Showing posts with label معاشرہ. Show all posts
Showing posts with label معاشرہ. Show all posts

Thursday, July 4, 2019

معاشرہ اور سیاست

معاشرہ اور سیاست

شہیر شجاع

فرد کا کردار خاندان کی تخلیق اور خاندانوں کا اجتماع سماج یا معاشرہ تشکیل دیتا ہے ۔ اس تشکیل کو منظم کرنے کے لیے سیاسی کرداروں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ جو معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے   قوانین تشکیل دیتی ہے اور ان قوانین پر عمل پیرا ہونے  کی تلقین کرتی ہے ۔ یہ تلقین    بظاہر جبری ہوتی ہے  ۔ لیکن اگر معاشرے کی  تربیت درست پیمانے پر کرنے کے ادارے مضبوط اخلاقی پیمانے اور رویوں پر قائم ہوں تو وہ جبر  "تنظیم " اور " امن و امان " کے استقلال کی ضمانت ہوجاتا ہے ۔ بظاہر جبر کا لفظ  بالفعل انسانی مزاج پر بار  محسوس ہوتا ہے ۔ لیکن   انسان کے مزاج کو اس " جبر" کو قبول و رد کرنے کا  عمل " باہمی اعتماد" پر منحصر ہوتا ہے ۔ اگر معاشرہ  اپنے تنظیمی و تربیتی اداروں پر اعتماد رکھتا ہے تو اس کا مزاج ،جبر بخوشی قبول کرلیتا ہے کہ اس  میں اجتماع کی بہبود منحصر  ہوتی ہے ۔ اور اگر یہاں باہمی بد اعتمادی نمایاں ہو تو جبر انسان کا مزاج  رد کردیتا ہے ۔ اور وہ اپنی "جبلت" میں آزاد رہنا پسند کرتا ہے ۔ ایسے معاشرے میں چوری چکاری ، ڈاکہ زنی ، جھوٹ ، فریب ، دھوکہ دہی ، خیانت ، قتل و غارت   ، ذخیرہ اندوزی جیسے معاشرتی مسائل  اور  معاشرے کی اکائی خاندان میں بھی فساد برپا ہوتا ہے ۔ جہاں  اخلاق و تہذیب   شرمندہ پھرتے نظر آتے ہیں ۔  
فرد اپنے خاندان کے ساتھ مخلص ہو اور اس کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اپنے اخلاق کو تہذیب و شائستگی سے آراستہ و پیراستہ کرکے اپنے خاندان کی تعمیر کرے گا تب ہی معاشرے  کے مزاج میں  شائستگی نظر آئے گی اور یہی شائستگی  آگے چل کر سیاسی اداروں کی بنیاد بنے گی ۔ (سیاسی ادارہ محض وہ نہیں جسے ہم عرف عام میں حکمران کہتے ہیں ، واعظین سے لیکر تعلیمی ادارے یہ تمام سیاسی ادارے ہیں جو معاشرے کی تشکیل اور تنظیم میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں )


