Tuesday, May 31, 2016

اسلامی نظریاتی کونسل اور حقوق نسواں بل ۔

اسلامی نظریاتی کونسل اور حقوق نسواں بل ۔
شہیر شجاع

اسلامی نظریاتی کونسل نے پہلی مرتبہ غالبا ً ۔۔۔ حقوق نسواں بل کے نام سے ایک ماڈل پیش کیا ۔۔۔ اور تقریباً وہ تمام شقیں شامل کردیں ۔۔ جن پر مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹہرایا جاتا تھا کہ وہ ان امور پر بات کیوں نہیں کرتے ۔
مثلاً ۔۔ مرتد عورت کی تعزیر ۔۔۔ پر واضح رائے دی گئی کہ ۔۔۔ اسے قتل نہیں کیا جائے گا ۔۔۔ بلکہ تین دن کی مہلت دی جائے گی ۔۔۔
اسی طرح ۔۔۔ خواتین کو بزور مذہب تبدیل کرانے والے کو تین سال قید کی سزا دی جائے گی ۔۔۔ یہ کوئی اتنا اہم نقطہ نہ تھا ۔۔ نہ ہے ۔۔ کیونکہ ہمارا آئین ہو یا اسلام ۔۔ اس میں مکمل مذہبی آزادی ہے ۔۔ چونکہ اس قسم کی منفی تعبیرات کا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے ۔۔ تو کونسل نے اس جملے کو واضح کیا ۔۔۔
اس کے ساتھ ۔۔ اس سوچ کی بھی نفی کی گئی جس میں ۔۔ مذہبی لوگوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ۔۔ وہ شادی پر عورت کی مرضی کے عمل دخل کی نفی کرتے ہیں ۔۔۔ سو ایک شق شامل کردی گئی کہ ۔۔۔ ہر بالغ لڑکی ولی بغیر خود نکاح کر سکے گی ۔۔
پھر غیرت کے نام پر قتل ۔۔۔ کاروکاری ، قرآن سے شادی جیسے امور جو کہ کونسل کے لیے ضروری نہیں تھا ۔۔ مگر چونکہ مذہب سے جڑے افراد کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے کہ وہ ان امور پر بات نہیں کرتے ۔۔۔ تو ان تمام نقاط کو اپنی سفارش میں شامل کر کے اپنا موقف واضح کردیا ۔۔۔۔
یہ سفارشات 163 دفعات پر مشتمل ہیں ۔۔۔۔۔ مگر میڈیا کی زینت بنی بھی تو یہ شق کہ ۔۔۔ عورت پر ہلکے تشدد کی اجازت ہوگی ۔۔۔۔
اور بقیہ 150 سے زائد دفعات کی مٹی پلید ہوگئی ۔۔۔۔۔
ہمارے معاشرے کے اہل علم میں خصوصا دو طبقات ہیں ایک مذہبی اور دوسرے لبرل ۔۔۔  مذہبی اہل علم میڈیا کی زینت کبھی نہیں بنتے ۔۔۔۔ اور نہ عام اہل دانش  کی ان کی تحقیقات پر نظر ہے ۔۔۔ جو مذہبی اسکالرز کی جانب سے عمل پذیر ہوتی ہیں ۔۔ یہاں تک کہ ۔۔ بقیہ دنیا ان ریسرچ سے فوائد سمیٹ رہی ہے ۔۔۔ جس کی زندہ مثال ۔۔ اسلامی بینکاری ہے ۔۔۔ ۔۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے ۔۔ جیسے  دانش سے
(intution)کشف
تک کے سفر کی بنیاد بھی یہی میڈیا ہے ۔۔۔ جس کے پاس کوئی ایسا اسٹرکچر نہیں جس سے معاشرہ اعتدال کی جناب گامزن ہو ۔۔ اور اہل علم کے آپس میں
)Interaction(
کی فضا بنے ۔۔۔ ۔۔۔
یہاں ایک بات تو واضح ہو گئی ہے ۔۔۔ کہ لبرل کا نعرہ لگانے والے کبھی عورت کا تشخص اور نہ ہی اسے حقوق مہیا کرنے پر مخلص  تھے نہ ہیں ۔۔۔۔ اس کا استحصال ایک تو جہالت زدہ معاشرے میں ،دوسرا تہذیب کے نام پر اس کا استحصال ہوتا رہے گا ۔۔۔مذہبی اسکالرز تو تختہ مشق ہیں ۔۔ ۔

