no means exclusively. You must remember that Islam is not merely a religious doctrine but a realistic and practical Code of Conduct. I am thinking in terms life, of everything important in life. I am thinking in terms of our history, our heroes, our art, our architecture, our music, our laws, our jurisprudence…..

SELF   Please, I would like to write these things down.
JINNAH     (AFTER A PAUSE) In all these things our outlook is not only fundamentally different but often radically antagonistic to the Hindus. We are different beings. There is nothing in life which links us together. Our names, our clothes, our foods – they are all different; our economic life, our educational ideas, our treatment of women, our attitude to animals … we challenge each other at every point of the compass. Take on example, the eternal question of the cow. We eat the cow, the Hindus worship it. A lot of Englishmen imagine that this ‘worship’ is merely a picturesque convention, an historical survival. It is nothing of the sort. Only a few days ago, in this very city, the cow question became a matter for the police. The Hindus were thrown into the greatest agitation because cows were being killed in public. But the cow question is only one of a thousand. (Apause) What have you written down?

Self               I have only written ‘The Muslims are a Nation’.
JINNAH     And do you believe it?
SELF   I do.

JINNAH (with a smile) What other questions have you got there?

SELF                         The first is economic. Are the Muslims likely to be richer or poorer under Pakistan? And would you set up tariffs against the rest of India?

JINNAH:                    I'll ask you a question for a change. Supposing you were asked which you would prefer ... a rich England under Germany or a poor England free, what would your answer be?

SELF:                   It's hardly necessary to say.

JINNAH:           Quite. Well, doesn't that make your question look a little shoddy? This great ideal rises far above mere questions of personal comfort or temporary convenience. The Muslims are a tough people, lean and hardy. If Pakistan means that they will have to be a little tougher, they will not complain.

But why should it mean that? What conceivable reason is there to suppose that the gift of nationality is going to be an economic liability? A sovereign nation of a hundred million people - even if they are not immediately self-supporting and even if they are industrially backward - is hardly likely to be in a worse economic position than if its members are scattered and disorganized, under the dominance of two hundred and fifty million Hindus whose one idea is to exploit them.

How any European can get up and say that Pakistan is 'economically impossible' after the Treaty of Versailles is really beyond my comprehension. The great brains who cut Europe into a ridiculous patchwork of conflicting and artificial boundaries are hardly the people to talk economics to us, particularly as our problem happens to be far simpler.

SELF               And does that also apply to defense?

JINNAHOf course it applies to defense. Once again I will ask you a question. How is Afghanistan defended? Well? The answer is not very complicated. By the Afghans. Just that. We are a brave and united people who are prepared to work and, if necessary, fight. So how does the question of defense present any peculiar difficulties? In what way do we differ from other nations? From Iran, for example? Obviously, there will have to be a transition period. We are not asking the British to quit India overnight. The British have helped to make this gigantic muddle, and they must stay help to clear it up. But before they can do that, they will have to do a lot of hard thinking. And that reminds me – I have something I would like to show you.

He excused himself and left the room. I lit a cigarette and waited. And suddenly I realized that something very remarkable was happening, or rather was notwas not loosing my temper. Jinnah had been almost brutally critical of British policy (though I have not quoted his remarks in the4 above dialogue), but his criticism had been clear and creative. It was not merely a medley of wild words, a hotchpotch of hatred and hallucination, in the Hindu manner. It was more like a diagnosis. The difference between Jinnah and the typical Hindu politician was the difference between a surgeon and a witch doctor. Moreover, he was a surgeon you could trust, even though his verdict was harsh.

“The British must realize,’ he had said to me before we tackled the problem of Pakistan, ‘that they have not a friend in the country. Not a friend.’

A Hindu politician would have said that at the top of his voice with delight. Jinnah said it quietly, with regret. Here he was again. In his hand he carried a book.

JINNAH:                  You will remember I said, a moment ago, that the British would have to do a lot of hard thinking. It's a habit they don't find very congenial; they prefer to be comfortable, to wait and see, trusting that everything will come right in the end. However, when they do take the trouble to think, they think as clearly and creatively as any people in the world. And one of their best thinkers at least on the Indian problem was old John Bright. Have you ever read any of his speeches?