Monday, April 9, 2018

معاشرتی زوال

معاشرتی زوال
شہیر شجاع
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔  پاکستان جب معرض وجود  میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین  کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ   دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس  خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن  اور دلوں میں حسد نے  جگہ بنالی ۔ 
۔ تخریب ہمیشہ داخل سے ہی شروع ہوا کرتی ہے خواہ خارج   سے  نیت و عمل شامل ہو یا نہ ہو ۔ داخل سے جب تک رضا شامل نہ ہو تخریب کا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مختلف صورتوں میں اس خطے میں تخریب کاروں نے اپنا عمل دخل قائم کیا اور مختلف پہلووں پر اپنے اثرات کا نفوذ کیا ۔ معاشرے  کی ہر ہر قدر کو نشانہ بنایا  جاتا رہا جس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ سماج سے تعلیمی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی قدریں  اپنی توانائی کھونے لگیں ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہر ذہن کسی نہ کسی مقام پر " بزعم خود" والی صورتحال کا شکار ہے ۔ ہر فکر کا حاصل انتہا ہے ۔ اختلاف کا مطلب قتل ہے ۔ اقرار کا مطلب اطاعت ہے ۔ انکار کا مطلب ارتداد ہے ۔ غرض سماج اپنی سب سے اعلی قدر " عقل" سے محرومی پرنازاں ہے ۔
یہاں آج بھی ستر سال پہلے کے واقعے پر سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ اور ہزار سال  پہلے کے واقعے پر " پر  مغز " بحث ہونے کے بجائے " پر بغض " بحث ہوا کرتی ہے ۔  فکر کا جوہر " انتہا" ہوچکا ہے ۔
" فرد سے لیکر طبقات تک ، ہر ایک  مخالف پر تنقید کے لیے دیوان پر دیوان لکھ سکتا ہے ، مگر تعمیر کے لیے اذہان خالی ہیں ۔ "

    

Thursday, July 27, 2017

سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں

 سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں  
............................................................شہیر شجاع

مغربی ممالک کی مہیا کی گئی پر آسائش زندگی میں جیتے ہوئے اپنے اس سماج کو قابل گردن زدنی قرار دینا نہایت آسان ہے ۔یہ زمین صدیوں سے غیر منصفانہ روایتوں اور رواجوں کی بنیاد پر سسک رہی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مغربی دنیا ہر قسم کے اخلاقی و سماجی مسائل سے پاک ہے ۔ جہاں مادر پدر آزاد معاشرہ ہونے کے باوجود زنا بالجبر کی شرح ہم جیسے گھسے پٹے معاشرے سے کہیں زیادہ ہے ۔ سڑ کوں پر اور اپنی گاڑیوں کو اپنا گھر بنانے والوں کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جہاں ۔۔ایس آئی یوٹی ، شوکت خانم، اخوت اور نہ جانے کتنے ایسے ادارے موجود ہیں ۔ یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ۔ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جاگیر داروں ، سرداروں ، وڈیروں ، خانوں ، چوہدریوں کی غلامی کر رہا ہے ۔ عام آدمی کے پاس تعلیمی وسائل ہیں نہ تربیتی مراکز اس سماج کو میسر ہیں ۔ اگر کہیں کچھ مثبت ہے بھی تو اس میں بھی کیڑے نکالنے کی روایتیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ آپ کے پاس ایسا کیا ماڈل ہے جو اس سماج کو تعلیم یافتہ بنائے ? اس کو اپنے اقدار سے روشناس کرائے ؟ اس کے اخلاقی اقدار کو قائم کرے ؟ مسلکی عصبیتیں بہت بعد کی چیزیں ہیں صاحب ۔ یہاں نسلی و لسانی عصبیتیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں ۔ وہ تو آپ کو مغرب نے ایک بتی کے پیچھے لگا یا ہے ۔ مذہب کا نام آتے ہی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔ دل میں نفرت آنکھوں میں انگارے دوڑ جاتے ہیں ۔ ہر جانب ملا کسی دیو کی طرح دکھنے لگتا ہے ۔ آپ کبھی مدارس کا دورہ تو کر کے دیکھیے ۔ پانی والی دال اور سوکھی روٹی کھا کر ٹاٹ کے بستر پر سوکر ، چٹائیوں میں بیٹھ کر جو اپنی جوانی لٹا دیتے ہیں ۔ ان کے لیے اس معاشرے میں کیا مقام ہے ؟ امام مسجد بنا دو ؟ موذن لگا دو ، نکاح پڑھوالو ؟
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟

