Saturday, February 25, 2017

قصور کس کا ؟ سیاست یا معاشرت

قصور کس کا ؟ سیاست یا معاشرت
شہیر شجاع
جب ہم اللہ جل شانہ کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں تو پھر ہماری زندگی سے برکت و رحمت اٹھ جاتی ہے ۔ ہمارے کام سیدھے نہیں ہوتے ۔ سب کہتے ہیں خود ٹھیک ہوجاو معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا ۔ میں اس بات کو نہیں مانتا ۔۔ معاشرے میں امور سیاست ناگزیر ہے ۔ اور سیاست کا سب سے اہم مقصد معاشرے کو پر امن اور باہم مربوط رکھنا ہوتا ہے جس کے لیے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جاتا ہے ۔چونکہ یہ معاشرہ طاقت ور کا معاشرہ بن چکا ہے ۔ کمزور کے لیے کوئی پرسان حال نہیں ہے وہا ں ذہنی پراگندگی اپنا اثر دکھاتی ہے ۔ پیٹ کے مسائل کاشکار ذہن کہیں نہ کہیں اپنی فرسٹریشن نکالتا ہے ۔ آپ اگرامور سیاست کو اس سے ماوراء سمجھتے ہیں تو یورپ کے قوانین میں ایک بچے کو کیوں اختیار ہے کہ اگر اس کے والدین تشدد کریں تو وہ شکایت درج کرائے؟ اور اس کا ازالہ بھی کیا جاتا ہے ۔ میں یہ نہیں کہتا وہ قانون درست ہے ۔ مگر ہمارا اپنا دین اتنا خوبصورت اور معتدل ہے کہ اسے اگر رائج کیا جائے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا جائے تو ایسے معاشرتی مسائل سے بہت حد تک چھٹکارا مل سکتا ہے ۔ یورپ کی عورت ہم سے کہیں زیادہ پسماندہ تھی ۔ وہاں مگر اسے حقوق دینے کے چکر میں حدود ہی کراس کردی گئیں جس وجہ سے وہ آزاد تو ہوگئی مگر خاندانی زندگی سے محروم ہوگئی ۔ ہمارا مسئلہ بھی یہی ہے ۔۔ یہاں رائج صدیوں پرانے رواج ۔۔۔ ناخواندگی ۔۔ او ر جو خواندہ عناصر ہیں وہ بھی تعلیم کے ایسے فرسودہ معیار کی وجہ سے محض ایک دوڑ کا حصہ ہیں ۔۔ تربیت کہاں ہے ؟ جس معاشرے کی تعلیم ، تربیت نہ کرسکے اس تعلیم کا کیا فائدہ ؟ پھر آپ مردوں پر الزام لگائیں یا عورت کو قصور وار کہیں ۔۔۔ کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔ عدالتوں میں وکلاء اعلی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں ۔۔ مگر اسی قانون کے داو پیچ کے ذریعے مجرموں کو بے قصور ثابت کرتے ہیں ۔۔۔ جبکہ ان کے پاس قانون کا حقیقی علم ہوتا ہے ۔ معاشرہ تو اپنے دین سے ہی نابلد ہے ۔۔ رائج فرسودہ روایات کو ہی دین سمجھ کر اسے مذہب کا نام دے لے اور کسی جاہل پر رعب جمائے تو کس کا قصور ہے ؟