Monday, April 9, 2018

معاشرتی زوال

معاشرتی زوال
شہیر شجاع
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔  پاکستان جب معرض وجود  میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین  کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ   دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس  خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن  اور دلوں میں حسد نے  جگہ بنالی ۔ 
۔ تخریب ہمیشہ داخل سے ہی شروع ہوا کرتی ہے خواہ خارج   سے  نیت و عمل شامل ہو یا نہ ہو ۔ داخل سے جب تک رضا شامل نہ ہو تخریب کا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مختلف صورتوں میں اس خطے میں تخریب کاروں نے اپنا عمل دخل قائم کیا اور مختلف پہلووں پر اپنے اثرات کا نفوذ کیا ۔ معاشرے  کی ہر ہر قدر کو نشانہ بنایا  جاتا رہا جس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ سماج سے تعلیمی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی قدریں  اپنی توانائی کھونے لگیں ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہر ذہن کسی نہ کسی مقام پر " بزعم خود" والی صورتحال کا شکار ہے ۔ ہر فکر کا حاصل انتہا ہے ۔ اختلاف کا مطلب قتل ہے ۔ اقرار کا مطلب اطاعت ہے ۔ انکار کا مطلب ارتداد ہے ۔ غرض سماج اپنی سب سے اعلی قدر " عقل" سے محرومی پرنازاں ہے ۔
یہاں آج بھی ستر سال پہلے کے واقعے پر سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ اور ہزار سال  پہلے کے واقعے پر " پر  مغز " بحث ہونے کے بجائے " پر بغض " بحث ہوا کرتی ہے ۔  فکر کا جوہر " انتہا" ہوچکا ہے ۔
" فرد سے لیکر طبقات تک ، ہر ایک  مخالف پر تنقید کے لیے دیوان پر دیوان لکھ سکتا ہے ، مگر تعمیر کے لیے اذہان خالی ہیں ۔ "

    

Thursday, April 5, 2018

میرا جسم میری مرضی


میرا جسم میری مرضی 
شہیر شجاع
بلال الرشید صاحب فرماتے ہیں ۔ "انسان ایک جنگل میں جائے وہاں ایک خوبصورت اور پیچیدہ عمارت کھڑی ہو تو شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہاں کوئی ذہین مخلوق تھی ، جس نے یہ عمارت بنائی ۔ انسان ہر کہیں ڈھونڈتا ہے ، اسے کوئی نہیں ملتا ۔ اب وہ سوچتا ہے کہ اس عمارت سے فائدہ اٹھاوں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ فرض کرلیا جائے کہ یہ عمارت خودبخود بنی ہے کیونکہ  اگر کسی معمار اور کسی مالک کی موجودگی تسلیم کرلی گئی  تو پھر انسان اسے استعمال تو نہیں کرسکتا ۔ اسے یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ جیسے ہی اصل مالک آیا ، عمارت خالی کرنا پڑے گی ۔ اسی طرح ہمارے جسم کی جو پیچیدہ عمارت موجود ہے ، یہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ خدا کی موجودگی تسلیم کر لیں تو پھر آپ کو اپنی خواہشات سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ۔ بیٹھ کر پانی پینا ہے ، بسم اللہ پڑھ کر لقمہ توڑنا ہے ۔ حلال ذرائع سے کمانا ہے ۔ انسان للچا کر یہ سوچنے لگتا کہ کیوں نہ خدا کے وجود کا انکار کردیا جائے ۔ اس طرح اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزار سکوں گا ۔ خدا کون سا سامنے کھڑا احکامات دے رہا ہے ۔ نہ ہی  کوئی فوری سزا ہے ۔ "
مگر یہاں دعوی  ملحد کی جانب سے نہیں بلکہ مومنات کی جانب سے وارد ہوا ہے ۔  یہ اس امر کی دلیل ہے کہ " حیا جو رخصت ہوتی ہے تو اپنے ساتھ ایمان بھی لے جاتی ہے  " ۔   حیا نہ صرف ایمان ، بلکہ معاشرے کی چولیں ہلا دیتی ہے ۔ تہس نہس کر کے رکھ دیتی ہے ۔  عالم مغرب میں حقوق نسواں کی تحاریک نے زور پکڑا اس تحریک کو  کامیابی ملی ۔   صنف نازک جو چاہتی تھی اسے مہیا کردیا گیا ۔ فرق بس اتنا ہے پہلے عورت ایک دو یا تین مردوں  کی زیادتی سہتی تھی ، اب  وہ کئی مردوں کی زیادتیاں  بخوشی قبول کرتی ہے ۔   یعنی " میرا جسم میری مرضی " ۔
انسان  ہمیشہ غلبے کی خواہش تلے ہی مارا جاتا ہے ۔ یہاں تک آخری صورت میں الحاد کی رسی کو تھام کر مطئن رہنے کی لاحاصل کوشش کرتے ہوئے رخصت ہوجاتا ہے ۔   

