Showing posts with label Acceptance. Show all posts
Showing posts with label Acceptance. Show all posts

Sunday, June 12, 2016

اشکال در انسانیت



اشکال در انسانیت

شہیر شجاع

زمینی حقائق اعمال و افعال کو فاش کرتے ہیں ۔۔۔ طرز معاشرت کو فاش کرتے ہیں ۔۔۔۔ معاشرے کی سوچ کو فاش کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ معاشرے کی تعمیر میں استعمال کیے گئےاینٹ گارے کے حقائق سے آگاہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ معاشرے میں پھیلی منافرت بروزن عصبیت عیاں کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔ نتیجہ اخذ کیا جائے گا تو ان عناصر پر تحقیق ہوگی ۔۔۔ آیا کہ یہ عناصر حقیقی ہیں ؟ یا کرپٹ ہیں ؟
کیونکہ ایک حقیقت ہوتی ہے دوسرا جھوٹ ہوتا ہے ۔۔۔ حقیقت وہ نقشہ ہے جس پر گھر کی تعمیر ہونا ہوتی ہے ۔۔۔ جھوٹ وہ پلندہ ہے جو اس نقشے سے ہٹ کر تعمیر ہوجاتی ہے ۔۔۔ جب تک وہ عمارت قائم ہے نقشہ ظاہر نہیں ہوسکتا ۔۔۔ اور اگر میرے نزدیک وہی نقشہ اس عمارت کی مضبوطی کا ضامن ہے ۔۔۔ تو میں اس نقشے کی افادیت اور اس نقشے پہ کھڑی عمارت کے فوائد پر زور دوں گا ۔۔۔۔ نہ کہ عمارت کے رنگ و روغن جسے انسانیت کا نام دیا جاتا ہے اس پر بات کروں گا ۔۔۔ میرے لیے نقشہ اہم ہے ۔۔۔ اگر وہ حقیقی ہے تو ساری عمارت اس کا رنگ و روغن سب ہی بہتر ہوگا ۔۔۔۔ مختصر یہ کہ ۔۔۔۔ انسانیت کا درس بھی مجھے اور آپ کو اسلام نے دیا ہے ۔۔۔۔ میرا فرض اسلام اور اس کے نظام کی دعوت ہے ۔۔۔ اور اس نظام میں تمام تر صفات عالیہ شامل ہوجاتی ہیں جو انسانیت کو اس کے عروج پر پہنچانے کا باعث ہے ۔۔۔۔
ہمارے پاس فی زمانہ آئین پاکستان کی شکل میں ایک نقشہ موجود ہے بس عمارت جھوٹی ہے اسے حقیقی بنیادوں پر کھڑی کرنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔

Tuesday, April 26, 2016

قدرتی تقاضہ


قدرتی تقاضہ

شہیرشجاع

دنیا کے حالات انسانی زندگی کی کشمکس کی بنا پر نمو پذیر ہوتے ہیں ۔ قومیں سنورتی ہیں ، سنور کر بگڑتی ہیں ۔ بگڑ کر سنورتی ہیں ، تہذیبی اختراع  ایک تمدن کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور اسی تمدن سے تہذیب بتدریج مٹ جاتی ہے ، اور کوئی نئی تہذیب یا تہذیبی ملغوبہ جنم لیتا ہے ۔ 
بخت نصر کی طرز حکمرانی بدرجہ ہولناکی  کے بعد قدرتی تقاضے  کے امر پر "سائرس" کا ظہور ہوتا ہے ۔  سائرس کے بعد  امن و شانتی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ۔ ایک مرتبہ پھر سکندر مقدونی کی صورت میں ایک آفت نمودار ہوتی ہے ۔ اور اس آفت کی موت کے ساتھ ہی وہ ساری سلطنت پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔  ان ساری صورتحال کے درمیان جو غور کرنے کی بات ہے وہ ہے رعایا ۔ انسان ۔۔   کہ مسلسل استحصال کے دوران اس کے اندر کے ایک بے چینی جنم لیتی ہے ۔  اور سکون کی تلاش میں اس کی طبیعت سرگرداں ہوجاتی ہے ۔ زمین کا قدرتی تقاضہ یہی ہے کہ اب کوئی نجات دہندہ کا ظہور ہو ۔  پھر کسی نبی کی صورت میں یا شفیق فاتح کی صورت میں دنیا کا عمل آگے بڑھتا ہے  تہذیبیں بنتی ہیں اور اس میں بگاڑ آتا ہے ، اور پھر ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے ۔
اسی طرح آج کی دنیا  بھی سسک رہی ہے ۔ وہ کسی نئی تہذیب ، نئے  نجات دہندہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔  ہر طرف آہ و بکا ہے ۔ زندگی سسک رہی ہے ، تڑپ رہی ہے ۔  مگر یہ زمانہ آخری  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ ہے ۔  اب نجات دہندہ کوئی اور نہیں ۔   بذات خود ہر انسان ہے ۔   آج کا انسان بالغ نظر ہے ۔ عقلی طور پر مستحکم ہے ۔ اس کے پاس  ان عولم کا خزینہ ہے جو پہلے نہ تھا ۔ آج کے انسان کی طاقت علم ہے ۔
مگر اخلاص و قبولیت ، سچ و جھوٹ کی تمیز میں  خود تراشے ہوئے بتوں سے باہر نکلنا بھی ضروری ہے ۔ اور یہی آج کا قدرتی تقاضہ ہے ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...