Sunday, March 14, 2021

جھانسہ

جھانسہ

شہیر شجاع

یہ میں ہی تو ہے جو انسان کے اندر کے تمام مسائل کی جڑ ہے ۔ جہاں وہ  خود اذیتی کے مراحل سے گزرتا ہے تو اس کا سبب اس کی ذاتی خواہشات کی ناآسودگیاں ہوتی ہیں ۔ اس کی جبلی تشنگیاں ہوتی ہیں ۔ اسے سکھایا جاتا ہے کہ اسے اگر پڑھنا ہے تو اس لیے کہ وہ سماج میں اونچا مقام حاصل کرسکے اور اس کے حصول کے لیے اسے کسی اونچے عہدے تک پہنچنا ہوگا جہاں بیٹھ کر وہ اپنا بینک بیلنس پھیلا سکے اور آسائشات زندگی کو اپنے زندگی میں شامل کرسکے ۔ اور یہ فکر اس طرح پروان چڑھتی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد ہی جبلتوں کی تسکین بن کر رہ جاتا ہے ۔ اور اسے ہر پرآسائش انسان اپنے سے بہتر محسوس ہوتا ہے ۔ ہر "مادر پدر آزاد" انسان میں اسے آزادی نظر آتی ہے ۔ اور پھر اس قسم کا نعرہ جنم لیتا ہے  " میرا جسم ، میری مرضی " ۔ جب اسے کہا جاتا ہے کہ تمہاری عزت ، احترام ، وجہ تقدیر ، سبب محبت  اور توقیر ذات تو بہن ، بیٹی ، بیوی اور سب سے بڑھ کر "ماں" ہونے میں ہے تو اس کا جواب ہوتا ہے " ان سب میں  ، میں کہاں ہوں ؟" اس ذات کے پیچاک میں غلطاں و پیچاں انسان اس حقیقت سے بھی ناآشنا ہوجاتا ہے کہ انسان کی پہچان و قدر ہی اجتماعی ہے ۔ افراد میں تو اس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ،ورنہ رہبانیت بری کیوں ہوتی ؟ دنیا میں  خاندان کا وجود ہی کیوں ہوتا ؟ ریاستیں ہی وجود میں نہ آتیں  اور نہ ہی تہذیبوں سے ہم آشنا ہوتے ۔ یہ انسانوں کا مجموعہ ہوتا ہے جو باہم مل کر "ایک تہذیب" کی تشکیل کرتا ہے ، ہر شخص کی شناخت اس کی ذات سے نہیں اس کی تہذیب سے ممکن ہوتی ہے ۔ اگر کسی شخصیت میں سو گن ہوں اور انہیں سراہنے والا ہی کوئی نہ ہو تو ان کمالات کا کیا فائدہ ؟ نہ ان کمالات سے اس کی اپنی ذات کو فائدہ اور نہ دوسروں کو ۔ بہن ، بیٹی ، بیوی اور ماں ہونے میں جو احترام ، توقیر و قدر ہے وہی بھائی ، بیٹے ، شوہر اور باپ ہونے میں ہے ۔ انسان کی انفرادی حیثیت میں کیا شناخت اور کیا  اخلاقی قدر ہوسکتی ہے ؟ اس "میں" کے جھانسے سے نکل کر حقیقت میں اپنے آپ کو ، اپنی حقیقت کو پہچاننا نہایت ضروری ہے ۔ ورنہ  یہ میں درحقیقت جو "نفس" ہے جسے رب تعالی شانہ نے انسان کا ازلی دشمن قرار دیا ہے ، اس نے برباد کردینا ہے ۔  


Thursday, March 4, 2021

اقتدار کا کھیل

 