Saturday, March 10, 2018

پینٹنگ

پینٹنگ

شہیر شجاع

جمیل مسیح   ۔۔ ہمیشہ ہنتے مسکراتے رہنا ۔ خوش رہنا ، بلا کا ظرف پایا تھا اس نے ۔ وہ   مکینک تھا ۔ واشنگ مشین ، اے سی وغیرہ ٹھیک کرنا اس کا پیشہ تھا ۔ہم  ایک تھالی میں کھانا بھی کھاتے ۔ ایک ہی گلاس میں پانی بھی پیتے ۔ یہ میرے لیے انوکھا تجربہ تھا ۔ کیونکہ بچپن سے کچھ الگ ہی ذہن بنا ہوا تھا ۔ جس کے بالکل برعکس میں چل پڑا تھا ۔ وہ جس دکان پر ملازم تھا اس کا مالک عظیم بھی میرا دوست تھا ۔ اسی کی توسط سے میں جمیل سے ملا تھا ۔ وہ صبح دکان کھولتا شام تک کام کرتا ۔ خواہ وہ دکان پر ہو یا کسٹمر کے گھر جا کرکام کرنا ہو ۔ وہ مکمل " ایمانداری " کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتا ۔ اتوار کو جب وہ صبح تیار ہوتا ۔ اور چرچ جانے لگتا تو  ایک نہایت ہی معصوم اور پیارا سا مذہبی جذبہ اس کے چہرے سے عیاں ہوتا ۔  میں مسکرائے بغیر نہ رہتا ۔
اس دن ہمارا پکنک کا پروگرام تھا ۔ سوچا کہیں ساحل سمندر کی جانب چلا جائے ۔ کچھ ہلا گلا کیا جائے ۔ کچھ باربی کیو ، کچھ سمندر کے کھارے پانی میں ڈبکیا ں ۔ کہیں صیاد ہو کر صید مچھلی ۔ سو  پچھلی رات تیاریاں مکمل کرکے ہم چار لوگ صبح سویرے نکل کھڑے ہوئے ۔ میں ، جمیل ، عظیم اور عظیم کے بزرگ والد جو کافی ضعیف اور بیمار بھی تھے ، اتنے کے اپنی شلوار  صاف رکھنے پر اختیار کھو چکے تھے  ۔ ڈرائیو عظیم کر رہا تھا۔
ڈیش بورڈ سے اوپر بیک مرر  پہ آیت الکرسی لٹک رہی تھی ۔ اور ساتھ ہی مختلف رنگوں کے امتزاج سے کوئی خوبصورت پینٹنگ بھی لٹکا رکھی تھی ۔ میری نظر جب بھی اس پینٹنگ سے ٹکراتی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ۔ وہ رنگ مجھے تحلیل ہوتے محسوس ہوتے ۔  مختلف رنگوں کا امتزاج آہستہ آہستہ کسی ایک رنگ میں تبدیل ہورہا ہو ۔ اور میرے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل جاتی ۔ کچھ تارے سے جھلملانے لگتے ۔
  اس کے ساتھ والی سیٹ پر اس کے والد بیٹھے تھے ، جمیل اور میں پچھلی سیٹ پر براجمان تھے ۔  اس کے چہرے پر کچھ اداسی سی چھائی تھی ۔ جس کے اظہار سے وہ کترا رہا تھا ۔ جسے میں نے شدت سے محسوس کیا ۔ اس میں وہ ہمیشہ کی گرمی نہیں تھی جو اس کے چہرے سے پھوٹا کرتی ۔ اس کی حرکیات سے ماحول خوشگوار کیے رکھتی ۔
کیا بات ہے جمیل پریشان لگ رہے ہو۔۔۔؟
نہیں آزاد بھائی ٹھیک ہوں ۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔
کچھ تو ہے ۔ جس کی پردہ داری ہے ۔ ہاں !!!!۔۔ میں نے قدرے خوشگوار انداز میں اسے چھیڑا ۔
