Sunday, August 22, 2021

ہراسانی کیسے ختم ہو

  ہماری ذہنی ساخت ہی مکمل طور پر مجرمانہ ہوچکی ہے ہم جرم کو جرم نہیں سمجھتے بلکہ فخریہ بیان کرتے ہیں یہ بھی ایک درست تجزیہ ہے ۔ مگر اس میں ایک خامی ہے ۔ جنس کا تعلق شہوات سے ہے اور محض قوانین سے نہیں روکا جا سکتا اس کے لیے ایک طویل المدت پالیسی درکار ہے جو اس نسل کو نہیں تبدیل کرسکتی مگر آئیندہ نسل میں جا کر یہ تبدیلی نظر آنے کے امکانات ہیں ۔ وہ تعلیمی نظام سے لیکر نکاح کے رواج تک کے تمام مراحل پر مشتمل ہوسکتا ہے ۔ جس میں پرہیزگاری کی اہمیت زیادہ ہے اور یہی تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد ہونا چاہیے ۔

ہراسانی ۔ مغربی کلچر بمٓقابلہ مشرقی کلچر

 مغرب میں جنسی ہراسانی نہیں ہوتی کا ایک  زاویہ  اوربھی ہے ۔ وہاں حیا کا معیار مختلف ہے ۔ وہاں کسی لڑکی پر آواز کس دیں تو وہ مائنڈ نہیں کرے گی ۔ رستے میں روک کر اس سے ہنسی مذاق کریں تو بھی شاید اس کے لیے یہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہو ۔ جبکہ ہمارے ہاں حیا کا معیار بلند ہے ۔ یہاں رستہ بھی پوچھنا ہو تو ہم مردوں کا انتخاب کریں گے ۔ سو یہ ہمارے معاشرے کی مثبت بات ہے اور اسی کو معیار بنا کر جنسی ہراسانی پر ہمیں کہانیان سنائی جاتی ہیں ۔ جبکہ ان سب کے باوجودمغربی ماحول میں زیادہ زنا بالجبر اور جنسی ہراسانی کے کیس سامنے آتے ہیں جیسے “ می ٹو “ کی تحریک وہیں چلتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔


Dil or Qalb

 دل اور قلب

شہیر شجاع

ہم اکثر کہا کرتے ہیں “میرا دل کھانے کا کر رہا ہے ، یا میرا دل چاہ رہا ہے ، یا میرا دل خراب ہورہا ہے ۔۔۔۔یا “ اس “ پہ میرا دل آگیا ہے ۔۔ وغیرہ وغیرہ “ ۔ درحقیقت اس چاہنے کا یا مائل ہونے کا تعلق دل سے نہیں طبیعت سے ہے ۔ طبیعت مائل ہوتی ہے کچھ کھانے کی جانب ، کچھ کرنے نہ کرنے کی جانب ، کہیں گھومنے پھرنے کی جانب ، کسی کو مارنے نہ مارنے کی جانب ، کچھ حاصل و ترک کی جانب ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ یہ طبیعت ہے جو خواہش ابھرنے کا سبب ہے ۔ اور ہم جانتے ہیں طبیعت نفس کا حصہ ہے ۔ قلب تو کچھ اور ہی شے ہے ۔

Tuesday, August 3, 2021

Divide and Rule

 

آئی جی پولیس افضل شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا ، دو پلاٹ اپنی بیگم ، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے ۔ یہ وہ پلاٹس ہیں جو پولیس شہداء کے خاندانوں کی ملکیت ہونے تھے یا ان سے متعلق تھے ۔ ان پلاٹس پہ شوکت عزیز  کا نام بھی ہے ۔ اور بھی کئی نام جو کل رؤوف کلاسرہ نے اپنے کالم میں ذکر کیا ۔

