Showing posts with label پاکستان. Show all posts
Showing posts with label پاکستان. Show all posts

Friday, June 5, 2020

پرندہ


پرندہ

شہیر شجاع


انسان کیوں ہے اور کیوں آیا ہے دنیا میں ؟ یہ اور ایسے سوالات ہر سوچنے والا ذہن سوچتا ہے ۔ کچھ کے پاس عقیدتاً جواب موجود ہےتو کچھ کے پاس عقلاً ۔ یہ الگ بات ہے کہ کون کتنا مطمئن ہے ۔ اور کچھ ان سوالات و جوابات سے ماوراء زندگی کی گاڑی کھینچے جارہے ہیں ۔ پر ان سوالات پر غور کرنے کے لیے پیٹ کا بھرا ہونا بھی شاید ضروری ہے ۔یا پھر اُس معاشرے کی تربیت میں پیٹ کا نمبردوسرا ہو ۔
ہم جیسے پسماندہ ممالک جو عالمی طاقتوں کی نکیل ڈالے چلنے پر مجبور ہیں یہاں کے باشندوں کا پہلا مسئلہ معیشت ہے اور یہمسئلہ کبھی ختم بھی نہیں ہوتا ایسے میں ذہنی پسماندگی انسان کو شارٹ کٹ کی راہ دکھاتی ہے ۔ اور ترقی یافتہ ممالک کے بڑےنوٹ سے لیکر وہاں کی پر آسائش زندگی اپنی جانب مائل کیے رکھتی ہے ۔ 
پھر کسی دن پرندہ اپنا گھونسلہ چھوڑتا ہے اور اڑ جاتا ہے ۔ اس سے پیچھے رہ جانے والوں کو کتنا فرق پڑتا ہے اس بات سے قطعنظر ایک ہستی کے دل پر پہلی چوٹ پڑتی ہے ۔ اور وہ زخم سلگتا رہتا ہے سلگتا رہتا ہے ۔ جس کا احساس سوائے اس ہستی کے کسیکو نہیں ہوتا ۔ باہر پرندہ بھی مچلتا رہتا ہے مگر جو زخم اس نازک دل میں پیدا ہوا ہے اس کی دوا کا شاید ہی کوئی سوچتا ہو ۔ کیونکہوہ نظروں سے اور احساس سے اوجھل رہتا ہے کیونکہ وہ عظیم ہستی جانتی ہے کہ اس کا درد اگر نظر آجائے تو پرندے اپنا خواب پورانہیں کرسکیں گے ۔ پھر ایک دن وہ زخم ناسور بن جاتا ہے جس کی ٹیسیں پرندہ بھی محسوس کرتا ہے مگر اب بھی دوا سے نامانوسرہتا ہے ۔ یہاں تک کہ ایک دل گداز خبر اس کا سینہ چیر کر رکھ دیتی ہے ۔ اس کے پیروں تلے زمین سرک جاتی ہے ۔ بے بسی کیکیفیت اس کی زندگی کو لاحاصل بنا دیتی ہے ۔ لاچارگی کے عالم میں احساس محرومی اس کی دھڑکنوں کو طلاطم خیز موجوں میںبدل دیتی ہے ۔ سر پٹکے یا صحراوں میں نکل جائے ، یا پہاڑوں میں پناہ لے ، پرندہ دل سوزی کی ان حالتوں سے آشنا ہوتا ہے جنحالات سے شاید وہ ہستی عرصہ دراز تک پل پل گزری ہو ۔ لیکن اب سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ نہیں رہ جاتا ۔ ایک خلا ہے جس نےتاحیات پُر نہیں ہونا ۔ اس خلا نے ہمیشہ اس احساس محرومی کو زندہ رکھنا ہے ۔ جس کو آباد کرنے کے خواہش لیکر پرندے نے اڑانبھری تھی ۔ 


Wednesday, May 27, 2020

انسان اور وبا


انسان اور وبا 

شہیر شجاع 

 کرونا کی آڑ میں انسانیت سوزی کے پہ در پہ واقعات جب پیش آئیں تو پھر ایسی پیش بندیوں سے یقین اٹھنا بے جا نہیں ہے ۔ وبا کاہونا یقینی ہے سب جانتے ہیں مگر اس کے سدباب یا اس سے حفاظت کے لیے جو اقدامات کیے گئے ، ان اقدامات نے جہاں انسانیتسوزی کے دلدوز واقعات کا مشاہدہ کیا وہیں اس نظام سے نفرت اور  انسان دشمن ہونے پہ مہر ثبت کردی ۔ 

یہ نظام بالائی طبقے کی بہبود کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے اور اس مشکل وقت میں بھی اسی کو مرکز نگاہ رکھا گیا ۔ ذراآس پاس نگاہ دوڑائیں کتنی جانیں وبا کے نام پر تلف ہوئیں ۔ اور کتنے انسان اپنے گھروں کو پہنچنے کی خواہش میں رستے میں بدحالموت مرے ۔ نہ جانے کتنوں نے اپنی جانیں خود اپنے ہاتھوں تلف کرڈالی ہوں ۔ 

لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے اور ان میں نہ جانے کتنے جرائم پیشہ ہوجائیں اور پھر کسی جرم کی پاداش میں کسی سڑک پر مارےجائیں یا زندگی جیلوں میں گزاریں ۔ یعنی اس طبقے کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے ۔ اور گھروں میں دبکے ٹسوے بہاتے لوگوں کی گالیاںبھی وہی کھا رہے ہیں ۔ 

 

یہ وہ  نظام ہے جہاں “انسان “ کی موت ہے ۔ 

 

Sunday, March 8, 2020

اسمارٹ فون اور شعور


اسمارٹ فون اور شعور

شہیر شجاع

اسمارٹ فون ایک ایسا آلہ ہے جو ساری دنیا میں تقریبا ہر انسان کے زیر استعمال ہے ۔ اور ہر شخص انفرادی طور پر اپنے افادات وترجیحات و ذوق کے پیش نظر اس کا درست و غلط استعمال کر رہا ہے ۔ اگر ہم پاکستانیوں کی بات کریں تو محسوس ہوتا ہے مجموعیطور پر اس آلے نے ہمارے مجموعی شعور کی تنزلی کو خوب عیاں کیا ہے ۔ 

میں بہت سے رویوں میں سے دو ریوں کا ذکر کروں گا۔ ایک تو وہ جب نواز شریف یا دیگر سیاستدان  پاکستان سے باہر تشریف لےجاتے ہیں تو وہاں عوام سیل فون ہاتھوں میں لیے نازیبا نعروں سے ان کا استقبال کرتے پائے جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے اخلاقی و شعوریگراوٹ کی انتہا ہے کہ ہم مذہبی تو دور قومی غیرت سے بھی ہاتھ دھو کر ذاتی نفرتوں کے خوگر ہوچکے ہیں ۔ 

دراصل ان سطور کے لکھنے کا سبب ایک ویڈیو بنی جس میں کوئی “ غیرت مند “ پاکستانی ، حامد میر صاحب کو ائر پورٹ میں ذلیلکرنے پہ تلا ہے ۔ دل پہ چوٹ سی لگی ۔ کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ اور شدید ترین چوٹ تب لگتی ہے جب اس کی عقیدت یاوفاداری پہ شبہ کیا جائے ۔ پھر سونے پہ سہاگہ اس کے اپنے ہی لوگ سر راہ اس انسان کو رسوا کرنے لگیں ۔ 

اختلاف گھر کے اندر ہوتا ہے ۔ احتجاج ہو غصہ ہو ناراضی ہو یہ سب گھر کے اندر آپس کے معاملات ہوتے ہیں ۔ اس میں اختلاف رائےتک ہی بات رہنی چاہیے ۔ اور غیرت تو کسی بھی طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

 

Friday, January 3, 2020

زعم دانش

زعم دانش 

ہند جیسی صورتحال پاکستان میں ہوتی تو ہمارے محترم لبرل دوست جوش و خروش کے ساتھ ہر منفی خبر پر آستینیں چڑھائے “ مذہبی جنونی” “ جہالت “ وغیرہ کے نعروں کے ساتھ “ تبرا” فرمارہے ہوتے ۔ 
جبکہ ہند کی حقیقی صورتحال میں انہیں وہاں کا حکومتی غیر انسانی رویہ جہاں گھروں میں گھس کر عورتوں کا استحصال ، مردوں ، جوانوں ، بچوں کو زود کوب کے ساتھ انہیں جیلوں میں بھرا جا رہا ہے ۔ خون بہہ رہا ہے ۔ 
جینوسائڈ کے امکانات پہ بات ہو رہی ہے ۔ 
ایک آزاد معاشرے میں مسلمان ہونا جرم ہوگیا ہے ۔ “انسان” کو نہیں “مسلمان “ کے لیے موت و حیات جیسی کشمکش پیدا ہوگئی ہے ۔
 ایسے میں ہمارے لبرل دوستوں میں “ مثبت سوچ “ اجاگر ہورہی ہے ۔ اور وہ اُس معاشرے کی ہر مثبت آواز کی تعریف کرتے ہوئے ہمارے معاشرے پہ “ تبرا “ کا شوق پورا فرمارہے ہیں ۔ 