تب بھی اس کے چہرے پر وہ مسکراہٹ عیاں نہ ہوسکی ۔ میں ٹھٹک گیا ۔ کچھ تو تھا جس نے اسے پریشان کر رکھا تھا ۔ 
جمیل کیا بات ہے ؟ تمہارے بھی کسی عزیز کا گھر جل گیا ۔ ؟
اس نے بے اختیار میرے چہرے کی جانب دیکھا ۔ اور اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک پڑے ۔  میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کچھ زور دیکر اپنی جانب کھینچا ۔ اس نے اپنا چہرہ میرے سینے میں رکھ دیا
اور بنا آواز بنا سسکیوں کراہوں کے رودیا ۔ بس اس کے آنسو تھے جو میری ٹی شرٹ   بھگو کر میری چھاتی میں جذب ہورہے تھے ۔ وہ آنسو جیسے محض پانی نہ تھے ، کرچیاں تھیں جو میرے سینے میں چبھ رہی تھیں ۔ میرے پاس الفاظ نہیں تھے اسے دلاسہ دینے کے لیے ۔ یونہی  چند لمحے گزرے اور مزید گزرے  ۔
ابے انہی لوگوں نے  پہل کی تھی ۔ آخر کو بھگتنا تو پڑے گا ۔ یہ عظیم کے الفاظ تھے ۔ جس پر جمیل نے سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے سینے میں دبوچے رکھا ۔ کرچیاں کچھ زیادہ بڑھ گئیں ۔
یار عظیم ، جرم کا حساب عدالت میں ہوتا ہے ۔ صحیح غلط  کے فیصلے کے لیے عدالتیں موجود ہیں ۔ قانون کے ادارے موجود ہیں ۔   کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ سر راہ  کسی کو بھی نقصان پہنچائے ۔ اور یہ تو ایک گھر نہیں پورا محلہ جلا دینا ۔ نہ جانے کس مشقت سے ، تنکا تنکا جوڑ کر گھر بنایا ہوگا ۔ انہیں بے گھر کردینا ۔ یہ  کہاں کے اخلاق ہیں ؟
میں نے کچھ اپنی دانش جھاڑنے کی کوشش کی ۔
ابے تجھے کیا پتہ انہوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ صلی اللہ کا ۔۔ اللہ کچھ زور دے کر اس نے کہا ۔
گاڑی دھپ سے اچھل پڑی ہم سب ہل کر رہ گئے ۔ عظیم  باتوں میں اس جمپ کو دیکھ نہ سکا تھا ۔ ساتھ وہ آیت الکرسی اور پینٹنگ لرز کر رہ گئے  ۔ پینٹنگ کے رنگ جیسے یہاں وہاں بکھر رہے ہوں ۔ جن میں سرخ رنگ نمایاں محسوس ہوتا تھا ۔
تو کیا اس کی سزا تم دو گے ؟ وہ بھی ان کے گھر جلا کر ؟ انہین بے گھر کر کے ؟ ان کے زندہ سلامت جسد کو سوختہ لاش بنا کر ؟ یہ تو ظلم کی حد ہے ۔ یہ کوئی انصاف  کے ایک ذرے کا تقاضا بھی پورا نہیں کرتا ۔ تمہیں اگر اتنی محبت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ گستاخ کو سمجھاتے اس کی ہدایت کی جلن لیکر اٹھتے کہ وہ نہیں جانتے ۔ یہی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں ۔ میں نے بھی صلی اللہ کے اللہ پر کچھ زیادہ زور دے کر بھاشن دے ڈالا ۔ 
جمیل نے پھر سر اٹھانے کی کوشش کی پر میں نے اسے وہیں سینے سے لگے رہنے پر مجبور رکھا ۔