ایک جانب ہم اپنے اقدار و تہذیب کی بات کرتے ہیں ، مساوات کی بات کرتے ہیں ، مرد و عورت کے درمیان مقابلہ بازی کرتے ہیں ، خصوصا وہ پسا ہوا طبقہ جو پاکستان کاسب سے بڑا طبقہ ہوگا  جس کو مکمل غذا  بھی میسر نہیں  ہوتی، نہ یہ نظام تعلیم اسے کوئی مقصد زندگی فراہم کرسکا ہے ،سوائے اس کے کہ ڈگری لو اور نوکری(غلامی) تلاش کرو ۔ بابووں کے پیر پکڑو ۔ سفارشیں تلاش کرو ۔ ایک ایسا نظام زندگی اس زمین کے لوگوں کو مہیا کیا گیا ہے جہاں وہ  جھوٹے تصورات  یا زعم میں جی رہے ہیں ۔ وہ بیک وقت احساس کمتری ، خود ترسی  کا بھی شکار ہیں اور یہ زعم بھی پال رکھا ہے کہ ان سے برتر کوئی نہیں ۔ زعم دانش سے لیکر پارسائی تک  ، ایسا کیا ہے جو ہمارے جسموں میں خون بن کر نہ دوڑ رہا ہو ۔ ایسے میں جب اس طبقے سے کوئی اوپر پہنچتا ہے تووہ جہاں بھی پنیر بٹ رہی ہو وہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے یا چھینتا ہے یا چراتا ہے ۔ 

پھر یہ اشرافیہ جن کا بچہ جو سونے کا چمچہ منہ میں لیکر پیدا ہوتا ہے وہ بھی کیوں اس دوڑ میں صف اول میں جگہ بناتا ہے ؟ برانڈڈ اسکولوں میں پڑھ کر ، برانڈڈ طرز زندگی جی کر جب وہ "سول سرونٹ" یا بااختیار ہوتا ہے تو "بابو" بن جاتا ہے اور اسے آس پاس کی بستیوں سے گھن آنے لگتی ہے ۔ اس کو صبح چائے پلانے والے " چاچا خیر دین " ، ان کو اس سے کچھ فاصلے سے ملنا ہوتا ہے ۔ چوری کرنا یا قانون توڑنا اپنا حق سمجھتا ہے ۔ دوسروں کاحق  چھینتا ہے ،قتل کرتا ہے ، وائٹ کالر ڈاکے ڈالتا ہے، اور یہ سب وہ مکمل دلی اطمینان کے ساتھ کرتا ہے ۔ اس کا ضمیر اسے قطعی ملامت نہیں کرتا ۔

ایسے سماج میں جہاں گھٹن ، جبر ہر شخص کی زندگی کا حصہ ہے ، انسانیت سوز واقعات کا  تواتر کے ساتھ پیش آنا کوئی انہونے واقعات نہیں  ہیں ۔  اس جبر اور اس گھٹن کو لبرل فکر "مذہبیت " کو زیر کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ اور مذہبی فکر "لبرل فکر " کو ۔  

یہاں بنیادی غلطی کہاں ہو رہی ہے ؟ اس جانب  ہماری کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ ہمارے لیے ظلم وہ ہے جو ہمارے نظریے کے مطابق ہے  ۔ یہاں کوئی واقعہ رونما ہوا "اور میڈیا کی زینت بنا " ہم نے  دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کردیے ۔ صفیں مرتب ہوگئیں  ۔ اور دونوں جانب جیسے دو فوجیں کھڑی  ہوں اور  ایک دوسرے کی جانب نیزے تن جاتے ہوں۔ اذہان میں موجود تصورات مزید شدت اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہیں مذہبیت نشانہ بنتی ہے تو کہیں لبرل  سوچ پر گولہ باری ہوتی ہے ۔ اور یہ سلسلہ دراز ہے  اور رہے گا ۔  

کیونکہ ہمارا مسئلہ سماجی نہیں "ذاتی " ہے ۔ جس دن ہم من حیث القوم سوچنا شروع کردیں گے ہمیں مسئلے کی جڑ نظر آجائے گی ۔ کہیں یہ"ڈیوائڈ اینڈ رول" تو نہیں ؟

Sunday, August 1, 2021

ذات کی اسیری

 ذات کی اسیری

تنہائی انسان کو یا تو آئینے کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے یا سرابوں میں بھٹکا دیتی ہے جہاں وہ اپنی ذات کی تصویر کشی کرتا رہتا ہے ، مختلف رنگوں سے خوشنما بناتا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ “ ان “ تصاویر کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے ۔
آج ہم مجموعی طور جو اسیران ذات ہیں یا اس مرض کا شکار ہیں اور آئینے سے کتراتے ہیں اس کا سبب کیا ہے ؟
ایک سب سے بنیادی سبب “ نظام زر “ ہے ۔جس نے انسان کو روح سے خالی کردیا ہے ۔ اس نظام نے انسان کی زندگی کو ایک ایسے “ جبر” میں مبتلا کر رکھا ہے جو اس کی نفسیات ، نظام فکر میں رچ بس گیا ہے۔
بصیرت ، “ ذاتی مفاد” کے تابع ہو کر رہ گئی ہے ۔ انسان اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے کے لائق ہی نہیں رہ گیا ۔

