Showing posts with label Human. Show all posts
Showing posts with label Human. Show all posts

Wednesday, June 17, 2020

​فکر مشرق

فکر مشرق

شہیر شجاع

 

مسلم دنیا تحقیق کے میدان میں کتنا سفر کرچکی ہے علم نہیں ۔ خصوصا طب کا میدان جو آج کا خاص موضوع ہے اس میں ہم کہاںکھڑے ہیں ؟ بظاہر ہاتھ باندھے مغرب کی  جانب نظریں گاڑے بیٹھے ہیں کہ کوئی ویکسین آئے تو “ہم” شور مچانا شروع کریں ۔۔۔۔۔۔“ اےاہل مشرق تم نے ایک دوسرے کو کافر کہنے کے سوا کیا کیا ؟ یہ دیکھو کافروں نے علاج دریافت کرلیا “ ۔ ۔۔۔۔اور اگر اہل مشرق اپنیمقدور بھر صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کسی تحقیق کی بنا پر علاج کا بتائے تو اس کا تمسخر اڑا کر عوام الناس کو اس سے مستفیدہونے سے محروم کردیا جائے ۔ گویا اہل مشرق کو صرف تمسخر کا نشانہ بننے کا حق ہے ۔ 

ہم اپنی صلاحیتوں کو یوں ہی ضایع ہوتے دیکھتے رہیں یا ذرا آنکھیں نیچی کر کے اپنے قوت بازو کو بھی آزمانے پر توجہ دیں ۔ ورنہ یہسلسلہ دراز ہے ۔ 

آخر یہ “ ہم “ اور “ اہل مشرق “ کیا دو جدا آدمی ہیں ؟ 

 


Tuesday, April 26, 2016

قدرتی تقاضہ


قدرتی تقاضہ

شہیرشجاع

دنیا کے حالات انسانی زندگی کی کشمکس کی بنا پر نمو پذیر ہوتے ہیں ۔ قومیں سنورتی ہیں ، سنور کر بگڑتی ہیں ۔ بگڑ کر سنورتی ہیں ، تہذیبی اختراع  ایک تمدن کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ اور اسی تمدن سے تہذیب بتدریج مٹ جاتی ہے ، اور کوئی نئی تہذیب یا تہذیبی ملغوبہ جنم لیتا ہے ۔ 
بخت نصر کی طرز حکمرانی بدرجہ ہولناکی  کے بعد قدرتی تقاضے  کے امر پر "سائرس" کا ظہور ہوتا ہے ۔  سائرس کے بعد  امن و شانتی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی ۔ ایک مرتبہ پھر سکندر مقدونی کی صورت میں ایک آفت نمودار ہوتی ہے ۔ اور اس آفت کی موت کے ساتھ ہی وہ ساری سلطنت پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔  ان ساری صورتحال کے درمیان جو غور کرنے کی بات ہے وہ ہے رعایا ۔ انسان ۔۔   کہ مسلسل استحصال کے دوران اس کے اندر کے ایک بے چینی جنم لیتی ہے ۔  اور سکون کی تلاش میں اس کی طبیعت سرگرداں ہوجاتی ہے ۔ زمین کا قدرتی تقاضہ یہی ہے کہ اب کوئی نجات دہندہ کا ظہور ہو ۔  پھر کسی نبی کی صورت میں یا شفیق فاتح کی صورت میں دنیا کا عمل آگے بڑھتا ہے  تہذیبیں بنتی ہیں اور اس میں بگاڑ آتا ہے ، اور پھر ایک نئی تہذیب جنم لیتی ہے ۔
اسی طرح آج کی دنیا  بھی سسک رہی ہے ۔ وہ کسی نئی تہذیب ، نئے  نجات دہندہ کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔  ہر طرف آہ و بکا ہے ۔ زندگی سسک رہی ہے ، تڑپ رہی ہے ۔  مگر یہ زمانہ آخری  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کا زمانہ ہے ۔  اب نجات دہندہ کوئی اور نہیں ۔   بذات خود ہر انسان ہے ۔   آج کا انسان بالغ نظر ہے ۔ عقلی طور پر مستحکم ہے ۔ اس کے پاس  ان عولم کا خزینہ ہے جو پہلے نہ تھا ۔ آج کے انسان کی طاقت علم ہے ۔
مگر اخلاص و قبولیت ، سچ و جھوٹ کی تمیز میں  خود تراشے ہوئے بتوں سے باہر نکلنا بھی ضروری ہے ۔ اور یہی آج کا قدرتی تقاضہ ہے ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...