Showing posts with label ن لیگ. Show all posts
Showing posts with label ن لیگ. Show all posts

Saturday, February 17, 2018

تماشہ


تماشہ
شہیر شجاع
مسئلہ یہ نہیں عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ مسئلہ یہ آج نہیں پیدا ہوا ۔۔ یہ مسئلہ شروع سے ہی ہے ۔۔ جس کی ابتداء نظریہ ضرورت کے تحت ہوئی ۔۔۔۔ 
آج جو میاں صاحب اینڈ فیملی جلے بھنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس آگ نے ان کے دامن کو جلا ڈالا ہے ۔۔۔۔
افسوس کہ ہم بجائے اس کے کہ ان اقتدار کے بھوکوں سے اپنے حقوق کے مطالبے کرنے کے ہم اس حریص ِ اقتدار کے ساتھ کھڑے عدلیہ کو ہی کمزور کرنے اور عدلیہ پر جو بھی اعتبار ہے اسے ختم کرنے پر تل گئے ہیں ۔۔ پہلے تو ن لیگ نے پوری کوشش کی کہ فوج کے بارے میں عوام میں شدید بدگمانی پیدا ہوجائے ۔۔ جس کو کافی حد تک کم کرنے میں جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ اب عدلیہ کے ساتھ کون کھڑا ہو ؟ 
عمران خان کے پاس نواز شریف جیسی " سوکالڈ سیاست " نہیں اور نہ وہ ان عوامل کا ادراک رکھتا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں در آئے جس نے سیاست کے معانی بدل کر رکھ دیے ۔۔۔ 
ان سیاستدانوں نے آج تک پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے ، پارلیمنٹ کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے ، خارجہ و داخلہ امور پر گفتگو کرنے کے لیے کتنا استعمال کیا ؟ سوائے ان امور میں پارلیمنٹ میں یہ سب متحد ہوئے جہاں ان کے اقتدار اور ان کی کرپشن یا ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے ۔۔۔ ورنہ آج بلدیاتی نظام اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جاتا ۔۔ پارلیمنٹ ایک منتظم کی حیثیت سے قوانین بنا رہی ہوتی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو مضبوط تر کرنے ، انصاف کی فراہمی کو آسان کرنے و دیگر امور پر رات دن ایک کیے ہوتے ۔۔۔
ہمارا کیا ہے ؟ کبھی " آمر " فوجی ہوتا ہے ۔۔ کبھی " سیاستدان " ۔ تو کبھی عدلیہ ۔۔۔۔
ہم تو تماشائی ہیں ۔۔ کبھی اس کے لیے تالیاں پیٹنے والے کبھی اُس کے لیے ۔۔۔
سو لگے رہیں ۔۔۔

حسن ظن

حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے ۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا ۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف  فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ  دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان  کی پارٹی ہے ۔  میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف  میں کوئی  روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی  " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے ۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت ن لیگ کی جانب سے  نامزد اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے  فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے  ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا  ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا  جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن  اپنے وزیر اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال  سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا مکمل  امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی  پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں ۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔

Saturday, July 29, 2017

پانامہ فیصلہ

ن لیگی غم سے نڈھال ہیں بقیہ خوشی سے نہال ہیں ۔ کیا ن لیگیوں کیلیے یہ بات ہی کافی نہیں کہ ن 
لیگی حکومت نہیں گری ؟ بس ایک کلیدی فرد نا اہل ہوا ہے ۔ اس فیصلے پر  دو رائے ہو سکتی ہیں ۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ ۔۔ ہم منشور کے تابع ہیں یا فرد کے ؟ ایک " محبوب فرد " کے اپنے منصب سے ہٹ جانے پر غم و اندوہ کی یہ کیفیت ذاتی محبت کی بنا پر تو درست ہو سکتی ہے ۔ مگر ملکی مفاد کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھنا زیادہ بہتر ردعمل ہے ۔ آیا کہ محبوب فرد سے منسوب محبوب جماعت اپنے منشور پر قائم ہے ؟ اور وہ اس پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے کہ نہیں ؟
ہاں اگر ہم اب بھی دربار سے منسلک ہیں اور محبوب بادشاہ کی "نظری موت " کے غم سے نڈھال ہیں ۔ پھر امید رکھنی چاہیے ۔ ہم کبھی جمہوری دور میں داخل نہیں ہوسکتے ۔ جے آئی ٹی کے بننے کے بعد سے میں نے کم از کم اس پورے معاملے میں کسی ردعمل کے اظہار سے گریز کیا ۔ بلکہ معاملات کی درست تفہیم و تعبیر کی کوشش کرتا رہا ۔ کوئی اسے عالمی سازش قرار دیتا رہا ۔ کوئی اسے شفاف احتساب ۔ غرض خودساختہ لیڈروں کی زبان ہمارے منہ میں رہی ۔ اور خوب جگالی ہوتی رہی ۔ نتیجتا ، آج ایک جانب دلوں میں دو مضبوط اور محترم اداروں کے لیے نفرت کا لاوا بھڑک اٹھا ہے ۔ کیا  اب بھی سیاسی ادارے نے اپنی ساکھ کے حصول کے لیے  حسن اخلاص اور حسن نیت کے ساتھ جدوجہد نہیں کرنی چاہیے ؟ پارلیمنٹ کے افراد ہی پارلیمنٹ کو کوئی حیثیت نہیں دیتے ۔ جبکہ یہی وہ ادارہ ہے جو تمام اداروں کا سربراہ ہے ۔ جب سربراہ کے دامن میں چھینٹے ہونگے تو ماتحت کیونکر اس کا احترام کریں گے ؟