اقتدار کا کھیل

شہیر شجاع

اکثر دو مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی باہم ملاقات کی ہنستے مسکراتے تصویر نظر آتی ہے تو خیال گزرتا ہے کہ یہ جو ڈائس پہ کھڑے ہو کر مکے لہرا کر عوام کے سامنے مخالف کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں ، عام آدمی کے دلوں میں اک نفرت بیدار کر رہے ہوتے ہیں ، تو کیا یہ بس سیاسی پوائنٹ اسکورنگ ہوتی ہے ؟  اور ان کی جماعت کو چاہنے والوں میں اضافہ ہو ۔ یا واقعتا ان کے بھی دلوں میں مخالف سے نفرت موجود ہوتی ہے ؟ اگر دلوں میں نفرت ہونے کے باوجود جو یہ ہنستے مسکراتے مل رہے ہوتے ہیں ، کیا یہ منافقت ہوتی ہے ؟ محض ڈھکوسلا اور دکھاوا ؟

پہلے زمانوں میں اقتدار کی جنگیں تلواروں کے سائے میں ہوا کرتی تھیں ۔ جو اقتدار کے خواہش مندوں کے درمیان فیصلے جنگ کے میدان میں ہوا کرتے تھے ۔ خون کی ندیاں بہہ جایا کرتی تھیں ۔ اور جیتنے والا اقتدار کا حقدار ٹہرتا تھا ۔ پھر زمانے نے کروٹ لی انسان نے فیصلہ کیا کہ اب ان جنگوں سے سے گریز کرنا چاہیے اور اقتدار کا فیصلہ عوام کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے ۔ وہ جسے بہتر جانیں اسے اپنا بادشاہ چن لیں ۔ جس کا فیصلہ ووٹ کے ذریعے ہوا کرے ۔ اب بھی وہی دو فریق تھے ۔ ایک عوام دوم اقتدار کے خواہش مند ۔ لیکن اب میدان کارزار تلواروں کے سائے میں نہیں بلکہ  پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچانے اور اپنے نشان پر مہر لگوانے کے لیے عوام کی ذہن سازی یا رائے سازی کے لیے سجنے لگے ۔ پہلے تو بس طاقت اور جنگی حکمت نے فیصلہ کرنا ہوتا تھا ۔ اب معاملہ مختلف ہوگیا ۔ اب ایک ہی تخت کے کئی امیدوار ہیں اور ان سب کی خواہش کہ عوام انہیں اقتدار سونپ دیں اور اپنا بادشاہ مان لیں ۔ عوام سے حق اقتدار حاصل کرنے کے دو اسباب ہوسکتے ہیں ۔ ایک اپنے آپ کو عوام کا درست انتخاب ثابت کیا جائے ۔ اور اپنی خصوصیات بتائی جائیں اور عملا بھی دکھائی جائیں ۔ دوم  ، مخالف کو غلط اور بد ثابت کیا جائے ۔

ہم دیکھ سکتے ہیں  ہماری جماعتیں عموما دوسرا رستہ اختیار کرتی ہیں ۔ کیونکہ یہ آسان بھی ہے اور پر اثر بھی ۔ کیونکہ اس تالاب کی ساری مچھلیاں ہی گندی ہیں ۔ اور گندی مچھلی دوسری مچھلی کو گندا ثابت کرتی ہے ۔

