Saturday, December 26, 2015

سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ


سائنس اور مذہب کی ارتقاء کے قبول و رد میں انسانی رویہ ۔

شہیر شجاع

سائنس اور مذہب ۔۔ ہر دو کی ارتقاء کو قبول کرنے میں انسان  کا رویہ ایک ہی جیسا ہے ۔ ۔۔۔ مگر انتہا  میں ایک بہت بڑا فرق ہے ۔۔ ۔۔
  سائنس انسان کے غور و فکر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔۔۔ جس میں یکے بعد دیگرے مختلف اوقات میں ۔۔ مختلف لوگ اپنی تحقیقات پیش کرتے ہیں ۔۔ یعنی اپنا علم پیش کرتے ہیں ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ مزید لوگ آتے ہیں جو ان ہی تحقیقات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔۔ یعنی علم کی اعلی سے اعلی شکل دریافت کرتے  ہیں ۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ۔۔ پچھلی تحقیق  کا خالق  ناکارہ تھا ۔۔ بلکہ اس کا مقام اس کی عزت و احترام بھی ساتھ ملحوظ خاطر رہتا ہے ۔۔۔ مگر تاج اسی کے سر بیٹھتا ہے  جو تحقیق کو ایک کمل شکل دے ۔۔۔ مگر یہ بھی ہے کہ  سائنس میں ممکن نہیں کہ کوئی بھی تحقیق مکمل ہو ۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے  ۔۔ ۔
مذہب  میں صرف اتنا ہے کہ ۔۔۔ یہ علم آسمان سے اللہ کی طرف سے انسان کے لیے آتا ہے ۔۔۔ اور اس کا ذریعہ اللہ جل شانہ ۔۔ انہی انسانوں میں سے ایک انسان کو منتخب فرماتے ہیں ۔۔ جسے تمام انسانون میں اعلی و ارفع کرتے ہیں ۔۔۔ اور اسے نبی  و رسول اللہ ۔۔ کا نام یا مقام دیتے ہیں۔۔ اور ان کے ذریعے سے وہ علم دنیا کے دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے ۔۔۔۔ 
ہر  دو میں انسان کے دو مختلف رویے رہے ہیں ۔۔ سائنسی تحاقیق  میں ہر اول محقق کا نام و مقام باقی رہتا ہے ۔۔ لیکن ساتھ ہی ۔۔ نئے محقق کو نہ صرف سراہا جاتا ہے بلکہ اسے نسبتا زیادہ سراہا جاتا ہے ۔۔
جبکہ مذہب کے معاملے میں ہر نئے علم کے لانے والے کو انسان رد کرتا آیا ہے ۔۔۔ اور اصرار یہی رہا کہ جو پہلے علم لانے والا تھا وہی برحق تھا ۔۔
موسی علیہ السلام کے ماننے والوں نے عیسی علیہ السلام کو رد کیا ۔۔ عیسی علیہ السلام پر یقین رکھنے والوں نے محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کیا ۔۔۔ بس وہی کامیاب رہا ۔۔ جس نے علم کو علم سمجھا ۔ ۔ اور علم کی ارتقاء کو قبول کیا ۔۔

ماخوذ از ۔۔۔ پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب

Thursday, December 24, 2015

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا






وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا 
 شہیر شجاع 

سرزمین عرب کے ریگزاروں میں عجب سرکشی و انسانیت سوز مناظر کا دور دورہ تھا ۔کہ مٹی مٹی بوٹا بوٹا پناہ مانگے ۔ کہ اسی دوران ان کے درمیاں ایک نہایت باعظمت خاندان  میں ایک چشمہ پھوٹا ۔ جس نے اپنے پیدا ہونے سے چند ماہ قبل ہی یتیمی کا تاج پہن لیا تھا ۔ عظمت کے لیے خالق کائنات  بہت سی پیچیدگیاں اپنے بندوں میں پیدا کرتا ہے ۔۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ انسان  کی عظمت رفتہ میں  نمایاں کردار ادا کرتی ہیں ۔۔۔  وہ بچہ ابھی چند سال کا ہی تھا کہ مستقل یتیمی کا تاج سر پر پہن لیا ۔  دادا کے ہاتھوں تربیت کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔ پر یہ سایہ شفقت بھی تادیر قائم نہ رہ سکا ۔ اس کے  بعد اس عظیم المرتبت بچے کے سر پر اللہ جل شانہ نے چچا کا سایہ قائم فرما دیا ۔۔۔
اللہ جل شانہ کا کوئی بھی عمل بلا مقصد و مصلحت نہیں انجام پاتا ۔۔  یہ بھی ایک طریقہ تھا امت کو بتلانے کا ، رشتوں کی اہمیت کو جتانے کا ۔۔ تربیت کے اصولوں کو باور کرانے کا ، محبت کی اہمیت اجاگر کرنے کا ۔
جو اپنی رضاعی ماں کے لیے  اپنی چادر اتار کر زمین پر بچھا دیتا ۔ جو  مہاجر ہو کر اپنی عظیم المرتبت بیوی ( رضی اللہ عنہا ) کی قبر مبارک سے دور ہوتا ہے ۔۔ اور جب واپس اپنے وطن لوٹتا ہے تو ۔۔ وہ راستہ منتخب کرتا ہے جہاں اس کی وہ عظیم بیوی آسودہ خاک ہے ۔
وہ  عظیم المرتبت انسان ۔۔۔۔۔(صلی اللہ علیہ وسلم ) جب لوگوں کے پتھروں سے خونم خون ہوجاتا ہے ۔۔  تو ان کے دل سے پھر بھی کوئی بد دعا یا کلام  بے فیض نہیں نکلتا ۔۔ بلکہ دعائیں اور  اچھائی کی تمنا ہی ہوتی ہے ۔  وہ    حالت کمزوری میں روا رکھے گئے ظلم و ستم  کے علمبرداروں کو طاقتور ہونے کے بعد معاف کردیتا ہے ۔ وہ جو  کالے اور گورے کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے ۔  عورت کا مقام بلند اور مرد کو اس کا محافظ بناتا ہے ۔
جس کے ذریعے سے اللہ جل شانہ نے اسلام جیسی عظیم نعمت دنیا کو بخشی ۔ انسان کو انسان بنائے جانے کے لیے  مبعوث ہوا ۔ جان کے پیاسوں کو بھائی بھائی بنا دیا ۔ یہ اسی اسلام کا سرخیل تھا  جس نے انسانیت کا سب سے پہلا سبق دنیا کو پڑھایا ۔ جس نے دنیا کو ایک نظام دیا ۔ ٹھوس معاشرتی نظام ۔ جس میں امیر غریب ۔ کمزور طاقتور سب کو برابر کا درجہ دیا ۔  انسانیت کیا ہے ؟ درحقیقت  اسلامیت ہے ۔ جس دنیا کو غور و فکر کی دعوت دی ۔ اور اذہان کو اس بات پر راضی کیا ۔ وہ اذہان جن کو سوائے قتل و غارت کے ۔ عصبیتی تناو کے اور کچھ نہ آتا تھا ۔۔ انہیں مفکر بنایا ، مدبر بنایا ، مقتدر بنایا ، معلم بنایا    ، سخی بنایا ، معاف کرنے والا بنایا ، غرض ہر وہ صفت جو معاشرہ  و ریاست مرتب کرتی ہے ، غور وفکر ہر حال میں ان کا شعار ہوتا ہے ۔۔۔۔   جی ہاں ۔۔۔ وہ انسانوں میں عظیم انسان بنے ۔ جنہوں نے دنیا کو امن دیا ، زندگی کی رونقیں بخشیں ۔  
وہ یتیم بچہ ایسا عظیم المرتبت ہوا کہ رحمت اللعالمین ہوا ۔   جو اپنے وقت کا عظیم سپہ سالار تھا ۔۔۔ جس کی سپاہ  کے پیٹ میں ایک ایک پتھر بدنھے تھے ۔ اپنے پیٹ میں  دو پتھر باندھے ۔۔ فاقہ کشی کر رہا تھا ۔۔ جو سب سے بڑا حکمران تھا ۔۔ وہ  ٹاٹ کی چٹائی ، مٹی کے گھروندے پہ سو رہا تھا ۔۔ وہ سراسر اسلام تھا  ۔ جو دنیا کو انسانیت کا درس دینے آیا تھا ۔ جو طریق حکمرانی ، طریق انسانی ، طریق زندگی سکھلانے آیا تھا  ۔     جس نے سکھلایا کہ ۔۔۔  مسلم ہو یا غیر مسلم ۔۔۔ اسلام کا درس انسانیت ہے ۔۔ سب کے ساتھ یکساں برتاو ہی  کامیابی کا راستہ ہے ۔
ہمیشہ امت کے درد میں راتوں کو جاگ کر اس کی مغفت و فلاح کی نہ صرف دعائیں کرنا ۔۔۔ بلکہ ہمہ وقت فلاح کے راستوں کی رہنمائی پر کمر بستہ رہنا ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا ہر پل صرف امت  کی بہبود و کامیابی کی سوچ و فکر میں صرف رہا ۔  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔  باہمی محبت ، ایثار و ہمدری و رواداری  کی بیشمار مثالیں قائم کیں ۔  
آج  ہمیں اپنے اس عظیم الشان لیڈر صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت مطہرہ  کے تناظر میں محاسبے کی ضرورت ہے ۔  شاید کہ آج  کے دن کو ہم منانے کے لیے سب سے بہتر طریقہ محاسبہ تععین کریں ۔