Sunday, May 15, 2016

زینت



زینت 

شہیر شجاع

عصر کا وقت ۔۔۔۔۔۔۔ کھڑکي سے چھن چھن کرتي دل کو مسحور کرتي روشني کمرے میں پھیل کر طبیعت  کو آسودہ کر رہی تھی ۔۔ یہ روشنی ہمیشہ سے ہی دل کو چھوتی رہی ہے ۔۔ اور اکثر یہ وقت میں اپنے کمرے میں ہی گزارنا چاہتا ہوں ۔۔ سامنے میری میز پر میرا لیپ ٹاپ کھلا ہے ۔۔۔ میں اس موسم کو لفظوں میں اتار دینا چاہتا ہوں ۔ مگر مجھے الفاظ نہیں مل رہے ہیں ۔ اس کیفیت نے ذرا سی تلخی سی پیدا کردی ہے ۔ سرد آہ بھر کر میں نے اپنے آپ کو کرسی پہ گرالیا اور ہاتھوں کو اپنے سر کے پیچھے ٹکالیا ہے ۔۔۔ اور چھت کو گھورنے لگتا ہوں ۔۔۔ مجھے    زینت کا خیال آتا ہے ۔بلکہ آج کل اسی نے میری سوچوں پر ڈیرا جمایا ہوا ہے ۔۔۔  وہ ہمارے گھر کے کام کاج کرنے آتی ہے ۔خاموش سی رہتی ہے ۔ اپنے کام سے کام رکھتی ہے ۔ لیکن اپنے کام کو سلیقے اور قرینے سے انجام دیتی ہے ۔ اس کو دیکھ کر مجھے کام اور وقت کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے ۔ میرے لیے وہ ایک حوصلے کی مانند ہے ۔
سر میں کوشش کرتی ہوں آپنا کام درست طریقے سے انجام دوں ۔ اگر کوتاہی ہو تو معافی چاہتی ہوں ۔ بس تنخواہ مجھے وقت پر دے دیا کریں ۔
ایک مرتبہ تنخواہ دینے میں مجھ سے دو دن کی تاخیر ہوگئی تھی ۔ تو اس نے پہلی مرتبہ مجھ سے کوئی بات کی تھی ۔ جو شکایت تھی یا تقاضہ ، پتہ نہیں ۔ مگر اس ایک جملے میں زینت میرے لیے ایک سوال ہوگئی تھی ۔ اس کے لہجے کی شائستگی اس کو جاننے کا تجسس پیدا کر رہی تھی ۔
سوری ڈئر ۔ آئندہ تاخیر نہیں ہوگی ۔ یہ میرا انداز تو نہیں ۔ لیکن یہ لہجہ اپنانے پر اس نے مجبور کردیا تھا ۔
شکریہ سر ۔ اور وہ پلٹ گئی تھی ۔
میں کافی دیر ۔ اس کے  بارے میں سوچتا رہا تھا ۔۔
اس دن وہ آئی نہیں تھی ۔ میرا گھر اس کی کمی شدت سے محسوس کر رہا تھا ۔ رات میں سو بھی نہیں پایا ۔ اسی کے بارے سوچتا رہا  ۔۔۔ ااگلا دن اتوار کا تھا ۔ آج تو چھٹی تھی ۔۔ مگر مجھے آفس جانا تھا ۔۔ ہر اتوار کو زینت صبح ہی آجایا کرتی تھی ۔۔میں نے  تاخیر کرنا مناسب سمجھا کہ وہ آجائے تو ہی جاوں گا ۔۔ مگر کافی دیر انتظار لاحاصل رہا تو ۔۔ مجھے فکر ہونے لگی ۔ اپنا سیل فون نکالا ۔ مگر اسے واپس رکھ دینا پڑا ۔۔ کیونکہ اس کے پاس فون تھا نہیں ۔ اس کے گھر کا بھی علم نہ تھا ۔ مگر ایک مرتبہ اس نے اپنے محلے کا ذکر کیا تھا ۔