زعم تقوی ، خبط عظمت اور زعم دانش

معاشرے کے تین المیے 

شہیر


Monday, April 9, 2018

معاشرتی زوال

معاشرتی زوال
شہیر شجاع
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔  پاکستان جب معرض وجود  میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین  کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ   دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس  خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن  اور دلوں میں حسد نے  جگہ بنالی ۔ 
۔ تخریب ہمیشہ داخل سے ہی شروع ہوا کرتی ہے خواہ خارج   سے  نیت و عمل شامل ہو یا نہ ہو ۔ داخل سے جب تک رضا شامل نہ ہو تخریب کا عمل کارگر نہیں ہو سکتا ۔ لہذا مختلف صورتوں میں اس خطے میں تخریب کاروں نے اپنا عمل دخل قائم کیا اور مختلف پہلووں پر اپنے اثرات کا نفوذ کیا ۔ معاشرے  کی ہر ہر قدر کو نشانہ بنایا  جاتا رہا جس کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی رہی ۔ یہاں تک کہ سماج سے تعلیمی ، اخلاقی ، سیاسی ، سماجی قدریں  اپنی توانائی کھونے لگیں ۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہر ذہن کسی نہ کسی مقام پر " بزعم خود" والی صورتحال کا شکار ہے ۔ ہر فکر کا حاصل انتہا ہے ۔ اختلاف کا مطلب قتل ہے ۔ اقرار کا مطلب اطاعت ہے ۔ انکار کا مطلب ارتداد ہے ۔ غرض سماج اپنی سب سے اعلی قدر " عقل" سے محرومی پرنازاں ہے ۔
یہاں آج بھی ستر سال پہلے کے واقعے پر سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ اور ہزار سال  پہلے کے واقعے پر " پر  مغز " بحث ہونے کے بجائے " پر بغض " بحث ہوا کرتی ہے ۔  فکر کا جوہر " انتہا" ہوچکا ہے ۔
" فرد سے لیکر طبقات تک ، ہر ایک  مخالف پر تنقید کے لیے دیوان پر دیوان لکھ سکتا ہے ، مگر تعمیر کے لیے اذہان خالی ہیں ۔ "

    

Saturday, February 17, 2018

تماشہ


تماشہ
شہیر شجاع
مسئلہ یہ نہیں عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے ۔۔۔ مسئلہ یہ آج نہیں پیدا ہوا ۔۔ یہ مسئلہ شروع سے ہی ہے ۔۔ جس کی ابتداء نظریہ ضرورت کے تحت ہوئی ۔۔۔۔ 
آج جو میاں صاحب اینڈ فیملی جلے بھنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس آگ نے ان کے دامن کو جلا ڈالا ہے ۔۔۔۔
افسوس کہ ہم بجائے اس کے کہ ان اقتدار کے بھوکوں سے اپنے حقوق کے مطالبے کرنے کے ہم اس حریص ِ اقتدار کے ساتھ کھڑے عدلیہ کو ہی کمزور کرنے اور عدلیہ پر جو بھی اعتبار ہے اسے ختم کرنے پر تل گئے ہیں ۔۔ پہلے تو ن لیگ نے پوری کوشش کی کہ فوج کے بارے میں عوام میں شدید بدگمانی پیدا ہوجائے ۔۔ جس کو کافی حد تک کم کرنے میں جنرل باجوہ نے اہم کردار ادا کیا ۔۔۔ اب عدلیہ کے ساتھ کون کھڑا ہو ؟ 
عمران خان کے پاس نواز شریف جیسی " سوکالڈ سیاست " نہیں اور نہ وہ ان عوامل کا ادراک رکھتا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں در آئے جس نے سیاست کے معانی بدل کر رکھ دیے ۔۔۔ 
ان سیاستدانوں نے آج تک پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے ، پارلیمنٹ کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے ، خارجہ و داخلہ امور پر گفتگو کرنے کے لیے کتنا استعمال کیا ؟ سوائے ان امور میں پارلیمنٹ میں یہ سب متحد ہوئے جہاں ان کے اقتدار اور ان کی کرپشن یا ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے ۔۔۔ ورنہ آج بلدیاتی نظام اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جاتا ۔۔ پارلیمنٹ ایک منتظم کی حیثیت سے قوانین بنا رہی ہوتی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو مضبوط تر کرنے ، انصاف کی فراہمی کو آسان کرنے و دیگر امور پر رات دن ایک کیے ہوتے ۔۔۔
ہمارا کیا ہے ؟ کبھی " آمر " فوجی ہوتا ہے ۔۔ کبھی " سیاستدان " ۔ تو کبھی عدلیہ ۔۔۔۔
ہم تو تماشائی ہیں ۔۔ کبھی اس کے لیے تالیاں پیٹنے والے کبھی اُس کے لیے ۔۔۔
سو لگے رہیں ۔۔۔