Wednesday, February 15, 2017

مدغم ہوتی تہذیب

مدغم ہوتی تہذیب
شہیر شجاع

کچھ آفاقی الفاظ (جذبات)سماجی روایتوں کی اخلاقی حدود کو توڑنے میں کافی کارآمد ثابت ہورہے ہیں ۔ لفظ محبت و آزاد ، ان لفظوں نے ایسے فلسفوں کو بڑی تقویت پہنچائی ہے، جو فرد کی آزادی میں گھٹن کا سبب ہوں ۔  مگر اس کاشانہ چمن میں فلسفے کا جواب فلسفے سے ، حدود و قیود کا جواب حدود و قیود سے دینے کے علمی مظاہر نابود ہیں ۔
اخلاقی تقاضے اور جبلی خواہشات میں فرق ہے ۔ ایک ایسی جبلی خواہش ، نامحرموں کا آپس میں " آزادانہ میل ملاپ "ہے ،جسے شہوات کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اجتماعی اخلاق آڑے آتا ہے ، سو اس اخلاقی رویے کی ماہیت کو بدلنے کے لیے " لفظ " محبت " کارآمد ہےکہ محبت تو آفاقی جذبہ ہے ۔ سو یہ فسلفہ وجود میں آتا ہے کہ محبت سے کیوں روکتے ہو ؟  کسی طرح یہ اخلاقی رکاوٹ دور ہوجائے ۔جیسے مغرب کی مثال ۔۔۔۔ ۔۔۔
کل کو شراب نوشی کو بھی فرد کی آزادی سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ مغرب میں جوئے کے اڈے مکمل ریاست کی سرپرستی میں قائم ہیں ۔ سماجی روایتوں میں اجتماعی اخلاق اہمیت رکھتے ہیں ۔ اور ہمارا اجتماعی اخلاق پابند ہے ۔ اسی وجہ سے بہت ساری ایسی روایات جو کسی سماج میں بری تصور نہیں کی جاتی، مگر ہمارا سماج ان روایتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے اس سماج کے ناپسندیدہ افعال چھپ چھپا کر کیےجاتے ہیں ۔ جس سے کم از کم یہ امر واضح رہتا ہے کہ فلاں اوامر ہمارے اجتماعی اخلاق سے مناسبت نہیں رکھتے۔ ہر چند یہ کہ حدود پر جب ضرب پڑتی ہے تو سماج بلبلا اٹھتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ روایتوں کے امیں و باغی دونوں علمی سطح پر صحت مند کلام کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کےبھی متحمل نہیں ہیں۔ کیونکہ مسئلہ روایتوں کا نہیں نفرتوں کا ہے ۔ دو مختلف نظریات کا تنافر ۔
یہاں ناکامی کس کی ہے ؟
اس ناکامی کا ہر " متعلق " طبقہ ذمہ دار ہے ۔  سماجی ادرے ، صحافت ، ادب ، تعلیمی ادارے ،  غرض ایک بہت بڑی ذمہ داری سیاسی اداروں  کی بھی ہے ۔ سیاسی اداروں کی اولین ترجیح سماج کو منظم رکھنا ۔ ان کے اخلاقی حدود و قیود کا تعین کر کے ان کا پابند کرنا ، ایک مکمل نُظم قائم کرنا ۔ یہ سیاسی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ یہاں ہر وہ طبقہ جو اپنی ذمہ داریوں کے عوض " عوضانہ " کماتا ہے ۔ اس کا تعلق سماج سے جیسے مکمل کٹا ہوا ہے ۔ مسلسل سماجی اکائیوں کو ہی یہ طعنہ دینا کہ "تم ہی غلط ہو ۔ اپنے آپ کو سدھار لو ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا "۔ اس کے لیے ایک نُظم درکار ہوتا ہے ۔ اور وہ نظم سیاسی ادارے فراہم کرتے ہیں ۔  سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو بعید نہیں ، آنے والی ایک نسل ایسی بھی ہوگی جہاں مذہبی رجحان فردکی توہین سمجھی جائے گی ۔ اخلاقی حدود کا تعین سڑکوں پر فرد کر رہا ہوگا ۔ اجتماعیت  میں تہذیب اپنے آپ مر جائے گی ۔ یا یوں کہہ لیں ایک ایسی تہذیب میں مدغم ہوجائے گی جس کا عام مشاہدہ ہم مغرب میں کر سکتے ہیں ۔ نہ جانے یہ امتزاج معاشرہ سہہ پائے گا کہ نہیں ؟ 