میرا ماننا یہی ہے کہ جب تک ہم "علم" کو اور اس کی "حقیقت" کو نہیں سمجھتے ۔۔ اور اسے عام کرنے کی جانب توجہ نہیں دیتے ۔ یہ معاشرہ یونہی چلتا رہے گا ۔  میں نے سندھ کے دیہات دیکھے ہیں ۔۔ جہاں وڈیرا "خدا" بنا بیٹھا ہے ۔ کون قصور وار ہے ؟ کبھی "چوہدری" "خانصاحب" اور "سردار" خدا بنے بیٹھے تھے ۔۔ آج شاید چوہدری و خانصاحب سے معاشرہ جان چھڑا چکا ۔۔ مگر سردار و وڈیرے اب بھی موجود ہیں ۔۔۔ دیہی زندگی انہی کی مرہون منت ہے ۔ وہاں معاشرہ کیا پنپے گا ؟ جہاں سے جو نوجوان کسی طرح تعلیم حاصل کرنے شہروں میں آجاتے ہیں پھر وہ واپسی کا رستہ بھول جاتے ہیں ۔ کیونکہ اس کے پاس کوئی بھی ایسا طاقت کا ذریعہ نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اپنے سماج کو ان "خداوں " سے نجات دلا سکے ۔
پھر بھی قصور معاشرے کا ہے ؟
شہروں میں پھر بھی بہت حد تک فرسودہ روایتیں کم ہوگئی ہیں ۔ مگر وہ  "خداوں" کی چھت تلے زندگی کے اثرات اب بھی موجود ہیں ۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے وہ کہہ دینا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کا حل کیا ہے جاننا اہم ہے ۔
اس کا حل میرے نزدیک ۔۔۔ ایک تو امور سیاست ہے ۔۔ دوسرا عوام کا "علم " و حکمت" یعنی دین کی جانب رجوع ہے ۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں "علم و حکمت " کی جانب رجحان کے لیے حالات سازگار نہیں ۔ عام آدمی نیند سے اٹھ کر دوبارہ نیند کی آغوش میں جانے تک "روٹی" کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ تو وہ اپنی زندگی کے اہم مقاصد و منازل کی جانب کیاتوجہ کرے گا ۔ جبکہ اس کے آس پاس ۔۔   دین کا آئینہ یوں پیش  کیا گیا ہے کہ اسے مسجد و منبر سے ہی نفرت ہوگئی ہے ۔ 
زندگی آزمائش ہے ۔۔ اور دنیا آزمائش گاہ ۔۔۔ یہ آخرت کی کھیتی ہے ۔ آخرت کی کھیتی جی ہاں ۔ یہ غور طلب بات ہے ۔۔ کھیت میں سنڈیاں حملہ کردیں  تو اس پر چیخ و پکار نہیں اس کا حل تلاش کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ۔۔۔
دین اسلام یا تو بہت آسان ہے ۔۔۔ یا انتہائی مشکل ۔۔ کیونکہ یہ غور و فکر ۔۔ اور  معرفت الہی  کے ذریعے ہی حاصل ہوتا ہے ۔۔۔۔

