Sunday, May 30, 2021

خود ساختہ عقلیت پسندوں کی علمی دھوکہ دہی

 

کہیں پڑھا تھا "معاشرے میں فلسفہ تب جنم لیتا ہے جب وہ تہذیب   اپنے علمی نقطہ عروج پر پہنچ چکی ہو ، اور اس کے بعد زوال شروع ہوتا ہے " ۔ شاید غزالی ہماری تہذیب کے نقطہ عروج کی نشانی ہیں  اور آج جب ہم علم کی پست ترین سطح پر جی رہے ہیں ایسے میں فلسفہ شناسی کے دعویدار ، عقلیت پسندی کے علمبردار وں کی اہلیت نتیجے میں الحاد سے ہی عیاں ہوجاتی ہے ۔ جو ذہن مذہب جیسے مرتب و منظم نظام علم کو سمجھنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہو اس کے فلسفے کی اہلیت کیا ہوگی ؟

یہ پیراگراف دیکھیں

"مذہب جو بذات خود تضادات کا مجموعہ ہے ، وہ فلسفے اور منطق کے بارے میں بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ، کیونکہ اس کے لیے اسے فلسفیانہ اور منطقی ہونا پڑے گا ۔ فلسفے کی تاریخ میں فلسفیانہ اور منطقی دلائل کے استعمال سے کسی فلسفے کا رد ایک عمومی رویہ ہے ، کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ غزالی کی بہرحال ناکامی یہ ہے کہ وہ چند تضادات کو عیاں ہی کرسکا لیکن ان کی تحلیل نہ کر پایا ، جیسے فختے نے کانٹین  طریقہ کار کا استعمال کر کے کانٹ کے فلسفے میں موجود تضادات کی تحلیل کی تھی ۔ " (ایک  کانٹ کا مرید یا جدید عقلیت پسند )

 

ذرا غور کریں  حضرت نے پہلے مذہب پہ   دوحکم لگائے ۔ نمبر ایک " تضادات کا مجموعہ " ۔ نمبر دو یہ فسلفے اور منطق کے بارے میں بات کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔

یہ جو دوسرا حکم ہے  اس کو قوت بخش بنانے کے لیے جو گرہ انہوں نے استعمال کی وہ ان کی مخالفت میں جا رہی ہے " کیونکہ اس کے لیے اسے فلسفیانہ اور منطقی ہونا پڑے گا "۔ گویا یہ اپنے پہلے حکم کی دلیل کے طور پر پیش فرما رہے ہیں کہ مذہب  چونکہ ہے ہی تضادات کا مجموعہ لہذا جب مذہبی آدمی فلسفے و منطق پہ نقد کرے گا تو  اسے مذہب سے نکل کر فلسفے و منطق کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا ۔ 

خود ہی مدعی ، خود ہی منصف

کیسے کرلیتے ہیں یہ لوگ ، جو اپنے آپ کو عقلیت پسند کہتے ہوں اور اتنی دیدہ دلیری سے  علمی دھوکہ دہی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں ۔ دراصل مندرجہ بالا اقتباس حضرت کے ایک مکمل مضون سے لیا گیا ہے جہاں وہ غزالی کے اس نقطے کو بنیاد بنا کر بحث فرما رہے ہیں جہاں غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں " ان لوگون سے انہی کی زبان میں مناظرہ کریں " ۔ اس جملے کو بنیاد بنا کر انہوں نے یہ مکمل تعبیر باندھی ہے ۔

غزالی کے اس جملے کے معنی بہت آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں ۔ کہ ہر علم کے اپنے اصول و ضوابط ہوتے ہیں ۔ چونکہ ملحدین  نے جو فلسفہ و منطق کے اصول وضع کیے ہیں وہ  ایک طرح سے ان کے لیے مذہب کا ہی درجہ اختیار کرچکا ہے ۔ ان کے نزدیک منطق وہی ہے جو وہ کہیں ۔ خواہ اپ سو دلائل پیش کردیں انہوں نے تسلیم نہیں کرنے ۔ اس طرح  مذہبی اصطلاحات کی توہین ہی ہونی ہے کہ آپ کسی " میں نہ مانوں" کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔  کیونکہ وہ "اہل " ہی نہیں ہے کہ اعلی علوم  اور اس کے اصول و ضوابط کو تسلیم کرسکے ۔ اس کی عقل ابھی اس درجے تک پہنچی نہیں مگر وہ "زعم " میں مبتلا ہوچکا ہے ۔ لہذا کوشش کی جائے کہ اسی کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے اس کا زعم توڑنے کی کوشش ہو ۔

اس کا مطلب اگر عقلیت پسند یہ نکالیں کہ مذہب میں اہلیت ہی نہیں تو  "عقل والوں "کے سامنے اس خود ساختہ عقلیت پسندی  کی قلعی کھل جانی چاہیے ۔