Saturday, March 12, 2016

تربیت اولاد اور ہم




تربیت اولاد اور ہم

شہیر شجاع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تربیت اولاد  ہماری  ذمہ داریوں میں نہایت ہی خاص اہمیت کا حامل ہے ۔۔۔۔  میری نظر جب اپنے اطراف میں پڑتی ہے تو مجھے  نظر آتا ہے کہ ۔۔۔۔ آج کے والدین کی سوچ ، معیار سوچ  و مقصد تربیت یکسر بدل چکا ہے ۔۔۔ ویسے تو ہمارا تہذیبی زوال  کئی سو سال پہلے شروع ہو چکا تھا ۔۔ مگر آسمانی تہذیب اتنی جلدی نہیں ختم ہوسکتی ۔۔۔ اور جس دن یہ ختم ہوئی اس دن دنیا سے انسان کا وجود بھی مٹ جائے گا یعنی قیامت برپا ہوجائے گی ۔۔  
اس فانی زندگی میں ہمارا اس قدر گم ہوجانے کی واضح دلیل یہ ہے کہ ۔۔ ہم پر سختیاں پڑتے ہی زبان پر شکوے آجاتے ہیں ۔۔۔ اور اپنے آپ کو کم بخت و  بد نصیب کرداننے لگتے ہیں ۔۔۔۔ اگر اس کی معمولی سی تصویر دیکھنی ہو تو ۔۔۔  آج کے شعری ادب کا ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔  جبکہ جو زندگی ہماری ابدی ہوگی ۔۔۔ اس کا  شعور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا نہیں بلکہ بٹھایا جا رہا ہے ۔۔ جس میں وہ عناصر بخوبی کامیاب بھی ہیں ۔۔ کہ مذہبی لوگ عذاب سے ڈرا ڈرا کر انسان کو کمزور کرتے ہیں ۔۔۔ جنت کا تصور ہی پیش نہیں کرتے ۔۔۔۔ اس جملے نے اس قدر پذیرائی حاصل کی ہے کہ  اب  عذاب آخرت کا تصور ہمارے ذہنوں سے تقریبا محو ہو کر رہ گیا ہے ۔۔ عربوں کے ہاں ایک جملہ اسی مد میں بقدر سننے کو ملتا ہے کہ ۔۔۔ گر غلطیاں ہوجائیں تو ۔۔ کہہ دیتے ہیں ۔۔ اللہ غفورو رحیم ہے ۔۔ وہ معاف کردے گا ۔۔ سو کرتے جاو ۔۔ خلاصہ کلام یہ کہ ہم نڈر ہوگئے ہیں ۔۔ اور تصور زندگی ۔۔ حقیقتا معیار زندگی کو بلند کرنا ہی رہ گیا ہے ۔۔۔۔  
ہمارا آج کا معاشرہ اس قدر  متذبذب کیوں ہے ؟  آج کے نوجوان میں وہ بنیادی شعور زندگی کیوں موجود نہیں ہے  جس کی بنیاد ہمارے اجداد ہم میں بچپن سے ڈالتے  آئے ہیں۔۔۔ ہر موڑ پر ہماری راہنمائی کے لیے موجود ہوتے تھے ۔۔ اور علم کی محبت ہمارے دلوں مین انڈیلتے رہتے تھے ۔۔۔۔۔ کردار و معیار سوچ کو بلند کرنے  کی  تحریک دیتے تھے ۔۔ اور اس کے طریقے بتاتے تھے ۔۔۔۔ آج  صورت حال یہ کہ بزرگوں سے تو ہم نے مکمل ناطہ توڑ لیا ہے ۔۔ انہیں پرانے زمانے  کی بوسیدہ دیوار کہہ کر ایک طرف دھکیل دیا ہے ۔۔۔  اور ماوں کے دلوں میں یہ بات  سرایت کرتی جارہی ہے کہ ۔۔ ان کی اپنی بھی کوئی زندگی ہے ۔۔۔۔  وہ کیوں قربان کی جائے ۔۔۔  اور باپ   آخر اُس بلندی کو چھونے کی تگ و دو میں اولاد سے  یکسر غافل ہوجاتا ہے ۔۔ اسکول   ٹیوشن آتا جاتا دیکھ کر وہ مطمئن رہتا ہے ۔۔۔ اس بچے کے پاس تو اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ۔۔ دن کے چند گھنٹے ماں باپ کے ساتھ بیٹھ جائے ۔۔۔ کہ یہ صحبت بھی  بہت اہم ہے ۔۔۔ بزرگ گھر پر ہوں تو اس سے اچھی کیا بات ہو کہ ان کی صحبت تو والدین کی صحبت سے ہزار درجہ بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔۔  ہم بہت سے تعمیری کام ، رویوں  اور اقدام کا ذکر کرتے ہیں ۔۔۔ اگر صرف اس جانب توجہ دے لیں ۔۔ اور اپنے مقاصد طے کرلیں تو ۔۔۔ چند ہی سال گزریں گے ۔۔۔۔۔۔ سماج اور معاشرے میں نمایاں فرق خود ہی محسوس ہونے لگے گا ۔۔۔