حسن ظن

حسن ظن
شہیر شجاع
جب ن لیگ نے شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم نامزد کیا یہاں تک کہ وہ وزیر اعظم بنا بھی دیا گیا ۔ اس وقت تک ہم جیسے عام لوگ ان کو پی آئی اے کے سربراہ اور اپنی نجی ائر لائن ائر بلو کے مالک کی حیثیت سے ہی جانتے تھے ۔ سوال اٹھانے والے کہتے تھے ان کی اپنی ائر لائن تو منافعے میں جا رہی ہے اور پی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے کرپشن ہی کی ہوگی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ایک سرسری سا وزیراعظم صاحب کی شخصیت کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا وہ مخفی منفی ہی تھا ۔ چونکہ ان کی شخصیت پر پروپیگنڈا کرنے کے لیےمواد موجود نہ تھا سو بات مزید آگے نہیں بڑھی ۔ پھر چند تصاویر اور آرٹیکلز حضرت کے بارے میں سامنے سے گزرے ۔ جن سے ان کی الگ شخصیت کا نیا تاثر ابھرا ۔ ایک سادہ ، مخلص شخصیت ۔ یہ بات ہم بھی جانتے ہیں سارے سیاستدان برےنہیں ہوتے ۔
المیہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شکست سیاستدان کو اس وقت ہوتی ہے جب اس کے گلے میں پارٹی ڈسپلن کا طوق ڈالا جاتا ہے ۔ غائر نظر پارٹی ڈسپلن ایک مثبت شے ہے ۔ مگر اس کی بنیاد عموما پارٹی کا ڈسپلن نہیں ہوتا بلکہ پارٹی کے سربراہ کا حاکمانہ تصور ہوتا ہے ۔ پارٹی ڈسپلن دراصل پارٹی سربراہ کی منشاء کی تحریری شکل ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے مخلص سیاستدان بھی اپنا چند فیصد ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف  فی الوقت سیاست کے میدان میں ن لیگ  دراصل نواز شریف کی پارٹی ، پیپلز پارٹی دراصل بھٹو کی پارٹی کے از بعد مین اسٹریم میڈیا میں تیسری جماعت کو حصہ ملا ہے وہ تحریک انصاف عمران خان  کی پارٹی ہے ۔  میرا اب یہ یقین ہے کہ تحریک انصاف  میں کوئی  روایتی سیاست سے ہٹ کر کچھ نہ رہا ۔ اسی وجہ سے پہ درپہ وہ شکست خوردہ ہوئی جاتی ہے ۔ اور میں سمجھتا ہوں اس کی سب سے بڑی وجہ تحریک انصاف کی اعلی قیادت ہے ۔ چونکہ یہ جماعت بھی روایتی سیاست کے رستے پر چل نکلی ہے سو اب ان کی کامیابی کا دارومدار بھی  " دکھاو پر پیسہ بہاو " پر ہی منحصر ہے ۔ چہ جائیکہ اس جماعت کی حکومت میں شامل وزراء اپنے کام میں بقیہ جماعتوں کے وزراء کی نسبت آزاد ہونگے یہ میرا حسن ظن ہے ۔ بہرحال بات کہیں سے کہیں جا نکلی ۔ اس وقت ن لیگ کی جانب سے  نامزد اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب بھی ان سیاستدانوں میں محسوس ہوتے ہیں جن کے پاس اختیارات ہوں تو وہ پاکستان کی ترقی میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہوں ۔ اپنی بہترین ٹیم کے انتخاب کا ان کے پاس اختیار ہو تو شاید وہ پاکستان کے حق میں ایک اچھے سیاستدان ثابت بھی ہو سکتے ہوں ۔ یہ میرا گمان ہے ۔ اور شاید پاکستان کا ہر باسی کسی بھی شخص میں خدا ترسی دیکھ لے تو وہ فورا موم ہوجاتا ہے اور اس شخص کے لیے احترام کا جذبہ پال لیتا ہے ۔ خواہ وہ لبادہ حقیقی ہو یا نا ہو ۔ مسلم کے  فطری اخلاق یہی ہیں اور یہی دیکھنے میں آیا ہے ۔ افسوس کے ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کے لیے تو مکمل میشنری موجود ہے ۔ مگر فی الوقت جس شخص نے  ن لیگ کی حکومت کا بار اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے ۔ اس کے لیے چند الفاظ لکھنے کی توفیق بھی ان میں نہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس طرح شریف فیملی کی قدر میں کمی نہ پیدا ہوجائے ۔ اور ان کی ناراضی مول لینا  ان مفاد پرستوں کے بس کی بات نہیں ۔ میرا یہ بھی احساس ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے شخص کا وزیر واعظم منتخب ہوجانا  جمہوری دور میں ایک نئے موڑ کا باعث بھی بن سکتا تھا بلکہ ہے ۔ اگر اس وقت ن لیگی جمہوریت کو صحیح معنوں میں زندہ کرنے کی نیت خلوص رکھتے ہوں اور ان کی سیاست کا مقصد حقیقی پاکستان کی فلاح ہو ۔ وہ اس طرح کہ ساری کی ساری کابینہ ، وزراء ، سیاسی کارکن  اپنے وزیر اعظم کے مسلسل کاموں کو پروموٹ کریں ۔ جو یہ ظاہر کرے کہ پارٹی کا ہر کارکن کام کرنے میں آزاد ہے سوائے اس کے کہ وہ منشور سے رو گردانی کرے جو منشور عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ یا آئین پاکستان کے خلاف اعمال و افعال  سامنے آئیں ۔ اس طرح سے ن لیگ کو ایک خاندان کے چنگل سے بھی نکالا جا سکتا ہے ۔ بیشک یہ آسان نہیں ہے ۔ کیونکہ اس کے بعد اس خطے کی سیاست میں طاقت کا توازن بھی بگڑنے کا مکمل  امکان رہتا ہے ۔ جو قوت اقتدار شریف خاندان کو میسر ہے شاید وہ قوت ن لیگی کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونا قبول نہ کریں ۔ اس کے ساتھ ہی  پارٹی کے لیڈر کے لیے جماعت اسلامی کا فارمولہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
مگر اگر مگر یہ سب کیونکر ہو ۔۔۔ شاہد خاقان عباسی ، ۔۔ اور ان جیسے کئی ایسے لوگ ہونگے جو شاہی خانوادوں کے اقتدار کی نذر ہوتے رہیں ۔ اپنی منشاء کے مطابق کہ ۔۔ کسی نے کیا خوب جملہ کہا ہے ۔۔۔
پاکستان میں دو وزیر اعظم ہیں ۔ ایک " نا اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل نہیں مانتا ۔ دوسرا " اہل وزیر اعظم " جو اپنے آپ کو نا اہل مانتا ہے ۔

