Wednesday, June 7, 2017

نظام تعلیم ، توجہ درکار ہے ۔

نظام تعلیم  ، توجہ درکار ہے ۔
شہیر شجاع
مدارس کے تعلیمی نصاب پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے ۔ اور یہ بجا بھی ہے ۔ جبکہ عصری تعلیمی نظام بھی اس قدر بوسیدہ ہے کہ دو نسلیں برباد ہوچکی ہیں ۔  مگر پھر بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں ۔ تنقید و تنقیص کا میدان گرم ہے ۔ حل کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ 
معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام ، ایک بہترین معاشی نظام کے قیام کی وضاحت کرتا ہے ۔  دوران تعلیم ہر طالبعلم کا  ذہن بعد از حصول ڈگری بہترین ذریعہ معاش کی کھوج میں لگا رہتا ہے ۔ مدرسے کے طالبعلم کے پاس محدود آپشن ہوتے ہیں ۔  وہ مسجد مدرسے کے گرد ہی سرگرداں رہتا ہے ۔ کیونکہ اس سے باہر کی دنیا نے اس کے لیے کسی ذریعہ معاش کا انتظام نہیں کیا ہوتا۔ سو جن میں لیاقت ، علمیت  و دیگر صفات موجود ہوتی ہیں وہ  کسی بہتر مقام کو پالیتے ہیں ۔ چند  جن میں استطاعت ہو وہ عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں اور  اپنے آپ کو اس سماج کے لیے قبول کرواتے ہیں ۔ اور جو بچ رہتے ہیں ، ان کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہوتی ہے ۔ کوئی مسجد کی امامت سنبھال لیتا ہے ، چھوٹے مدرسوں میں مدرس لگ جاتا ہے ۔ یا پھر چار و ناچار کوئی ہنر سیکھ کر اپنی دال روٹی چلانے لگتا ہے ۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اس سماج کی رگ کو سمجھتے ہیں وہ اپنی  خانقاہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو ہاتھوں ہاتھ بھی لیا جاتا ہے ۔ اور وہ  علماء سے کہیں بڑھ کر مقام حاصل کرتے ہیں ۔  جبکہ عصری جامعات سے فارغ التحصیل طلباء کا ذہن شروع سے وائٹ کالر نوکری کے گرد طواف کرتا رہتا ہے ۔ جونہی فائل ہاتھ میں دبائے  انٹرویوز  کی بسیں مس کرتا جاتا ہے وہ دلبرداشتہ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کے پاس بھی معاشرے میں آپشنز نہیں ہیں ۔
چونکہ معاشرے میں " محنت مشقت " کو عزت و ذلت کے دائرے میں بانٹ دیا گیا ہے ۔  لہذا وہ طلباء پیزا ڈیلیوری مغرب میں جا کر تو شوق سے کرلیں گے ، کیونکہ وہاں محنت کا مطلب محنت ہے ۔ مگر اپنے ملک میں شرم محسوس کریں گے ۔ اسی طرح کسی ہنر کو سیکھ کر اپنے معاش کا ذریعہ بنانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے ۔ کاروبار کی جانب بھی یوں توجہ نہیں دے سکتا کہ وسائل کہاں سے لائے اور اگر وسائل کسی حد تک موجود بھی ہوں تو بازار میں بازار پر اعتماد نہیں کر سکتا ۔اس کے علاوہ کاروبار کی بھی سطح مقرر ہے ۔ کہ فلاں کاروبار بڑآ ہے فلاں چھوٹا ۔ کہ فلاںباعث عزت ہے فلاں نہیں ۔   خیر ہم حل کی جانب سوچتے ہیں  ۔
حل کیا ہونا چاہیے ؟  یہاں کئی کام حکومت کی جانب سے کیے جا سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت نہایت اہم ہوچکی ہے ۔ کیونکہ اب استاذ کی مسند پر بھی وہی طالبعلم بیٹھا ہے جو ڈگری کے حصول کے بعد دلبرداشتہ سڑکیں ناپتا رہا ہے ۔ اور اب اس مسند پر بھی محض اس لیے بیٹھا ہے کہ فی الحال یہی غنیمت ہے ۔ اور اگر اساتذہ واقعی مخلص ہیں بھی تو ان میں اتنی علمیت موجود ہی نہیں جو ایک استاذ کے شعور کو درکار ہوتا ہے ۔ جس کے ذریعے سے ایک نسل کی تربیت ہوتی ہے ۔ سو اساتذہ کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ طلباء میں "علم " کی حکمت ، ضرورت ، حیثیت ، مقام ، مقصد ، سبب ، علت غرض " علم " ہی ان کے لیے مقصد حصول ہو ۔ اور اس حصول کے لیے وہ مٹی پتھر ڈھونا بھی قبول کرلے ۔  مستحق طلباء کے لیے بینکس یا دیگر معاشی اداروں کو قائل کرے کہ وہ ان کی مدد کریں ۔  اسی طرح مدارس کے طلباء کے لیے مختلف حکومتی ونجی اداروں میں نوکریوں کا انتظام کیا جائے ۔  جب وہ طلباء دفاتر میں فائلیں اٹھائیں پھریں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے نظام تعلیم میں کیا کمیاں ہیں ۔ اسی طرح جب طلباء انٹرویو دینے آیا کریں گے تو انہیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ان کو مزید بھی کچھ سیکھنا ضروری ہے ۔ پھر ایک   داخلی طور پر ہی تحریک اٹھے گی جس نے خود بخود ہی مدارس کے کرتا دھرتاوں کو مجبور کردینا ہے کہ ان کے نصاب میں مناسب تبدیلی ضروری ہے ۔ ان کے مدرسے کا  فارغ التحصیل  کے ذریعہ معاش کے ساتھ ساتھ سماج کے مقتدر طبقات کے ساتھ گھلنے ملنے سے مجبور ہے ۔ اور جب تک مدرسے کا طالبعلم آٖفس میں گریجویٹ کلرک کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ نہیں کرے گا ۔ ہر دو افراد ایک مقام پر یکجا نہ ہونگے یہ خلیج بھی یونہی حائل رہے گی ۔  محض تنقید کرنا اور مطالبہ کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان سب کے موثر ہونے کے لیے ایک اہم سیڑھی معاشرے میں میرٹ کا قیام بھی ہے ۔
تنقید اب تنقیص کی حدوں کے اندر سرایت کر چکی ہے ۔ عملی اقدامات کے لیے ان اذہان کی ضرورت ہے جو  مخلص ہوں اور واقعتا مسائل کا حل چاہتے ہوں ۔ ورنہ اب تک کی ہماری حکومتوں نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں صفر کام کیا ہے ۔ عمارت دیوار کھڑی کردینے کا نام نہیں جب تک بنیاد مضبوط نہ ہو ۔ تعلیمی نظام کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اس ڈھب میں دینی تعلیم کو بھی شامل کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کی ہٹ دھرمی پر اسے چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ۔ اس کے لیے نئی تدابیر درکار ہوتی ہیں ۔  نظام تعلیم ، تدابیر کا ضرورت مند ہے ۔
اور یہی آنے والے کل کے سماج کا اخلاقی و شعوری نظام متعین کرے گا ۔ 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...