Sunday, November 1, 2015

ترازو



ترازو
 محمد شہیر شجاع 

فہیم آج بہت خوش تھا ۔۔ بہت صبر کے بعد آج بالآخر اس کی شادی ہونے جارہی تھی ۔ اس کے گھر والے اس کا رشتہ لیکر  کئی گھروں پر گئے تھے ۔۔ پر اس کا مقدر کچھ اور ہی تھا ۔۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کا رشتہ کسی اچھے گھرانے کی ایسی لڑکی سے ہوجائے گا ۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ زور و شور سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔۔ بالآخر وہ دن بھی آپہنچا  جب اس کی زندگی  کا ہمسفر اس  کے کمرے میں بیٹھا  بہت سارے خواب و توقعات سجائے اس کے انتظار میں تھا ۔
اس کا گھرانہ ذرا بڑا تھا ۔۔ اس کے چار بڑے بھائیوں کی پہلے شادیاں ہو چکی تھیں ۔۔ وہ بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ نئی آنے والی بہو شکل و صورت اور تعلیمی لحاظ سے سب میں نمایاں تھی ۔۔ جس کا دیگر بیبیوں کو احساس تھا ۔۔ بجائے اس کے کہ یہ احساس  نئے مہمان کے لیے پیار و محبت کی فضا قائم کرتا ۔۔  دل میں کینہ  پیدا ہوگیا ۔۔ ان کے بچے فہیم کے کمرے میں بلا روک ٹوک در آتے اودھم مچاتے چیزیں توڑتے پھوڑتے ۔۔ لڑکی فہیم سے شکایت کرتی تو ۔۔ فہیم یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ کوئی بات نہیں میں نیا لے آوں گا ۔  کسی بھی مسئلے پر فہیم کا ردعمل ہوتا کہ  درگزر کرو ۔ صرف نظر کرو ۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے بچوں کو ذرا بھی ٹوکنا گوارا نہیں کرتا ۔
اس کی اس بات نے لڑکی کے دل میں عدم تحفظ   کا احساس بیدار کرنا شروع کردیا ۔ وہ فہیم کا جس قدر خیال رکھ سکتی رکھتی ۔ مگر دل  میں سسکتی رہتی ۔ اپنے گھر والوں سے بات کرتی ہے تو ۔ ایک طوفان کھڑا ہونے کا خدشہ ۔۔ اور وہ طوفان ان دونوں کی زندگیوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتا ۔  فہیم اس بات سے خوش تھا کہ اس کی بیوی اس کی ہر بات مانتی ہے ۔۔۔ اس کے کہنے کو سمجھتی ہے ۔۔ اسے اپنی کم مائیگی کا ذرا بھی احساس نہ تھا ۔۔
اسی اثناء میں فہیم کی اکلوتی بہن کا رشتہ ہوگیا ۔۔ جو کہ فہیم سے بہت قریب تھی ۔ اور اس کی بہن  پیا دیس سدھار گئی ۔۔ وہ  اپنے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے  کئی دنوں تک اپنی بہن سے ملنے نہ جا سکا ۔۔ پورے ڈیڑھ ماہ بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن سے ملنے گیا ۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے دیکھا وہاں نئی نویلی الماری  کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ڈریسنگ ٹیبل   میں خراشیں پڑی ہیں ۔ اس نے اپنی بہن  کی طرف دیکھا ۔۔ اور بہن اس کے سینے سے لگ کر روپڑی ۔ سسکتے ہوئے کہا ۔ کہ دیکھیں ۔ ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ میں بھی اب ان کی زندگی میں شامل ہوں ۔  ان کے لیے  میں اب تک ان کی اپنی نہیں ہوسکی ۔   یکلخت فہیم کی نظر اس کی بیوی کی جانب اٹھی جو سر جھکائے سب دیکھ رہی تھی ۔۔ اور اس کی آنکھوں سے دو موتی  اس کے گالوں میں لڑھک آئے ۔۔