Wednesday, December 23, 2015

نرگس فخری



ابھی حال ہی میں ۔۔۔۔ ایک اخبار کے اشتہار پر ۔۔۔۔ خوب شور و غل برپا ہوا ۔۔۔۔۔۔ وہ اشتہار اچھا تھا یا برا ۔۔۔۔ اس کے ادراک یا اطلاق کا پیمانہ کیا ہو ؟
نظریہ یا تہذیب ؟ یا نظریاتی تہذیب ؟ یا تہذیبی نظریہ ؟
نظریات ہی دراصل ۔۔۔ تہذیب کی بنیاد ہیں ۔۔۔۔ حالیہ دور میں ۔۔۔ دنیا کو ہم دو تہذیبوں کے دائرے میں پرکھتے ہیں ۔۔۔ مشرقی یا مغربی ۔۔۔۔ اگر یہ دونوں محتلف نہ تھے تو ۔۔ مشرقی و مغربی معاشرے کا فلسفہ وجود میں نہ آتا ۔۔۔۔۔۔ لہذا یہ ثابت ہوا چونکہ فلاں عمل مشرقی معاشرے میں برپا ہوا ۔۔۔ تو اس کا ردعمل مشرقی تہذیبی اساس پر ہی پیش آئے گا ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ۔۔ مشرقی معاشرے کی اساس اخلاقیات کا سب سے بڑا مدرس ہے ۔۔۔ تو اس کا دوسرا پیمانہ اخلاقیات کہلائے گا ۔۔۔۔
گویا کہ ۔۔۔ فلاں عمل ۔۔۔ مشرقی تہذیبی نظریات کا عکاس ہے یا نہیں ؟ ۔۔۔
میں یہ سوچ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں فلاں عمل کے صحیح یا غلط ہونے میں ۔۔۔۔ آسمانی نظریات پر بحث کیوں شروع ہوگئی ؟ ۔۔۔۔ کیا اب مشرقی تہذیب کا دفاع بھی ایمانی خلل کہلائے گا ؟ یا اب تہذیب کا وجود ہی سرے سے مٹ چکا ہے ؟