Sunday, May 9, 2021

ہیولا

 

ہیولا

شہیر شجاع

سخت دھوپ کی تمازت سے اس کا بدن بھیگ چکا تھا ۔ وسیع النظر پھیلا صحرا جہاں دور دور تک سائے کی امید بھی نہیں تھی اورریت کی تپش سے اس کے پاوں شل ہورہے تھے ۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا لیکن اس کی آنکھیں سورج کی روشنی سے چندھیاگئیں اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنی آنکھوں کے سامنے چھجا بنائے اٹھ گیا ۔ کچھ دیر تو اندھیرا سا چھایا رہا ۔ اس کینظروں کے سامنے کھلا آسمان تھا جو نیلگوں سمندر جیسا محسوس ہوتا تھا جہاں دور نظر دوڑائی جائے تو بھاپ اڑتی محسوس ہوتیہے ۔ سورج کی شعاعیں اس کا بدن جھلسا رہی تھیں وہ زیادہ دیر آسمان کی جانب نگاہ نہ رکھ سکا ۔

اس کے ذہن میں ایک گونج لہرائی “ غور کرو “ ۔ 

وہ کچھ دیر کے لیے ساکت ہوگیا ۔ مگر فورا ہی عیاری کے ساتھ اس کو جھٹک دیا ۔ اس نے سوچا میرا یہ سفر اور کس لیے ہے ؟ 

اس کا سفر مگر بنا کسی تدبیر کے تھا ۔ اس کو زعم تھا کہ شعور کے گوشے متحرک ہیں ۔ وہ دیکھ رہے ہیں ، تجزیہ کر رہے ہیں ، فکرمند ہیں ، اور نتیجہ خیزی تو وہ حاصل کر ہی لے گا ۔

وہ کچھ دور اور چلا ایسے میں اسے اپنے بائیں جانب مگر بہت دور ایک ہیولا سا نظر آیا ۔ 

اس کو تجسس ہوا کہ یہ کیا ہے ؟ کہیں میرے جیسا مسافر ہی تو نہیں ؟ 

اس نے اس ہیولے کی جانب اپنا رخ موڑ لیا ۔ وہ جتنا آگے جاتا ، ہیولا اس سے مزید دور ہوتا جاتا ۔ کافی طویل سفر پھر بھی اس نے کرلیا مگر اب آرام کرنا ضروری ہوگیا تھا ۔ اس نے کوشش کی کہ وہ ہیولا اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے ۔ اتنی مشقت کے بعد اسکے سفر میں کسی انجان منزل کے تعاقب میں کوئی حقیقت نمائی میسر آئی تھی وہ اسے کھونا نہیں چاہتا تھا ۔ کچھ ہی دیر میںتھکن سے چور وہ نڈھال جسد نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو صحرا میں چاندنی بکھری ہوئی تھی اورآسمان میں پورا چاند اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔ 

اس نے یک ٹک چاند پر نظریں جمائی رکھیں ۔ جو کچھ اس کے ذہن کے نگار خانے میں چاند سے متعلق مواد تھا انہیں دہرانے لگا ۔ مگراسے اس مخصوص وقت میں چاند بالکل بھی دلکش نہ لگا ۔ اس نے اپنے بستے سے دفتر نکالا اور قلم ہاتھ میں لیکر چند دکھ بھرےاشعار منضبط کردیے ۔ وہ انہیں بار بار پڑھتا ، نوک پلک سنوارتا ۔ اس کا دل خوشی سے معمور ہوجاتا ۔ 

اس نے حقارت سے چاند کی جانب دیکھا اور وہی اشعار جو اس نے ابھی نذر دفتر کیے تھے انہیں لے میں دہراتارہا ۔ 

اچانک اسے اس ہیولے کا خیال آیا ۔ اس نے چاروں جانب نگاہ دوڑائی مگر چاندنی سے پرے گھپ اندھیرے کے وہ کچھ نہ دیکھ سکا ۔ 

مگر وہ مطمئن تھا کہ اس کا سفر ضرور رنگ لائے گا ۔ وہ اپنی “ انجان منزل “ کو ضرور پالے گا ۔ اس نے اپنے سفری بستے سےچائے بنانے کا سامان نکالا ۔ چائے بنائی اور چسکیاں لینے لگا ۔ اس دوران وہ کافی ہشاش بشاش ہوچکا تھا ۔ کبھی کبھی دور کسیکتے کے بھونکنے کی آواز سے وہ چونک جاتا اور اسے ہیولے کا خیال آجاتا ۔ اسے محسوس ہوتا شاید وہی اس کی طلب تھی جو ابنظروں سے اوجھل پوچکی ہے۔ 

اس نے اپنا سامان باندھا اور پھر ایک نئی امنگ کے ساتھ اس “ ہیولے “ کے راستے کا تعین کر کے اس جانب چل پڑا ۔ 

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...