Tuesday, April 14, 2015

چمک



چمک
اس کی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی ، جیسے اس چمک کی چمچماہٹ میں کوئی فلم سی چل رہی ہو ۔ اسکول میں پڑھتے بچے آپس میں اودھم مچا رہے ہوں ، کتاب کو درمیاں رکھے ، بحث مباحثوں میں مشغول ہوں ، اور ایک اجلے لباس میں ملبوس بچہ ان میں سب سے ہوشیار اور ذہانت میں باکمال ، ان سب کی توجہ کا باعث ہو ، حساب کی مشقیں ہوں یا جغرافیہ کے نقشے ، ہر مضمون میں اس کی مہارت قابل داد ہو  ،۔استاذ کی نظروں کو اسی کی تلاش رہتی ہو ۔ اسمبلی میں چبوترے کے مائک سے اسی کی آواز چاروں اور گونج گونج جاتی ہو ۔ بارش میں بھیگتا بچہ بنا چھتری کے پیٹھ میں کتابوں کا بوجھ لادے ، دونوں ہاتھوں کو پھیلائے آسماں تکتے ہوئے بند آنکھوں سے اس احساس کو جذب کر لینا چاہتا ہو ، کہ وہ چمک دھندلانے لگی ،۔۔۔۔ سر سر ۔۔ یہ پھول لے لیجیے نا سر ۔۔۔ سر سر ۔۔ پلیز سر ۔۔۔۔

Monday, December 22, 2014

معاشرہ

بعض افراد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ اداس رہنا ۔۔۔ اور اداسی ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں ۔۔ جیسے خؤشی ان سے نہ روٹھی ہو ۔۔ انہیں ہی خوشیاں پسند نہ ہو ۔۔۔۔ ان کی زبان سے سوائے شکوے کہ ۔۔۔۔ اور کچھ سننے کو نہیں ملتا ۔۔۔ خوشی و غمی تو زندگی کے حصے ہیں ۔۔۔ لیکن غمی سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے ۔۔۔ اور اس کے اظہار پے نہ جانے کونسی آسودگی۔۔
شاید یہ بھی ایک مرض ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور شدید پھیلتا ہوا مرض
شہیر شجاع

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...