ابے جا بڑا  آیا لبرل بننے والا ۔ تیرے دل میں تو عشق رسول ہے ہی نہیں ۔ اگر ہوتا تو ، تو نے یہ نہ کہنا تھا ۔ بلکہ ان کے گھر جلانے والوں میں تو بھی شامل ہوتا ۔ گستاخ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ۔  عظیم نے میرا تمسخر اڑایا ۔
پھٹ پھٹ پٹ پٹ ۔۔ پڑڑڑڑڑ ۔۔۔
چھی ۔۔ شٹ ۔۔ ابو یہ کیا کیا ؟ کم از کم بتا ہی دینا تھا ۔ میں گاڑی کھڑی کردیتا ۔ ساری گاڑی گندی کردی ۔
عظیم نے گاڑی کچھ آگے جا کر ایک جانب روکی ۔ سڑک سنسان تھی ۔ اکا دکا گاڑیاں زن سے گزر جاتیں ۔ میں اور جمیل باہر نکلے ۔ عظیم پہلے ہی ابوکی جانب  کا دروازہ کھول چکا تھا ۔ اور انہیں باہر نکالنے کی سعی کر رہا تھا   اور اس پھیلی ہوئی غلاظت سے ناک بھوں چڑھانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو محفوظ بھی رکھنا چاہتا ہو ۔  میری  بھی اب تک ہمت نہ ہوئی تھی کہ پاس جاتا ۔ جمیل مسیح آگے بڑھا اور ابو کو  سکون سے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔ جیسے وہ اسی کے باپ ہوں ۔  وہ انہیں اٹھا کر کچھ دور لے گیا ۔ اسی دوران میں پانی کی بڑی بوتل ڈگی سے نکال کر ان کے پیچھے چل پڑا ۔ عظیم ایک جانب کھڑا ۔۔ شٹ ۔۔ شٹ کرتا رہ گیا ۔
جمیل نے ان کے کپڑے اتارے، میں دوڑ کر چادر لے آیا جو انہیں اوڑھا دیا۔جمیل نے  ان کپڑوں کو دھویا ۔ ان کے جسم کی غلاظت کو صاف کیا ۔  اس دوران اس کے چہرے پر ہلکی سی بھی کوئی بدمزگی پیدا ہوئی ہو ۔ نہایت اطمینان سے اس نے  یہ سارے کام انجام دیے ۔
ابے جلدی کرو دیر ہورہی ہے ۔ عظیم کے چیخنے کی آواز آئی ۔ جمیل اور میری آنکھیں چار ہوئیں ۔ اس کے چہرے پر پر خراش مسکراہٹ تھی اندر کہیں اداسی سرسراتی تھی ۔ میری آنکھیں زیادہ دیر اس سے ہمکلام نہ رہ سکیں اور جھک گئیں ۔ ویسے ہی گیلے کپڑے ابو کو پہنائے اور ہم دونوں کندھوں کا سہارا دیکر انہیں گاڑی تک لے آئے ۔
ابو کو میں کندھے پر سہارا دیے رکھا ۔ اس دوران جمیل نے سیٹ صاف کردی ۔پھر انہیں گود میں اٹھایا اور قدرے مشکل سے انہیں اگلی سیٹ پر بٹھا دیا ۔ 
میری نظر سرکتی ہوئی پینٹنگ کی جانب گئی جو  اس زور آزمائی پر گاڑی کے لرزنے کی وجہ سے  دائیں بائیں ہلنے لگی تھی ۔  رنگوں کا امتزاج  خوشنما تھا یا بدنما میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا ۔
ابھی سفر باقی تھا ۔ ہم پکنک منانے نکلے تھے ۔
ہم نے سمندر میں ڈبکیاں لگانی تھیں ۔ باربی کیو کرنا تھا ۔
صیاد مچھلی ہونا تھا ۔
گاڑی آگے کو دوڑتی جاتی تھی ۔ آیت الکرسی اور وہ پینٹنگ دائیں بائیں ہلتی تھیں ۔ رنگوں کا امتزاج پر تحلیل نہ ہوتا تھا ۔ میرا تصور کہیں منجمد ہوگیا تھا ۔ 

