Monday, June 21, 2021

مدارس کیون ضروری ہیں

 سوال ہوتا ہے کیا معاشرے کو مدرسے کی ضرورت ہے ؟ 

اگر ایک سطر میں جواب دیا جائے تو یقینا ہے ۔


 پاکستان میں دو نظام تعلیم ہیں ۔ مذہبی و عصری کے دو مختلف ناموں سے یہ چل رہے ہیں۔ درحقیقت یہ مذہبی و عصری کے نام ہی غلط ہیں ۔ یہ دراصل دونوں ہی تعلیمی اداروں کی مختلف شاخیں ہیں ۔ جیسے انجینئرنگ یونیورسٹی علیحدہ ہوتی ہے اسی طرح کامرس کالج ، میڈیکل کالج ، آرٹس کالج وغیرہ کی تقسیم ہے اسی طرح علوم اسلامیہ کے لیے بھی کالج درکار ہے جو مدارس کی شکل میں موجود ہیں ۔ 

اب یہ حکومت کی زیرسرپرستی کیوں نہیں ہیں ؟ اس کا جواب کیا مشکل ہے ؟ 


گورنمنٹ اسکولوں میں بھینسیں بندھی ہوتی ہیں اور اگر کوئی اسکول چل بھی رہا ہو تو وہاں سے فارغ التحصیل کے لیے معاشرے میں کوئی معاشی کشش موجود نہیں ہے اور  نجی تعلیمی ادارے “ برینڈز” بن چکے ہیں ۔ جن کی فرنچائز بک رہی ہیں ۔ جتنا بڑا برینڈ اتنا زیادہ “ مال “ ۔ 

عام آدمی کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو وہ اپنے بچے کو ان نجی اداروں میں داخل کرے جو گلی محلوں میں آٹھ دس کمروں میں کارخانوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں ۔ ایک پریکٹس ہے کہ ہاں میرا بچہ اسکول کا جارہا ہے ۔ اور جو اس قابل بھی نہیں ہوتے کہ وہ کوئی فیس ہی ادا کرسکیں ؟ تو وہ بچہ گلیوں میں پلتا ہے یا کسی ورکشاپ ، ہوٹل وغیرہ میں پایا جاتا ہے یا پھر اسے مدرسہ پناہ دیتا ہے ۔ معاشرے میں آج بھی شرح خواندگی پچاس فیصد سے کچھ اوپر ہے ۔ اور بیروزگاری بھی شایداتنی ہی ہے ۔ 

آپ کے پاس نہ ہی تعلیمی نظام ہے اور نہ معاشرے میں شرح خواندگی بڑھانے کی کوئی سعی ۔ اور نہ ہی اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل افراد کی زندگی کا تجزیہ کہ کتنے فیصد سند یافتہ روزگار حاصل کر پائے اور کن روزگار سے منسلک رہے اور کتنے بیروزگار رہے اور انہوں نے کیا ذریعہ معاش اپنایا وغیرہ وغیرہ ۔

ایسے میں جامعات علوم اسلامی کی ضرورت کی شدت بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ زیادہ نازک اور حساس معاملہ ہے جو غیر ذمہ دار افراد کے ہاتھوں میں جانا زیادہ نقصان دہ ہوگا ۔ 

اچھائی برائی پر تنقید اس کے وجود کو اپنا کر کیا جائے تو یقینا مثبت نتائج بھی نکلیں گے ورنہ معاشرے میں موجود تمام معاملوں کی طرح یہ بھی تعصب کا شکار رہ کر ارتقائی شکل اختیار نہیں کر پائے گا ۔ 


شہیر

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...