Monday, March 9, 2020

استحصال اور عورت

استحصال اور عورت
شہیر شجاع

حقوق نسواں کے ضمن میں میڈیا کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اس موضوع پر بھانڈوں کو آپس میں پھبتیاں کسنے پہ جمع کر رکھا ہے ۔  یہ موضوع جن کے لیے حساس ہے ان کو نہ کبھی کسی نے پوچھا اور نہ جانا ۔ اور نہ ہی اس کے حل کی جانب کوئی بھی ٹھوس  اقدام تو دور “ رائے “ تک سامنے نہیں آتی ۔ ورنہ اس معاشرے میں
ہماری عورت کا جو استحصال ہوتا آرہا ہےسن اور دیکھ کر روح کانپتی ہے ۔ یہ عورت مارچ والی برگر خواتین تو بس اتنا جانتی ہیں جو خبروں میں آتا ہے ۔ کسی خاتون کا چہرہ جھلسا دیا ، زنا بالجبر ، یا زبردستی شادی  وغیرہ ۔ ان کے جو شکوے ہیں اس کا حل وہ یہی چاہتی ہیں کہ وہ مذہب و تہذیب کے بندھن سے آزاد ہوجائیں ۔ شاید سماج کا وہ برگر طبقہ ہوچکا ہے بس “ سر عام “ ہونا چاہتا ہے ۔ بے راہ روی کے لیے قانونی تحفظ چاہتا ہے ۔
حقیقی استحصال شدہ معاشرہ ان کے لیے ایک ایسا “ ٹول “ ہے جو ان کے پس پردہ عزائم کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے دلیل بنتا ہے ۔
میری وہ عورت جس کا صبح و شام استحصال ہوتا ہے اس کا نہ کل کوئی والی تھا نہ اب کوئی وارث ہے ۔
عورت مارچ والوں کے پاس یقینا ایک نظریہ ہے اور وہ حقیقتا “ میرا جسم میری مرضی “ کرنا چاہتی ہیں ۔
حیا مارچ والوں کو مارچ کے بجائے سماج کو شعور دینے کی جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس استحصال شدہ عورت کو تحفظ دینا اور ان عوامل کی نشاندہی کرنا جس سبب سے وہ تہذیب و مذہب کی بیڑیوں میں جکڑی استحصال کو سہتی جاتی ہے اور راتوں کو سجدے میں گر کر “ اللہ جل شانہ “ کے آگے روتی ہے ۔ کہ اسے اس صبر کا اجر عطا فرمائے ۔ اس کے سوا اس کے دامن میں اور ہے ہی کیا ؟
وہ ایسے حساس مقام پر کھڑی ہے جہاں ذرا پیر لچکا اور وہ ان گہری کھائیوں میں جا گری جہاں برگر خواتین  کی تھپکیاں اسے “ کامیاب “ عورت کے زعم میں مبتلا کردیں ۔

Sunday, March 8, 2020

اسمارٹ فون اور شعور


اسمارٹ فون اور شعور

شہیر شجاع

اسمارٹ فون ایک ایسا آلہ ہے جو ساری دنیا میں تقریبا ہر انسان کے زیر استعمال ہے ۔ اور ہر شخص انفرادی طور پر اپنے افادات وترجیحات و ذوق کے پیش نظر اس کا درست و غلط استعمال کر رہا ہے ۔ اگر ہم پاکستانیوں کی بات کریں تو محسوس ہوتا ہے مجموعیطور پر اس آلے نے ہمارے مجموعی شعور کی تنزلی کو خوب عیاں کیا ہے ۔ 

میں بہت سے رویوں میں سے دو ریوں کا ذکر کروں گا۔ ایک تو وہ جب نواز شریف یا دیگر سیاستدان  پاکستان سے باہر تشریف لےجاتے ہیں تو وہاں عوام سیل فون ہاتھوں میں لیے نازیبا نعروں سے ان کا استقبال کرتے پائے جاتے ہیں ۔ یہ ہمارے اخلاقی و شعوریگراوٹ کی انتہا ہے کہ ہم مذہبی تو دور قومی غیرت سے بھی ہاتھ دھو کر ذاتی نفرتوں کے خوگر ہوچکے ہیں ۔ 

دراصل ان سطور کے لکھنے کا سبب ایک ویڈیو بنی جس میں کوئی “ غیرت مند “ پاکستانی ، حامد میر صاحب کو ائر پورٹ میں ذلیلکرنے پہ تلا ہے ۔ دل پہ چوٹ سی لگی ۔ کیونکہ انسان کو سب سے زیادہ اور شدید ترین چوٹ تب لگتی ہے جب اس کی عقیدت یاوفاداری پہ شبہ کیا جائے ۔ پھر سونے پہ سہاگہ اس کے اپنے ہی لوگ سر راہ اس انسان کو رسوا کرنے لگیں ۔ 

اختلاف گھر کے اندر ہوتا ہے ۔ احتجاج ہو غصہ ہو ناراضی ہو یہ سب گھر کے اندر آپس کے معاملات ہوتے ہیں ۔ اس میں اختلاف رائےتک ہی بات رہنی چاہیے ۔ اور غیرت تو کسی بھی طرح اس بات کی اجازت نہیں دیتی۔

 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...