Monday, November 9, 2015

اقبال اور ہم



اقبال اور ہم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 شہیر شجاع 

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف
یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغ چمن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے ، حقیقت میں ہے قرآن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبر فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں ہیں
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک ذرے میں ہے شاید مکیں دل
اسی جلوت میں ہے خلوت نشیں دل
اسیردوش و فردا ہےولیکن
غلام گردش دوراں نہیں دل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے تکلف خندہ زن ہیں فکر سے آزاد ہیںْ
پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
۔۔۔۔
یہ ایک سرسری سی نظر ہے ۔۔ حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے درد سے لبریز دل سے نکلے ہوئے فکر کی اتھاہ گہرے سمندر کی اونچی لہروں میں لپٹے ہوئے اشعار ہیں ۔۔۔ آج وہ ہم میں نہیں ہیں پر ان کی فکر جیسے تر و تازہ ہو ۔۔۔ ان کا درد ان کے کلام کے ذریعے ہماری فکر و دل کے تاروں کو ویسے جھنجھوڑ ڈالتا ہے ۔۔۔ کہ وقت بدل گیا پر ہم نہ بدلے ۔۔۔ ترقی کی راہوں میں ۔۔ تبدیلی کی شاخوں میں ۔۔ کئی سنگ میل دنیا عبور کر چکی ۔۔ پر ہم اب تک وہیں کہ وہیں کھڑے عجب تخیلاتی گھمنڈ میں ۔ تخیلاتی ترقی کی راہوں میں گامزن ۔۔۔ نت نئے فلسفوں ۔۔۔۔ اور نام نہاد ماڈرن زندگی کے خواب دیکھ اور دکھا رہے ہیں ۔۔۔۔ اس طویل عرصے میں جبکہ ہمارا زعم اپنے علم پر کچھ اس قدر چھایا ہوا ہے کہ ہم عالم مدہوشی کو خرد مندی سمجھ کر اپنی بقا سے فنا کی جانب مسلسل محو سفر ہیں ۔۔۔لیکن اپنے محاسبے اسے اسی قدر منہ موڑے ہوئے ہیں جیسے کہ صدی اقبال میں تھے ۔۔۔
اقبال رحمہ اللہ کی شخصیت پر نہ جانے کتنی کتب لکھی گئیں ۔۔۔ خواہ تعریف کے ضمن میں ہو یا تنقید ۔۔۔ بڑے انسان کی سوچ بھی بڑی ہوتی ہے ۔۔۔ اور اس کا حصار ہر کس و ناقص کے بس کی بات بھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔ لہذا ۔۔۔ تنقیص بھی مسلسل ان پر ہوئی اور ہورہی ہے ۔۔۔۔
شاید کہ ہم شخصیتوں کی عزت و ناموس کو بصد احترام قبول کر کے ۔۔۔۔ اس کو انا کا مسئلہ بنائے بنا ۔۔ اپنے آج اور کل کی فکر میں ۔۔۔۔ فکر و پیغام کو پرکھیں ۔۔ اور اس کے ذریعے اپنے علم و عمل کی ترقی کی جانب محو سفر ہونے کی کوشش کریں ۔۔اور ایک " مکمل قوم " کی حیثیت سے دنیا میں اپنے حقیقی مقام کو اپنے نام کرنے کی جستجو میں اپنے قیمتی اوقات کو صرف کریں ۔۔ ۔ کے ارتقاء کا عمل باہمی احترام و مسلسل فکر میں پنہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی اقبال رحمہ اللہ کا پیغام تھا ،اور ہے ۔۔۔۔


Sunday, November 1, 2015

ترازو



ترازو
 محمد شہیر شجاع 

فہیم آج بہت خوش تھا ۔۔ بہت صبر کے بعد آج بالآخر اس کی شادی ہونے جارہی تھی ۔ اس کے گھر والے اس کا رشتہ لیکر  کئی گھروں پر گئے تھے ۔۔ پر اس کا مقدر کچھ اور ہی تھا ۔۔ اس کے وہم و گماں میں بھی نہیں تھا کہ اس کا رشتہ کسی اچھے گھرانے کی ایسی لڑکی سے ہوجائے گا ۔ وہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا ۔ زور و شور سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں ۔۔ بالآخر وہ دن بھی آپہنچا  جب اس کی زندگی  کا ہمسفر اس  کے کمرے میں بیٹھا  بہت سارے خواب و توقعات سجائے اس کے انتظار میں تھا ۔
اس کا گھرانہ ذرا بڑا تھا ۔۔ اس کے چار بڑے بھائیوں کی پہلے شادیاں ہو چکی تھیں ۔۔ وہ بھی ساتھ ہی رہتے تھے ۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ نئی آنے والی بہو شکل و صورت اور تعلیمی لحاظ سے سب میں نمایاں تھی ۔۔ جس کا دیگر بیبیوں کو احساس تھا ۔۔ بجائے اس کے کہ یہ احساس  نئے مہمان کے لیے پیار و محبت کی فضا قائم کرتا ۔۔  دل میں کینہ  پیدا ہوگیا ۔۔ ان کے بچے فہیم کے کمرے میں بلا روک ٹوک در آتے اودھم مچاتے چیزیں توڑتے پھوڑتے ۔۔ لڑکی فہیم سے شکایت کرتی تو ۔۔ فہیم یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ کوئی بات نہیں میں نیا لے آوں گا ۔  کسی بھی مسئلے پر فہیم کا ردعمل ہوتا کہ  درگزر کرو ۔ صرف نظر کرو ۔ جبکہ وہ اپنے گھر کے بچوں کو ذرا بھی ٹوکنا گوارا نہیں کرتا ۔
اس کی اس بات نے لڑکی کے دل میں عدم تحفظ   کا احساس بیدار کرنا شروع کردیا ۔ وہ فہیم کا جس قدر خیال رکھ سکتی رکھتی ۔ مگر دل  میں سسکتی رہتی ۔ اپنے گھر والوں سے بات کرتی ہے تو ۔ ایک طوفان کھڑا ہونے کا خدشہ ۔۔ اور وہ طوفان ان دونوں کی زندگیوں میں مزید پیچیدگیاں پیدا کردیتا ۔  فہیم اس بات سے خوش تھا کہ اس کی بیوی اس کی ہر بات مانتی ہے ۔۔۔ اس کے کہنے کو سمجھتی ہے ۔۔ اسے اپنی کم مائیگی کا ذرا بھی احساس نہ تھا ۔۔
اسی اثناء میں فہیم کی اکلوتی بہن کا رشتہ ہوگیا ۔۔ جو کہ فہیم سے بہت قریب تھی ۔ اور اس کی بہن  پیا دیس سدھار گئی ۔۔ وہ  اپنے کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے  کئی دنوں تک اپنی بہن سے ملنے نہ جا سکا ۔۔ پورے ڈیڑھ ماہ بعد وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بہن سے ملنے گیا ۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہوا ہی تھا کہ اس نے دیکھا وہاں نئی نویلی الماری  کے شیشے ٹوٹے ہوئے ہیں ۔۔ ڈریسنگ ٹیبل   میں خراشیں پڑی ہیں ۔ اس نے اپنی بہن  کی طرف دیکھا ۔۔ اور بہن اس کے سینے سے لگ کر روپڑی ۔ سسکتے ہوئے کہا ۔ کہ دیکھیں ۔ ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ میں بھی اب ان کی زندگی میں شامل ہوں ۔  ان کے لیے  میں اب تک ان کی اپنی نہیں ہوسکی ۔   یکلخت فہیم کی نظر اس کی بیوی کی جانب اٹھی جو سر جھکائے سب دیکھ رہی تھی ۔۔ اور اس کی آنکھوں سے دو موتی  اس کے گالوں میں لڑھک آئے ۔۔