Wednesday, February 22, 2017

جنسی سراسیمگی

" جنسی سراسیمگی " پر ایک "جدید تعلیم یافتہ " دوست تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ یہ بیمار اذہان ہیں جو اس طرح سے متاثر ہوتے ہیں ۔ خوبصورتی جمالیاتی حس کو تسکین پہنچاتی ہے ۔ نہ کہ جنسی جذبات ابھارتی ہے ۔ عصمت چغتائی و منٹو  کے جنسی موضوعات پر بھی معترضین کو یہی طعنہ دیا جاتا ہے ۔ انہیں موضوعات پر ممتاز مفتی  کے ادب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کیا عجب طرفہ تماشہ ہے ۔ جبلت کے معانی بھی اپنی مرضی سے طے کیے جائینگے ۔ انسان شاید اپنی جبلت میں فی زمانہ صالحین سے بھی ایک درجہ آگے متقین کی صف میں شامل ہوگیا ہے ۔ جہاں  برہنگی بھی جذبات برانگیختہ نہیں کرتی ۔ مگر "حیاء" مسئلہ "فرد کی آزادی "سے متضاد ہے ۔ 

Tuesday, February 21, 2017

علماء سے تنافر کے بعد سیکولر ازم کا نعرہ

علماء سے تنافر کے بعد سیکولر ازم کا نعرہ
شہیر شجاع
علماء سے اس قدر تنافر پھیلادیا گیا ہے جس وجہ سے لوگوں میں اسلام سے ہی دوری پید اہوگئی ہے ۔اور علماء کے لیے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کا  اصل مقصد یہی ہوسکتا ہے کہ اسلام سے ہی دور کردیاجائے ۔ شرعی احکام و مسائل کو ہر کس و ناکس  نے یوں سمجھنا شروع کردیا ہے جیسے کسی ادبی شعر و نثر کی تشریح قاری اپنے فہم و ادراک و تجربات کی روشنی میں کرتا ہے ۔ اکثر وبیشتر "جدید تعلیم یافتہ حضرات" کی جانب سے ایسی تشریحات سننے میں آتی رہتی ہیں ،  جن میں اجتہاد کو  شرع سے ہٹا کر انسانی عادت  پر قیاس کر لیا گیا ہو ۔ ایسا ہی ایک واقعہ کسی صاحب کی تحریر میں نظروں سے گزرا۔فرماتے ہیں " میں حج پر گیا تو احرام باندھ کر اپنا "انڈر گارمنٹ " نہیں اتارا ۔ کیونکہ اس کو اتارنا میری عادت کو گوارہ نہیں ۔ " الفاظ مجھے مکمل یاد نہیں مگر اجتہاد کو لیکر یہی ان کا مدعا تھا کہ وہ بھی اجتہاد کے مکلف ہیں ۔ محض علماء کرام ہی ٹھیکیدار نہیں ہیں ۔ شاید یہ بتانا چاہ رہے ہوں کہ ان کی حیاء آڑے آگئی ۔اسی تحریر میں یہ بھی فرمایا کہ انڈر گارمنٹ وہ صرف سوتے وقت بدلتے ہیں ۔  ۔ جبکہ ہم نے اکابرین کی روداد سنی ہے جہاں وہ غسل کے دوران بھی اپنی شرمگاہ  کے گرد کپڑا لپیٹ  لیا  کرتے تھے ۔ کیا حیاء کے پیکر تھے ۔ اور یہاں حج کے دوران ان کی حیاء نے انہیں "اجتہاد " پر مجبور کردیا ۔
أيحسب الإنسان أن يترك سدى
ترجمہ : کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو بے کار چھوڑ دیا جائے گا ؟
سورۃ القیامہ آیت 75
سدی کی تفسیر میں علماء فرماتے ہیں ۔۔ اس شخص کو کہتے ہیں جس کو نہ کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جائے نہ کسی امر سے روکا جائے ۔۔