Thursday, July 27, 2017

سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں

 سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں  
............................................................شہیر شجاع

مغربی ممالک کی مہیا کی گئی پر آسائش زندگی میں جیتے ہوئے اپنے اس سماج کو قابل گردن زدنی قرار دینا نہایت آسان ہے ۔یہ زمین صدیوں سے غیر منصفانہ روایتوں اور رواجوں کی بنیاد پر سسک رہی ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مغربی دنیا ہر قسم کے اخلاقی و سماجی مسائل سے پاک ہے ۔ جہاں مادر پدر آزاد معاشرہ ہونے کے باوجود زنا بالجبر کی شرح ہم جیسے گھسے پٹے معاشرے سے کہیں زیادہ ہے ۔ سڑ کوں پر اور اپنی گاڑیوں کو اپنا گھر بنانے والوں کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے ۔ یہ ہمارا معاشرہ ہے جہاں ۔۔ایس آئی یوٹی ، شوکت خانم، اخوت اور نہ جانے کتنے ایسے ادارے موجود ہیں ۔ یہ بھی اسی سماج کا حصہ ہیں ۔ ہمارا معاشرہ صدیوں سے جاگیر داروں ، سرداروں ، وڈیروں ، خانوں ، چوہدریوں کی غلامی کر رہا ہے ۔ عام آدمی کے پاس تعلیمی وسائل ہیں نہ تربیتی مراکز اس سماج کو میسر ہیں ۔ اگر کہیں کچھ مثبت ہے بھی تو اس میں بھی کیڑے نکالنے کی روایتیں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ آپ کے پاس ایسا کیا ماڈل ہے جو اس سماج کو تعلیم یافتہ بنائے ? اس کو اپنے اقدار سے روشناس کرائے ؟ اس کے اخلاقی اقدار کو قائم کرے ؟ مسلکی عصبیتیں بہت بعد کی چیزیں ہیں صاحب ۔ یہاں نسلی و لسانی عصبیتیں اس سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں ۔ وہ تو آپ کو مغرب نے ایک بتی کے پیچھے لگا یا ہے ۔ مذہب کا نام آتے ہی کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔ دل میں نفرت آنکھوں میں انگارے دوڑ جاتے ہیں ۔ ہر جانب ملا کسی دیو کی طرح دکھنے لگتا ہے ۔ آپ کبھی مدارس کا دورہ تو کر کے دیکھیے ۔ پانی والی دال اور سوکھی روٹی کھا کر ٹاٹ کے بستر پر سوکر ، چٹائیوں میں بیٹھ کر جو اپنی جوانی لٹا دیتے ہیں ۔ ان کے لیے اس معاشرے میں کیا مقام ہے ؟ امام مسجد بنا دو ؟ موذن لگا دو ، نکاح پڑھوالو ؟
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟

Wednesday, June 7, 2017

نظام تعلیم ، توجہ درکار ہے ۔

نظام تعلیم  ، توجہ درکار ہے ۔
شہیر شجاع
مدارس کے تعلیمی نصاب پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی ہے ۔ اور یہ بجا بھی ہے ۔ جبکہ عصری تعلیمی نظام بھی اس قدر بوسیدہ ہے کہ دو نسلیں برباد ہوچکی ہیں ۔  مگر پھر بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں ۔ تنقید و تنقیص کا میدان گرم ہے ۔ حل کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ 
معاش انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام ، ایک بہترین معاشی نظام کے قیام کی وضاحت کرتا ہے ۔  دوران تعلیم ہر طالبعلم کا  ذہن بعد از حصول ڈگری بہترین ذریعہ معاش کی کھوج میں لگا رہتا ہے ۔ مدرسے کے طالبعلم کے پاس محدود آپشن ہوتے ہیں ۔  وہ مسجد مدرسے کے گرد ہی سرگرداں رہتا ہے ۔ کیونکہ اس سے باہر کی دنیا نے اس کے لیے کسی ذریعہ معاش کا انتظام نہیں کیا ہوتا۔ سو جن میں لیاقت ، علمیت  و دیگر صفات موجود ہوتی ہیں وہ  کسی بہتر مقام کو پالیتے ہیں ۔ چند  جن میں استطاعت ہو وہ عصری جامعات کا رخ کرتے ہیں اور  اپنے آپ کو اس سماج کے لیے قبول کرواتے ہیں ۔ اور جو بچ رہتے ہیں ، ان کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہوتی ہے ۔ کوئی مسجد کی امامت سنبھال لیتا ہے ، چھوٹے مدرسوں میں مدرس لگ جاتا ہے ۔ یا پھر چار و ناچار کوئی ہنر سیکھ کر اپنی دال روٹی چلانے لگتا ہے ۔ اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اس سماج کی رگ کو سمجھتے ہیں وہ اپنی  خانقاہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ایسے افراد کو ہاتھوں ہاتھ بھی لیا جاتا ہے ۔ اور وہ  علماء سے کہیں بڑھ کر مقام حاصل کرتے ہیں ۔  جبکہ عصری جامعات سے فارغ التحصیل طلباء کا ذہن شروع سے وائٹ کالر نوکری کے گرد طواف کرتا رہتا ہے ۔ جونہی فائل ہاتھ میں دبائے  انٹرویوز  کی بسیں مس کرتا جاتا ہے وہ دلبرداشتہ ہوتا جاتا ہے ۔ اس کے پاس بھی معاشرے میں آپشنز نہیں ہیں ۔
چونکہ معاشرے میں " محنت مشقت " کو عزت و ذلت کے دائرے میں بانٹ دیا گیا ہے ۔  لہذا وہ طلباء پیزا ڈیلیوری مغرب میں جا کر تو شوق سے کرلیں گے ، کیونکہ وہاں محنت کا مطلب محنت ہے ۔ مگر اپنے ملک میں شرم محسوس کریں گے ۔ اسی طرح کسی ہنر کو سیکھ کر اپنے معاش کا ذریعہ بنانا بھی عیب سمجھا جاتا ہے ۔ کاروبار کی جانب بھی یوں توجہ نہیں دے سکتا کہ وسائل کہاں سے لائے اور اگر وسائل کسی حد تک موجود بھی ہوں تو بازار میں بازار پر اعتماد نہیں کر سکتا ۔اس کے علاوہ کاروبار کی بھی سطح مقرر ہے ۔ کہ فلاں کاروبار بڑآ ہے فلاں چھوٹا ۔ کہ فلاںباعث عزت ہے فلاں نہیں ۔   خیر ہم حل کی جانب سوچتے ہیں  ۔
حل کیا ہونا چاہیے ؟  یہاں کئی کام حکومت کی جانب سے کیے جا سکتے ہیں ۔ سب سے پہلے اساتذہ کی تربیت نہایت اہم ہوچکی ہے ۔ کیونکہ اب استاذ کی مسند پر بھی وہی طالبعلم بیٹھا ہے جو ڈگری کے حصول کے بعد دلبرداشتہ سڑکیں ناپتا رہا ہے ۔ اور اب اس مسند پر بھی محض اس لیے بیٹھا ہے کہ فی الحال یہی غنیمت ہے ۔ اور اگر اساتذہ واقعی مخلص ہیں بھی تو ان میں اتنی علمیت موجود ہی نہیں جو ایک استاذ کے شعور کو درکار ہوتا ہے ۔ جس کے ذریعے سے ایک نسل کی تربیت ہوتی ہے ۔ سو اساتذہ کی ایسی تربیت کرنا کہ وہ طلباء میں "علم " کی حکمت ، ضرورت ، حیثیت ، مقام ، مقصد ، سبب ، علت غرض " علم " ہی ان کے لیے مقصد حصول ہو ۔ اور اس حصول کے لیے وہ مٹی پتھر ڈھونا بھی قبول کرلے ۔  مستحق طلباء کے لیے بینکس یا دیگر معاشی اداروں کو قائل کرے کہ وہ ان کی مدد کریں ۔  اسی طرح مدارس کے طلباء کے لیے مختلف حکومتی ونجی اداروں میں نوکریوں کا انتظام کیا جائے ۔  جب وہ طلباء دفاتر میں فائلیں اٹھائیں پھریں گے تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے نظام تعلیم میں کیا کمیاں ہیں ۔ اسی طرح جب طلباء انٹرویو دینے آیا کریں گے تو انہیں اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ان کو مزید بھی کچھ سیکھنا ضروری ہے ۔ پھر ایک   داخلی طور پر ہی تحریک اٹھے گی جس نے خود بخود ہی مدارس کے کرتا دھرتاوں کو مجبور کردینا ہے کہ ان کے نصاب میں مناسب تبدیلی ضروری ہے ۔ ان کے مدرسے کا  فارغ التحصیل  کے ذریعہ معاش کے ساتھ ساتھ سماج کے مقتدر طبقات کے ساتھ گھلنے ملنے سے مجبور ہے ۔ اور جب تک مدرسے کا طالبعلم آٖفس میں گریجویٹ کلرک کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ نہیں کرے گا ۔ ہر دو افراد ایک مقام پر یکجا نہ ہونگے یہ خلیج بھی یونہی حائل رہے گی ۔  محض تنقید کرنا اور مطالبہ کرنا کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان سب کے موثر ہونے کے لیے ایک اہم سیڑھی معاشرے میں میرٹ کا قیام بھی ہے ۔
تنقید اب تنقیص کی حدوں کے اندر سرایت کر چکی ہے ۔ عملی اقدامات کے لیے ان اذہان کی ضرورت ہے جو  مخلص ہوں اور واقعتا مسائل کا حل چاہتے ہوں ۔ ورنہ اب تک کی ہماری حکومتوں نے تعلیم و تعلم کے شعبے میں صفر کام کیا ہے ۔ عمارت دیوار کھڑی کردینے کا نام نہیں جب تک بنیاد مضبوط نہ ہو ۔ تعلیمی نظام کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے اور اس ڈھب میں دینی تعلیم کو بھی شامل کرنے کے لیے مختلف طریقوں پر غور کیا جا سکتا ہے ۔ کسی کی ہٹ دھرمی پر اسے چھوڑ دینا عقل مندی نہیں ۔ اس کے لیے نئی تدابیر درکار ہوتی ہیں ۔  نظام تعلیم ، تدابیر کا ضرورت مند ہے ۔
اور یہی آنے والے کل کے سماج کا اخلاقی و شعوری نظام متعین کرے گا ۔ 