Thursday, September 3, 2015

عقل انسانی اور سماج

عقل انسانی اور سماج ۔۔۔

شہیر شجاع

باپ اپنے بچے کو شرارت ، نافرمانی پر کیوں  تنبیہہ کرتا ہے ؟
ماں جیسی   حساس  و محبت سے بھری ہستی ۔۔۔ اپنی اولاد پر ہاتھ کیونکر اٹھا لیتی ہے ؟
محبت کا عنصر محض مرضی کی اجازت ہی نہیں ، غلطی و  کوتاہی پر سزا  کی بھی محرک ہے ۔۔ جزا و سزا کو گر حذف کردیا جائے تو نفس انسان بیباک ہوجاتا ہے ۔  اس بیباکی کا خوف والدین کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ہر ممکن طریقے سے راہ راست پر رکھیں ۔  جو انہیں  اپنا مستقبل روشن  بنانے میں کارآمد ہو ۔۔ اور وہ اپنی اولاد کو کامیابی و کامرانی کی منازل طے کرتا دیکھیں ۔ ان کے اخلاقی کردار کی تحسین ہو ۔
جہاں والدین میں یہ خوف ناپید ہوجائے وہاں   نسل انسانی  کے فیصلے  ان اذہان  کے ذریعے برپا ہونے شروع ہوجاتے ہیں ۔ جن کے تجربات  محض جذبات ہوتے ہیں ۔ تدبر تک ان کی رسائی ابھی کافی بعید ہوتی ہے ۔ اور پھر ایسے سانحات رونما ہونے لگتے ہیں جیسے کہ چند دن پیشتر  ہم نے  ایک قتل اور ایک خودکشی کی صورت میں دو بچوں کی لاشیں  خون میں لت پت دیکھیں ۔ 
ہم کسی بھی واقعے کو محض  معمولی یا اپنی ساخت کا     لاشعوری واقعہ کہہ کر درگزر نہیں کر سکتے ۔۔ بلکہ ہمیں اس کے محرکات پر غور کرنا ہوگا ۔ ان عوامل کو نشان زد کرنا ہوگا ۔۔ جن کے اثر سے انسان متاثر ہو کر " بیباکی " کے منازل طے کرجاتا ہے ۔۔ صحیح و غلط کی قید سے نکل کر ۔۔ اپنی ہی عدالت میں فیصلہ سناکر حق و باطل  کی حدود طے کرتا ہے ۔ 
آج ہم  کسی بھی واقعے کو  جانچنے کے لیے عموما دو  طرح کے کلام استعمال کرتے ہیں ۔۔
الزام  در مذہب
الزام در سیاست
جس طرح ۔۔۔ مسلمان کا طرز عمل اسلام کو برا بھلا کہنے پر دال نہیں ۔۔۔ اسی طرح سیاسی عوامل کا طرز عمل سیاست کو برا بھلا کہنے پر دال نہیں ۔۔
ہاں ایک " سوچ" ہے ۔۔۔۔ جو تواتر سے پروان چڑھ رہی ہے ۔۔۔  جسے  ہم ۔۔۔ مذہبی و غیر مذہبی سوچ کہہ سکتے ہیں عام زبان میں ۔۔۔۔ یا دانشورانہ طرز پر ۔۔۔  قدامت پسند  اور لبرل ۔۔
اگر آپ طرز معاشرت میں مذہب کے کردار کی بات کریں گے ۔۔۔ تو ۔۔ قدامت پسند کہلائیں گے ۔۔
اگر آپ معاشرے سے مذہب کو خارج کردیں ۔۔ اور سماجی پہلووں  پر عقلی دلائل کی بات کریں تو لبرل کہلائیں گے ۔۔۔
اگر سماج ۔۔۔ عقل  سے تشکیل پا سکتا  ۔۔ تو مذہب  کا دنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے ذریعے سے  بھیجنے کا تصور ۔۔ کیا لایعنی تھا ؟
انسان   کی فطرت اجتماع ہے ۔۔ اور اجتماع ہی سماج  ہے ۔ اور اس اجتماع  کی اخلاقی قدروں کا کوئی نہ کوئی محرک تو ہوگا ؟
کیا وہ محرک انسانی عقل ہے ؟
یا وہ   اس انسان کے تخلیق کار کی جانب سے عطا کی گئی ہے ؟
اگر انسانی عقل کو  کامل تسلیم کر لیا جائے تو ۔۔۔  یہ انسانی عقل ہی ہے ۔۔۔ جو بتوں کو خدا بنا لیتا ہے ۔۔۔ گائے کی  انسان کے لیے قربانی سے متاثر ہو کر اسے  پوجنے لگتا ہے ۔۔۔  اپنے نفس کی تسکین کے لیے نت نئے طریقے ڈھونڈ کر اسے سماج کا حصہ بنانے کی تگ و دو بھی اسی عقل انسانی کا شاخسانہ ہے ۔۔
محبت و عداوت  میں انسان تو اکثر عقل سلیم سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔۔۔ 
پھر  یہ حد کیونکر  بنا مذہب و آسمانی کتب  کے طے ہوسکتی ہے ؟  
انسانی عقل  بذات خود کسی نتیجے پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔۔۔ مگر یہ کہ اسے راستہ بتا دیا جائے ۔۔ پھر اس کی " طلب " اسے منزل تک پہنچاتی ہے ۔۔۔ 
یہ دو  معصوم  بچوں کا واقعہ معمولی نہیں ہے ۔۔۔۔ اس میں غور و فکر کے کئی باب کھلتے ہیں ۔۔ گر غور کرنا چاہیں ۔۔  اللہ جل شانہ ان معصومیں پر رحم فرمائے ۔۔۔

Monday, August 31, 2015

محبت کا فلسفہ

محبت کا فلسفہ
ماخوذ  از مولانا ولی رازی 
تحریر ،محمد شہیر شجاع

کیا خوب فرماتے ہیں ۔۔۔ محبت ذات سے نہیں صفات سے ہوتی ہے ۔۔۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ۔۔۔ محبت ہونے کے  لیے ذات کا ظاہر ہونا ضروری نہیں بلکہ صفات کا رونما ہونا کافی ہوتا ہے ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ۔۔۔ ہم اللہ جل شانہ ۔۔۔ و انبیاء کرام علیہم السلام ۔۔ اولیاء عظام رحمہم اللہ وغیرہم سے ہمارا محبت کا رشتہ قائم ہوتا ہے ۔۔
اور جو ذات کا متلاشی ہوتا ہے ۔۔ اس کا ایمان کیا ہوتا ہے ۔۔ یہ ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں ۔۔
اسی طرح والدین ، اساتذہ کرام و دیگر اعزا سے بھی محبت ۔۔۔۔۔ ان کی ذات کی نسبت سے نہیں ۔۔ بلکہ ان کی صفات کی نسبت سے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ اور یہ بات درست بھی ہے ۔۔۔ یہ ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ ۔۔۔ والدین کی عزت ضرور ہوتی ہے ۔۔ پر محبت ۔۔ ان کی صفات کی بدولت ہی قائم ہو سکتی ہے ۔۔۔ اسی طرح اساتذہ کے زمرے میں ۔۔ ہمارے دلوں میں ہر استاذ کے لیے محبت کا جذبہ نہیں پایا جاتا ۔۔۔ بلکہ صرف اعلی صفاتی استاذ کے لیے یہ جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔۔۔