گستاخ

گستاخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہیر شجاع
ایک چرچ کی دیوار پہ انجیل کی آیت کو مٹا کر اس پر لبیک یا رسول اللہ لکھ دیا گیا ۔  جذبہ ایمان سر چڑھ کر بولا ۔ بائبل کی آیت کے اوپر لبیک یا رسول اللہ ۔ ؟
وہ ایک بے سہارا ماں تھی ۔ جس کی حافظہ قرآن بیٹی کو " بااثر افراد" اغوا کر کے لے گئے تھے ۔ اس کے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا ؟ بالآخر اسے قتل کردیا گیا ۔ ماں دہائی دیتی رہی ۔ قانون کے ادارے اس کی بے  مائیگی  بے بسی پر ٹھٹھے اڑاتے رہے ۔ پر وہ ایک ماں تھی ۔ کسی طرح چند درد مندوں تک اپنی بات پہنچا دی ۔ اور انہوں نے اس درد کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کی کہ اس  بے بس ماں کوانصاف ملے  ۔اس معصومہ  جس کے سینے میں کلام اللہ محفوظ تھا، جو اس پاک کلام سے اپنی صبح کیا کرتی تھی اور شام کیا کرتی تھی ۔ جس کی زبان اس پاک کلام سے ہمہ وقت تر رہتی تھی ۔ اس معصومہ کے ساتھ ان " بااثر افراد " نے ظلم و ستم کی حد کردی ۔  جسد مردار میں چند سانسیں بچی تھیں وہ بھی بالآخر چھین لیں ۔۔  
کوئی لبیک یا رسول اللہ نہیں ۔۔۔  
کوئی ہجوم اکھٹا نہ ہوا ۔۔۔ کسی کے جذبہ ایمانی پر آنچ نہیں آئی ۔ کسی صاحب ایمان کا جذبہ ایمانی نہ جاگا کہ ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ وہ ظالم دندناتے پھرتے ہیں ۔ اور مظلوموں کو آنکھیں دکھاتے ہیں ۔ ان کا ٹھٹھہ اڑاتے ہیں ۔ مگر اصحاب ایمان کے ایمان کی حرارت ان کو متحرک نہیں کرتی ۔  
کوئی لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔
ساہیوال میں چرچ پر دھاوا بول دیا گیا ۔ لبیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ جذبہ ایمانی کی حرارت ۔۔۔۔۔

پطرس مسیح کوئی  غلط میسیج فارورڈ کر دیتا ہے ۔ جس بنا پر عشق رسول کے دعوے دار سڑکوں پر نکل آتے ہیں ۔ اس کی پھانسی کا مطالبہ کرتے ہیں ۔  ہجوم ہے اور شور ہے ۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی ۔ شعور ماتم کناں ہے                                                                                                              
لبیک ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔  

گھروں  کو جلانے کی خواہش  لیکر اصحاب ایمان  کا دوڑپڑنا  ۔۔  اور یہ سب اس ایمانی جذبے کے تحت ہونا ،  جو  رحمت اللعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ جن کے عظیم اخلاق  تا قیامت سرچشمہ حیات ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت  کے دعوے کی  بنیاد پر ۔۔۔۔
گھروں کو جلانا ؟   بے گناہ  ، بھلے گناہ گار ہی کیوں نہ ہوں ۔ کونسا ایمانی جذبہ ہے وہ کونسے اخلاق حسنہ ہیں جو گھروں کو جلادینے   ، جیتے جاگتے انسان کو جلادینے کا درس دیتے ہیں  ؟ 
ایک پورا سماج اتھل پتھل ہوجاتا ہے ۔ اصحاب ایمان کے عظیم اخلاق  محبت کے پیامبر کے مقلدین   خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں ۔ افراد کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ دربدر پھریں ۔ وہ اخلاق حسنہ سے خوفزدہ ہوجائیں ۔

نبوی اخلاق ؟ ۔۔۔۔۔

مائیکل صاحب قانون پر اعتماد کرتے ہوئے   لڑکے کو پولیس کے  حوالے کردیتے ہیں ۔ پولیس کیا کرتی ہے ؟  وہی جو ہر ایک کے ساتھ کرتی ہے ۔  وہ پولیس جو ایک بے بس ماں سے کہتی ہے جاو جا کر اپنی بیٹی چھڑا لو ۔ اور وہ ماں خون کے آنسو روتی ہے ، بلکتی ہے ، چیختی ہے چلاتی ہے ، دیوانہ وار گھومتی ہے ، مگر کوئی ایمانی ہجوم اکھٹا نہیں ہوتا ، چہار جانب قہقہے برستے ہیں ، اور شعور ماتم کرتا ہے ۔ ایسی پولیس کے لیے تو یہ کیس اور بھی سہل تھا ۔ اس کی ہڈی پسلیاں ایک ہوتی ہیں ۔ اور شرمناک شدید شرمناک چہرہ دنیا کے سامنے آتا ہے ۔
پولیس گردی ۔۔۔ لبیک ۔۔۔
کیا اب ہجوم اور ریاست میں ہجوم کا پلڑا بھاری ہو اکرے گا ؟
کیا انصاف کے ادارے  پکوڑے بیچا کریں گے ؟
سیاسی ادارے اقتدار کی جنگ لڑا کریں گے ؟
کیا چرچ کی دیوار پر اس مذہب کی مقدس آیت کو مٹانا ، بلاز فیمی میں زمرے میں نہیں آتا ؟
سر عام میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگانے والے علامہ  بلازفیمی میں نہیں آتے ؟ جو   گالی بھی دیتے ہیں اور اسے اخلاق نبوی سے ثابت بھی کرتے ہیں ؟ 
کیا  حب نبی کا تقاضا یہی رہ گیا ہے کہ ۔ اس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ۔۔۔۔۔۔۔ گھروں کو جلایا جائے ۔   انسانوں کو راکھ کیا جائے ۔ ان کا سانس لینا محال کردیا جائے ۔
یہ کم از کم میرے حبیب ۔۔ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ہیں نہ ان کی تعلیمات ۔  مجھے افسوس ہے کہ جس بلند اخلاق بلند کردار ، محمد مصطفی ، احمد مجبتی ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواوں کی جانب سے یہ سب ہو رہا ہے ۔  جن ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اخلاق یہ تھا کہ وہ اپنے ازلی دشمنوں کو بھی معاف کردیا کرتے تھے ۔ وہ امت کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے ۔ وہ تاریکی مٹانے آئے تھے ۔  ہدایت کی روشنی پھیلانے آئے تھے ۔ وہ عقل کو صحیح سمت میں گامزن کرنے آئے تھے ۔ وہ دلوں کو مسخر کرنے آئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے جہاں کے لیے رحمت بن کر آئے تھے ۔ یہ سب میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہو رہا ہے ۔۔
مجھے افسو س ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔
مجھے افسوس ہے ۔۔