Sunday, October 30, 2016

بلی کے گلے میں گھنٹی کس نے باندھی

بلی کے گلے میں گھنٹی  کس نے باندھی
شہیر شجاع
ایک گھر کے مکیں چند بلیوں سے شدید پریشان تھے ۔ ان کے کچن میں رکھا دودھ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بلی پی جاتی یا کچھ نہ کچھ خراب کردیتی ۔ آخر انہوں نے آپس میں فیصلہ کیا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس مصیبت سے چھٹکارا ہوجائے ۔ ان میں سے ایک نے ہمت کی  ،  بازار سے ایک گھنٹی خریدی اسے دھاگے میں پرویا اور بلی کی تاک میں بیٹھ گیا ۔ جونہی اسے موقع ملا اس نے بلی پر نشانہ تاکا اور وہ گھنٹی بلی کے گلے کے گرد اٹک گئی ۔ اب جب بھی بلی  گھر کے اندر داخل ہوتی اس کے  گلے کی گھنٹی سب کو ہوشیار کردیتی  ۔  اس وقت اسٹیٹس کو کےساتھ بھی یہی معاملہ درپیش ہے ۔ ان کے گلے میں گھنٹی بندھ چکی ہے ۔ اور اس گھنٹی کا شور لاوڈ اسپیکر میں تحریک انصاف پوری قوم کو سنائے جا رہی ہے ۔ جس سے یہ خاندانی اجارہ دار طبقہ سخت پریشان ہے ۔  کبھی مخالف جماعت کو سازشی عنصر کہہ کر چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی یہودی ایجنٹ جیسے فرسودہ القابات سے نوازتا ہے ۔ کہیں اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ قرار دیتا ہے ۔ غرض گھنٹی ہے کہ اس کا  پھندا سخت تر ہی ہوتا جا رہا ہے ۔   
تحریک انصاف نے تہیہ کر رکھا ہے  کہ ان کی اپنی سیاست کو خواہ کتنے  ہی زخم  لگتے رہیں ۔ وہ اس غیر جمہوری نظام کو ختم کر کے ہی رہیں گے ۔ سو  ایک مضبوط  عالمی استعماری نظام ہے جس کی جڑیں نہایت مضبوط ہوچکی ہیں ۔ اس کے خلاف  مہم جوئی اتنی آسان تو ہو نہیں سکتی تھی ۔ لہذا  ہر قسم کے  الزامات  برداشت کرتے ہوئے یہ آگے بڑھتے جا رہے ہیں ۔
آج ملک  میں کرپشن مخالفت کی جو لہر چلی ہے یہ لہر جب تک قائم ہے  کرپٹ سیاستدانوں کے لیے کرپشن کے لیے  ہر گز آسانی نہیں رہی جیسے کہ ماضی میں چلتا رہا ہے ۔ 
ن لیگ یہ تاثر دینے میں تو کامیاب ہے کہ وہ اداروں پر اعتماد کرتی ہے جبکہ تحریک انصاف کا موقف یہ ہے کہ ادارے ناکام ہیں وہ سیاسی ہوچکے ہیں ۔ وہ آزاد نہیں ہیں ۔ اس بات سے قطعی انکار بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ ن لیگ اگر اداروں پر اعتماد کر رہی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ادارے آزاد نہیں ہیں ۔ گزشتہ تیس سالوں سے  ایک طویل عرصہ اقتدار بھی ان کے ہاتھوں میں رہا ہے سو اچھا خاصہ عمل دخل بھی ان کا موجود ہے ۔ اگر وہ واقعتا اس معاملے میں مخلص ہوتے تو اب تک جوڈیشل کمیشن قائم ہو کر اپنا کام شروع کر چکا ہوتا ۔ مزید یہ کہ نواز شریف کو اقتدار سے زیادہ اپنی عزت اور ملک  کا وقار عزیز ہوتا تو وہ استعفی دیکر ان مقدمات کا سامنا کرتے اور  یقینا وہ " پاک صآف " ہیں  ۔ اور کلین چٹ لیکر واپس جب اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے تو  تیس فیصد کی جگہ اسی فیصد کی نمائندگی سے کسی بھی طرح محروم نہ رہتے ۔  یہ لیڈر کی پہچان ہوتی ہے بڑا لیڈر ایسے فیصلے کرتا ہے ۔  کرپشن کی تعریف میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، مکاری، خود غرضی، بد دیانتی و دیگر برائیاں شامل ہوجاتی ہیں، تو کیا ایسے شخص کو اپنا دامن صاف کیے بنا اس عہدے پر قائم رہنا چاہیے؟