یہ ہماری سیاست ہے اور یہ ہم عوام ہیں ۔ اور یہ اقتدار کا کھیل ہے ،۔

Wednesday, March 3, 2021

رومانوی تصورات اس کے قاتل ہیں

رومانوی تصورات اس کے قاتل ہیں

شہیر شجاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چلی جارہی تھی ،اس وادی کی جانب جہاں اسے نجات نظر آتی تھی ۔ اس کا ذہن رومانوی تصورات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا ۔ وہ محسوس کر رہی ہوگی  کہ اسکے ندی میں کودنے کے بعد وہ پانی ہوجائے گی اور ندی کی طرح بہتی رہے گی ، یا ہوا میں تحلیل ہوجائے گی اور اڑتی پھرے گی ، اپنے اداس والدین کو تھپکیاں دیا کرے گی ،اپنے شوہر کی بے بسی دیکھا کرے گی ، اپنے ستانے والوں کودکھی دیکھ کر مسکرایا کرے گی ، اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں کو چھوئے گی اور سمندر کی گہرائیوں میں موتیاں چنے گی ، صبح و شام کی مسرتیں سمیٹے گی ،"خدا سے شکوے کرے گی کہ اسے ایسا کیوں بنایا ؟" انہی سوچوں میں گم اس کے قدم آگے کی جانب بڑھتے جا رہے تھے ۔ اک سرد لہر اس کے بدن میں دوڑ جاتی تھی ۔ "میدان کارزار میں شہادت کے طالب کے تصورات کی مانند کہ اس کی جان جان آفرین کے سپرد ہو رہی ہے ، اور اس نے ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوجانا ہے ۔ "وہ مسکرائی ہوگی ۔ اس کے اندر موجود نفسانی برتری کی خواہش نے انگڑائی لی کہ ہر نفس خود پسند ہوتا ہے اسے اپنی بڑائی سننا اپنی تعریف سننا پسند ہوتا ہے ۔ شاید اسی نفسیات کے تحت اس نے ندی کنارے سیل فون نکالا ہوگا اور ویڈیو بنانے لگی ہوگی۔ جس میں وہ اپنی موت کی ذمہ داری سے ہر ایک کو سبکدوش کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ ایک ایسا تضاد جس میں آج ہمارا تمام معاشرہ مبتلا ہے ۔ اس کے والدین اسے زندہ رہنے کی ناکام تلقین کر رہے ہیں ۔ مگر اس کو موت کے بعد کے نجات کا تصورمرنے پر ابھار رہا ہے ۔ اس کے ذہن میں سینکڑوں بالی ووڈ فلموں کی مناظر چل گئے ہونگے ۔ بالآخر انہی کسی منظر کے تصور میں وہ پانی میں کود گئی ہوگی ۔ اور جب پانی اس کے پھیپھڑوں میں جانا شروع ہوا ہوگا وہ تلملائی ہوگی اس نے جان ماری ہوگی کہ کسی طرح وہ یہاں سے نکل آئے اور جب اس کی سانسیں اکھڑنے لگی ہونگی اور اس کی روح کھینچی جا رہی ہوگی تو اسے اپنے ماں باپ کی تلقین ضرور یاد آئی ہوگی ۔

مگر وقت گزر چکا تھا ۔

"معاشرتی و سماجی ناانصافیاں  ساری دنیا میں موجود ہیں ۔ اس کی صورتیں مختلف ہیں ۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ لڑکی کو خود مختار ہونا چاہیے ۔ یہ لڑکی بھی خود مختار تھی ۔ جاب کرتی تھی ۔ اپنی زندگی خود گزار سکتی تھی ۔ اسے ایسے سسرالیوں یا شوہر کی ضرورت نہیں تھی جو اس کی زندگی میں زہر گھول دیں ۔ مگر اس کے باوجود اس نے کونسا رستہ اختیار کیا ؟ اور کیوں ؟

احمد جاوید صاحب نے تہذیب کی کیا عمدہ  تعریف فرمائی ہے ۔ ہر تہذیب دو عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔ تصور حقیقت اور تصور غایت ۔ یہی دو بنیادی عناصر تہذیب کی تشکیل کرتے ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے ہماری تہذیب ہمارے ہاتھوں ہی مٹ رہی ہے ۔ ہماری تہذیبی فکر میں "تصور حقیقت " و "تصور غایت " نہ صرف دھندلا گیا ہے بلکہ اس پر رنگ برنگی لیپا پوتی بھی ہوگئی ہے ۔   

فوکس

 فوکس ہمارے اسلاف بوریا نشین تھے ۔ مگر ان کے کارنامے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہوگئے ۔ اس جملے میں فوکس کرنے کی چیز بوریا نشینی نہیں کارنامہ...