Saturday, February 17, 2018

تماشہ


تماشہ
شہیر شجاع
مسئلہ یہ نہیں عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ مسئلہ یہ آج نہیں پیدا ہوا ۔۔ یہ مسئلہ شروع سے ہی ہے ۔۔ جس کی ابتداء نظریہ ضرورت کے تحت ہوئی ۔۔۔۔ 
آج جو میاں صاحب اینڈ فیملی جلے بھنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس آگ نے ان کے دامن کو جلا ڈالا ہے ۔۔۔۔
افسوس کہ ہم بجائے اس کے کہ ان اقتدار کے بھوکوں سے اپنے حقوق کے مطالبے کرنے کے ہم اس حریص ِ اقتدار کے ساتھ کھڑے عدلیہ کو ہی کمزور کرنے اور عدلیہ پر جو بھی اعتبار ہے اسے ختم کرنے پر تل گئے ہیں ۔۔ پہلے تو ن لیگ نے پوری کوشش کی کہ فوج کے بارے میں عوام میں شدید بدگمانی پیدا ہوجائے ۔۔ جس کو کافی حد تک کم کرنے میں جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ اب عدلیہ کے ساتھ کون کھڑا ہو ؟ 
عمران خان کے پاس نواز شریف جیسی " سوکالڈ سیاست " نہیں اور نہ وہ ان عوامل کا ادراک رکھتا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں در آئے جس نے سیاست کے معانی بدل کر رکھ دیے ۔۔۔ 
ان سیاستدانوں نے آج تک پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے ، پارلیمنٹ کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے ، خارجہ و داخلہ امور پر گفتگو کرنے کے لیے کتنا استعمال کیا ؟ سوائے ان امور میں پارلیمنٹ میں یہ سب متحد ہوئے جہاں ان کے اقتدار اور ان کی کرپشن یا ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے ۔۔۔ ورنہ آج بلدیاتی نظام اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جاتا ۔۔ پارلیمنٹ ایک منتظم کی حیثیت سے قوانین بنا رہی ہوتی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو مضبوط تر کرنے ، انصاف کی فراہمی کو آسان کرنے و دیگر امور پر رات دن ایک کیے ہوتے ۔۔۔
ہمارا کیا ہے ؟ کبھی " آمر " فوجی ہوتا ہے ۔۔ کبھی " سیاستدان " ۔ تو کبھی عدلیہ ۔۔۔۔
ہم تو تماشائی ہیں ۔۔ کبھی اس کے لیے تالیاں پیٹنے والے کبھی اُس کے لیے ۔۔۔
سو لگے رہیں ۔۔۔

حسن ظن

حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے ۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا ۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف  فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ  دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان  کی پارٹی ہے ۔  میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف  میں کوئی  روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی  " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے ۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت ن لیگ کی جانب سے  نامزد اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے  فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے  ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا  ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا  جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن  اپنے وزیر اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال  سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا مکمل  امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی  پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں ۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...