آگے فرماتے ہیں ۔۔۔ محبت کے اسباب چار ہیں ۔۔۔۔۔۔ کمال ۔۔۔ جمال ۔۔ نوال ۔۔ اور قربت ۔۔

کمال : ۔۔۔ ہم اپنے بزرگوں سے ان کے کمال کی وجہ سے ہی محبت کرتے ہیں ۔۔ بلکہ اس محبت میں ایمان کی بھی شرط نہیں ہے ۔ اگر کوئی کافر ماہر معمار ، مالی ، لوہار ، مہندس یا سائنسدان ہے تو آپ اس سے اس کے اس کمال کی وجہ سے معتقد ہوتے ہیں ۔۔۔

جمال :۔۔۔  محبت کا دوسرا سبب حسن ہے ۔۔ لیکن یہ محبت عارضی ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ حسن کے بگڑتے ہی محبت بھی فنا ہوجاتی ہے ۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ  نے جمال کی بابت ایک مفید نکتہ لکھا ہے ۔۔۔
فرماتے ہیں ۔۔۔ جمال میں دو عیب ہیں ۔۔
1 : یہ عارضی ہوتی ہے محبوب میں ذرا سی تبدیلی سے رخصت ہوجاتی ہے ۔۔۔
2 : یہ اکثر فتنے میں ڈالنے کا سبب ہوتا ہے ۔۔۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ کو اللہ تعالی نے سب سے حسین ترین انسان تخلیق فرمایا ۔۔۔۔ کوئی تو وجہ تھی کہ مصر کے اعلی طبقے کی عورتوں نے اچانک ان کو ایک نظر دیکھا اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے ۔۔۔۔ اور بے اختیار پکار اٹھیں کہ یہ انسان نہیں فرشتہ ہے ( حضرت یوسف علیہ السلام سے زیادہ حسن فرشتوں کو بھی نہیں دیا گیا )
کئی فتنوں سے گزرنے کے بعد ۔۔۔۔ عزیز مصر نے آپ علیہ السلام کو اقتدار دینا چاہا تو اس وقت آپ نے اس سے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے یہ اقتدار اس لیے دو کہ میں دنیا کا حسین ترین انسان ہوں ۔۔ بلکہ فرمایا ۔۔ قرآن کریم میں ہے کہ :
مجھے زمین کے خزانوں کا حاکم بنا دو ۔ کیونکہ میں حفیظ اور علیم ہوں ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ حسن کوئی کمال نہیں اور نہ یہ کوئی اختیاری عمل ہے ۔۔۔ اللہ تعالی جسے چاہے حسن و جمال سے نوازتے ہیں ۔

نوال : ۔۔۔۔ نوال کے معنی ہیں ۔۔ سخاوت ۔۔ داد و دہش ۔۔
یہ ایک فطری امر ہے ۔۔۔۔کہ ۔۔ انسان کو اپنے محسن سے محبت ہوتی ہے ۔۔۔ انسان ہی کو کیا ۔۔ محسن سے تو جانور کو بھی محبت ہوجاتی ہے ۔۔ گھوڑے اور کتے اپنے محسن سے محبت کے لیے مشہور ہیں ۔۔۔
تاریخ میں حاتم طائی جو کہ کافر تھا ۔۔ اپنی سخاوت کی بنا پر ہی مشہور ہے ۔۔۔

قرابت ۔۔۔۔۔ قربت کے جو معنی ہم اختیار کرتے ہیں ۔۔ وہ تہ اللہ تعالی کے لیے محال ہے ۔۔ کیونکہ قریب ہونے کے لیے حرکت کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ جو اللہ تعالی کی شان کے خلاف ہے ۔۔ قربت سے مراد دو اشخاص میں دوسروں کے مقابلے میں زیادہ قربت ہو ۔۔۔ اس اعتبار سے بندوں کا اپنے رب سے قربت کا معاملہ ان کی محبت کے درجے کے مطابق ہوتا ہے ۔۔ کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ۔۔۔ انبیاء علیہم السلام اس قربت میں سب سے آگے ہیں ۔۔ ان کے بعد درجہ بدرجہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیاء اللہ  ہیں ۔۔۔
خلاصہ کلام یہ کہ ۔۔۔ یہ چاروں صفات کمال ۔۔ جمال ۔۔ نوال ۔۔ و قربت ۔۔ جب انسان میں پائے جائیں گے تو ناقص اور زوال پذیر ہونگے ۔۔۔ لہذا حقیقی محبت اللہ جل شانہ کے سوا کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی ۔۔ جس سے بھی ان میں سے کسی سبب کی نسبت ہوگی ۔۔ وہ حق تعالی کی عطا ہوگی ۔۔ اور خود اللہ جل شانہ کی ذات میں یہ ساری صفات لا محدودو جمع ہیں ۔۔

Thursday, August 13, 2015

ذرا سوچیں !!!!!!!

