Showing posts with label کلچر. Show all posts
Showing posts with label کلچر. Show all posts

Sunday, December 25, 2016

کلچر

کلچر
شہیر شجاع
روز مرہ زندگی میں بہت سے ایسے الفاظ  تبدیل ہو کر ایک بھوت کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔  جس وجہ سے اصل مفہوم ،اعتبار و قدر تک  ، ذہن کی رسائی آسان نہیں رہی ۔ علاوہ یہ کہ غور کیا جائے ۔ ایسا ہی ایک لفظ کلچر ہے ۔  جس کے تحت ، تہذیب ، ثقافت  ، تمدن  وغیرہ آجاتے ہیں ۔ عام دیکھا جائے تو تہذیب و تمدن ، ثقافت ، معاشرت جیسے الفاظ ہماری زبان کا حصہ تو ہیں مگر ان کے معانی کا ادراک موجود نہیں ۔ اس کی جگہ لفظ " کلچر " نے لے لی ہے ۔ جس میں  معاشرے کے ہر اچھے برے افعال کو پرودیا گیا ہے ۔   نواقص و کمال سب ایک ساتھ جڑ کر " کلچر" کی شکل اختیار کر گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اذہان  پر خلل ڈالنا زیادہ آسان ہوگیا ہے ۔  جہاں رشوت بازاری ، چوری ، ڈاکہ زنی ، زیادتی ، غیرت کے نام پر قتل ، نکاح  کا  مشکل  اور زنا کا آسان ہونا ۔ جہیز و دیگر مختلف    معاشرے کے ناسور،  اسی کلچر کا عکس اختیار کر چکے ہیں ۔ ذہن یہ سوال کرنے لگا ہے کہ ہمارا کلچر خراب ہے ۔ مغربی کلچر میں آزادی ہے امن ہے ، حفاظت ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں  اسی روایتی  ذہن کو لیکر چلتے ہوئے بات کریں تو واقعتا ہمارا کلچر ناسور بن گیا ہے ۔ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہیے ۔  دوسرے الفاظ میں جیسے کہا جاتا ہے یہ نظام گل سڑ گیا ہے اسے ختم کردینا چاہیے ۔ اس کی جگہ کوئی نیا نظام ہو ۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو بات ٹھیک ہی معلوم ہوتی ہے ۔ مگر غور کیا جائے تو یہ تصور نہایت ہی سطحی تصور ہے ۔
کیونکہ ہمارے پاس اپنی تہذیب  اور ثقافت موجود ہے ۔ اور اپنی مکمل رعنائی کے ساتھ موجود ہے ۔ تمدن  وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں لیکر آتا ہے ۔ مگر تہذیب و ثقافت میں خاص نمایاں بدلاو نہیں آتا ۔ آسان الفاظ میں  ہماری تہذیب آسمانی ہے ۔ اور ثقافت کا تعلق علاقائی طرز زندگی سے ہوتا ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ اللہ جل شانہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ایک بہترین تہذیب سے آراستہ فرمایا ہے ۔ اس تعلق سے پوری امت مسلمہ  مختلف ثقافتوں کے ساتھ ایک ہی ہار کے مختلف  رنگا رنگ و مختلف خوشبووں سے آراستہ ایک ہار ہے ۔  لہذا ہم اس سے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے چہ جائیکہ پہلے ہم اپنی تہذیب کا مکمل ادراک کریں ۔ اپنی ثقافت کی خوشبو سے اپنے آپ کو مہکائیں اور تہذیب سے اپنے اخلاق و کردار ، طرز زندگی کو  منور کرنے کی  کوشش کریں ۔  جب تک ہم اس عمل سے گزر نہیں جاتے ہم نتیجہ خیز گفتگو کے گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے ۔ کیونکہ تجربہ کیے بنا ہم کیونکر حکم لگا سکتے ہیں ؟ آپ عام رائج کلچر سے بیزار تو ہیں ۔ مگر اپنی تہذیب و ثقافت سے نا آشنا بھی ہیں  ۔  اور مشکل یہ ہےکہ،  یہ تہذیب جیسے موئن جودارو جیسی تہذیب ہوگئی ہو جو کہیں نظر ہی نہیں آتی ۔ کہ اسے دیکھ کر ہی احساس ہو کہ ہاں واقعی ہماری تہذیب تو یہ ہے ، جبکہ ہم نے کس رستے کا اپنے آپ کو مسافر بنا رکھا ہے ؟   اسی طرح ثقافت کی اپنی مہک ہے ، اپنی محبت ہے ۔ یہ مٹی کی خوشبو ہے ، اور مٹی میں اچھی کھاد  ہو ، وقت پر پانی ملے ، خوب خیال رکھا جائے تو ہریالی بھی جنت نظیر ہوتی ہے ۔ وگرنہ بنجر زمین  بنا  آب و دانہ سیم و زر کا شکار ہوجاتی ہے ۔ یا پھر  برسات کے بعد کیچڑ بن کر مسافروں کے لیے پریشانی کا باعث بنتی ہے ۔  تمدن    چونکہ زمانے کے ساتھ خاص ہے  اسی لیے اس میں جدت آتی رہتی ہے اور اس جدت کو تہذیب کا پیمانہ  سنوارے رکھتا ہے ۔  معتدل  رہنا ہی  ضمانت ہے سکون کی اور بنا سکون کے تمدن کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اور  ثقافت اس میں رنگ بھرتا ہے جس سے زندگی کے لوازمات کی تکمیل ہوتی ہے ۔
اب جو کچھ ہمارے معاشرے میں روا ہے ۔ یہ دراصل کچھ بھی ہمارا اپنا نہیں اور بہت کچھ ہم میں ماحول کے اثرات ہیں ۔ جیسے جہیز ، غیرت کے نام پر قتل  ، جوائنٹ فیملی سسٹم ، مختلف اوہام ، مختلف رسومات خصوصا شادی بیاہ سے متعلق ، عورت کی تعلیم  ، یا عورت کی زندگی سے متعلقات ۔ ایسے بیشتر رواج ماحولیاتی ہیں ۔ یہ نہ ہی ثقافت ہیں نہ تہذیب ۔ یہ تو ہم نے ہندوستان میں رہتے ہوئے ہندووں کے اثرات اپنا رکھے ہیں ۔ جس کی جڑیں اس قدر مضبوط ہیں کہ معاشرہ خاطر خواہ خواندہ ہونے کے باوجود اب تک ان رسوم و رواج سے کنارہ نہیں کر پا رہا ہے ۔ رہی سہی کسر امراء  ، رؤساء پوری کردیتے ہیں ۔ جو شان و شوکت کے اظہار میں ایسے رسوم و رواج کو فروغ دینے اور غریب طبقے میں احساس کمتری پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں ۔  سو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل جو کچھ بھی ہمارے معاشرے میں رائج ہے یہ نہ ہی ہماری تہذیب ہے اور نہ ہی ثقافت ۔ یہ  دوسری تہذیبوں کے اثرات ہیں جو ہمارے اجداد سے چلتے آرہے ہیں جو کبھی ہندو ہوا کرتے تھے ۔  سو یوں سمجھنا کہ ہم کوئی نیا کلچر پیدا کر لینگے ایسا کبھی ممکن نہیں۔ یہ ضرور ممکن ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی جانب لوٹ جائیں ۔ اپنی ثقافتوں کا احترام کریں اور اپنی جڑوں سے جڑ جائیں ۔ تب ہی جا کر ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے جو کہ ہمارا " کلچر " بن چکی ہیں ۔  جیسے ہمارے پاس آئین موجود ہے یعنی نظام موجود ہے مگر عمل پذیر کچھ اور ہی ہے ۔ سو یہ کچھ اور ختم ہو کر اصل کی جانب لوٹنا اہم ہے ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...