میں باہر نکلا ، انجن اسٹارٹ کیا ، مگر میری منزل زینت کا محلہ تھا ۔ کیوں تھا ؟ اس کا مجھے بھی علم نہ تھا ۔" شاید میں ۔۔روما۔۔ کو مس کرتا تھا ؟ روزانہ میری اور اس کی تو تکار لازمی تھی ، آخر کار ایک دن جب میں گھر واپس آیا تو ۔ وہ گھر پر نہیں تھی ، میں فون کیا تو ۔ اس نے آنے سے انکار کردیا تھا ۔ اور میں بھی غصے میں چند ہی دنوں میں اسے کاغذات ِ مردانگی ۔۔۔ بھجوادیے تھے ۔۔۔ اس کے بعد کیا ہوا کیا نہیں۔۔ مجھے کوئی خبر نہیں تھی ۔۔ میری بیٹی بھی اسی کے پاس تھی ۔۔ میری انا نے مجھے اپنی بیٹی سے ملنے پر بھی پابندی لگا رکھی تھی ۔۔
زینت کے محلے میں پہنچ کر میں یہاں وہاں دیکھ رہا تھا ۔ اس طرح سے مجھے مایوسی ہی ہونا تھی ۔ چند لوگوں سے اس کی بابت معلوم کیا تو اس کے گھر کا پتہ مل گیا ۔ کچھ تو بات تھی ۔ میں نے ایکسیلیٹر پر پیر رکھا ۔ اور گلیوں میں دائیں بائیں مڑتا ۔ اس گلی تک جا پہنچا ۔ وہاں ایک جانب چند لوگ جمع تھے ۔ آپس میں کھسر پسر جاری تھی ۔ فضا میں سوگواری سی طاری تھی ۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک خوف کی رو آرہی جارہی تھی ۔ میں نے بمشکل اپنی حواس باختگی پر قابو پایا ۔ گاڑی ایک طرف کھڑی کر کے ۔ آگے بڑھا ، معلومات کرنے پر یقین ہوگیا کہ یہ زینت کا ہی مکان ہے ۔ اور یہاں فوتگی ہوگئی ہے ۔ میرے پسینے چھوٹ رہے تھے ۔مدہم قدموں سے میں اندر جاتا ہوں ۔ چند عورتوں کے درمیان زینت اپنے ننھے ننھے بچوں کو گود میں دبائے ۔ سر جھکائے بیٹھی ہے ۔ اس کا چہرہ سپاٹ ہے مگر آنکھیں سوجی ہوئی ہیں ۔ میں اس سے نظریں نہیں ملاپاتا ہوں ۔ تھوڑی ہی دور ۔ ایک کفن میں ملبوس ایک میت رکھی ہے ۔ جس کے سرہانے دائیں بائیں اگر بتیوں کا دھواں اٹھ رہا ہے ۔ مرد حضرات سر پر ٹوپیاں ڈالے اطراف میں ڈیرا جمائے ہوئے ہیں ۔۔ میں بھی ایک طرف بیٹھ جاتا ہوں ۔۔ لوگ آرہے جارہے ہیں ۔۔۔ میں ساکت بیٹھا رہتا ہوں ۔ سرگوشیوں اور لوگوں کی آپس کی باتوں سے علم ہوتا ہے ۔ یہ زینت کا مرد ہے ۔۔ جو کچھ عرصے سے کینسر کی زد میں تھا ۔۔ اور اسپتال میں زیر علاج تھا ۔ اسی کے علاج کی خاطر زینت نے اپنے رات دن ایک کیے ہوئے تھے ۔۔ دن میں کسی آفس میں کلرک تھی ۔ وہاں سے واپس آکر لوگوں کے گھروں کے کام کاج کرلیا کرتی تھی ۔۔ میری آنکھون کے سامنے جیسے اندھیرا چھا گیا تھا ۔ بد حواسی کے عالم میں وہاں سے اٹھا ، کب اور کیسے باہر نکلا علم نہیں ۔ گاڑی کب اسٹارٹ کی پتہ بھی نہ چلا ۔ میرا رخ میرے گھر کی جانب تھا یا روما کے گھر کی جانب ۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔زینت اس کے بچے شاید میرے حواس پر قبضہ جما چکے تھے ۔     