ذرا سوچیں
شہیر شجاع

ہم نے جس دہائی میں  جنم لیا ۔۔۔ یہ وہ دہائی تھی جب  پاکستان میں  جنرل ضیاء الحق کی حکومت تھی ۔۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو ۔۔ ہم نے امن دیکھا ۔۔   باہری دروازوں میں تالوں کا تصور نہیں تھا ۔۔  ہر چیز ہر ایک کی دسترس میں تھی ۔۔۔  خوشیاں ہوں یا غم ۔۔۔ ہمیشہ بنٹتے ہوئے دیکھا ۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ  ہمیں ضیاء پسند ہے ۔۔۔ خواہ  اس کے دور کو  جتنا بھی برا بھلا کہا جائے ۔۔۔۔ سیاسی طور پر سیاستدانوں پر کم از کم میرا یقین تو نہیں رہا ۔۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔۔۔ وقت تنگی کی طرف مائل ہوتا رہا ۔۔ ریاست نے عوام  پر معاشی استحصال   کا سیلاب برپا کردیا ۔۔۔ اور لوگ صرف روٹی کمانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے ۔۔۔۔    
کسی نے  سیدھا راستہ اپنایا تو کسی نے غلط راستے کو چنا ۔۔۔ طاقت حاصل کرنے کا مقصد ۔۔ اس جبری معاشی استحصال  پر قابو پاکر اسی جبر کا حصہ بن جانا  تعبیر پایا ۔۔۔  رفتہ رفتہ اس استحصال نے ۔۔ بچوں اور جوانوں کے ہاتھوں سے کتابیں چھین کر اوزار پکڑا دیے  ۔۔۔۔ جو کچھ رشتہ رہ گیا وہ نصاب ی کتابوں تک محدود ہو گیا ۔۔۔۔ لیکن یہ رشتہ بھی  دیر پا ثابت نہ ہوسکا ۔۔۔ اور دہشت گردی  کا شکار ہوگیا ۔۔  نئی نسل  کو علم ہی نہیں کہ ان کا ماضی کیا تھا ۔۔ ان کا  مستقبل کیا ہونا چاہیے ۔۔۔ ؟
ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ ۔۔۔ ان کے مقاصد کیا ہونے چاہیئیں ۔۔ ۔؟
سوائے اس کے کہ ۔۔۔ بڑی ڈگری لی جائے ۔۔ اور اچھی نوکری حاصل کی جائے ۔۔۔
 بڑے بیورو کریٹس ۔۔ اور سیاستدانوں سے روابط قائم کرنا ۔۔۔ کامیابی کی ضمانت ٹہرا ۔۔۔
خطے کے انسانوں میں مایوسی بڑھی ۔۔ علم سے رشتہ ٹوٹا ۔۔۔ ذہن  روبوٹک قرار پائے ۔۔۔
وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ۔۔۔۔اذہان کی  ملمع کاری شروع ہوئی ۔۔۔  مایوسیوں کے دلدل ۔۔۔  جرائم  کے جنگل ان کے لیے کھلنے لگے ۔۔۔ صلاحیتیں سمٹ کر ۔۔۔ غیر ممالک جا بسیں ۔۔۔ ان پر مایوسیوں  کا ڈیرا ختم نہ ہوا تھا ۔۔۔ مایوسی ہمیشہ زہر ہی اگلتی ہے ۔۔۔ سو فطرت  نے اپنا کام جاری رکھا ۔۔۔
لیکن چند نوجوان اب بھی ایسے تھے ۔۔۔۔۔۔جو      آزاد تھے ۔۔۔ ان ناسوروں کے چنگل  سے پرے تھے ۔۔ وہ  اپنے کام میں مگن ۔۔   اپنے مقاصد کی تکمیل میں راستوں کی تلاش میں  مسائل سے نبرد آزما تھے ۔۔۔ وہ پیچھے نہیں ہٹے ۔۔ ان کے ذہن صآف تھے ۔۔ ان کے لیے اپنی منزل کا تعین قطعی مشکل نہ تھا ۔۔ بلکہ ۔۔ شفاف چاند کی طرح ان کے سامنے تھا ۔۔۔ اور وہ اس جانب  خار دار باڑوں  میں لہو لہان آگے ہی آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ 
اور ان شاء اللہ وہ ضرور ایک دن ۔۔۔ اپنی منزل کو جالیں گے ۔۔۔۔ اور اس خطہ ارضی  کے باسیوں  کے ذہنوں میں اٹی گرد کو ۔۔۔ دھو ڈالیں گے ۔۔۔
وہ آج بھی جشن آزادی اسی جوش و خروش سے مناتے ہیں ۔۔۔۔ جیسے 1947  آج ہی ہو ۔۔۔۔ وہ پیچھے نہیں ہٹے ۔۔۔ وہ اپنے اجداد کی قربانیوں کو نہیں  بھولے ۔۔۔ وہ  محبت کا پیغام ہیں ۔۔۔  ہر عصبیت سے آزاد ۔۔۔۔ پر صرف ایک ۔۔۔۔ ان کی عصبیت ۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان ہے ۔۔۔۔۔۔
پاکستان زندہ باد ۔۔۔۔
ان تمام زندہ دلان ۔۔۔۔ پاکستان کو ۔۔ جشن آزادی مبارک ۔۔۔۔
توڑ ڈالیں یہ زنجیریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو بڑھائیں تفاوتیں ۔۔۔ یہ سرزمین  یوں ہی نہیں ملی ۔۔۔۔۔۔ شاید ابھی مزید امتحان باقی ہیں ۔۔۔۔۔ تعمیر کے لیے ۔۔۔ معمار  کو گھر سے نکلنا پڑتا ہے ۔۔۔
  معمار بنیں ۔۔  معمار ۔۔۔۔۔
 انجینئر کی ڈگری یوں ہی رو نہیں مل جاتی ناں باس ۔۔۔ ؟؟؟؟ ذرا سوچیں ۔۔۔

