Thursday, September 3, 2015

عقل انسانی اور سماج

عقل انسانی اور سماج ۔۔۔

شہیر شجاع

باپ اپنے بچے کو شرارت ، نافرمانی پر کیوں  تنبیہہ کرتا ہے ؟
ماں جیسی   حساس  و محبت سے بھری ہستی ۔۔۔ اپنی اولاد پر ہاتھ کیونکر اٹھا لیتی ہے ؟
محبت کا عنصر محض مرضی کی اجازت ہی نہیں ، غلطی و  کوتاہی پر سزا  کی بھی محرک ہے ۔۔ جزا و سزا کو گر حذف کردیا جائے تو نفس انسان بیباک ہوجاتا ہے ۔  اس بیباکی کا خوف والدین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر ممکن طریقے سے راہ راست پر رکھیں ۔  جو انہیں  اپنا مستقبل روشن  بنانے میں کارآمد ہو ۔۔ اور وہ اپنی اولاد کو کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتا دیکھیں ۔ ان کے اخلاقی کردار کی تحسین ہو ۔
جہاں والدین میں یہ خوف ناپید ہوجائے وہاں   نسل انسانی  کے فیصلے  ان اذہان  کے ذریعے برپا ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ جن کے تجربات  محض جذبات ہوتے ہیں ۔ تدبر تک ان کی رسائی ابھی کافی بعید ہوتی ہے ۔ اور پھر ایسے سانحات رونما ہونے لگتے ہیں جیسے کہ چند دن پیشتر  ہم نے  ایک قتل اور ایک خودکشی کی صورت میں دو بچوں کی لاشیں  خون میں لت پت دیکھیں ۔ 
ہم کسی بھی واقعے کو محض  معمولی یا اپنی ساخت کا     لاشعوری واقعہ کہہ کر درگزر نہیں کر سکتے ۔۔ بلکہ ہمیں اس کے محرکات پر غور کرنا ہوگا ۔ ان عوامل کو نشان زد کرنا ہوگا ۔۔ جن کے اثر سے انسان متاثر ہو کر " بیباکی " کے منازل طے کرجاتا ہے ۔۔ صحیح و غلط کی قید سے نکل کر ۔۔ اپنی ہی عدالت میں فیصلہ سناکر حق و باطل  کی حدود طے کرتا ہے ۔ 
آج ہم  کسی بھی واقعے کو  جانچنے کے لیے عموما دو  طرح کے کلام استعمال کرتے ہیں ۔۔
الزام  در مذہب
الزام در سیاست
جس طرح ۔۔۔ مسلمان کا طرز عمل اسلام کو برا بھلا کہنے پر دال نہیں ۔۔۔ اسی طرح سیاسی عوامل کا طرز عمل سیاست کو برا بھلا کہنے پر دال نہیں ۔۔
ہاں ایک " سوچ" ہے ۔۔۔۔ جو تواتر سے پروان چڑھ رہی ہے ۔۔۔  جسے  ہم ۔۔۔ مذہبی و غیر مذہبی سوچ کہہ سکتے ہیں عام زبان میں ۔۔۔۔ یا دانشورانہ طرز پر ۔۔۔  قدامت پسند  اور لبرل ۔۔
اگر آپ طرز معاشرت میں مذہب کے کردار کی بات کریں گے ۔۔۔ تو ۔۔ قدامت پسند کہلائیں گے ۔۔
اگر آپ معاشرے سے مذہب کو خارج کردیں ۔۔ اور سماجی پہلووں  پر عقلی دلائل کی بات کریں تو لبرل کہلائیں گے ۔۔۔
اگر سماج ۔۔۔ عقل  سے تشکیل پا سکتا  ۔۔ تو مذہب  کا دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعے سے  بھیجنے کا تصور ۔۔ کیا لایعنی تھا ؟
انسان   کی فطرت اجتماع ہے ۔۔ اور اجتماع ہی سماج  ہے ۔ اور اس اجتماع  کی اخلاقی قدروں کا کوئی نہ کوئی محرک تو ہوگا ؟
کیا وہ محرک انسانی عقل ہے ؟
یا وہ   اس انسان کے تخلیق کار کی جانب سے عطا کی گئی ہے ؟
اگر انسانی عقل کو  کامل تسلیم کر لیا جائے تو ۔۔۔  یہ انسانی عقل ہی ہے ۔۔۔ جو بتوں کو خدا بنا لیتا ہے ۔۔۔ گائے کی  انسان کے لیے قربانی سے متاثر ہو کر اسے  پوجنے لگتا ہے ۔۔۔  اپنے نفس کی تسکین کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ کر اسے سماج کا حصہ بنانے کی تگ و دو بھی اسی عقل انسانی کا شاخسانہ ہے ۔۔
محبت و عداوت  میں انسان تو اکثر عقل سلیم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔۔۔ 
پھر  یہ حد کیونکر  بنا مذہب و آسمانی کتب  کے طے ہوسکتی ہے ؟  
انسانی عقل  بذات خود کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔۔۔ مگر یہ کہ اسے راستہ بتا دیا جائے ۔۔ پھر اس کی " طلب " اسے منزل تک پہنچاتی ہے ۔۔۔ 
یہ دو  معصوم  بچوں کا واقعہ معمولی نہیں ہے ۔۔۔۔ اس میں غور و فکر کے کئی باب کھلتے ہیں ۔۔ گر غور کرنا چاہیں ۔۔  اللہ جل شانہ ان معصومیں پر رحم فرمائے ۔۔۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...