امام شافعی رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں مزید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی کو جائز نہیں کہ وہ اپنے جی سے کچھ کہے ۔ یا اپنی پسند کا اظہار کرے یہ سب سے بڑی بدعت ہے ۔  بلکہ نصوص سے استدلال کرے ۔(کتاب الرسالہ)  امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں  میں  اس وقت تک اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا یہاں تک کہ اس مسئلے میں کوئی ضعیف حدیث ہی کیوں نہ مل جائے ۔ میری رائے کے مقابلے میں وہ ضعیف حدیث معتبر ہے ۔  ( اس کا حوالہ مجھے یاد نہیں )
علماء سے متنفر ہونے کا سب سے بھیانک نتیجہ جو نکلا وہ یہ کہ عوام نے مسجد کو صرف نماز پڑھنے کے مقام کا درجہ دے دیا اور امام و معلم سے کنارہ ہوگئے ۔  یہاں تک کہ شرعی علوم کی کتب کا درجہ ناقابل قبولِ مزاج قرار پاگیا ۔ جب علم سے ہی  ناآشنائی ہوگی تو عالم کی کیا پہچان ہوگی ؟ یوں معاشرہ درجہ بدرجہ دین سے دور ہوتا گیا اور لادینی "خوش کن نظریات" کے سحر میں گم ہوتا گیا ۔  اور پھر یہ وقت آیا کہ ریاست کے بیانیے سے مذہب کا باب ہی ختم کردینے کا نعرہ بلند ہوا اور " لبرل ازم و سیکولر ازم " کے نظریے کو تقویت ملی ۔ آج " ملائیت " کو مغربی " پاپائیت" کا ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اس  نظریے کی قبولیت کہ وجہ بھی درحقیقت حد سے زیادہ پھیلائی گئی نفرت ہے ۔ ورنہ ہمارے معاشرے کی آج بھی شان بہترین علماء ہیں ۔ جو یکے بعد دیگرے رخصت بھی ہوتے جا رہے ہیں مگر چونکہ ہمیں ان کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ۔ ہم تو " ملائیت " کے نعروں کی زد میں ان کی پہچان ہی کھو چکے ۔ ان سے استفادہ کیا کریں گے ؟   سو دین  کا مذاق اڑانا بھی عادات میں شامل ہوتا جا رہا ہے ۔  جبکہ اللہ جل شانہ نے  شعائر اسلام کی توہین کی سختی سے ممانعت فرمائی ہیں ۔  سوا اب  جبکہ لوہا گرم ہے خصوصا تعلیم یافتہ طبقہ دین سے متنفر ہوچکا ۔ اب مکمل طور پر عوام کی زندگی سے دین کو نکال دینے کا وقت آپہنچا ۔ اور سیکولر ریاست کا نعرہ شدو مد سے در و بام میں گونج گیا ۔ کیا انسان اس قدر بھی  اپنے شعور سے لا تعلق ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ جل شانہ کی حاکمیت اعلی کا ہی منکر ہوجائے ؟ زبان سے  تو ہم کئی  ہندوں پنڈتوں سے لیکر نصاری   سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ستائش سنتے رہتے ہیں ۔ کیا یہ ان کے ایمان کے لیے کافی ہے ؟ علم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو خیر و شر کی تمیز میں معاون ہے ۔ اس کے لیے علماء سے تعلق کو از سر نو استوار کرنا ہوگا ۔ عقیدت عالم سے نہیں علم سے بنانی ہوگی ۔ تاکہ منبر پر اس کا صحیح حقدار ہی پہنچ سکے ۔  اور علم و حکمت سے تعلق ایک مرتبہ پھر تعمیر ہو ۔  سیکولر و لبرل ، محبت و آزادی جیسے خوش کن نعروں  کے لبادے میں لپٹے زہر کی پہچان ہو ۔
  