سرمایہ دار اور حضرت انسان

 سرمایہ دار اور حضرت انسان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے زوال کے بعد جتنے بھی نظام آئے وہ ناکام ہوئے مگر سرمایہ دار کامیاب ہی نہیں کامیاب ترین ثابت ہوا ۔ اس کا سبب جو مجھے نظر آتا ہے اس نے انسان کا بخوبی مطالعہ کیا اور اس کی “ جبلتوں “ کو نشانہ بنایا ۔ اور اپنی “ مصنوعات” کی طلب پیدا کرتا رہا ۔ اس دوران جو سب سے بڑی رکاوٹ اسے پیش آئی وہ انسانوں کے عقائد تھے ۔ اور اس کو کمزور کرنا نہایت ضروری تھا اسے گاہک بڑھانے تھے اسی طرح ہی پیداوار میں اضافے کا فائدہ ہوسکتا تھا ۔ اس نے اس کے لیے میڈیا کو استعمال کیا اور انسان کے جلد باز جبلت کو نشانہ بنایا ۔ اور اس طرح وہ انسانوں کو اس کی انسانی حیثیت سے گرا کر جانوروں کی جبلت کی سطح پر لے آیا جہاں وہ آزاد رہنا چاہتا ہے ۔ اپنی خواہشات کا اسیر ۔ اپنی ذات میں گم ۔ اسے اس بات کا ادراک ہوچلا ہے کہ وہ مکمل حیاتیاتی مادہ ہے اور وہ جو سوچتا ہے وہی حقیقت ہے ۔ وہ اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچنے سے عاری ہوچکا ہے ۔ اس کی زندگی اپنی خواہشات کی تکمیل میں اس قدر مصروف ہوگئی ہے کہ وہ اس حصار سے نکل کر سوچنے سے ہی عاری ہوچکا ہے ۔ ایسے میں جب اس کے سامنے مذہب کا نام لیا جاتا ہے تو وہ ناک بھنویں چڑھاتا ہے کیونکہ مذہب تو “ بندگی” کا نام ہے ۔ جس میں خواہشات کے بجائے فطرت کی بات ہوتی ہے ۔ جس میں “ وقتی “ فائدے سے قطع نظر “ دائمی فائدے “ کا عندیہ ہے ۔ اور یہ باتیں اس کی جلد باز طبیعت کو ناشاد کرتی ہیں۔ یوں سرمایہ دار آج اتنی بڑی طاقت بن چکا ہے کہ اربوں انسان ویسا سوچنے لگے ہیں جیسا وہ چاہتا ہے ۔

نام کے سابقے لاحقے

 نام کے سابقے لاحقے

المیہ ایک یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو ان کی ڈگریوں سے پہچانتے ہیں لیکن ان کے افعال و کردار کو ان کی ڈگری سے منسوب صرف اس صورت کرتے ہیں جب ڈگری “ مولانا ، مفتی “ وغیرہ کی ہو ۔ بصورت دیگر محض برائی دکھتی ہے ۔ ہمیں جاننا چاہیے کہ محض ڈگری لے لینے سے کوئی “ عالم “ نہیں ہوجاتا ۔ مثلا ایم بی بی ایس کا ڈگری یافتہ بھی تب عالم کہلاتا ہے جب وہ ایک طویل پریکٹس کے مرحلے سے گزرتا ہے ۔ اسی طرح مختلف ڈگریوں پہ یہ قانون لاگو کیا جا سکتا ہے ٹھیک اسی طرح درس نظامی یا افتاء کی ڈگری لے لینا اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ “ عالم “ بھی ہے ۔ یہ تو تب اس پر لاگو ہوگا جب وہ عملی دنیا میں ثابت کر کے دکھائے گا ۔ چونکہ ہمارا معاشرہ “ ڈاکٹر صاحب ، مولانا صاحب ، مفتی صاحب ، حاجی صاحب ، چوہدری صاحب وغیرہ وغیرہ “ کہنا اور کہلانا پسند کرتا ہے تو نام کے ساتھ ڈگریاں جوڑنا بھی رواج ہوچکا ہے ۔ اس رواج نے ہمیں مزید اس سبب سے بھی نقصان پہنچایا کہ ہم نہایت ہی سطحی فکر کے ساتھ مستقل نظریات تعمیر کرلینے میں طاق واقع ہوئے ہیں سو نام کا سابقہ ہی شخصیت کو عزت دینے کے لیے کافی ہے ۔ ہمیں شخصیت سے کیا غرض ؟ تو بھائی ذرا فکر کو گہرائی دینے کی ضرورت ہے ۔ غلط کو غلط کہہ دینا کافی ہوتا ہے اس کے لیے نام کے سابقے لاحقے معنی نہیں رکھتے ۔ جب غلط کو غلط کہنے کا رواج ہوگا تب یہ لاحقے والوں کو بھی پرواہ ہوگی کہ وہ کس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کا نقصان کیا ہوسکتا ہے ۔