Sunday, April 30, 2017

سیاتدان ، فوج اور ہم

ہم نے جب سے آنکھ کھولی ہے سیاست کو ایک گالی کے طور پر پایا ہے ۔کسی بھی نوجوان کا کسی تنظیم سے تعلق اس بات
کی نشاندہی ہوتا تھا کہ "یہ بگڑ گیا ہے یا بگڑا ہوا ہے " ۔۔ تنظیم کا لفظ ہی معیوب سمجھا جاتا تھا ۔۔ چہ جائیکہ مختلف سماجی
تنظیمیں بھی کام کرتی تھیں ۔ وہ بھی اس وجہ سے پس جاتی تھیں ۔ 
جبکہ ہر بچہ فوجی بننے کا خواب دیکھا کرتا تھا ۔ آرمی میں افسر بننا یا پائلٹ بننا یا نیوی میں جانا ۔ یہ سب سے پہلی ترجیح ہوا کرتی
تھی ۔۔ یہ ایک عام ماحول ہوا کرتا تھا ۔ اس کی وجوہات پر میں نہیں جاتا ۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ترجیحات بدلتی گئیں ۔  پروپیگنڈے  کا دور شروع ہوا جس نے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خوب جلا پائی ۔ تعلیمی نظام برباد ہوا ۔ اور ہر والدین
کی زبان میں انجینئر یا ڈاکٹر کا رٹا شروع ہوگیا ۔
یہ تین ایسے نکات ہیں جس پر غور و فکر کم ہی کیا جاتا ہے بلکہ کیا ہی نہیں جاتا ۔
میں اگر جائزہ لوں اپنی شعوری عمر کا ۔۔۔
سیاست آج بھی ویسی ہی ہے جیسی تھی ۔ والدین کبھی اپنی اولاد کو تنظیمی کام کرنے کا مشورہ  کبھی نہیں دیں گے ۔۔
تعلیمی نظام روز بروز روبہ زوال۔۔۔
فوج وہ واحد ادارہ ہے جس نے اپنی ساکھ برقرار رکھی ہے ۔
باتیں بہت ساری کی جا سکتی ہیں ۔ مگر آج کے تناظر میں جو دو شدید آراء نظر آرہی ہیں وہ نہایت مایوس کن ہیں ۔ کیا آپکو لگتا ہے  کہ  اللہ کا نظام کسی بھی طرح   کسی عیب کے ساتھ ہوسکتا ہے  ؟ نہیں جناب سیاستدانوں نے سیاست کو گالی بنائی تو ایک ادارے کی ساکھ کو اللہ نے بہتر رکھی ۔ تاکہ معاملات کچھ نہ کچھ معتدل رہیں ۔اپنے اختیارات سے تجاوز سب کرتے ہیں
مگر فوج مخالف جس فضا کی جانب آپ جانے لگے ہیں وہ نہایت ہی نقصاندہ ہے ۔ اس ادارے کو کم از کم ادارے کی حدتک رہنے دیں ۔ یہ سپریم کمانڈر کا کام ہے وہ اپنے اس ماتحت ادارے کو کیسے کنٹرول کرتا ہے ۔ ہمارا کام سیاستدانوں کوکنٹرول کرنا ہے کیونکہ ہم انہیں اپنے ووٹ سے منتخب کر کے لاتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اپنے مفادات کی  تکمیل پر جت
جاتے ہیں ۔ سیاست کا ادارہ "امانت دار " ہوجائے ۔ فوج بھی ادارے کی حیثیت سے اس کے ماتحت کھڑی ہوگی اس
کے سامنے نہیں ۔
سربراہ کو نمونہ بن کر دکھانا ہوتا ہے ۔ تب ہی اس کے ماتحت اس کو سپریم کمانڈر کی حیثیت سے قبول کرتے ہیں ۔ اس
کی مثال ہم اپنے ایک گھر سے بھی لے سکتے ہیں ۔ جس کا سربراہ عموما والد ہوتا ہے ۔ اور یہی اصول ہے ۔  