اس نکتے پر پہنچنے کے بعد ن لیگ کا اداروں پر اعتماد کی قلعی بھی کھل جاتی ہے ۔  کہ چور   کو اپنے ساتھی پر بھی اعتماد نہیں ہوتا ۔
تحریک انصاف کا طریقہ کار غلط ہوسکتا ہے ۔  بلکہ دیکھا جائے تو ان کے اکثر سیاسی فیصلے ان کے خلاف ہی جاتے ہیں ۔ انتہا تک جانے کی ضد نے  ایک اچھی تعداد کو تحریک انصاف سے دور بھی کر دیا ہے ۔ حالیہ لاک ڈاون کا فیصلہ بھی غلط تھا ۔ تو کیا اپنے ہی پیروں میں کلہاڑیاں مارنے والی پارٹی کو سازشی پارٹی مان لیا جائے ؟ جو آزاد نہیں بلکہ کٹھ پتلی جماعت ہے ؟ ایسی سوچ رکھنا سراسر اس جماعت کے ساتھ ہی نہیں اپنے ساتھ بھی ناانصافی ہے ۔
ٹھیک اسی طرح جیسے مولانا کا عمران خان کو یہودی ایجنٹ کہنا اور عمران خان کا نواز شریف کو سیکورٹی رسک کہنا  غلط ہے ۔
ہم نے  گزشتہ ادوارمیں ادارے بنتے نہیں دیکھے تو ہم تحریک انصاف کے موقف  کو تسلیم کرنے کی جانب مائل ہیں ۔ نہ ہی گورننس کی سطح پر وفاق کی جانب سے داخلی امور میں کوئی خاص پیشرفت نظر آئی ہے ۔ سوائے لاہور کے  آرکیٹیکچرل گورننس کے ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وفاق نے پاکستان کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا ۔ بیشک ضرب عضب حکومت کا بہترین کارنامہ ہے جو ان شاء اللہ اپنے انجام پر خوش آئند تبدیلیاں لیکر آئے گا ۔سی پیک کا ذکر یوں نہیں  کیا جا سکتا  کہ یہ قوم کا اثاثہ ہے ن لیگ کی کامیابی  اگر ہوتی تو وہ یہ کہ ، اس پر قائم اعتراضات دور کر کے اتفاق رائے قائم کردیتی ۔ بہر حال اس کرپشن مخالف تحریک  کے ضمنی پہلووں پر نظر ڈالی جائے اور اپنا محاسبہ کیا جائے تو مستقبل میں ہم خاندانی اجارہ داری سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں ۔ اور بہترین اذہان کو ملک کی باگ ڈور  سنبھالنے کا موقع مل سکتا ہے ۔ ورنہ کل بلاول زرداری ، مریم نواز ، حمزہ شہباز  اور اس کے بعد ان کی آل اولادوں نے  ہی ہم پر حکمرانی کرنی ہے جن کی ماتحتی پر ان اعلی تعلیم یافتہ ، تجربہ کار افراد نے اپنے آپ کو مجبور کر رکھا ہے ۔ کیونکہ ہم شاید یہی چاہتے ہیں ،اور ان کے خلاف جو بھی اٹھے گا اسے ہم  بادشاہ سلامت کے خاندانوں کے خلاف سازشی عناصر کہہ کر دھتکار دیا کریں گے ۔ احسن اقبال صاحب نے گلاس آدھا بھرا اور آدھا خالی کی مثال بہت عمدہ دی تھی ۔ بالکل ویسی ہی مثال اس گھنٹی پر بھی صادق آتی ہے ۔ گھنٹی بندھوائی گئی ہے  یہ گھنٹی باندھی گئی ہے ۔  ہمارا قومی شعور ہمیشہ بندھوائی گئی کا رہا ہے ۔  ہمیں اب اپنے آپ پر انحصار کرنا ہوگا ۔ اپنے بنیادی حقوق ہم پس پشت ڈال کر  بلی کو  کس بات کی چھوٹ دے رہے ہیں ۔؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...