Tuesday, August 4, 2015

ہندوستان کی تاریخ سے چند سطریں




ہندوستان کی تاریخ سے چند سطریں

شہیر شجاع 

تاریخ ہندوستان بے شمار بہترین کرداروں سے بھری پڑی ہے ۔۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کرداروں کو ہم آج جانتے تک نہیں ۔۔۔ جنہوں نے  تحاریک کی ابتداء کی ۔ ایک مکمل نظریاتی سیاست کو عملی جامہ پہنایا اور اس کے بعد اس کی تعمیل میں جت گئے ۔۔۔ جس  کے سردار بلاشبہ  شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ  کو کہا جا سکتا ہے   ۔۔ جن کی تحریک کو بالاکوٹ کے واقعے کے بعد بھی ختم نہیں کیا جاسکا  ۔۔۔ سب بڑا المیہ یہ ہوا کہ ان کے بعد آنے والوں کو مسلسل پرپیگنڈوں کے ذریعے سے ان کی شناخت سے محروم رکھا گیا ۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیش بہا کرداروں اور فیصلوں کو متنازعہ بنا کر عوام کو بددل کیا گیا ۔۔۔ ان میں سب سے زیادہ وہ مولوی شامل تھے جن کے لیے ان کا پیٹ سب سے افضل تھا ۔۔
اسی طرح آل انڈیا کانگرس میں شامل شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے جانشینوں نے سمجھ لیا تھا کہ اس طریق سے انقلاب نہیں لایا جا سکتا ۔۔ جب تک عوام میں شعور و آگہی نہ پیدا کی جائے انہیں ۔۔۔ اعلی تعلیم کی طرف راغب نہ کیا جائے ۔۔۔ جب تک نتائج صد فی صد حاصل نہیں کیے جا سکتے ۔۔۔۔
 سر سید احمد خان کے علی گڑھ کالج کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی  ۔۔۔ اور اور سر سید و  علماء کے مابین جو خلیج دکھائی جاتی ہے  اس میں صرف یہ اختلاف تھا کہ سر سید احمد خان رحمہ اللہ جس طرف پیش قدمی کرنے چلے ہیں اس کے تحت نظریہ تشدد جنم لے گا ۔۔۔ جو ایک ہی قوم کو دو طبقات میں بانٹ دے گا ۔۔ جس کا نظارہ لینن کی حکومت اور مصطفی کمال کی حکومتوں میں دیکھا جا چکا تھا ۔۔۔ ارادہ یہ تھا کہ سرسید رحمہ اللہ کو اپنا راستہ یوں بالکل جدا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ساتھ ملکر ایک متفقہ لائحہ عمل کے تحت آگے بڑھنا چاہیے ۔۔ جس بنا پر عوام تک علوم و فنون کے تمام دروازے وا ہوجائیں ۔۔۔ مگر ان کے خلاف ایسی مہم چلائی گئی جس نے عوام کو دو طبقات میں بانٹ ہی ڈالا ۔۔۔ اور یہ نظریہ نمو پاگیا کہ دین و دنیا دو مختلف چیزیں ہیں ۔۔۔۔ جس کا خمیازہ آج تک ہم بھگت رہے ہیں ۔۔۔۔
  شاہ ولی اللہ کے جانشینوں کا گاندھی جی کے  طرز سیاست سے اختلاف کی ایک وجہ ان کا نظریہ عدم تشدد تھا ۔۔ کہ جب تک قوم کے لیے جان تک قربان کردینے کا جذبہ موجود نہیں ہوگا ۔۔ تو فیصلوں میں وہ جان باقی نہیں رہے گی جس تک پہنچا جاسکتا ہو ۔۔۔
مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔۔۔ ہم جس طرح قرآن عظیم کی تعلیم سے اس مقصد عالی پر لے آتے ہیں ۔۔ اسی طرح اگر ہندو تعلیم یافتہ نوجوان ہم پر اعتماد کرے تو ہم اس کو ۔۔۔ ولی اللہ فلاسفی پڑھا کر " بھگوت گیتا" کی تعلیم سے اس مقصد پر لے آئیں گے ۔۔ یہی طرز عمل ہمارا بائبل ماننے والی اقوام کے ساتھ رہے گا ۔۔ ہم ولی اللہ فلاسفی پر ساری بائبل پڑھا کر انسانیت عامہ کے مفاد پر ان کو جمع کریں گے ۔الغرض مولانا شیخ الہند رحمہ اللہ ہمیں تین چیزیں بتاگئے ۔۔۔
اول یہ کہ ۔۔۔۔۔ آپ نے درجہ تکمیل میں شاہ ولی اللہ کا فلسفہ اور مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ کی حکمت و دانائی داخل کروائی ۔۔۔
دوم سیاسی تحریک میں علماء کے ساتھ علی گڑھ پارٹی کو مساوی درجے پر شامل کرنا منظور کر لیا ۔ ۔
سوم انڈین نیشنل کانگریس کے اندر جا کر بیرونی امارت اسلامیہ کی سیاسیات سے علیحدگی اختیار کر کے کام کیا جائے ۔۔
  بہر حال ۔۔۔ یہ طبقہ سب سے زیادہ اشرافیہ کی ریشہ دوانیوں کا شکار رہا ۔۔۔  انگریزوں نے ملتان سے دلی تک ساری زمین ان کے خون سے رنگ دی ۔۔۔۔ کالا پانی کی قید سے کون ناواقف ہوگا ۔۔۔۔ ان سب اذیتوں کے باوجود یہ طبقہ مختصر رہا ۔۔ شاہ ولی اللہ کے جانشین ۔۔ شاہ صاحب کی تحریک کو عملی جامہ پہنانے  کی جدوجہد کرتے رہے ۔۔ مسلم لیگ ہو یا کانگریس ۔۔ ہر طرف سے ان پر تیر برسائے گئے ۔۔۔ مگر یہ کارواں جاری رہا ۔۔  وقت کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ شاید وہ تحریک دم توڑ گئی ۔۔ جو چیدہ چیدہ شخصیات تھیں ۔۔ انہیں شہید کیا جاتا رہا ۔۔۔ یہاں تک کہ آج شاید اس سلسلے کی کوئی کڑی موجود ہی نہیں ہے ۔۔۔
عوام فرقوں اور طبقوں میں بٹ گئے ۔۔۔ اور نظریہ اساس کہیں دور کھو چکا ۔

شاہ صاحب نے فرمایا تھا ۔۔۔

اگر کسی قوم میں تمدن کی مسلسل ترقی جاری ہے تو اس کی صنعت و حرفت اعلی کمال پر پہنچ جاتی ہے اس کے بعد اگر حکمران جماعت آرام و آسائش اور زینت و تفاخر کی زندگی اپنا شعار بنالے تو اس کا بوجھ قوم کے کاریگر طبقات پر اتنا بڑھ جائے گا کہ سوسائٹی کا اکثر حصہ حیوانوں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگا ۔ انسانیت کے اجتماعی اخلاق اس وقت برباد ہوجاتے ہیں جب کسی جبر سے ان کو اقتصادی تنگی پر مجبور کیا جائے اس وقت وہ گدھوں اور بیلوں کی طرح صرف روٹی کمانے کے لیے کام کریں گے ۔

