Friday, June 5, 2020
پرندہ
Wednesday, May 27, 2020
انسان اور وبا
انسان اور وبا
شہیر شجاع
کرونا کی آڑ میں انسانیت سوزی کے پہ در پہ واقعات جب پیش آئیں تو پھر ایسی پیش بندیوں سے یقین اٹھنا بے جا نہیں ہے ۔ وبا کاہونا یقینی ہے سب جانتے ہیں مگر اس کے سدباب یا اس سے حفاظت کے لیے جو اقدامات کیے گئے ، ان اقدامات نے جہاں انسانیتسوزی کے دلدوز واقعات کا مشاہدہ کیا وہیں اس نظام سے نفرت اور انسان دشمن ہونے پہ مہر ثبت کردی ۔
یہ نظام بالائی طبقے کی بہبود کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا ہے اور اس مشکل وقت میں بھی اسی کو مرکز نگاہ رکھا گیا ۔ ذراآس پاس نگاہ دوڑائیں کتنی جانیں وبا کے نام پر تلف ہوئیں ۔ اور کتنے انسان اپنے گھروں کو پہنچنے کی خواہش میں رستے میں بدحالموت مرے ۔ نہ جانے کتنوں نے اپنی جانیں خود اپنے ہاتھوں تلف کرڈالی ہوں ۔
لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے اور ان میں نہ جانے کتنے جرائم پیشہ ہوجائیں اور پھر کسی جرم کی پاداش میں کسی سڑک پر مارےجائیں یا زندگی جیلوں میں گزاریں ۔ یعنی اس طبقے کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے ۔ اور گھروں میں دبکے ٹسوے بہاتے لوگوں کی گالیاںبھی وہی کھا رہے ہیں ۔
یہ وہ نظام ہے جہاں “انسان “ کی موت ہے ۔
Sunday, March 8, 2020
اسمارٹ فون اور شعور
اسمارٹ فون اور شعور
شہیر شجاع
اسمارٹ فون ایک ایسا آلہ ہے جو ساری دنیا میں تقریبا ہر انسان کے زیر استعمال ہے ۔ اور ہر شخص انفرادی طور پر اپنے افادات وترجیحات و ذوق کے پیش نظر اس کا درست و غلط استعمال کر رہا ہے ۔ اگر ہم پاکستانیوں کی بات کریں تو محسوس ہوتا ہے مجموعیطور پر اس آلے نے ہمارے مجموعی شعور کی تنزلی کو خوب عیاں کیا ہے ۔
میں بہت سے رویوں میں سے دو ریوں کا ذکر کروں گا۔ ایک تو وہ جب نواز شریف یا دیگر سیاستدان پاکستان سے باہر تشریف لےجاتے ہیں تو وہاں عوام سیل فون ہاتھوں میں لیے نازیبا نعروں سے ان کا استقبال کرتے پائے جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے اخلاقی و شعوریگراوٹ کی انتہا ہے کہ ہم مذہبی تو دور قومی غیرت سے بھی ہاتھ دھو کر ذاتی نفرتوں کے خوگر ہوچکے ہیں ۔
دراصل ان سطور کے لکھنے کا سبب ایک ویڈیو بنی جس میں کوئی “ غیرت مند “ پاکستانی ، حامد میر صاحب کو ائر پورٹ میں ذلیلکرنے پہ تلا ہے ۔ دل پہ چوٹ سی لگی ۔ کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ اور شدید ترین چوٹ تب لگتی ہے جب اس کی عقیدت یاوفاداری پہ شبہ کیا جائے ۔ پھر سونے پہ سہاگہ اس کے اپنے ہی لوگ سر راہ اس انسان کو رسوا کرنے لگیں ۔
اختلاف گھر کے اندر ہوتا ہے ۔ احتجاج ہو غصہ ہو ناراضی ہو یہ سب گھر کے اندر آپس کے معاملات ہوتے ہیں ۔ اس میں اختلاف رائےتک ہی بات رہنی چاہیے ۔ اور غیرت تو کسی بھی طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔
Friday, January 3, 2020
زعم دانش
Monday, April 9, 2018
معاشرتی زوال