Sunday, May 8, 2016

عصبیت


عصبیت 

شہیر شجاع

ماں ، بہن، بیٹی ،بیوی ،  بھائی ، باپ ، بیٹا ، ملک ، وطن ، مذہب ، زبان ، رنگ ، نسل ، ثقافت ، تہذیب ،،، یہ عصبیتیں ہیں دنیا کی ۔۔۔۔ اک اضافہ اور ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔۔  سیاسی لیڈر ۔۔۔

افسانہ ۔۔۔۔شاہ پرست

افسانہ ۔۔۔۔شاہ پرست 

شہیر شجاع 

وہ ایک معمولی سے قطعہ میں ساری زمین کی بادشاہت کی خطابت کے ساتھ جلوہ افروز تھا ۔ آس پاس اس کے  جوکروں کی فوج در موج موجود رہتی ۔ وہ کہتا میں رات اڑ کر دشمن کی خبر دریافت کر لاتا ہوں ۔۔ اور وہ فوج ۔۔ موج میں واہ واہ کرتی اور محل کے در و دیوار سردھنتے ۔ جن دیوراوں کے پار ایک بہت ہی بڑا انسانوں کا مجمع اس بادشاہ کی نظامت کا آسرا لیے اپنے سے کئی گنا طاقتور استبداد سے لڑ مرنے کو تیار تھا ۔ جس کی خبر شاید  اس کے خواب  کی اڑان  کو دستیاب نہیں تھی ۔ اس مجمع  میں ایسا جوش و ولولہ تھا کہ دنیا کے ہر استبداد کو تہہ و بالا کردے ۔ مگر انہوں نے چشم تصور میں خواب  کی اڑان میں خرگوش کا پیچھا کرتے شخص کی امارت کو تسلیم کر رکھا تھا ۔ مگر اپنے سراپے پر نگاہ ڈالنے ، اور امارت کی قابلیت جانچنے  کی صلاحیت کسی میں نہ تھی ۔کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔۔۔ کہ ان کا امیر کوئی مرد میدان ہونا چاہئے ۔۔۔ مگر وہ شاہ پرست تھے ۔۔۔ جس کی بنیاد صدیوں میں  اپنی جڑیں تنو مند کر چکی تھی ۔ اور اب پاداش یہ کہ ۔۔۔۔  جوش و ولے اور غیض وغضب سے بھرپور مجمع کو دشمن نے روندتے ہوئے ۔۔۔ تصوراتی امارت کے حقدار کے قلعے پر دھاوا بولا ۔۔  کہنے کو تو وہ بادشاہ تھا ۔۔۔ نام بہادر شاہ تھا ۔ مگر خواب کی سرزمین کی جانب محو سفر ہوا ۔ جہاں اس کی شان امارت اس کے انتظار میں تھی ۔ ۔۔ جبکہ بھرا پرا مجمع ۔۔ منتشر ہوکر ۔۔ استبداد کے آگے ڈھیر تھا ۔ ۔ بس چنگاریاں تھیں جس کا مستقبل  کاتب تقدیر لکھ رہا تھا۔اور وہ فقیرانہ شان سے  خواب چن رہا تھا ۔۔ آن کی آن میں لوگوں کی ٹھوکروں میں پل رہا تھا ۔

Thursday, May 5, 2016

تربیت اولاد کا ایک بنیادی نقطہ



تربیت اولاد کا ایک بنیادی نقطہ 

شیر شجاع

روز مرہ کے معمولات میں اکثر اوقات ہماری توجہ کا مرکز بچے ہوتے ہیں ۔ ان  کے ساتھ کھیلنا انہیں کھلانا  ، پڑھانا وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہاں بہت اہم امر ان کی تربیت اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ ہے ۔ جس جانب توجہ تو ہوتی ہے مگر طریقہ کار ایسا اختیار کیا جاتا ہے جو کہ بہتری کے بجائے تنزلی کا ہی باعث بنتا ہے ۔ 
ایک مثال اس کی یہ ہے کہ ۔۔۔۔  اسے مختلف چیزیں رٹائی جاتی ہیں ۔ اس کے بعد اپنے احباب کے سامنے اس سے سوال کیا جاتا ہے ۔
کہ بیٹا فلاں کیا ہے یا فلاں کا مطلب کیا ہے ؟
بچہ کچھ دیر سوچنے لگتا ہے ، اور یہ فطری امر ہے کیونکہ انسان کی اپنے بقیہ حیوانات میں جو خصوصیت جداگانہ ہے وہ غورو فکر ہی ہے ۔ اور یہ انسان میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔ الا یہ کہ اسے ظاہر کیا جائے ابھارا جائے ۔ مگر ابھی وہ ننھا منا پودا ہی ہوتا ہے ۔ اس کی اس گراں قدر صلاحیت کو اس کی ناقابلیت کے طور پر اسے باور کرایا جاتا ہے ۔
یہاں سوال ہو اور یہاں جواب دیا جائے ۔۔ یہی کامیابی کی دلیل اس کے ذہن کے گوشوں میں سرایت کرتی جاتی ہے ۔
جیسے ہی بچہ سوچنے لگتا ہے ۔  سوال کرنے والے کو ہتک محسوس ہوتی ہے ، اور اسے مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ۔۔ فوری جواب دیا جائے ۔۔ اور یہی طبیعت آہستہ آہستہ بچے کا مزاج بن جاتی ہے ۔۔
ہمیں چاہیے کہ بچے کو سوچنے دیں بلکہ کوئی بھی جواب فوری اگر مل جائے تو الٹآ مجبور اس بات پر کیا جائے کہ بچہ پہلے کچھ دیر سوچے غور کرے اس کے بعد جواب دے ۔ جب طبیعت میں جواب معلوم ہونے پر بھی مزید غور جس کو ہم صبر بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔ کا مادہ پیدا ہوجائے گا تو یہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مزید قوی ہوتا جائے گا ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...