Wednesday, October 10, 2018

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

سرمایہ دارانہ پروڈکٹ

شہیر

علم کی حیثیت ٹکوں کی رہ جائے گی کیسے سوچا جاسکتا تھا ؟ کبھی ماسٹر ، استاذ نے تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھا رکھی تھی ۔  محلے کے بدنام ترین لوگ بھی ان کی عزت کیا کرتے تھے ،  اسکی زندگی عموما سادہ اکثر کسمپرسی کی حالت میں ہی دیکھی گئی ۔ مگر اس کے چہرے پر اطمینان جھلکتا تھا ۔ احساس ذمہ داری کی شکنیں اس کی پیشانی سے عیاں ہوتی تھیں ۔ جیسے سارے جہاں کا درد اس کے سینے میں ہو  ۔
ہم بچپن میں بڑوں سے پوچھا کرتے تھے تعلیم کی آخری حد کیا ہے ؟ ہمیں بتایا جاتا ویسے تو کوئی حد نہیں مگر آخری ڈگری جو سب سے بڑی ڈگری کہلاتی ہے وہ " پی ایچ ڈی " ہے ۔ اس وقت تو اس کے معنی کا بھی ادراک ممکن نہیں تھا ۔ مگر اس نام کا ایک رومان بسا تھا ذہن میں ۔ کہ جس شخص نے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے لی ہو ۔ اس کا ذہن کس قدر وسیع ہوگا اور اس کے سینے میں علم کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوگا ۔ کتنی دنیا اس سے مستفید ہوگی ؟  جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی ، علم کے معانی کا ادراک کچھ کچھ ہوتا گیا ۔ مگر ساتھ ساتھ معاشرے کے ایک عظیم المیے سے بھی سامنا ہوا ۔ جہاں علم کی حیثیت ارزاں  ہوتی دیکھی ۔ جہاں ڈگریوں کو  علم کا مساوی درجہ دیا جانے لگا ۔ اور مقصد ڈگری کے معنی ملازمتوں کا حصول جانا گیا ۔ جتنی اعلی ڈگری اتنی اعلی " نوکری " ۔ یہ ایک ایسا تضاد تھا جو بمشکل سمجھ آتا ۔ آج اس تضاد نے یہ دن بھی دکھایا کہ  اعلی ترین ڈگری یعنی اعلی ترین " علمی سند " رکھنے والے  " نوکری" نہ ملنے پر احتجاج کررہے ہیں ۔ اک آہ سی نکلتی ہے ۔ یہ کیسا علم ہے ؟   یہ کیسی سند ہے ؟ یا معاشرہ علم والوں سے متنفر ہوچکا محض " سرمایہ دارانہ پروڈکٹ" کا طلبگار رہ گیا ہے ؟

Sunday, October 7, 2018

دھوکہ

جاگیردار کے " منہ " سے جمہوریت ، قانون ، اقدار ، روایات ، ثقافت ، تہذیب جیسی باتیں  قطعا اثر انداز نہیں ہوتیں ۔ جنہوں نے انسانوں کو غلام اور باندی بنا رکھا ہو وہ سیاست میں صرف اپنی جاگیرداری کی حفاظت کے لیے ہی وارد ہوئے ہیں  ۔ ان کی باتیں ڈھونگ کے سوا کچھ نہیں ۔ جاگیردار جاگیردار ہی ہوتا ہے خواہ وہ  آکسفرڈ کا ڈگری یافتہ کیوں نہ ہو ۔


شہیر

زبان و بیان

زبان و بیان

شہیرشجاع

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غَلَطْ کو غَلْطْ مت کہو
غَلْطْ غَلَطْ ہوتا ہے ۔۔

الفاظ کی تصحیح ( درستی اور درستگی غلط املا ہیں ) یا "ان کا درست تلفظ" ( "ان کی درستی "غلط ترکیب ہے )  اس طرح سکھایا جاتا تھا ۔ اب تو دیکھاگیا ہے لہجوں کو ہی زبان کا درجہ دیے جانے پر دانشور مصر ہیں ۔ جان لینا چاہیے لہجہ "جیسا"بھی ہو( "کوئی "بھی ہو غلط ترکیب ہے ) جب لکھا جائے گا تو املا و ترکیب درست ہونا ضروری ہے ۔ اس کی توجیہ لہجوں کی نسبت نہیں پیش کی جا سکتی ۔ آپ انگریزی کے پرچے میں a اور an کی غلطی پر پورا نمبر کاٹ لیتے ہیں ۔ سارا زور پھر اپنی ہی زبان پہ کیوں ؟ جیسے مرد کا سارا زور اپنی بہن ، بیوی اور بیٹی پر ، قانون کا غریب پر ، انصاف کا نادار پرچلتا ہے ۔

ایک عمومی غلطی کی نشاندہی کی جسارت کرنے جارہا ہوں ۔۔
جیسے حیرانی کو حیرانگی ، ناراضی کو ناراضگی ، اسی طرح مزید بھی ہونگے ۔ بھئی اگر کلیہ یہی ہے تو بے خوابی کو بے خوابگی کیوں نہیں لکھتے ؟ جان لینا چاہیے جن الفاظ ( صفات ذاتی یا اسم) کے آخر میں "ہ" آتا ہو وہی الفاظ(اسم کیفیت میں )  " گ" میں تبدیل ہونگے ۔ بصورت دیگر محض " ی " کا اضافہ ہوگا ۔

جیسے: وابستہ سے وابستگی
۔۔۔۔۔۔۔ وارفتہ سے وارفتگی
۔۔۔۔۔۔۔ کمینہ سے کمینگی
۔۔۔۔۔۔۔ نغمہ سے نغمگی
۔۔۔۔۔۔۔ بیگانہ سے بیگانگی
اسی طرح دیگر ۔۔۔

جبکہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیران سے حیرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناراض سے ناراضی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست سے دوستی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فہم سے فہمی
وغیرہ وغیرہ

اس پر ایک تنقید یوں کی جا سکتی ہے کہ " کوڑھ " سے "کوڑھی" کیوں ہے کوڑھگی کیوں نہیں ؟
اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ کوڑھی " کیفیت" نہیں ہے بلکہ "صفت "کی ہی قسم ہے ۔

Friday, October 5, 2018

وصل کا لمحہ



وہ بستر پہ لیٹا یک ٹک چھت گھور رہا تھا ۔ ذہن متلاطم تھا ۔ دل بے چین تھا ۔ جوں جوں وصل کالمحہ قریب محسوس ہو رہا تھا ، اک نیا کرب انگڑائی لینے لگا تھا ۔ اس نے جو وصل کی دعائیں مانگی تھیں ، راتوں کی تنہائی میں رویا تھا ، گڑگڑایا تھا ۔  مجمع میں  بھی تنہا تنہا سسکتا تھا ۔ وصل کی تمنا میں پل پل تڑپا تھا ۔ خوابوں میں وصل کو فصل گلوں میں مہکتے ، چہکتے محسوس کرتا تھا ۔ اس  خوشبو کو بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے  گھونٹ گھونٹ سانسوں کے ذریعے روح کو سرشار کیا کرتا تھا ۔ اب جب وہ لمحہ قریب تر تھا ،  کرب کی سسکی نے اس کے اند رہلچل مچا دی تھی ۔  اس نے اپنے آپ کو سمیٹا ۔ چادر کھینچ کر سر تک ڈھانپ لی ۔  نیند آہستہ آہستہ دستک دینے لگی ۔
وصل و فراق باہم بغلگیر ہورہے تھے۔
شہیر


فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...