پاکستانی معاشرے کی کایا کلپ آنا فانا نہیں ہوئی بلکہ فطری اصولوں کے تحت ہی آہستہ آہستہ مختلف اسباب کے حدوث کے ساتھ ہوتی گئی ۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو ہم سیاہ و سفید کی طرح یہ بات جانتے ہیں کہ اس خطہ ارضی کی مثال ایک بنجر زمین کے بجز کچھ نہ تھی ۔ سونے پہ سہاگہ اس زمین کو قابل کاشت بنانے کے لیے جو لوازمات درکار ہوتے ہیں ان سے بھی محرومی تھی ۔ پھر وہ کیا تھا ؟ کیسا معجزہ تھا یا وہ انتھک محنت و اخلاص تھا کہ دنیا یہ سمجھتی رہی کہ اس زمین نے سوکھ کر قحط سالی کا شکا رہوجانا ہے اور وہ دن آیا کہ اس کے باسی بھوکے پیاسے نیست و نابود ہوجائیں گے ۔ مگر اس خطے نے دنیا میں ایک ایسا مقام پیدا کیا کہ عالم دنگ رہ گیا ۔ اس نے ہر طرح کے ہیرے پیدا کیے جس نے چار دانگ اپنی قابلیت کو منوایا اور اس خظہ ارضی کو اپنے پیروں پر یوں کھڑا کیا کہ اس کا چوڑا سینہ دیکھ کر آنکھوں میں جلن اور دلوں میں حسد نے جگہ بنالی ۔
Saturday, February 17, 2018
تماشہ
تماشہ
آج جو میاں صاحب اینڈ فیملی جلے بھنے بیٹھے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس آگ نے ان کے دامن کو جلا ڈالا ہے ۔۔۔۔
عمران خان کے پاس نواز شریف جیسی " سوکالڈ سیاست " نہیں اور نہ وہ ان عوامل کا ادراک رکھتا ہے جو پاکستان جیسے معاشرے میں جنرل ضیاء کے دور سے سیاست میں در آئے جس نے سیاست کے معانی بدل کر رکھ دیے ۔۔۔
ان سیاستدانوں نے آج تک پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے ، پارلیمنٹ کو عوام کی بہبود کے لیے استعمال کرنے ، خارجہ و داخلہ امور پر گفتگو کرنے کے لیے کتنا استعمال کیا ؟ سوائے ان امور میں پارلیمنٹ میں یہ سب متحد ہوئے جہاں ان کے اقتدار اور ان کی کرپشن یا ان کے مفادات کو خطرات لاحق ہوئے ۔۔۔ ورنہ آج بلدیاتی نظام اپنے پیروں پر کھڑا کر دیا جاتا ۔۔ پارلیمنٹ ایک منتظم کی حیثیت سے قوانین بنا رہی ہوتی اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کو مضبوط تر کرنے ، انصاف کی فراہمی کو آسان کرنے و دیگر امور پر رات دن ایک کیے ہوتے ۔۔۔
حسن ظن
Thursday, July 27, 2017
سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں
............................................................شہیر شجاع
جناب اگر آپ اس سماج کا حصہ بن کر اس کے لیے محنت نہیں کر سکتے تو کم از کم ہم پر لعن طعن بھی نہ کریں ۔ ہم مریض ہیں تو مرض کی تشخیص بھی ہے اور اس کا علاج بھی ، بہر طور علاج کے وسائل کی کمی ہے وہ بھی ان شاء اللہ کبھی نہ کبھی اپنی دسترس میں لے ہی آئیں گے ۔ ہم نے اسی سماج میں جینا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے ۔ آپ تو ا س سے کب کا ناطہ توڑ چکے ۔ بس لعن طعن تک کا رشتہ باقی ہے ۔
۔ سب ہی تو معجزے کے منتظر ہیں ؟
Wednesday, June 7, 2017
نظام تعلیم ، توجہ درکار ہے ۔
Sunday, April 30, 2017
سیاتدان ، فوج اور ہم
Sunday, April 9, 2017
روٹی ، کپڑا اور مکان نہیں ۔۔۔۔۔ گیس ، پانی و بجلی اور امان
فوکس
فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...
-
آج ہم اس زمانے میں جی رہے ہیں جہاں ہم نے اسی رویے کو اپنا رکھا ہے ۔ تعمیر و تنقید ساتھ ساتھ چلتے ہیں یعنی تعمیر ہوگی تو تنقید بھی ہوگی ۔ اور...
-
آئی جی پولیس افضل شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا ، دو پلاٹ اپنی بیگم ، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے ۔ یہ وہ پلاٹس ہیں جو پولیس شہ...
-
ایم کیو ایم ایک غیر منظم جماعت شہیر شجاع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست ۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ فی ...