Saturday, February 18, 2017

دیہاتی ، گنوار

دیہاتی ، گنوار
شہیر شجاع
وہ چار اکثر ملکی حالات و واقعات ، خصوصا سیاسی   خبروں پر زور و شور سے تجزیے کرتے ، آپس میں لڑ پڑتے ، ہر ایک کو بزعم خود دانشوری کا خمار تھا  ۔ پانچواں  ان سے الگ تھلگ کچھ دیر رک کر ان کا چہرہ تکا کرتا ۔ یہ لوگ اچٹتی نگاہ اس کی جانب ڈالتے ، ذرا مسکراتے اور گرما گرمی میں مشغول ہوجاتے ۔  ایک دن حسب معمول گرما گرمی  جاری تھی ۔ آج ہی ایک دہشت گردی کا بڑا واقعہ رونما ہوا تھا ۔  ہر ایک بڑھ چڑھ کر اپنے دلائل دے رہا تھا ۔ وہ  ان کے درمیان آیا اور کہا دیکھو بھائیو ! اور اپنے سیل فون  میں چند تصویریں انہیں دکھانے لگا ۔  ایک تصویر خستہ حال کچے گھر کی تھی ۔ پوسیدہ دیواریں  بذات خود ہی اپنی کہانی سنا رہی تھیں ۔ کہا یہ میرا گھر ہے ، اس کے ساتھ ہی اپنے گاوں کی تصویریں دکھائیں ۔ 
یہاں ہم جتنے بھی لوگ رہتے ہیں اکثر کے پاس تعلیم نہیں ہے ۔ ہمارے بچے بڑے بوڑھے یا تو " صاحب" کی غلامی کرتے ہیں ، یا شہروں میں جا کر مزدوری کرتے ہیں ۔ چند ایک جو کچھ اچھے پیسے کمانے لگتا ہے وہ  شہر میں ہی کسی کرائے کے مکان میں اپنے بچوں کو لے جاتا ہے ۔ پھر بھی اکثر وہاں کے اسکولوں  کی فیسیں ادا کرنے کے لائق نہیں ہوتے ۔ اور اس گاوں میں جو سرکار کا اسکول ہے وہ صاحب کے لڑکوں کا " اڈہ" بنا ہوا ہے ۔ علاج کے لیے  ہمارے دادے نانے  کے نسخوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے ۔ اللہ بھلا کرے " مولی ساب " کا ، گاوں والوں نے مٹی کا ایک کمرہ  مسجد کے طور پر بنادیا ہے جہاں وہ نماز پڑھاتے ہیں اور ہمارے بچوں کو قرآن سکھا دیتے ہیں ۔ ساتھ ہی ایک اور چھوٹے سے گھروندے میں ان کے بیوی بچے رہتے ہیں ۔ 
ساب جو لوگ شہر جا کر مزدوری کرتے ہیں ان کو بھی وہاں دیہاتی ، گنوار اور نہ جانے کیسی کیسی ذلت بھری گالیوں سے نوازا جاتا ہے ۔ پر وہ مجبور ہیں ۔ ان کو اپنے بیوی بچوں کا پیٹ نظر آتا ہے ۔ وہ بس ایک جانور کی طرح ہیں ۔ صبح سے شام تک مزدوری ہوگی تو پیٹ بھرے گا۔ 
ساتھ ہی ایک تصویر دکھائی کہا یہ میرا بھائی ہے جو کل دھماکے میں ختم ہوگیا ۔ اس کے تین بچے اور ایک بیوی ہے ۔  جاہل تھا اس کی اولاد بھی جاہل ، اور اب اس اولاد کی اولاد بھی جاہل ہی رہے گی ۔  مولی ساب کونسا سرکار سے تنخواہ لے رہا ہے ؟ لیکن وہ ہمیں تعلیم دے رہا ہے ۔ ہمارے دادے نانے کون سے سرکاری معالج ہیں ؟ لیکن وہ ہمارا علاج کر رہے ہیں  ۔ ہمارے ہاتھ پیر سلامت ہیں ہم مزدوری کرتے ہیں دو وقت کی روٹی کمالیتے ہیں ، زندگی گزر رہی ہے ۔ ساب  ہم لوگوں کو آپ لوگوں کی اس سیاست ویاست سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔   یہ کہتا ہوا وہ اپنے کام کی جانب چل دیا ۔ اور ان چاروں نے اس کی جانب دیکھا اور بڑبڑائے جاہل ، گنوار ۔