عورت کا مسئلہ

 آپ نے نکاح کو مشکل بنا رکھا ہے ۔ جلدی شادی کو عیب سمجھتے ہیں ۔ کثیر الازدواج آپ کے لیے روح فرسا ہے ۔ اور پھر معاشرے میں روا مرد و عورت کے مسائل کا حل مادر پدر آزادی میں تلاش کرتے ہیں ۔ نور اور عینی کی مثال لاتے ہیں ۔ لیکن ان دونوں پہ غور نہیں کرتے ۔ صرف درندگی نظر آرہی ہوتی ہے ۔ درندہ تو درندگی سے باز نہیں آئے گا ۔ ایسے میں غور کرنا ہوتا ہے کہاں کیا غلط ہو رہا ہے ؟

عینی ایک بیوی ہے اور اس کے پاس شرعی اختیار ہے کہ وہ علیحدہ ہوجائے ۔ مگر آپ کے معاشرے میں مطلقہ ہونا جیسے اچھوت ہونا ہے ۔ کیونکہ یہ “ہزاروں سالہ تہذیبی زمین “ ہے ۔ یہاں صاحب استطاعت مردوں کو ایک شادی کی آزادی ہے خواہ وہ باہر زنا کرتا ہھرے ۔ مگر دوسری تیسری شادی کی اجازت نئیں ہے ۔ عورت کی طلاق ہوجائے یا وہ بیوہ ہوجائے تو اب اس کے لیے ساری زندگی گھٹ گھٹ کر جینا آپ ہی نے لکھ دیا ہے ۔ کیونکہ مردوں کو اسے اپنانے کی آپ کی جانب سے اجازت نہیں ۔
ہاں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ کسی کے ساتھ بھی اپنی “ مرضی “ سے تعلقات استوار کرلے اور توڑ لے ، پھر اور کسی سے جوڑ لے ۔ یعنی اسے اس بات کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ سو مردوں کے بستر کی زینت بنے پھر بھی کوئی پسند نہ آئے تو اکیلی رہے ۔ یہاں عورت کے لیے کیا مثبت ہے ؟ پھر اس کی توجیہہ کے لیے عورت کے ساتھ پیش آئے درندگی کے واقعات کو سامنے لاتے ہیں ۔ ان کا آپس میں کیا تال میل ہے ؟ دلیل لائیں تو کم از کم منطقی لائیں ۔ عورت کو سوچنا ہوگا وہ “ شوپیس “ نہیں ہے ۔ اس کی زندگی نکاح میں ہے اور اگر شوہر پسند نہیں تو بے جھجھک علیحدہ ہوجائے نہ کہ ظلم سہتی رہے ۔ یہ مسائل چلتے رہیں گے ، دانش گاہیں آباد رہیں گی ان دانشوروں سے جن کے قلم مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔

سسٹم

 جس ذہن کو سسٹم یا نظام زر کے خلاف متحرک ہونا تھا اس کے سامنے “ سسٹم “ نے “ مذہبی فکر” کا عفریت کھڑا کردیا اور وہ اس لکیر کو پیٹنے میں مصروف ہے ۔ کیونکہ اگر سسٹم کے خلاف کوئی اٹھ سکتا یا اٹھتا ہے تو وہ یہی مذہبی ذہن ہی ہے ۔ قطع نظر اس کے کہ مذہب کا استعمال بھی “سسٹم” کی بقا کے لیے ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے ۔

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...