Tuesday, July 7, 2015

پاکستان کے دانشور




پاکستان  کے دانشور

محمد شہیر شجاع

کم و بیش ستر سال سے ۔۔۔ اس سرزمین کو  ۔۔   ادھیڑنے ۔ کھرونچنے  ، اس کی افادیت کو تباہ کرنے میں   سر فہرست ۔ دو کردار  رہے ہیں ۔۔ ایک مذہبی ، دوسرے سیاسی ۔
اور معاشرے کے یہ ہر وہ دو عنصر ہیں جو کسی بھی معاشرے کی اساس ہوتے ہیں ۔  اسلام تو آیاتھا ۔ دین و دنیا کو ایک کرنے ۔     جس کی مثال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہے ۔ جن کی  حیات مبارکہ کا ایک ایک گوشہ ہمارے لیے راہ نجات ہے ۔ پر طے یہ پایا گیا ہے کہ ۔ وہ انسان کا نجی معاملہ ہے ۔ معاشرے کی تخلیق میں  انفرادی کردار  ۔ چہ معنی دارد ؟   فرد سے تو کچھ بھی نہیں ۔ جب تک جماعت نہ ہو ۔ اور اس کا یک امیر نہ ہو ۔ اور اس جماعت کے پاس ایک نظام نہ ہو ۔ وہ جماعت کیسے  آگے کے لیے لائحہ عمل طے کرسکتی ہے  ۔
جب دین و دنیا کو  الگ کردیا گیا ۔ اور اس بات کو تسلیم کر لیا گیا ۔ علی الاعلان دین و دنیا کے ایک ہونے  کے نظریے رکھنے والوں کو ۔  اللہ اللہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ۔  جماعت  نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا ۔  ایک جماعت نے  دین و دنیا کی فلاح کی ذمہ داری سنبھال لی  ۔
دوسری جماعت نے  دنیا   میں فلاح   لانے کے  لیے اپنے آپ کو سیاست کا  پہلوان کہا اور دین کو جدا کردیا ۔
اب جب دونوں  جماعتوں کا سرسری جائزہ لیا جاتا ہے تو  نظر آتا ہے ۔۔  دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرارہی ہیں ۔ کہ معاشرے کی تباہی میں  کس کا کردار زیادہ اہم ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اربوں کھربوں  کی کرپشن ۔ لوٹ مار اہل سیاست کریں ، غنڈہ گردی  وہ کریں ،  عدل  کے ہاتھ پیر وہ توڑیں ، معاشرے  میں انصاف کو امیروں کی لونڈی بنادیں ۔۔۔۔
اور پھر تمنا کریں کہ ۔۔ وہ سرزمین ۔ پر امن ، شادباد ہو ؟ ۔۔۔۔۔
اور الزام دھردیں  اس جماعت پر جس  نے گرتے پڑتے  دین  کو سنبھالا دیا ہوا ہے ۔ بیشک ان  میں بھی اصلاحات کی ضرورت  ہیں ،  ان  میں بھی  ارتقائی  تبدیلیاں ناگزیر  ہیں ۔ بیشک  اس جماعت میں بھی  ہر قسم کے لوگ موجود ہونگے ۔  مگر  ہم نے کسی بھی سطح پر کسی بھی محمکے ، طبقے یا صنف پر کبھی کوئی توجہ دی ہے جو  اس جماعت کو  جب جی میں آئے  الزام دھر دیتے ہیں ۔  دہشت گرد ، دہشت گرد ہوتا ہے ۔  خواہ وہ  مذہبی و  نظری ۔۔۔ اور ان کے بنانے واے  ، یہ اہل سیاست اور وہ دانشور  ہیں ۔ جو دین کو دنیا  سے جدا سمجھتے ہیں ۔

Thursday, July 2, 2015

لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



شہیر شجاع 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بيشک انسان خسارے ميں ہے ۔۔۔۔۔۔
ليکن ۔۔۔۔۔۔۔
جي ہاں ۔۔۔۔۔ اس ليکن سے ہم ہميشہ روگرداني کرتے ہيں ۔۔۔۔۔۔ ہم وہي کچھ ديکھنا ، پڑھنا اور بولنا چاہتے ہيں جو ہميں اچھ الگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ حقيقت کے ادراک کي سعي اکثر ناپيد ہوتي محسوس ہورہي ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس " ليکن " کے بعد کے کلام کو ۔۔۔۔۔۔۔ مابعد الطبيعيا کے زمرے مين ڈال ديتے ہيں جبکہ ۔۔۔۔۔ ما بعد الطبيعيات۔۔۔۔۔۔ پہلا جملہ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کا حصول آسان جبکہ ۔۔۔۔۔ ليکن ۔۔۔ کے بعد کا حصول حقيقت ہوتي ہے ۔۔۔۔۔ اکثر و بيشتر ۔۔۔۔۔۔ يہي اصول کارفرما ہے ۔۔۔۔۔
ہم ہر بات کو ۔۔۔ اگر مگر ۔۔۔۔۔۔ ميں ٹالنا کہہ کر رد کرديتے ہيں۔۔۔۔۔۔۔ حلانکہ اس اگر اور مگر کے بعد۔۔۔۔۔۔ حقيقي صورتحال کي اکثر نشاندہي ہورہي ہوتي ہے ۔۔۔۔۔
جيسے ۔۔۔۔۔ بيشک انسان خسارے ميں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ يہ قرآن مجيد کي ايت ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد ۔۔۔۔۔۔اصل بتايا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ جس کي سعي انسان نے کرني ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔خسارہ ہي مقدر ہے ۔۔۔
جي اس ليکن کے بعد ۔۔۔۔۔۔ کيا کہا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔ ہر وہ انسان خسارے ميں ہے ۔۔۔۔۔
ليکن وہ ۔۔۔۔۔
جو ايمان لائے ۔۔۔۔۔۔ اور نيک عمل کيے اور حق اور صبر کي نصيحت کي ۔۔۔۔۔

ہميں اس ليکن سے آگے بڑھنے کي ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, June 25, 2015

مسلم امہ کی کمزوری




حقیقت سے عیسائیت و یہودیت خوب واقف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم امہ کی کمزوری یہ ٹہری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ کچھ مذہب کے ٹھیکیدار کہلائے ۔۔ اور جنہوں نے لبرل کا لبادہ اوڑھ اانہوں نے مذہب کا مطالعہ ۔۔۔۔ اپنی نظر و بصیرت سے نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین اسلام تو دعوت دیتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور و فکر کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قران تو ایک معجزاتی نشانی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کھلی کتاب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غور و فکر کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنی آیات ہم نے پڑھ لی ؟ اور اس میں کتنا غور و فکر کر لیا ؟
کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی سے دین کا موازنہ کریں ؟ سائنس و ٹیکنالوجی مذہب نہیں ۔۔۔۔۔۔ لیکن غور و فکر کی راہ آسان کرتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس سے کتنا استفادہ کر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ٹیکنالوجیز میں اپنے آپ کو کس حد تک لے جا کر منوالیا ؟
ہم نے کس حد تک سائنس و ٹیکنالوجی سے استفادہ کی ؟
اور کس حد تک ۔۔۔۔ اسلام کو اپنے آپ پر نافذ کیا ؟
علم تو یکطرفہ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پروپیگنڈاز پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناقد کہلانا ۔۔۔ آسان ہے ۔۔ کیونکہ ۔۔۔۔ اس طرز کی تنقید پر ۔۔۔۔ فی زمانہ آزاد منش طبقہ ۔۔ واہ واہی پیش کرنے میں چنداں ۔۔ پیچھے نہیں رہتا ۔۔۔
میں سوچتا ہوں ۔۔ گر پچاس اوقات کی نمازیں فرض ہوئی ہوتیں ۔۔۔ تو کہیں آپ نماز کے ہی منکر ہوجاتے ؟

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...