Wednesday, February 15, 2017

مدغم ہوتی تہذیب

مدغم ہوتی تہذیب
شہیر شجاع

کچھ آفاقی الفاظ (جذبات)سماجی روایتوں کی اخلاقی حدود کو توڑنے میں کافی کارآمد ثابت ہورہے ہیں ۔ لفظ محبت و آزاد ، ان لفظوں نے ایسے فلسفوں کو بڑی تقویت پہنچائی ہے، جو فرد کی آزادی میں گھٹن کا سبب ہوں ۔  مگر اس کاشانہ چمن میں فلسفے کا جواب فلسفے سے ، حدود و قیود کا جواب حدود و قیود سے دینے کے علمی مظاہر نابود ہیں ۔
اخلاقی تقاضے اور جبلی خواہشات میں فرق ہے ۔ ایک ایسی جبلی خواہش ، نامحرموں کا آپس میں " آزادانہ میل ملاپ "ہے ،جسے شہوات کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے ۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے اجتماعی اخلاق آڑے آتا ہے ، سو اس اخلاقی رویے کی ماہیت کو بدلنے کے لیے " لفظ " محبت " کارآمد ہےکہ محبت تو آفاقی جذبہ ہے ۔ سو یہ فسلفہ وجود میں آتا ہے کہ محبت سے کیوں روکتے ہو ؟  کسی طرح یہ اخلاقی رکاوٹ دور ہوجائے ۔جیسے مغرب کی مثال ۔۔۔۔ ۔۔۔
کل کو شراب نوشی کو بھی فرد کی آزادی سے منسلک کیا جا سکتا ہے ۔ مغرب میں جوئے کے اڈے مکمل ریاست کی سرپرستی میں قائم ہیں ۔ سماجی روایتوں میں اجتماعی اخلاق اہمیت رکھتے ہیں ۔ اور ہمارا اجتماعی اخلاق پابند ہے ۔ اسی وجہ سے بہت ساری ایسی روایات جو کسی سماج میں بری تصور نہیں کی جاتی، مگر ہمارا سماج ان روایتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے اس سماج کے ناپسندیدہ افعال چھپ چھپا کر کیےجاتے ہیں ۔ جس سے کم از کم یہ امر واضح رہتا ہے کہ فلاں اوامر ہمارے اجتماعی اخلاق سے مناسبت نہیں رکھتے۔ ہر چند یہ کہ حدود پر جب ضرب پڑتی ہے تو سماج بلبلا اٹھتا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ روایتوں کے امیں و باغی دونوں علمی سطح پر صحت مند کلام کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کےبھی متحمل نہیں ہیں۔ کیونکہ مسئلہ روایتوں کا نہیں نفرتوں کا ہے ۔ دو مختلف نظریات کا تنافر ۔
یہاں ناکامی کس کی ہے ؟
اس ناکامی کا ہر " متعلق " طبقہ ذمہ دار ہے ۔  سماجی ادرے ، صحافت ، ادب ، تعلیمی ادارے ،  غرض ایک بہت بڑی ذمہ داری سیاسی اداروں  کی بھی ہے ۔ سیاسی اداروں کی اولین ترجیح سماج کو منظم رکھنا ۔ ان کے اخلاقی حدود و قیود کا تعین کر کے ان کا پابند کرنا ، ایک مکمل نُظم قائم کرنا ۔ یہ سیاسی اداروں کی ذمہ داری ہے ۔ یہاں ہر وہ طبقہ جو اپنی ذمہ داریوں کے عوض " عوضانہ " کماتا ہے ۔ اس کا تعلق سماج سے جیسے مکمل کٹا ہوا ہے ۔ مسلسل سماجی اکائیوں کو ہی یہ طعنہ دینا کہ "تم ہی غلط ہو ۔ اپنے آپ کو سدھار لو ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا "۔ اس کے لیے ایک نُظم درکار ہوتا ہے ۔ اور وہ نظم سیاسی ادارے فراہم کرتے ہیں ۔  سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو بعید نہیں ، آنے والی ایک نسل ایسی بھی ہوگی جہاں مذہبی رجحان فردکی توہین سمجھی جائے گی ۔ اخلاقی حدود کا تعین سڑکوں پر فرد کر رہا ہوگا ۔ اجتماعیت  میں تہذیب اپنے آپ مر جائے گی ۔ یا یوں کہہ لیں ایک ایسی تہذیب میں مدغم ہوجائے گی جس کا عام مشاہدہ ہم مغرب میں کر سکتے ہیں ۔ نہ جانے یہ امتزاج معاشرہ سہہ پائے گا کہ نہیں ؟ 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...