Sunday, April 9, 2017

روٹی ، کپڑا اور مکان نہیں ۔۔۔۔۔ گیس ، پانی و بجلی اور امان

روٹی ، کپڑا اور مکان نہیں ۔۔۔۔۔ گیس ، پانی و بجلی اور امان
شہیر شجاع 


روٹی کپڑا اور مکان” کتنا خوبصورت نعرہ تھا۔ یہ انسان کی وہ بنیادی ضروریات ہیں جن کے بغیر زندگی ناممکن لگتی ہے۔ انسان روٹی کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا؟ جھوٹ بولتا ہے، جرم کرتا ہے، قتل کرتا ہے۔ تن ڈھانپنا بھی اس کی اخلاقی جبلت ہے اور چھت اس کا تحفظ۔ مگر یہ تمام چیزیں ‘اسباب’ پر منحصر ہیں۔
کوئی بھی انسانی طاقت یہ تین چیزیں مہیا نہیں کرسکتی۔ انہیں حاصل کرنے کے لیے انسان کا مہذب ہونا، پابند ہونا اور متحد ہونا ضروری ہے۔ اگر انسان کسی طاقت پر منحصر (انحصار کرے) ہوجائے تو پھر وہ کمزور ہوجاتا ہے اور غلامی کی جانب چلا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جس نعرے پر اس سرزمین میں جیالے تخلیق ہوئے وہ آج بھی جیالے ہی رہ گئے۔ ان کو نہ کپڑا ملا، نہ مکان، ہاتھ میں بچی کچی روٹی تھی، وہ بھی چھین لی گئی۔ جبکہ نعرہ دینے والے آقا خود محلات میں جا بسے، ان کے کپڑے عالیشان ہوگئے اور ان کی روٹی بہترین ہوگئی۔
جب کسی قوم سے علم چھین لیا جائے، اس کے اسباب تلف کردیے جائیں اور وسائل پر قبضہ کرلیا جائے تو پھر اس قوم کے شعور پر کنٹرول حاصل کرلینا آسان ہوجاتا ہے۔ سرزمین پاکستان کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہمارا شعور ہمارا کب رہا؟ یہ تو ریموٹ کنٹرولڈ ہوگیا۔ ہم آج بھی روٹی کپڑا اور مکان کے گرد گھوم رہے ہیں۔ مختلف گروہوں کے مختلف آقا ہیں، جن کے وہ گن گاتے ہیں اور مسیحا سمجھتے ہیں۔
شعور کی بیداری تو علم کے سمندر میں غوطہ زن ہونے سے ہوتی ہے۔ ہمارا شعور تو کنٹرولڈ ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کو دیکھ لیں وہ بھی پاکستانی ہی ہیں۔ مگر وہ قوم کی اس صف میں کھڑے ہیں جہاں سے شعور کنٹرول کیا جاتا ہے۔ سو محلات کھڑے ہورہے ہیں، سونے کے تار سے کپڑے بن رہے ہیں اور خوش ذائقہ کھانوں کی خوشبو سے مگر راہ چلتے جیالے، شیر، و ٹائیگر اپنے ناک کے ذریعے پیٹ سے سوچنے پر مجبور ہیں۔
ہمارے پاس گیس کی تنگی ایسی کبھی نہ تھی۔ یہ تو ہماری سرزمین کی اپنی گیس تھی۔ پانی کی قلت سے بھی اب ہم دوچار ہوگئے ہیں۔ صاف پانی میسر نہیں۔ زر کے بغیر پانی بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ بجلی کے دعووں پر انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اور امن و امان؟ یہ تو ہمارے پاس موجود تھا کیوں کہ ہم نڈر قوم تھے، لیکن یہ صفت بھی ہم سے چھن گئی۔
روٹی، کپڑا اور مکان ہم خود حاصل کرلیں گے۔ ہمیں تو پانی، بجلی، گیس، اور امان چاہیے۔ چھت کا ہونا تحفظ کا احساس نہیں “امان” کا ہونا تحفظ کا احساس ہے۔ ہمیں روٹی حاصل کرنے کے لیے ذرائع کی ضرورت ہے، کپڑا ہم خود بُن لیں گے۔ تم کون ہوتے ہو ہمیں روٹی دینے والے؟

 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...